Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عربی عبارتوں کی افہام وتفہیم کے لئے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں
    فاروق عبد اللہ نراین پوری

    (پی ایچ ڈی ریسرچر، شعبہ فقہ السنہ، کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)

    کسی بھی عربی کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتے ہیں جہاں تک بہت سارے قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصاً علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے بے شمار کلمات اور اصطلاحات ہوتے ہیں جن کا صحیح معنیٰـ ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ان مشکل الفاظ کی معرفت اور تفہیم کے لیے ہمیں ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
    اسی طرح جب ہم کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو بہت سارے الفاظ کے معانی بیان کرنے کے لیے ڈکشنریوں کا حوالہ دینا پڑتا ہے، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات بعض مقالے اہل علم کے مابین معیوب بلکہ مضحکہ خیز شمار کئے جاتے ہیں۔ بعض مقالہ نگارشروحاتِ حدیث یا کتبِ تفاسیر یا کتبِ فقہ وغیرہ سے ایسے مشکل الفاظ کا معنی بیان کرتے ہیں جو کہ علمی مقالوں میں ایک معیوب چیز مانی جاتی ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتبِ معاجم یا کتبِ غریب میں مقالہ نگار کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر اصل مصادر میں اس کا معنیٰ وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کرنے کے بعد مزید وضاحت کے لیے ان ثانوی مصادر کا حوالہ دے سکتا ہے۔
    ڈکشنری کے لیے عربی میں مُعجم یا قاموس کا لفظ مستعمل ہے۔ کسی معجم (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔ متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متاخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متاخر معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور مقالہ نگار اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متاخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔عام طلبہ کے مابین گرچہ یہ چل جاتا ہو لیکن علمی مقالوں میں یہ مناسب نہیں۔
    اس لیے کسی معجم سے کسی مشکل کلمہ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ یہ چیز انہوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متاخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔
    بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
    (۱) ابن فارس فرماتے ہیں کہ ’’مقاییس اللغہ‘‘ میں ان کا اعتماد علمائے سابقین کی ان پانچ کتابوں پر ہے:
    كتاب العين للخليل، إصلاح المنطق لابن السكيت، جمهرة اللغة لابن دريد، غريب الحديث اور الغريب المصنف لأبي عبيد
    [مقاییس اللغہ: مقدمہ:۵۰۴]
    (۲) امام صغانی کی ’’العباب‘‘ نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصًا’’ کتاب العین، جمہرۃ اللغۃ، الصحاح، تہذیب اللغۃ‘‘، اور’’ مقاییس اللغۃ‘‘ وغیرہ کو۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص:۲۸]
    (۳) ابن منظور نے’’ لسان العرب‘‘ میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں:
     ’’تهذيب اللغة للأزهري، المحكم لابن سيده، الصحاح للجوهري، حواشي ابن بري على الصحاح، والنهاية لابن الأثير‘‘
    فرماتے ہیں:’’میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انہی پانچ اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے‘‘[لسان العرب:۱؍۸]
    (۴) فیروز آبادی کی’’ القاموس المحیط‘‘ کے مراجع میں سے چند اہم مراجع یہ ہیں:
    ’’العين للخليل، الجمهرة لابن دريد، الصحاح للجوهري، المحكم لابن سيده، تهذيب اللغة للأزهري، العباب للصغاني‘‘
    [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص:۲۹]
    (۵) فیروزآبادی کی’’ القاموس المحیط‘‘پر’’ تاج العروس‘‘ جیسی ضخیم قاموس کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں ’’القاموس المحیط‘‘ کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔
    لہٰذا ان جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہئے۔
    کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم میں الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متاخرین علماء کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح…) پر ترتیب دینا رائج ومعروف ہے، لیکن متقدمین علماء کے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لیے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ کلمہ تک بآسانی پہنچ سکے۔ ذیل میں بطور نمونہ چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔
    مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں:
    (۱ ) کتاب العین للخلیل بن أحمد الفراہیدی (ت۱۷۰ھ ، وقیل۱۷۵ھـ)
    یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ اسے خلیل نے مخارج الحروف پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہے اور ہونٹوں سے ادا ہونے والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لیے اس کی ترتیب اس طرح ہے:
    ع ح ه خ غ ق ك ج ش ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ي ا ۔
    ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔ مثلًا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی’’ کتاب العین ‘‘سے مشہور ہے۔
    کتاب میں وارد الفاظ کو انہوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیے ہیں اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلًا لفظ’’رب‘‘ کو لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ)کر دیا جائے تو یہ’’بر‘‘ بن جاتا ہے۔ لفظ ’’حبر‘‘ کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ہذا۔
    اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنیٰ نہیں ہے۔ اسی لیے بعض کلمات کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ حالانکہ ان کے بعد آنے والے علماء نے ان پر استدراک بھی کیا ہے اور بعض جن الفاظ کو خلیل نے مہمل قرار دیا تھا انہیں دلائل کی روشنی میں مستعمل قرار دیا ہے۔
    اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما ء نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلًا:
    (۲) البارع فی اللغۃ لأبی علی القالی (ت۳۵۶ھ)
    ’’کتاب العین‘‘ سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اور ان پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصًا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے کلمات کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ابو علی القالی پربھی اس حوالے سے ان کے شاگرد ابو بکر الزبیدی نے استدراک کیا ہے اور ’’المستدرک من الزیادۃ فی کتاب البارع علی کتاب العین ‘‘نامی کتاب لکھی ہے۔’’ کتاب البارع ‘‘کا اکثر حصہ مفقود ہے، اور صرف ایک ٹکڑا مطبوع ہے۔
    (۳) تہذیب اللغۃ لأبی منصور الأزہری (ت۳۷۰ھـ)
    یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد کا خوب اہتمام کیا ہے کیونکہ اس کے مؤلف نا صرف لغوی بلکہ معروف شافعی فقیہ بھی تھے۔ اکثر متاخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلًا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔
    (۴) المحکم والمحیط الأعظم لابن سیدہ الأندلسی (ت۴۵۸ھ)
    اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے۔ اور یہ بعد کی ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔
    ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں حروف معجم (ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:
    (۱) کتاب الجیم لأبی عمرو الشیبانی (ت۲۰۶ھ)
    یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے، مگر صرف نوادر لغت پر مشتمل ہے۔
    (۲) جمہرۃ اللغۃ لابن درید (ت۳۲۱ھ)
    یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن ’’کتاب العین‘‘ کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لیے اس میں کچھ جگہوں پر انہیں وہم بھی ہوا ہے۔
    (۳) مقاییس اللغۃ لابن فارس (ت۳۹۵ھ)
    اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کا اصل بیان کیا گیا ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ابن فارس ایک یا زائد ایسا مشترک معنیٰ بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔
    (۴) مجمل اللغۃ لابن فارس(ت۳۹۵ھ)
    یہ کتاب مختصر ہے، مگر بہت ہی محرر انداز میں لکھی گئی ہے۔ غریب القرآن کی خاص رعایت کی ہے۔
    دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف میں اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے، اور اسی ترتیب سے آگے بڑھے ہیں۔ مثلًا ’’را‘‘ میں اس کلمہ کو پہلے ذکر کیا ہے جو ’’را‘‘ اور’’ زا‘‘ سے شروع ہوتا ہے، پھر جو ’’را‘‘ اور’’ سین‘‘ سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ’’ را‘‘ اور’’ ذال‘‘ کی باری آجائے، وقس علی ہذا۔
    (۵) أساس البلاغۃ للزمخشری (ت۵۳۸ھ)
    اس میں لفظ کے حقیقی معنیٰ اور پھر اس کے مجازی استعمال کا ذکر ہے۔ اُدَباء کے لیے بہت مفید ہے۔
    ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ کے آخری حرف پر انہیں مرتب کیا جائے۔ مثلًا ’’ب‘‘ کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔ اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
    (۱) الصحاح للجوہری (ت۳۹۳ھ قریبًا)
    یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کو کم ہی حاصل ہو سکی۔ اسی لیے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لیے الصحاح پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص:۱۵۷۔۲۱۲) پڑھیں جس میں انہوں نے ایک سو نو(۱۰۹) کتابوں کا ذکر کیا ہے۔
    (۲) العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغانی (ت۶۵۰ھـ)
    اس کتاب کے مؤلف کا تعلق قدیم غیر منقسم ہندوستان سے ہے۔ صحیح بخاری کا ان کا نسخہ ’’نسخہ بغدادیہ‘‘کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ بعنوان: علامہ صغانی: متحدہ ہندوستان کا ایک راویِ صحیح بخاری فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ فى اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن على بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني‘‘
    ’’زمانۂ الصحاح کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب ’’المحکم والمحیط الأعظم ‘‘ہے ، پھر رضی صغانی کی کتاب ’’العباب‘‘ ہے
    [المزہر فی علوم اللغہ وانواعہا:۱؍۷۶]
    (۳) لسان العرب لابن منظور الأفریقی (ت۷۱۱ھـ)
    یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں اسی ہزار سے زائد لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط اور روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔ بہت سارے علما ء نے اس کی علمی خدمت کی ہے۔
    (۴) القاموس المحیط للفیروزآبادی (ت۸۱۷ھ)
    یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انہوں نے پہلے’’اللامع المعلم العجاب الجامع بین المحکم والعباب‘‘کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی۔ پانچ جلدوں کے بعد انہیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائے گی اور سو جلدوں تک پہنچ جائے گی جس کا مراجعہ طلبہ کے لیے مشکل ہوگا، پس سابقہ ارادہ ترک کرکے اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی بہت ضخیم ہے۔
    یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لیے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی تاج العروس ہے۔
    (۵) تاج العروس من جواہر القاموس للزبیدی (ت۱۲۰۵ھ)
    یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے، اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف اگرچہ متأخر الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنہیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے جمع کیا ہے۔
    اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار ’’معاجم الالفاظ‘‘میں ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق الفاظ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب میں ہو یا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ درج ذیل معاجم ملاحظہ فرمائیں:
    (۱) خلق الإنسان للأصمعی (ت۲۱۶ھ) (۲) کتاب الإبل للأصمعی (۳) خلق الفرس لمحمد بن زیاد الأعرابی (ت۲۳۱ھ) (۴) کتاب الخیل لمعمر بن المثنی (ت۲۱۰ہ)اس کتاب کے مختصر تعارف پر خاکسار کا ایک مضمون فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔
    (۵) کتاب الخیل للأصمعی (۶) کتاب الشاء للأصمعی (۷)کتاب الوحوش للأصمعی (۸) کتاب النخل لأبی حاتم السجستانی (ت۲۵۵ھ) (۹) کتاب السلاح للأصمعی (۱۰) کتاب البئر لمحمد بن زیاد الأعرابی (ت۲۳۱ہ) (۱۱) کتاب الریح لابن خالویہ (ت۳۷۰ھ)
    ان تمام کتب میں ایک ہی قسم کے معنیٰ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور اس کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
    (۱) الغریب المصنف لأبی عبید القاسم بن سلام (ت۲۲۴ھ) (۲) کتاب الألفاظ لابن السکیت (ت۲۴۴ہ) (۳) فقہ اللغۃ وسر العربیۃ للثعالبی (ت۴۲۹ھ) (۴) المخصص لابن سیدہ (ت۴۵۸ہ) (۵) تہذیب الألفاظ للخطیب التبریزی (ت۵۰۲ھ)
    مقالہ نگاروں اور مصنفین کو چاہیے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لیے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلًا بعض باحثین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان درج ذیل ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں:
    المعجم الکبیر، المعجم الوسیط، المعجم الوجیز (انہیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے)، معجم الفرائد للدکتور إبراہیم السامرائی، القاموس الجدید للجنۃ من اللغویین فی تونس، المنجد للویس معلوف، البستان لعبد اللہ المیخائیل البستانی، الرائد لجبران مسعود، الشامل لمحمد سعید إسبر وبلال جنیدی،المعجم العربی الحدیث لاروس للدکتور خلیل البحر وغیرہ ۔
    ان کا یہ عمل قابل تعریف نہیں۔
    ہاں اگر متقدم ڈکشنریوں میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو ان جدید ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
    ان معاصر ڈکشنریوں میں سب سے معتمد المعجم الوسیط ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
    ’’جدید ڈکشنریوں میں یہ سب سے زیادہ معتمد ہے۔ اسے ماہرین لغت کی ایک ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ اس لیے قابل اعتماد ہے۔ اس کا حال المنجد جیسا نہیں‘‘۔
    اب تک عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر ان کا تعلق احادیث نبویہ سے ہے تو ان کے لیے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلًا:
    (۱) غریب الحدیث لأبی عبید القاسم بن سلام (ت۲۲۴ہ) (۲)غریب الحدیث لابن قتیبۃ الدینوری (ت۲۷۶ھ) (۳) غریب الحدیث لإبراہیم بن إسحاق الحربی (ت۲۸۵ھ) (۴) غریب الحدیث للخطابی (ت۳۸۸ہ) (۵) تفسیر غریب ما فی الصحیحین للحمیدی (ت۴۸۸ھ) (۶) الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری (ت ۵۳۸ہ) (۷) مشارق الأنوار علیٰ صحاح الآثار للقاضی عیاض (ت۵۴۴ھ)
    اس میں صحیحین اور مؤطا امام مالک کی حدیثوں کے غریب الفاظ پر ہی صرف بحث کی گئی ہے۔ اس میں اعلام، انساب اور جگہوں کا بھی ذکر ہے۔ مختلف الفاظ کی روایت میں رواۃ کے اختلافات کا ذکر اور ان کے اوہام کا بھی بیان ہے۔ اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے ، لیکن ہمارے یہاں کے حروف معجم کی معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو کہ اس طرح ہے:
    ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز ط ظ ك ل م ن ص ض ع غ ف ق س ش ه و ي ۔
    اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے:
    ’’وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلًا فيه‘‘
    ’’اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا‘‘
    [الرسالہ المستطرفہ: ص:۱۵۷]
    (۸) غریب الحدیث لابن الجوزی (ت۵۹۷ہ) (۹) النہایۃ فی غریب الحدیث والأثر لابن الأثیر (ت۶۰۶ھ)
    اس موضوع کی یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب ہے۔
    (۱۰) مجمع بحار الأنوار فی غرائب التنزیل ولطائف الأخبار لمحمد بن طاہر الفتنی الغجراتی (ت:۹۸۶ھ)
    اس میں غریب القرآن اور غریب الحدیث دونوں ہیں۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کے اہم مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب سے انہوں نے ’’تحفہ الاحوذی ‘‘میں کافی استفادہ کیا ہے۔
    جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لیے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کا معنیٰ ومفہوم بیان کرنا چاہیے۔ نیز اصطلاحات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
    حنفی مذہب کے لیے:
    (۱) طلبۃ الطلبۃ لنجم الدین النسفی (ت۵۳۷ھ) (۲) المُغرِب فی ترتیب المُعْرِب للمطرزی (ت۶۱۰ہ) (۳) أنیس الفقہاء لقاسم القونوی (ت۹۷۸ھ)
    شافعی مذہب کے لیے:
    (۴) الزاہر فی غریب ألفاظ الشافعی لأبی منصور الأزہری (ت۳۷۰ھ)
    شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بہت بڑے لغوی ہونے کے ساتھ ساتھ علمائے شوافع کے بہت بڑے عالم تھے۔ ان کی کتاب’’ تہذیب اللغہ‘‘ اور ’’الزاہر‘‘ اس کی بہترین دلیل ہے۔
    (۵) حلیۃ الفقہاء لابن فارس (ت۳۹۵ھ) (۶) تہذیب الأسماء واللغات للنووی (ت۶۷۶ہ)
    یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔
    (۷) تحریر ألفاظ التنبیہ للنووی (۸) النظم المستعذب فی شرح غریب المہذب للرکبی (ت۶۳۳ھ) (۹) المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر للفیومی (ت۷۷۰ھ)
    مالکی مذہب کے لیے:
    (۱۰) شرح غریب ألفاظ المدونۃ للجبی(توفی فی القرن الرابع أو الخامس) (۱۱) الحدود لابن عرفۃ المالکی (تت ۸۰۳ھ)
    اور حنبلی مذہب کے لیے:
    (۱۲) المطلع علی أبواب المقنع للبعلی (ت۷۰۹ھ)
    اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلًا عقیدہ وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
    (۱) غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ
    (۲) الزینۃ فی الکلمات الإسلامیۃ العربیۃ لأحمد بن حمدان الرازی (ت۳۲۲ہ)
    (۳) الحدود الأنیقۃ والتعریفات الدقیقۃ لزکریا الأنصاری الشافعی (ت۹۲۶ھ)
    ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات کے پر ہی لکھی گئی ہیں، مثلًا:
    (۱) التعریفات للجرجانی(۸۱۶ہ)
    (۲) التوقیف علی مہمات التعاریف للمناوی (ت۱۰۳۱ھ)
    (۳) الکلیات (معجم فی الاصطلاحات والفروق اللغویۃ) لأبی البقاء الکفوی (ت۱۰۹۴ھ)
    (۴) کشاف اصطلاحات الفنون للتہانوی (ت۱۱۵۸ھ)
    ہر خاص کلمہ یا اصطلاح کے لیے تخصص اور مناسب مصدر کی طرف رجوع کرنا اور اس کا حوالہ دینا علمی مقالوں میں جان پھونک دیتا ہے، اور یہ اس مقالے کی ایک بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔ اور اس کی رعایت نہ کرنا اہل علم کے نزدیک خلل تصور کیا جاتا ہے، بلکہ معیوب مانا جاتا ہے اور ایسے مقالوں کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے ان امور کی طرف مقالہ نگاروں اور مصنفین کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔
    اللہ ہمیں نفع بخش علم کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings