-
تاریخ مسجدِ اقصیٰ اور اس کے فضائل: مسئلہ فلسطین ایسا سلگتا ہوا سانحہ ہے جس نے عالم اسلام کو ایک رستا ہوا زخم دیا ہے جو دن بدن گہرا ہوتا جارہا ہے ۔ امت کی ہر کوشش وہاں پر دم توڑ دیتی ہے جس نے سبھی کے ہاتھ پاؤں اقوام متحدہ کی زنجیروں میں باندھ رکھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی شیطنت کا جواز اور سربہ مہر تصدیق نامہ وہ فراہم کرتا ہے جس کا بغل بچہ خود اقوام متحدہ ہے اور یہ آقا امریکہ ہے جو اپنے ویٹو اختیار کے ذریعہ اس قضیہ کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھائے ہوئے رہتا ہے ۔
اور اقوام متحدہ نے ۱۹۴۷ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے : مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کرلیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کردیا۔
اور مسجد اقصیٰ یہ تاریخی مسجد ، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس) میں واقع ہے ، جو ان دنوں غاصب صہیونی اور ناجائز ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہے اور جس ریاست کی بنیاد ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء میں رکھی گئی تھی ۔
اور۲۱؍ اگست ۱۹۶۹ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریباً ۱۶ جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں۔
فلسطین اسرائیل کی موجودہ جنگ جو۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے چل رہی ہے امت کی اس بے حسی کو چیلنج کرتی ہے جس نے اب تک کی بڑی کامیابی کو منظرعام پر دیکھنے کے باوجود کوئی اقدامی فیصلے نہیں کر پارہی ہے ۔ ظاہراً اس جنگ کا سہرا مختلف انتفاضہ گروپوں کو جاتا ہے تاہم غور کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کے لیے عوامی جذبہ سب سے زیادہ مقدم ہے جو کسی زید و بکر کی پرواہ کیے بغیر اپنے ہدف کو حاصل کرتا ہے ۔ یہ جنگ اگرچہ ایک بڑی طاقت امریکہ کی بالواستہ کمان میں ہورہی ہے مگر اس کے نتائج ایک کمزور اور نہتھے قوم کی کامیابی پر جب ختم ہوں گی تب ہی دنیا کی آنکھیں کھلیں گی کہ ایمان کی طاقت کیا ہے اور اسلحہ کی پسپائی کیا ہوتی ہے ۔ ان شاء اللہ
مسجد ِاقصیٰ حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی ، یہود کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی۔ مُسلمانوں کے یروشلم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی ۔ حالانکہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے سفرِ معراج کیا تو اس باب میں اس مسجد ِاقصیٰ کا ذکر ہے۔ گویا یہ مسجد رسول اللہﷺ کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی۔ متعدد صحیح روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد حرام ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے روئے زمین پر دوسری مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی تھی ۔
اور بیت المقدس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ جہاں متعدد انبیاء کرام مبعوث ہوئے نیز دیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرماکر اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا اور جس کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کی ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے لیے فلسطین کو وطن بنایا(سورہ الانبیاء:۷۰ و۷۱) اور اسی طرح حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوشع علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام (سورہ الانبیاء :۸۱، وسورہ الاعراف:۱۳۷) ، حضرت زکریا علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام (سورہ الانبیاء:۷۱) ، حضرت یحییٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ( سورہ المؤمنون:۵۰) نے بھی ہجرت کی اور جس میں دفن ہونے کے لیے حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے دعا کی، اور جسے رسول اللہﷺ نے سرزمین محشر قرار دیا اور وادی نمل بھی ارض فلسطین میں واقع ہیں ۔
یہ تاریخی مسجد، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس) میں واقع ہے۔
پہلی صلیبی جنگ کے بعد، جب ۱۵؍جولائی ۱۰۹۹ء کوعیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا، تو انہوں نے مسجد اقصیٰ میں بہت رد و بدل کیا۔ پھرصلاح الدین ایوبی نے ۵۸۳ھ ؍ ۱۱۸۷ء میں بیت المقدس کو فتح کیا، تو مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا۔ ۸۸سالوں کے علاوہ، عہد فاروقی سے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سالوں سے پھر قدس اور مسجد اقصیٰ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔
مسجد اقصیٰ بابرکت زمین میں واقع ہے۔ [ الاعراف:۱۳۷ ، والانبیاء :۷۱ و۸۱ ، وسبا:۱۸]
مسجد اقصیٰ کے ارد گرد کی سر زمین بھی بابرکت ہے۔[ الاسراء:۱]
مسجد اقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے ۔ [سورہ المائدۃ :۲۱]
مسجد الاقصیٰ پر سکون ، اطمینان اور چشمے والی جگہ ہے ۔[المؤمنون:۵۰]
مسجد الاقصیٰ وہ عظیم جگہ ہے جہاں کی اللہ نے قسم کھائی ہے۔[سورہ التین:۱۔۳]
مسجد اقصیٰ سر زمین اسراء ومعراج ہے ۔[سورۃ الإسراء:۱، والبخاری:۳۸۸۷ ، و مسلم:۱۶۲]
مسجد اقصیٰ کو انبیاء نے تعمیر کیا۔ [ اسنادہ صحیح : رواہ النسائی فی سننہ:۶۹۳]
مسجد اقصیٰ وہ مسجد ہے جس کی بنیاد روئے زمین پر مسجد حرام کے تقریبا ًچالیس سال بعد رکھی گئی۔ [صحیح : رواہ البخاری :۳۳۶۶و ۳۴۲۵ ، ومسلم :۵۲۰]
مسجد اقصیٰ عبادت کی غرض سے بنائی گئی اس روئے زمین پر دوسری مسجد ہے۔ [صحیح: رواہ البخاری:۱۱۸۹، ومسلم :۵۲۰]
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔[ صحیح : رواہ البخاری:۴۰و۳۸۸و۴۴۸۶ و۴۴۹۲ و۷۲۵۲، و مسلم :۵۲۴ ، و الترمذی:۵۴۰ و۲۹۶۲]
مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نبی کریم ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقریبا ًسولہ یا سترہ مہینے تک نمازیں ادا کیں۔ [صحیح : رواہ البخاری:۴۰ ، ومسلم :۵۲۵]
جب مسجد الاقصیٰ سے تحویل قبلہ بیت اللہ کا معاملہ آیا تو آپﷺاور آپ اصحاب عصر کی نماز میں تھے۔ [صحیح : رواہ البخاری:۴۴۸۶]
مسجد اقصیٰ میں نبی کریم ﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت کی۔ [صحیح : رواہ البخاری:۳۳۹۴و ۳۴۳۷ ، ومسلم :۱۷۲ ، والترمذی:۳۱۳۰]
مسجد اقصیٰ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے ۔ [ اسنادہ صحیح : رواہ الحاکم فی المستدک علی الصحیحین:۸۵۵۳، و المعجم الاوسط للطبرانی:۶۹۸۳ ، والہیثمی فی مجمع الزوائد:۴؍۱۰، والالبانی فی الثمر المستطاب:۱؍۵۴۸، والصحیحۃ:۶؍۹۵۴رقم:۲۹۰۲، و تمام المنۃ:۲۹۴ ، وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی]
مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا تمام گناہوں کا کفارہ ہے ۔[اسنادہ صحیح : رواہ النسائی فی سننہ:۶۹۳]
دجال مسجد الحرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ، مسجد طور میں داخل نہیں ہوسکتا۔[اسنادہ صحیح: رواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ:۳۸۶۶۱]
مسجد الحرام ، مسجد نبویﷺ ، مسجد اقصیٰ کی جانب عبادت کی غرض سے سفر کرنا جائز ہے ۔ [صحیح : رواہ البخاری:۱۱۸۹ ، ومسلم :۱۳۹۷]
بیت المقدس کی آبادی یثرب(مدینے)کی آبادی کا پیش خیمہ ہو گی۔ [اسنادہ حسن:رواہ أبو داود فی سننہ: ۴۲۹۴]
مسجد الاقصیٰ وہ جگہ ہے جہاں طائفہ منصورہ کا قیام ہوگا ۔ [ اسنادہ صحیح : رواہ الترمذی:۲۱۹۲، وابن ماجہ:۶ ، واحمد:۱۵۵۹۶ و ۱۵۵۹۷ و۲۰۳۶۱ و۲۰۳۶۷]
مسجد الاقصیٰ میں اعتکاف کرنا جائز ہے ۔ [اسنادہ صحیح : المعجم للاسماعیلی :۴؍۷۲۹، و مشکل الآثار للطحاوی:۴؍۲۰ ، و المحلی لابن حزم :۵؍۱۹۴، وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ:۲۷۸۶]
رسول اللہ ﷺبراق دابہ جانور پر سوار ہوکر مکہ سے مسجد اقصیٰ تک گئے۔ صحیح رواہ البخاری:۳۸۸۷ ، و مسلم :۱۶۲]
مسجد الاقصیٰ میں آپﷺ نے دودھ کو پسند کیا۔ [صحیح رواہ البخاری:۳۳۹۴، ومسلم:۱۶۸، والترمذی :۳۱۳۰]
بیت المقدس سرزمین محشر ومنشر ہے۔ [ اسنادہ صحیح : رواہ الترمذی:۳۹۱۸، والبزار فی مسندہ:۳۹۶۵، و فضائل الشام للربعی:۱۳ ، و صحیح الجامع للالبانی:۲۷۲۶ ، و فضائل الشام ودمشق للالبانی :۴]
بیت المقدس کے قریب ’’باب لُد‘‘ کے پاس دجال کو قتل کیا جائے گا ۔[صحیح : رواہ، مسلم :۲۹۹۷]
مسجد الاقصیٰ کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے لیے روبرو ظاہر کردیا جب قریش نے واقعہ معراج کو جھٹلایا۔ [صحیح : رواہ البخاری :۳۸۸۶ ، ومسلم:۱۷۰]
مسجد الاقصیٰ میں نبی کریم ﷺنے نصاریٰ کے لیے دعا کی کہ وہ اسلام قبول کر لیں ۔ [صحیح رواہ البخاری :۲۹۷۸]
موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ میری روح قبض ہو بیت المقدس کے قریب۔ [ صحیح : رواہ البخاری: ۱۳۳۹ و۳۴۰۷ ، ومسلم :۱۸۴۲]
مسجد الاقصیٰ منبر الانبیاء ہے ۔[ اسنادہ صحیح : رواہ الترمذی:۲۸۶۳، و السنن الکبریٰ للنسائی:۸۸۱۵و ۱۱۲۸۷ ، واحمد:۱۷۳۰۲ ، وابن خزیمۃ:۱۸۹۵ ، و صحیح الجامع :۱۷۲۴]
مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے۔ [اسنادہ صحیح : رواہ أبو داؤد فی سننہ:۳۳۰۵ و۳۳۰۶]
بیت المقدس کے قریب والا پہاڑ یاجوج ماجوج کی قتل گاہ ہے۔ [صحیح : رواہ مسلم :۲۹۳۷]
بیت المقدس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ ٔخلافت میں ۱۵ ہجری کو فتح ہوا۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے دوران چار دفعہ ملک شام تشریف لائے ۔
بیت المقدس کے لیے زمانۂ خلافت کے بعد گیارہویں صدی کے آخر سے تیرہویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں، تاریخ عالم میں صلیبی جنگوں کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی جنگ میں عیسائی بیت المقدس کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔
بیت المقدس ۵۸۳ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر فتح کیا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قدس اور مسجد اقصیٰ کو ان ظالم وجابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے اسے آزاد کردے اور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو ۔آمین