Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • طلاق حیض عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ کا فتویٰ اور شبہات کا ازالہ (تیسری اور آخری قسط)

    ٭ دوسرا جواب: ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ کا دوسرا موافق حدیث فتویٰ:
    خود عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہی سے ان کی حدیث کے موافق فتویٰ بھی ثابت ہے، چنانچہ:
    امام ابن حزم رحمہ اللہ (المتوفی۴۵۶) نے کہا:
    نا يونس بن عبيد اللّٰه نا ابن عبد اللّٰه بن عبد الرحيم نا أحمد بن خالد نا محمد بن عبد السلام الخشني نا ابن بشار نا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي نا عبيد اللّٰه بن عمر عن نافع مولي ابن عمر عن ابن عمر:’’ أنه قال فى الرجل يطلق امرأته وهى حائض، قال ابن عمر: لا يعتد بذلك ‘‘
    نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:’’ جس شخص نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دیا ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اس کی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا‘‘
    [المحلی لابن حزم، ت بیروت:۹؍۳۷۵، أیضا :۹؍۳۸۱ وإسنادہ صحیح ، إغاثۃ اللہفان ط عالم الفوائد :۱؍۵۲: وقال المحقق : إسنادہ صحیح]
    اس روایت کے ثبوت پر تفصیلی بحث اور سند ومتن پر اعتراضات کے جوابات کے لیے ہماری کتاب احکامِ طلاق (صفحہ۱۴۸ تا۱۵۹) کی طرف رجوع کریں۔
    ٭ واضح رہے کہ یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک ہی طریق سے کسی ایک ہی صحابی کے دو متضاد اقوال ثابت ہوں۔ بلکہ خود ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی مثال لیجئے کہ مختلعہ کی عدت کے بارے میں بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دو متضاد قول مروی ہے اور دونوں کے راوی نافع ہی ہیں۔
    ایک روایت میں نافع کہتے ہیں:
    ’’ وقال عبد اللّٰہ بن عمر عدتہا عدۃ المطلقۃ ‘‘
    ’’ اور ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس (مختلعہ)کی عدت مطلقہ کی عدت ہے‘‘[موطأ مالک ت عبد الباقی: ۲؍۵۶۵ وإسنادہ صحیح]
    اور دوسری روایت میں نافع کہتے ہیں:
    عن ابن عمر قال: ’’عدۃ المختلعۃ حیضۃ ‘‘
    ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا:’’ کہ مختلعہ کی عدت ایک حیض ہے‘‘[سنن أبی داؤد :رقم:۲۲۳۰ وإسنادہ صحیح]
    لہٰذا طلاق حیض میں بھی نافع ہی ان سے دو الگ الگ فتویٰ نقل کریں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
    اب جب ابن عمررضی اللہ عنہ سے دونوں طرح کا فتویٰ ثابت ہے ، ایک ان کی حدیث کے مخالف ہے اور دوسرا ان کی حدیث کے موافق ہے ، تو ظاہر ہے کہ ان کا وہی فتویٰ لیا جائے گا جو ان کی حدیث کے موافق ہے ۔
    تیسرا جواب: جمع و تطبیق
    عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے دونوں فتویٰ میں تطبیق ممکن ہے وہ اس طرح کی ان کا اصل فتویٰ طلاق حیض کے عدم وقوع ہی کا ہے جو کہ ان کی حدیث کے عین موافق ہے ، اور ان کا دوسرا فتویٰ مصلحت پر مبنی ہے کیونکہ ان کے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سرکاری فرمان جاری کردیا تھا کہ طلاق بدعت کو نافذ کردیا جائے گا ، اسی فرمان فاروقی کی رعایت میں انہوں نے اپنی طلاق حیض کو بھی شمار کر لیا جب لوگ بکثرت ان سے اس کے بارے میں سوال کرنے لگے۔
    کیونکہ اگر وہ ان سوالات کے جوابات میں یہ کہتے کہ وہ اپنی طلاق حیض کو شمار نہیں کرتے تو لوگ اس کو دلیل بنا کر خفیہ طور پر اسی پر عمل کرنا شروع کردیتے اور خود کو سرکاری سزا سے بچانے کی سبیل نکال لیتے ۔
    ٭ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ بیک وقت تین طلاق دینے والے کو بھی یہ فتویٰ دیتے تھے کہ تمہاری تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ،چنانچہ:
    امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی۲۱۱) نے کہا:
    عن معمر عن الزهري عن سالم عن بن عمر:’’ قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصي ربه ‘‘
    ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ’’جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیا اس کی طلاق ہوجائے گی اوراس نے اپنے رب کی نافرمانی کی‘‘
    [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی:۶؍۳۹۵، وإسنادہ صحیح ]
    ٭ حتیٰ کہ غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو بھی ابن عمررضی اللہ عنہ تین شمار کرتے تھے ،چنانچہ:
    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵) نے کہا:
    حدثنا أبو أسامة، قال: حدثنا عبيد اللّٰه بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر… ’’في الرجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قالوا: لا تحل له حتي تنكح زوجا غيره ‘‘
    عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:’’ کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے ، اس کی بیوی اس کے لیے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ط الفاروق:۶؍۳۴۱،إسنادہ صحیح وأخرجہ أیضا البیہقی فی سننہ :۷؍۳۳۵، من طریق سفیان عن عبید اللہ بن عمر بہ ، وأخرجہ أیضا الطحاوی فی شرح معانی الآثار، ت النجار:۳؍۵۷، من طریق محمد بن إیاس بن البکیر عن ابن عمر بہ ]
    ٭ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ طلاق البتہ تک کو بھی تین طلاق قرار دیتے تھے جو ان کے والد کے فرمان کے تحت آتا بھی نہیں تھا، چنانچہ:
    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵) نے کہا:
    حدثنا عبدة ، عبيد اللّٰه بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر:’’في البتة ثلاث تطليقات ‘‘
    عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:’’ کہ انہوں نے طلاق البتہ کو تین طلاق قرار دیا‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ط الفاروق:۶؍۳۸۷ ،رقم:۱۸۴۲۷ وإسنادہ صحیح ]
    ٭ اسی پر بس نہیں بلکہ خلیہ (تو خالی ہے ) اور بریہ (تو الگ ہے) کو بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ تین طلاق قرار دیتے تھے ۔
    امام مالک رحمہ اللہ (المتوفی۱۷۹) نے کہا:
    عن نافع، أن عبد اللّٰه بن عمر كان يقول: ’’في الخلية والبرية، إنها ثلاث تطليقات كل واحدة منهما‘‘
    ’’ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خلیہ اور بریہ کے بارے میں کہتے تھے ، ان میں سے ہر ایک سے تین طلاق ہے‘‘
    [موطأ مالک ت عبد الباقی:۲؍۵۵۲، وإسنادہ صحیح]
    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ طرزعمل صاف بتلاتاہے کہ انہوں نے اپنے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی رعایت میں اور ان کی بہتر تنفیذ اور لوگوں کی تادیب و تربیت اور سد باب کے لیے ایسے فتاویٰ دیئے ہیں ، ورنہ ان کا اصل موقف یہ نہیں تھا کیونکہ آگے تفصیل آرہی ہے کہ عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال سے پہلے سب کا اس پر اتفاق تھا کہ بیک تین طلاق ایک شمار ہوگی ، اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔
    تو جب ابن عمررضی اللہ عنہ پہلے تین طلاق کو ایک ماننے کے بعد بھی بعد میں لوگوں کی تادیب وتربیت کے لیے اسے تین ماننے کا فتویٰ دے سکتے ہیں ، تو ٹھیک اسی طرح وہ طلاق حیض کو غیر واقع ماننے کے باوجود بھی بعد میں اپنے والد کے سرکاری فرمان کی رعایت میں اسے واقع قرار دے سکتے ہیں ۔
    ٭ اس کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ حالت حیض میں تین طلاق دینے والے کے لیے بھی یہ کہتے کہ تمہاری تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، اور اپنی حدیث کے مطابق انہیں یہ فتویٰ نہیں دیتے کہ وہ اس صورت میں اپنی بیوی کو واپس لیں اور بعد میں طلاق کا ارادہ ختم ہوگیا تو بیوی کو اپنا لیں ، جیساکہ اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں یہی حکم دیا تھا ،چنانچہ:
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶)نے کہا:
    حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع:’’ أن ابن عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنهما، طلق امرأة له وهى حائض تطليقة واحدة، فأمره رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن يراجعها ثم يمسكها حتي تطهر، ثم تحيض عنده حيضة أخري، ثم يمهلها حتي تطهر من حيضها، فإن أراد أن يطلقها فليطلقها حين تطهر من قبل أن يجامعها: فتلك العدة التى أمر اللّٰه أن تطلق لها النساء وكان عبد اللّٰه إذا سئل عن ذلك قال لأحدهم:
    إن كنت طلقتها ثلاثا، فقد حرمت عليك حتي تنكح زوجا غيرك وزاد فيه غيره، عن الليث، حدثني نافع، قال ابن عمر: لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أمرني بهذا‘‘
    ’’ ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی تو اللہ کے رسولﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اپنی بیوی واپس لیں اور اسے روکے رکھیں جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائے پھر جب اسے حیض آئے تو اگلے طہر تک اسے روکے رکھیں ، اس کے بعد اگر طلاق کا ارادہ باقی ہو تو جماع سے پہلے طلاق دے دیں ، یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ عورتوں کو طلاق دی جائے ۔اور اس سلسلے میں (طلاق حیض کے بارے میں ) جب ابن عمررضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ جواب دیتے کہ :
    اگر تم نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاق دے دی ہے تو وہ تم پر حرام ہوگئی جب تک کہ تمہارے علاوہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ اور اگر تم نے حالت حیض میں ایک بار یا دو بار طلاق دی ہے تو اللہ کے نبی ﷺ نے مجھے بیوی واپس لینے کا حکم دیا ہے‘‘
    [صحیح البخاری :۷؍۵۸رقم:۵۳۳۲،صحیح مسلم :۲؍۱۰۹۳رقم :۱۴۷۱والزیادۃ عندہ رواہا ابن رمح عن اللیث]
    ملاحظہ فرمائیں کہ حالت حیض میں بھی تین طلاق دینے والے کی تینوں طلاق کو ابن عمر رضی اللہ عنہ شمار کرلیتے تھے ، اوراسی پر اس کی بیوی کے الگ ہونے کا فتویٰ دیتے تھے ، اور اپنی حدیث کے مطابق بیوی واپس لینے کی گنجائش نہیں دیتے بلکہ اپنی حدیث کو ایک طلاق اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے دوسری طلاق کے لیے بتاتے، حالانکہ ان کی حدیث مطلق ہے لہٰذا اس کے مطابق حیض والی کسی بھی طلاق سے بیوی کو الگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے واپس لینا ہوگا اور اگلے دوسرے طہر میں شوہر کو اختیار ہوگا کہ بیوی کو روکے یا طلاق دے ۔
    لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ اگر ایسا فتویٰ دیتے یعنی حالت حیض میں تین طلاق دینے والے کے لیے یہ کہتے کہ تم بیوی واپس لو اور اس کے بعد اگلے دوسرے طہر میں تمہیں اختیار ہے کہ بیوی کو باقی رکھو یا طلاق دو ،تو ایسی صورت میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی زد سے وہ لوگ بچ جاتے تھے جو حیض کی حالت میں بیک وقت تین طلاق دیتے ، اس لیے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سد باب کے لیے حالت حیض والی تین طلاق کو بھی تین شمار کرلیا ۔
    اور جب حیض والی تین طلاق کو شمار کرلیا تو اس سے طلاق حیض کو شمار کرنا لازم آیا ، اس لیے اپنی ایک طلاق حیض کو بھی انہوں نے شمار کرلیا تاکہ کوئی اسے لے کر حجت نہ کرے ۔
    چنانچہ جب کوئی ان سے ان کی ایک طلاق حیض کو شمار کئے جانے سے متعلق سوال کرتا تو ابن عمررضی اللہ عنہ قدرے سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ جواب دیتے اور اسے شمار کرنے کی بات کہتے ، جیساکہ ان کے جواب کے سارے الفاظ نقل کئے جاچکے ہیں۔
    اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ طلاق حیض کو شمار کرنے کے پیچھے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مصلحت وحکمت کیا تھی ۔
    ختم شد۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings