-
فرض نمازوں کے بعد ( اَللّٰہُمَّ إِنِّی اَسْاَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا۔۔۔) سے متعلق روایت کی تحقیق آج کل مساجد میں لگے پوسٹرمیں نماز کے بعد مسنون دعاؤں میں جس غیرمسنون وغیرثابت دعاکو شامل کیا گیا ہے وہ ہے: ’’ اللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا طَيِّبًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا‘‘
یہ دعا اللہ کے نبی ﷺ سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے، ذیل میں اس کی تفصیل پیش کی جارہی ہے:
اسے موسیٰ بن عائشہ عن مولیٰ ام سلمہ عن ام سلمۃ کے طریق سے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:
مسعر بن کدام رحمہ اللہ۔ ء رقبۃ بن مصقلۃ رحمہ اللہ ۔
الوضاح بن عبد اللہ رحمہ اللہ۔ ء شعبۃ بن الحجاج رحمہ اللہ۔
عَمْرو بن سعید رحمہ اللہ۔ ء سفیان الثوری رحمہ اللہ۔
تفصیل ملاحظہ ہو:
مسعر بن کدام کی روایت:
امام طبرانی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا اَبُو مَعْمَرٍ، ثنا اَبُو اُسَامَةَ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِاُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ۔
[المعجم الکبیر للطبرانی :۔۲۳؍۳۰۵]۔
رقبۃ بن مصقلۃ کی روایت:
امام ابو یعلیٰ الفراء نے کہا:
اَخْبَرَنَا اَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ حبابة قال: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَيْرُوزَ قال: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ كَثِيرٍ قال: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَي بْنِ اَعْيَنَ الحراني حدثنا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ بْنِ مِرْدَانبه عَنْ رَقَبَةَ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ عَنْ مَوْلًي لاُمِّ سَلَمَةَ عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّي الْغَدَاةَ يَقُولُ:’’ اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَعَمَلا مُتَقَبَّل‘‘
[ستۃ مجالس لابی یعلی الفراء:۔ص:۹۳،واخرجہ ابو یعلی ایضا فی السادس من امالیہ:۔ص:۶]۔
الوضاح بن عبد اللّٰہ کی روایت:
امام مسدد رحمہ اللہ نے کہا:
ثَنَا اَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِاُمِّ سَلَمَةَ عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاة:’’ اللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلا ‘‘
[مسند مسدد بحوالہ مصباح الزجاجۃ :۔۱؍۱۴۵ ، واخرجہ ایضا ابن عبدالبر فی جامع بیان العلم وفضلہ:۔۱؍۳۲۰ من طریق مسدد بہ، واخرجہ ایضا الطبرانی فی الدعاء:۔ص:۲۱۳، و فی المعجم الکبیر :۔۲۳؍۳۰۵من طریق ابی عوانہ بہ]۔
شعبۃ بن الحجاج کی روایت:
امام ابوداؤد طیالسی نے کہا:
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِاُمِّ سَلَمَةَ عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّي الصُّبْحَ قَالَ:’’اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا ‘‘
[مسند ابی داؤد الطیالسی:۔۳؍۱۷۹،واخرجہ ایضا احمد بن منیع فی مسندہ کما فی مصباح الزجاجۃ:۔۱؍۱۴۵، و احمد بن حنبل فی مسندہ :۔۴۴؍۲۲۱،و إسحاق بن راہویہ فی مسندہ:۔۴؍۱۳۷، و عبد بن حمید فی مسندہ :۔ص:۴۴۳، و ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ :۔۶؍۳۳، و ابن ماجہ فی سننہ :۔۱؍۲۹۸، و محمد بن العباس بن نجیح البزاز فی الاول من حدیثہ:۔ ۳۴۵، و ابو علی بن شاذان فی الاول من حدیثہ :۔ص:۶۶، وفی الثانی من اجزاء ہ:۔ص:۷۷، و فی جزء ہ مخطوط :۔ص:۱۸، و البیہقی فی شعب الإیمان :۔۳؍۲۷۶، وفی الدعوات الکبیر :۔۱؍۱۸۶، و ابو یعلی مسندہ :۔۱۲؍۳۶۱و ۱۲؍۳۸۲،وابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ:۔ص:۵۲وص:۱۰۰، والطبرانی فی الدعاء :۔ص:۲۱۳، و فی المعجم الکبیر :۔۲۳؍۳۰۵، و عبد اللہ بن عمر بن ابی بکر المقدسی فی جزئہ مخطوط :۔ص:۱، کلہم من طریق شعبہ بہ]۔
ء عَمْرو بن سعید کی روایت:
امام حمیدی رحمہ اللہ نے کہا:
ثنا سُفْيَانُ قَال: ثنا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلَي لِاُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ الصُّبْحِ’’ اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مَقْبُوَلًا‘‘
[مسند الحمیدی:۔۱؍۳۰۹، واخرجہ ایضا ابن عبدالبر فی جامع بیان العلم وفضلہ :۔۱؍۶۲۶ من طریق الحمیدی بہ]۔
سفیان الثوری کی روایت:
قارئین غورفرمائیں کہ مذکورہ روایت کو پانچ محدثین نے بالکل ایک ہی طریق اوریکساں الفاظ سے روایت کیا ہے سب میں ام سلمہ کاشاگرد مولیٰ ام سلمہ ہے جو مبہم ومجہول ہے اوراسی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے،لیکن جب اسی متن کو اسی سند سے سفیان الثوری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں تو سند میں کئی طرح سے تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں ،
سفیان ثور ی نے اس کو اپنے تین اساتذہ سے بیان کیا ہے۔
تفصیل ملاحظہ ہو:
سفیان ثوری کے پہلے استاذ: عَمْرو بن سعید الثوری:
امام حمیدی رحمہ اللہ نے کہا:
ثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلَي لِاُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ الصُّبْحِ’’ اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مَقْبُوَلًا‘‘
[مسند الحمیدی :۔۱؍۳۰۹ ، واخرجہ ایضا ابن عبدالبر فی جامع بیان العلم وفضلہ :۔۱؍۶۲۶من طریق الحمیدی بہ]۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس استاذ سے جوروایت بیان کی ہے وہ دیگرتمام رواۃ کے موافق ہے ۔
سفیان ثوری کے دوسر ے استاذ:موسیٰ بن ابی عائشہ:
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس استاذ سے مذکورہ حدیث کو دو طرح روایت کیا ہے۔
اول : تمام رواۃ کے موافق روایت:
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِاُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فِي حَدِيثِهِ: عَمَّنْ، سَمِعَ اُمَّ سَلَمَةَ، تُحَدِّثُ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ الْفَجْرِ إِذَا صَلَّي:’’ اللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبا‘‘
[ مسند احمد:۔۴۴؍۲۹۷و۴۴؍۱۴۰، و اخرجہ ایضا عبد الرزاق فی مصنفہ :۔۲؍۲۳۴، و الطبرانی فی المعجم الکبیر :۔۲۳؍۳۰۵ و فی الدعاء :۔ص:۲۱۳، والنسائی فی الکبری :۔۹؍۴۴، وفی عمل الیوم واللیلۃ للنسائی :۔ص:۱۸۴، واخرجہ ایضا الشجری فی ترتیب الامالی الخمیسیۃ للشجری:۔۱؍۹۰ و۱؍۳۱۹ و ۱؍۳۳۱والخطیب البغدادی فی السابق واللاحق فی تباعد ما بین وفاۃ راویین عن شیخ واحد :۔ص:۱۳۸ کلہم من طرقہم عن سفیان بہ]۔
دوم: تمام رواۃ سے الگ روایت:
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثنا الحُسَينُ بن إِسماعِيل المَحامِلِيُّ، قال: حَدَّثنا اَحمَد بن إِدرِيس المَخرمِيُّ، قال:حَدَّثنا شاذانُ، قال:حَدَّثنا سُفيانُ الثَّورِيُّ، عَن مُوسَي بنِ اَبِي عائِشَة، عَن عَبدِ اللّٰه بنِ شداد (؟)، عَن اُمِّ سَلَمَة، قالَت:كان رَسُولُ اللّٰه صَلَّي اللّٰه عَلَيه وسَلم، إِذا صَلَّي الفَجر لَم يَقُم مِن مَجلِسِهِ حَتَّي يَقُول:اَللّٰهُمّ إِنِّي اَساَلُك عِلمًا نافِعًا، وعَمَلا مُتَقَبَّلا، ورِزقًا طَيِّبًا يُكَرِّرُها ثَلاث مَرّاتٍ، لَم يَقُل فِيهِ:عَن عَبد اللّٰه بنِ شَدّادٍ، غير المَخرمِيِّ، عَن شاذان۔
[علل الدارقطنی :۔۱۵؍۲۲۰، افراد للدارقطنی بحوالہ تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف مع النکت:۔ج:۱۳،ص:۴۶،واخرجہ ایضا الخطیب فی تاریخ بغداد ت بشار:۔۵؍۶۴من طریق اَحمَد بن إِدرِیس المَخرمِیُّ بہ]۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ کی اس روایت میں سب سے الگ بات ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ تمام روایات میں بلکہ خود سفیان ثوری رحمہ اللہ کی سابقہ روایات میں بھی ام سلمہ کے مولیٰ کا نام مبہم تھا ، لیکن اس روایت میں اس کانام (عبد اللہ بن شداد)بتلایا گیا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تقریب میں یہ اشارہ کیا اوراوراسی سے بعض اہل علم مثلاً حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کو غلط فہمی ہوگئی اورانہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مذکورہ روایات میں مولیٰ ام سلمہ جو مبہم راوی ہے اس سے مراد (عبداللہ بن شداد) ہی ہے ، اوریہ ثقہ ہے لہٰذا یہ روایت صحیح ہے۔
لیکن ہماری نظر میں یہ بات قطعا ًدر ست نہیں یعنی سفیان ثوری کی مؤخر الذکر روایت کی بنا پر سابقہ روایات میں مبہم راوی کی تعین قطعا ًنہیں ہو سکتی ،اس کی کئی وجوہات ہیں:
الف : سفیان ثوری سے یہ روایت ثابت نہیں کیونکہ سفیان ثوری سے نیچے اس سند کوبیان کرنے والا(احمد بن ادریس المخرمی)ہے اوریہ مجہول ہے، کسی بھی کتاب میں اس کے حالات نہیں ملے، لہٰذا غیر معروف راوی کی بیان کردہ منفرد سند سے کسی مبہم راوی کی تعین نہیں ہوسکتی۔
: کسی بھی محدث نے اس روایت کو بنیاد بناکر سابقہ روایت میں موجود مبہم راوی کی تعیین نہیں کی ہے ، امام بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد رجاله ثقات خلا مولي ام سلمة فإنه لم يُسمّ ولم ار احداً ممن صنف فى المبهمات ذكره ولا ادري ما حاله۔
[مصباح الزجاجۃ:۔۱؍۱۴۵]۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے گرچہ تقریب میں کہا ہے کہ:
موسي ابن ابي عائشة عن مولي ام سلمة اسمه عبداللّٰه ابن شداد وقع فى الافراد للدارقطني۔
[تقریب التہذیب :۔۲؍۷۳۷]۔
لیکن خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہی نے اپنی دوسری کتاب میں اس روایت کو شاذقرار دیا ہے اورشاذ روایت مردود ہوتی ہے، چنانچہ حافظ موصوف لکھتے ہیں:
واخرجه ايضا من رواية شاذان عن سفيان الثوري فقال عبد اللّٰه بن شداد بدل مولي ام سلمة وهى رواية شاذ ۔
[نتائج الافکار:۔ج:۲،ص:۳۳۱]۔
مزید برآں یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’نتائج الافکار‘‘ میں اس روایت پر بحث کیا ہے مگر سفیان ثوری کی مؤخرالذکر روایت کو بنیاد بناکر زیرتحقیق حدیث کوصحیح نہیں کہا، اس سے معلوم ہوا کہ خود حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی تحقیق میں بھی سفیان الثوری کی مؤخرالذکر روایت مبہم راوی کی تعیین کے لیے کافی نہیں ہے۔
ج : سفیان الثوری سے اس روایت کو ان کے شاگرد شاذان نے روایت کیا ہے اورکسی نے ان الفاظ پر ان کی متابعت نہیں کی ہے ، جبکہ اس کے برعکس سفیان کے پانچ شاگردوں نے سفیان سے اسی روایت کو مولیٰ ام سلمہ کے ابہام ہی کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ملاحظہ ہو:
٭ پہلے شاگرد:امام عبدالرزاق رحمہ اللہ ۔
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مُوسَي بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ رَجُلٍ، سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ:’’ كَانَ رَسُولُ اللّّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلَاة: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَعِلْمًا نَافِعًا ‘‘
[مصنف عبد الرزاق الصنعانی:۔۲؍۲۳۴، وأخرجہ الطبرانی فی الکبیر :۔۶۸۵،و الحافظ فی نتائج الأفکار :۔۲؍۳۳۰من طریق عبدالرزاق بہ]۔
٭ دوسرے شاگرد: امام وکیع رحمہ اللہ۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُوسَي بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: فِي دُبُرِ الْفَجْرِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا۔
[مسند أحمد مخرجا :۔۴۴؍۱۴۰،رقم ۲۶۵۲۱،و۴۴؍۲۹۶،رقم۲۶۷۰۰، وأخرجہ النسائی فی الکبریٰ:۔۹۸۵۰ نا محمود بن غیلان قالا ثنا وکیع ثنا سفیان عن موسٰی بہ]۔
٭ تیسرے شاگرد: عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَي بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ، فِي حَدِيثِهِ: عَمَّنْ، سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ، تُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ الْفَجْرِ إِذَا صَلَّي:’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا‘‘
[مسند أحمد :۔۴۴؍۲۹۷،رقم:۲۶۷۰۰]۔
٭ چوتھے شاگرد : امام ابونعیم رحمہ اللہ۔
امام طبرانی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مُوسَي بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ:’’ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا صَالِحًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا ‘‘
[الدعاء للطبرانی :۔ص:۲۱۳و أخرجہ الحافظ فی نتائج الأفکار :۔۲؍۳۳۰من طریق الطبرانی بہ]۔
٭ پانچویں شاگرد: اسماعیل بن عمرو البجلی۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَزْدَادَ الْقَارِئُ أنا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الأَصْبَهَانِيُّ ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَخْلَدٍ الْفَرْقَدِيُّ ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ ثنا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ عَنْ مُوسَي بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ مَوْلًي لأُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:’’ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رِزْقًا طَيِّبًا، وَعِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلا مُتَقَبَّلا‘‘
[السابق واللاحق فی تباعد ما بین وفاۃ راویین عن شیخ واحد :۔ص:۱۳۸ ، وأخرجہ ایضا الشجری فی ترتیب الأمالی الخمیسیۃ :۔۱؍۹۰و۱؍۳۱۹و ۱؍۳۳۱من طریق إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِیُّ بہ]۔
ض د : امام دارقطنی رحمہ اللہ امام ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ خود مؤخرالذکر روایت کے راوی بھی ہیں، خود انہوں نے بھی اس روایت کو مردود قرار دیا ہے اوراس میں موجود مبہم راوی کی تعیین کو غلط قرار دیا ہے، علل میں ہے:
وسئل عن حديث عبد اللّٰه بن شداد بن الهاد ، عن ام سلمة ، كان رسول اللّٰه ﷺ ، إذا صلى الفجر لم يقم من مجلسه حتي يقول: اللهم إني اسالك علما نافعا ، وعملا متقبلا ، ورزقا طيبا ، يكررها ثلاثا ۔ فقال: يرويه موسي بن ابي عائشة ، واختلف عنه ؛ فرواه شاذان ، عن الثوري ، عن موسي بن ابي عائشة ،عن عبد اللّٰه بن شداد ، عن ام سلمة قاله احمد بن إدريس المخرمي ، عن شاذان.وغيره يرويه ، عن الثوري ، عن موسي بن ابي عائشة ، عن مولي لام سلمة ، عن ام سلمة ، رحمها اللّٰه ، وكذلك قال عمرو بن سعيد بن مسروق ، ورقبة بن مصقلة ، عن موسي بن ابي عائشة ، وهو الصواب۔
حدثنا الحسين بن إسماعيل المحاملي ، قال:حدثنا احمد بن إدريس المخرمي ، قال :حدثنا شاذان ، قال: حدثنا سفيان الثوري ، عن موسي بن ابي عائشة ، عن عبد اللّٰه بن شداد ، عن ام سلمة ، قالت :كان رسول اللّٰه ﷺ ، إذا صلى الفجر لم يقم من مجلسه حتي يقول : اللهم إني اسالك علما نافعا ، وعملا متقبلا ، ورزقا طيبا يكررها ثلاث مرات ، لم يقل فيه :عن عبد اللّٰه بن شداد ، غير المخرمي ، عن شاذان ۔
[علل الدارقطنی:۔۱۵؍۲۲۰]۔
ح : سفیان ثوری کی مؤخر الذکر روایت سے مبہم راوی کی تعیین نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سفیان ثوری ہی کی ایک دوسری روایت میں مبہم راوی کی تعیین میں (عبداللہ بن شداد)کے بجائے (سفینہ)کا نام مذکورہے ،اب سوال یہ ہے کہ مبہم راوی کی تعیین میں سفیان ثوری کی کس روایت پراعتماد کیا جائے ؟
ہماری نظر میں یہ دونوں روایتیں مردو د ہیں، پہلی کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے اوردوسری کے بارے میں تفصیل آرہی ہے۔
سفیان ثوری کے تیسر ے استاذ: منصور:
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اپنے اس استاذ سے بھی مذکورہ حدیث کو دو طرح سے روایت کیا ہے:
اول :
امام ابوبکراسماعیلی رحمہ اللہ نے کہا:
اَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُفَيْرٍ الْاَنْصَارِيُّ بِبَغْدَادَ اَبُو عَبْدِ اللّٰهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَامِرٍ الْاَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا اَبِي، عَنِ النُّعْمَانِ، يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورعَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ:’’ اَللّٰهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ رِزْقًا طَيِّبًا، وَعِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا ‘‘
[ معجم اسامی شیوخ ابی بکر الإسماعیلی :۔۲؍۶۲۴،واخرجہ ایضا الطبرانی فی المعجم الصغیر :۔۲؍۳۶،و ابو نعیم فی اخبار اصبہان :۔۱؍۴۶۴،و ابو علی الحداد فی معجم مشائخہ :۔۵۱۵ من طریق ابراہیم بن عامر بہ]۔
یہ روایت بھی ضعیف ہے اس میں کئی علتیں ہیں:
ض الف: سفیان ثوری سے کئی رواۃ نے یہ سند بیان کی ہے مگر نعمان کے علاوہ کسی نے بھی سفیان سے اوپر یہ سند بیان نہیں کی ہے لہٰذا یہ روایت شاذ ومردود ہے۔
ض ب: شعبی کا سماع ام سلمہ سے ثابت نہیں ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن المدینی کی کتاب ’’العلل‘‘ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقال ابن المديني فى العلل لم يسمع من زيد بن ثابت ولم يلق ابا سعيد الخدري ولا ام سلمة۔
[تہذیب التہذیب :۔۲۰؍۳۲]۔
تنبیہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کے شذوذاوراس کے دیگرعلل پر دھیان نہیں دے سکے اور اس کی سندکوجید کہہ دیا [تمام المنہ:۲۳۳] پھراسی کو بنیادبناکر ابن ماجہ کی ضعیف روایت کو بھی صحیح کہہ دیا حالانکہ طبرانی کی یہ روایت بذات خود شاذومردود ہے اور شاذ ومردو د روایت کے سہارے کسی ضعیف روایت کو تقویت دینا خود علامہ البانی رحمہ اللہ کے منہج کے بھی خلاف ہے،دراصل علامہ البانی نے یہ تحقیق اپنی کتاب ’’الروض النضیر‘‘میں پیش کی تھی اوربعد میں اسی کا حوالہ دیتے رہے حالانکہ یہ ان کے ابتدائی دور کی کتاب تھی اوراس میںاس قدرغلطیاں تھیںکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے قبل خود اس کتاب پر ’’المؤلف لا یرغب بطبع ہذا الکتاب ؛ لأنہ من أوائل أعمالہ العلمیۃ.ناصر‘‘ لکھ کراسے نہ چھاپنے کی بات کہی تھی اوراسی وجہ سے آج تک یہ کتاب نہیں چھاپی گئی لیکن شیخ البانی کے حددرجہ معتقد اوران کے شاگرد خاص علی بن الحسن الحلبی صاحب کے بقول اس کتاب کی طباعت کی بھی تیاریاں ہورہی ہیں۔
دوم :
امام طبرانی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ الْفَرَجِ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلًي لِاُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ۔
[المعجم الکبیر للطبرانی :۔۲۳؍۳۰۵]۔
یہ روایت بھی ضعیف ہے اس میں بھی کئی علتیں ہیں:
ض الف : سفیان سے اس روایت کو نقل کرنے والا راوی ’’إسماعیل بن عَمْرو بن نجیح البَجَلیّ‘‘ ضعیف ہے۔
٭امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا: وہو ضعیف۔[الکامل فی الضعفاء:۔۱؍۳۲۲]۔
٭امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کہا:
إسماعیل بن عمرو البجلی الاصبہانی، ضعیف۔[کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی:۔ ص:۵]۔
٭امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے کہا:
ضعیف الحدیث۔ [الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:۔۲؍۱۹۰]۔
بالخصوص سفیان ثوری سے اس کی مرویات زیادہ ہی ضعیف ہوتی ہیں، امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’وإسماعيل بْن نجيح هو إسماعيل بْن عمرو بْن نجيح البجلي، نسب فى الرواية إلى جده، وهو صاحب غرائب ومناكير عَنْ سفيان الثوري وعن غيره‘‘۔
[تاریخ بغداد:۔۱؍۳۳۶]۔
اوراس کی یہ روایت سفیان ثوری ہی سے ہے۔
ض ب : سفیان ثوری سے کئی رواۃ نے یہ سند بیان کی ہے جیساکہ گزشتہ سطورمیں تفصیل پیش کی گئی مگر کسی نے بھی سفیان سے اوپر یہ سند بیان نہیں کی ہے لہٰذا یہ روایت شاذ ہے ۔
ئحدیث مذکورکے ایک شاہد کاجائزہ:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے(نتائج الافکار:۲؍۳۱۵)میں طبرانی سے ایک سندبطورشاہد پیش کرکے اس روایت کی تحسین کی ہے لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے جس سند کوشاہد بنایاہے اس کی حقیقت کی دنیا میں وجود ہی نہیں بلکہ کتابت کی غلطی کی وجہ سے کہیں کی سند کہیں اورفٹ ہوگئی ہے چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے طبرانی سے جو شاہد پیش کیا ہے وہ یہ ہے:
امام طبرانی نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا اَبُو كُرَيْبٍ، ثنا اَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللّٰهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَا:ثنا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ اَبِي عُمَرَ، عَنْ اَبِي الدَّرْدَائِ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ الدعاء للطبراني۔
[ص:۔۲۱۳]۔
امام طبرانی کی کتاب ’’الدعاء‘‘ میں حدیث مذکور کے بعد یہ سندموجود ہے اوربعض اہل علم نے اسے حدیث مذکور کاشاہدتسلیم کرلیا ہے لیکن ہماری نظرمیں یہ روایت ہرگز شاہد نہیں بن سکتی ،اس کی کئی وجوہات ہیں:
ظ الف: یہ روایت بھی ضعیف ہے، اس میں ابوعمرکاحال معلوم نہیں ۔
ب: متعدد ناقدین نے صراحت کی ہے کہ ابوعمرسے صرف اورصرف ایک ہی حدیث مروی ہے اوروہ ہے ذہب اہل الدثور بالاجور…والی حدیث …
٭امام برقانی رحمہ اللہ نے کہا:
وسئل عن اسم ابي عمر الصيني ، فقال: لا يعرف، ولا روي عنه غير هذا الحديث۔يعني حديث: ذهب اهل الدثور بالاجور …
[علل الدارقطنی:۔۶؍۲۱۵]۔
٭امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے کہا:
لا نعرفه الا برواية حديث واحد عن ابي الدرداء عن النبى صلى اللّٰه عليه و سلم سبقنا الاغنياء بالدنيا والآخرة يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم الحديث ولا يسمي ۔
[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:۔۹؍۴۰۷]۔
معلوم ہواکہ ابوعمرسے زیرتحقیق روایت مروی ہی نہیں ہے کیونکہ اہل فن کے بقول اس نے صرف ایک ہی حدیث کی روایت کی ہے اور وہ ذہب اہل الدثور بالاجور …والی روایت ہے ۔
لہٰذا امام طبرانی کی کتاب ’’الدعاء‘‘ میں یہ سند سہواًدرج ہوگئی ہے ۔
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام طبرانی نے ذہب اہل الدثور …والی حدیث کواپنی اسی کتاب’’الدعاء‘‘ میں جہاں راویت کیا ہے ، تو اس کے فوراً بعد بعینہٖ اسی سند کووہاں بھی پیش کیا ہے ،ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا يُوسُفُ الْقَاضِي، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّمَّارُ، ثنا اَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَا:ثنا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ اَبِي عُمَرَ الصِّينِيِّ، قَالَ:كَانَ اَبُو الدَّرْدَائِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ إِذَا نَزَلَ بِهِ ضَيْفٌ قَالَ: اَمُقِيمٌ فَنُسَرِّحُ اَمْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفُ؟ فَإِذَا قَالَ: ظَاعِنٌ قَالَ: مَا اَجِدُ لَكَ شَيْئًا خَيْرًا مِمَّا قَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ ذَهَبَ الْاَغْنِيَائُ بِالصَّدَقَةِ وَالْجِهَادِ وَنَحْوِ ذَلِكَ، قَال: اَفَلَا اَدُلُّكَ عَلٰي مَا إِنْ اَخَذْتُمْ بِهِ جِئْتُمْ بِاَفْضَلَ مِمَّا يَجِيئُ بِهِ اَحَدٌ مِنْهُمْ، تُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُ اَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا اَبُو كُرَيْبٍ، ثنا اَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللّٰهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَا: ثنا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ اَبِي عُمَرَ، عَنْ اَبِي الدَّرْدَائِ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ۔
[الدعاء للطبرانی:۔ ص:۲۲۶]۔
غورکریں کہ اما م طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی اسی کتا ب ’’الدعاء‘‘میں یہاں ذہب اہل الدثور بالاجور …والی حدیث کے بعد جو سند پیش کی ہے وہ حرف بحرف وہی ہے جو اسی کتاب’’ الدعاء‘‘ میں زیرتحقیق روایت کے بعد بھی درج ہے، ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا اَبُو نُعَيْمٍ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مُوسَي بْنِ اَبِي عَائِشَةَ، عَنْ مَوْلًي لِاُمِّ سَلَمَةَ عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو فِي صَلَاةِ الصُّبْح: اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا صَالِحًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا اَبُو كُرَيْبٍ، ثنا اَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللّٰهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: ثنا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ اَبِي عُمَرَ، عَنْ اَبِي الدَّرْدَائِ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ ۔
[الدعاء للطبرانی :۔ص: ۲۱۳]۔
غورکریں کہ اسی کتاب میں ایک ہی سند بعینہٖ دومقام پر ہے اوردونوں مقامات پرایک حرف کا بھی فرق نہیں ہے۔
اورناقدین کے اقوال پیش کئے جاچکے ہیں کہ ابوعمر نے صرف ایک ہی حدیث روایت کی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مذکورہ سند جو حرف بحرف امام طبرانی کی کتاب میں دو مقام پر درج ہوگئی ہے یہ سہواً ہواہے۔
اورحقیقت میں اس کاایک ہی جگہ درج کیا جاناصحیح ہے اوروہ ہے’’ ذهب اهل الدثور بالاجور…‘‘والی حدیث کے بعد، کیونکہ اہل فن کے بقول اس نے صرف اورصرف یہی روایت بیان کی ہے۔
معلوم ہوا کہ زیرتحقیق حدیث کے اس شاہد کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
خلاصہ بحث یہ کہ مذکورہ دعا اللہ کے نبی ﷺسے بسند صحیح ثابت نہیں ،لہٰذا آپ ﷺ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ، نیزاس روایت کوامام بوصیری (مصباح الزجاجۃ للبوصیری:۱؍۱۴۴) امام شوکانی (نیل الاوطار: ۲؍۳۵۰ ) اور شیخ ابن عثیمین (مجموع فتاویٰ ورسائل ابن عثیمین:۱۳؍۲۷۷ ) رحمہم اللہ نے ضعیف کہاہے، مسند ابی یعلیٰ کے محقق نے بھی اسے ضعیف قراردیاہے ۔ [مسند ابی یعلی: ۱۲؍ ۳۶۱تحت الرقم۶۹۳۰]۔