-
حیا انسان کا اخلاقی زیورہے یا کہتے ہیں:’’ الحياء انقباض النفس عن القبيح ‘‘’’حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے‘‘ یا ’’حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتی ہے‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا : ’’خُلق یبعث صاحبہ علی اجتناب القبیح ویمنع من التقصیر فی حق ذی الحق‘‘ ’’ حیا وہ اخلاقی صفت جس کی رُو سے انسان قبیح افعال سے اجتناب کرتا ہے اور صاحب حق کو اس کا حق دلانے کی سعی کرتا ہے یا صاحب حق کو اس کا حق دینے میں کوئی تقصیر وکمی نہیں کرتا ‘‘[فتح الباری:۱؍۶۸]
محترم قارئین ! حیا دراصل انسان کا اعلیٰ اخلاقی جوہر ہے ، حیا کنٹرول پاور ہے ، حیا نکیل وخطام ہے ۔ جب گناہ کے لیے انسان کا نفس مچلتا ہے ،جذبات اور امنگیں مشتعل ہوتی ہیں تو حیا بریک کاکام کرتی ہے ، حیا انسان اور معصیت کے درمیان حاجز ہے ، اگر حیا کا پردہ چاک کردیاگیا تو صرف فساد ہی فساد نظر آئے گا ۔ حیا وہ اخلاقی وصف ہے جو انسان کو غلط باتوں ،قبیح حرکتوں اور مذموم کاموں سے روکتا ہے ۔ اس کا اظہار زندگی کے مختلف معاملات وسلوکیات میں ہوتا ہے ۔ باحیا شخص اپنی زبان پر کوئی گندی بات ،غیر مہذب ، ناشائستہ اور فحش کلام نہیں لاتا ۔ اس کا لباس،پوشاک اورپہننے اوڑھنے کا انداز اس کی شخصیت کے وقار ومتانت اور سنجیدگی کی گواہی دیتا ہے ۔ وہ بے پردگی و ننگاپن کو متعفن سمجھتا ہے اور اس سے شدید متنفر رہتا ہے ، اس کی چال ڈھال، طور طریقہ، گفت وشنید اور نشست وبرخاست وغیرہ اس کی شرافت وعظمت کا پتہ دیتی ہیں ۔ اس کے بر عکس اگر کوئی شخص حیاکی دولت سے محروم ہو تو اسے متانت ، سنجیدگی اور شرافت پر قائم رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ وہ شیطان کا بے دام غلام بن جاتا ہے ۔ فحش باتیں اور گالم گلوچ اس کی زبان پر رہتی ہیں ۔ وہ عریانیت کا خوگر بن جاتا ہے ۔ ننگاپن کا رسیا ہوجاتا ہے اور معصیت و گناہ کے کاموں میں اسے لذّت وسرور ملنے لگتا ہے ۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت وہ بے شرمی و بے غیرتی کے کام میں مبتلا ہوجائے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’إن مما أدرك الناس من كلام النبوة الأولي،إذا لم تستح فاصنع ما شئت‘‘
اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ ہو پھر جو جی چاہے کر
[صحیح البخاری:۳۴۸۴]
اورعربی شاعر نے بھی اسی طرح کی بات کہا ہے ۔
إذا لم تخشَ عَاقِبةَ الليالي ولم تَسْتَحْيِ فَاصْنعْ ما تَشائُ
فلا واللّٰه ما فى العَيْشِ خيرٌ ولا الدُّنيا إِذا ذَهَبَ الحَيائُ
يَعِيشُ المرئُ ما اسْتَحْيا بخيرٍ ويَبْقيْ العُودُ ما بَقِيَ اللِّحَائُ
ترجمہ : اگر تمہیں رات کی کرتوتوں کے انجام کاڈر نہیں ،اور تمہارے اندر شرم وحیا کی رمق باقی نہیں ،تو جاؤ جیسا چاہو کرو ۔ قسم اللہ کی اگر حیا وشرم کا مادہ ختم ہوگیا ہے تو ایسی زندگی میں کوئی خیر ہی نہیں ، انسان جب تک باحیا ہوتا ہے خیر ہی خیر ہے اس کے لیے ۔ لکڑی اس وقت تک اپنے وجود کے ساتھ باقی رہتی ہے جب تک چھلکا اس سے لگا رہتا ہے ۔
معزز قارئین ! حیا بلند اخلاق و عظیم کردار کے حامل ہونے کی علامت ہے اس لیے کہ حیا انسان کو برے اخلاق سے، قبائح ورذائل اور فحش کاموں سے روکتی ہے ۔ کسی کامیاب انسان کی علامت یہ ہے کہ وہ باحیا ہو کیونکہ حیافلاح ونجاح کا عنوان ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے متعدد ارشادات میں حیا کو ایک عظیم اخلاقی وصف قرار دیا ہے اور اسے خیر کا منبع وسرچشمہ بتایا ہے ۔ آپ ﷺنے فرمایا : ’’حیا ایمان کا ایک حصہ ہے ‘‘[صحیح البخاری:۹،صحیح مسلم:۳۵]
’’حیا سراسر خیر ہے‘‘ [مسلم:۳۷] ’’حیا سے صرف خیر حاصل ہوتا ہے‘‘ [بخاری:۶۱۱۷، مسلم:۳۷]
’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے ‘‘[ابن ماجہ:۴۱۸۱]
حیاکی اہمیت وفضیلت :
۱۔ حیا کا ذکر قرآن میں :
حیا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیطان نے جو سب سے پہلا حملہ آدم علیہ السلام اور ان کی زوجۂ محترمہ پر کیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بے لباس ہو گئے اور شدت حیا کے باعث اپنے جسم کو جنت کے درختوں کے پتوں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں کیا ہے:
{فَدَلَّا هُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا لشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْئٰ تُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَيٰنهُمَا رَبُّهُمَآ أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا لشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَآ إِنَّ الشَّيْطٰـنَ لَكُمَا عَدُوّ مُّبِين}
[الاعراف:۲۲]
اس میں یہ پیغام ہے کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے تو شیطان اس کی حیا پر وار کرتا ہے تاکہ انسان کو گمراہ کرنے کا راستہ آسان ہو جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حیا کا جذبہ فطری طور پر آدم و حوا کے اندر موجود تھا اور یہ جذبہ ہر ابن آدم کے اندر یکساں موجود ہوتا ہے۔ پھر وہ چاہے تو اسے دبا کر کم کر دے، چاہے تو اس کی ایسی حفاظت کرے کہ وہ کامل طور پر اس کے اندرموجود رہے۔
۲۔ حیا موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں :
قرآن مجید موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کی منظر نگاری یوں کرتا ہے :
{ فَجَاء تْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَي اسْتِحْيَائٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَائَ هُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ}
[سورۃ القصص:۲۵]
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے بھاگ کر مدین پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک کنویں پر لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور دو لڑکیاں تھوڑے فاصلے پر اپنے جانور(بکریاں )روکے ہوئے بھیڑ ختم ہونے کے انتظار میں کھڑی تھیں ۔ انہوں نے لڑکیوں سے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ جب سب لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا چکیں گے تب ہم کنویں کے پاس جائیں گے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی مدد کی اور آگے بڑھ کر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا ۔ لڑکیاں جب گھر واپس گئیں اور انہوں نے اپنے باپ کو سارا قصہ سنایا تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلا بھیجا ۔ قرآن اس وقت کی منظر نگاری یوں کرتا ہے کہ’’ ان میں سے ایک لڑکی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئی ۔ (القصص:۲۵) لہٰذا یہ حیاووقار کا ہی کمال تھا جس نے لڑکی کی چال کو مہذب و شائستہ بنا دیا تھا ۔
۳۔ حیا ہر خیر کی چابی ہے ۔
عن عمران بن حصين رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه ﷺ:’’الحياء خيرٌ كلّه قال: أنَّه قال: الحياء كلُّه خيرٌ‘‘
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ حیا پورا کا پورا خیر ہے یا یہ کہ حیا میں ہر طرح کا خیر ہی خیر ہے ‘‘
[صحیح مسلم :۳۷]
۴ ۔ حیاہی ایمان ہے ۔
عن ابن عمررضي اللّٰه عنه قال: قال النَّبيّﷺ:’’إنَّ الحياء والإيمان قرنا جميعًا فإذا رفع أحدهما رفع الآخر‘‘
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’بلاشبہ حیا اور ایمان دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے جب ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ یعنی حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں ‘‘
[رواہ الالبانی: ۵۰۲۰، فی تخریج مشکاۃ المصابیح وقال :صحیح علی شرط الشیخین]
وعن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه عن النَّبيِّﷺ قال: ’’الإيمان بضع وسبعون شعبة . والحياء شعبة من الإيمان‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایمان کے ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ۔ اور حیا ایمان کا ایک شاخ ہے ۔ حصہ ہے ‘‘
[صحیح مسلم:۳۵]
۵۔ حیاہی زینت و خوبصورتی ہے ۔
عن أنس بن مالك رضي اللّٰه عنه عن النَّبيّ ﷺقال: ’’ما كان الفحش فى شيء إلا شانه، وما كان الحياء فى شيء إلا زانه‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جس چیز میں بھی بے حیائی آتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے اور جس چیز میں حیاآتی ہے اسے زینت بخشتی ہے‘‘
[صحَّحہ الألبانی:۲۶۳۵،فی صحیح التَّرغیب]
۶۔ حیا ایسی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ۔
عن أشج عبد القيس رضي اللّٰه عنه قال: قال لي النَّبيّ صلَّي اللّٰه عليه وسلَّم:’’إنَّ فيك لخلقين يحبهما اللّٰه قلت: وما هما يا رسول اللّٰه؟ قال: الحلم والحياء‘‘
حضرت اشج عبدالقیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:’’ تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جو اللہ کو بہت محبوب ہیں۔ ہم نے کہا وہ کون سی دو خصلتیں ؟تو جواباً رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بردباری و حیا ‘‘
[صحَّحہ الألبانی:۴۵۴،فی صحیح الادب المفرد]
۷۔ حیا جنت کی طرف لے جاتی ہے ۔
عن أبي هريرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه ﷺ: ’’الحياء من الإيمان، والإيمان فى الجنَََّة، والبذاء من الجفاء ، والجفاء فى النَّار ‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں (لے جانے والا) ہے۔ اور بدکلامی بداخلاقی کا حصہ ہے اور بداخلاقی جہنم میں (لے جانے والی) ہے‘‘
[رواہ التِّرمذی: ۲۰۰۹، وابن ماجہ:۳۳۹۲،وصحَّحہ الألبانی]
۸ ۔ حیا تو اسلام کا اخلاق ہے ۔
عن أنس رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه ﷺ:’’ إنَّ لكلِّ دينٍ خلقًا وخلق الإسلام الحياء ‘‘
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے‘‘
[رواہ ابن ماجہ:۳۳۸۹ وحسَّنہ الألبانی]
۹۔ حیا کی تعلیم تمام انبیاء علیہم السلام نے دیا ہے ۔
عن أبي مسعود رضي اللّٰه عنه قال: قال النَّبيّﷺ:’’إنَّ ممَّا أدرك النَّاس من كلام النبُّوَّة الأولي: إذا لم تستح فاصنع ما شئت‘‘
سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ سابقہ نبوت کے کلام میں سے جو بات لوگوں تک پہنچی ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ جب تمہیں شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو‘‘
[رواہ البخاری:۶۱۲۰]
یعنی پچھلے جتنے انبیاء کرام علیہم السلام تھے سب نے حیا کی تعلیم دی ہے اپنی امت کو ۔
۱۰۔ حیا ہی معصیت سے روکتی ہے ۔
عن أبي مسعود رضي اللّٰه عنه قال: قال النَّبيّﷺ:’’ إنَّ ممَّا أدرك النَّاس من كلام النبُّوَّة الأولي: إذا لم تستح فاصنع ما شئت‘‘
سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ سابقہ نبوت کے کلام میں سے جو بات لوگوں تک پہنچی ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ جب تمہیں شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو‘‘۔
[رواہ البخاری:۶۱۲۰]
یعنی انسان کو جب شرم نہیں ہوتی تو نہایت بے پروائی سے جو چاہتا ہے کرتا ہے، کیونکہ برائیوں سے روکنے والی چیز حیاہی ہے جب وہی ختم ہو جائے تو برائی کر ڈالنے کے سارے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَن قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُهُ، ومَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُهُ‘‘
’’جس سے حیا کی مقدار کم ہوگئی تو اس کے ورع وتقوی میں کمی آگئی اور اس کادل مردہ ہوگیا ‘‘
حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’لَا خَيْرَ فِيْمَنْ لَا يَسْتَحِي مِنَ النَّاسِ‘‘
’’اس شخص میں میں کوئی بھلائی وخیر نہیں جو لوگوں سے حیا نہ کرتا ہو ‘‘
اصمعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’مَنْ كَساهُ ثَوبُ الحيَاء، لم يَرَ النّاسُ عُيُوبَهُ‘‘
’’جو حیا کا لباس پہن لیتا ہے اس کے عیوب لوگوں کی نظر سے چھپ جاتے ہیں ‘‘
ابوحاتم محمد بن حبان بستی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’الواجب على العاقل لزوم الحياء ، لأنه أصل العقل وبذر الخير وتركه أصل الجهل، وبذر الشر، والحياء يدل على العقل كما أن عدمه دال على الجهل‘‘
’’عقلمند پر واجب ہے کہ حیا کو لازم پکڑے اس لیے کہ حیا ہی عقلمند وزیرکی جڑ ہے اور خیر وبھلائی کی بیج ہے ،اور عدم حیا جہالت و نادانی کی جڑ ہے اور شر کی بیج ہے ،حیا عقلمندی کی دلیل ہے جس طرح کہ بے حیائی (عدم حیا) نادانی پر دلالت کرتی ہے ‘‘۔
(بحوالہ ۔ روضۃ العقلاء ونزھۃ الفضلاء صفحہ نمبر :۵۶)
دور حاضر پُر آشوب ہے ، اخلاقی طور پر انحطاط وزوال پذیرہے ۔ بے حیائی عروج پر ہے ، مغربی تہذیب وتمدن کا ہنگامہ ہے ،نیواسٹائل لائف کا شور ہے ،جنسی لذت کے بندوں اور عیاش طبیعت نے عریانیت اور آوارگی کو بالکل عام کردیا ہے ، برہنگی کو تہذیب ، عریانیت کو کلچر، پارکوں ،ہوٹلوں ، ساحل سمندر اور دیگر تفریحی مقامات پر مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط و ملاقات کو ترقی کا نام دے دیا، اس کے بالمقابل عفت وشرافت پاکدامنی ، داڑھی ،پردہ، عدم اختلاط اور شائستہ لباس پہننے کو دقیانوسیت کا لقب دیا اور زمانہ بدل گیا ہے کا غلغلہ ہے ، اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کھلے ماحول، اور اوپن مائنڈ نے فساد میں اضافہ کیا اور جلتی میں تیل کا کام کیا ۔ اور سوشل میڈیا کی طوفان بد تمیزی نے تو بے حیائی وفحاشی کو مرغوب اور لذت بخش بنا کر پیش کیا۔اب حیا ہی وہ بریک ہے جو کسی نوجوان یا دوشیزہ کے قدم پھسلنے نہیں دیتا اور اسے کسی غلط راہ پر جانے نہیں دیتا ۔ حیا اسے معصیت ،گناہ و عریانیت اور آوارگی کی گندگیوں سے بچائے رکھتی ہے اور گناہوں کے دلدل میں پھنسنے سے منع کرتی ہے ۔ حیاہی ہے جو انسان کو رب العالمین کے سامنے سربسجود ہونے پر مجبور کرتی ہے اور عدم حیا گویا رعونت سی تنی گردنوں کے مانند ہیں جو معبودان باطلہ کی پیروی کی طرف دعوت دیتی ہے ، اور بندوں کو رقص وسرور، فسق وفجور سے بھری زندگی بسر کرنے کا سبز باغ دکھاتی ہے۔
محترم قارئین ! یہ سوال نباضِ وقت کو پریشان کیے ہوئے ہے کہ اس وقت چاروں طرف بے حیائی کیوں پھیلی ہوئی ہے ؟
تو ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’قِلَّةُ الْحَيَاء مِنْ مَوْتِ الْقَلْبِ وَالرُّوحِ. فَكُلَّمَا كَانَ الْقَلْبُ أَحْيَي كَانَ الْحَيَاء ُ أَتَمَّ‘‘
’’ حیا کی قلت دل اور روح کی موت کی وجہ سے ہے ،پس دل جتنا زندہ ہوگا حیا بھی اتنی مکمل ہو گی ‘‘
[ مدارج السالکین: ۲؍۲۴۸]
حقیقت یہ ہے کہ بے حیائی ہی ساری معصیت و مصیبت کی جڑ ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں حیا جیسی عظیم صفت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین