-
زکوٰۃ :عبادت سے ’’مال غنیمت ‘‘ تک اسلام ایک عظیم اور انقلابی دین ہے،اس کی تعلیمات سماج و معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں،غور کریں کہ نماز بظاہر چند اعمال و افعال کا مجموعہ ہے لیکن اس کو پابندی اور خشوع سے ادا کرنے والا گناہ ومعصیت کی دنیا سے بیزار ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’ان الصلاة تنهي عن الفحشاء والمنكر‘‘یعنی نماز انسان کے اندر ہی اندر فسق و فجور سے نفرت کرنے والا ایک مزاج پروان چڑھاتی ہے،نماز عبادت کے ساتھ نیکیوں کا خوگر اور برائیوں سے تنفر کی حس بیدار کرنے والا ایک کورس بھی ہے،رمضان بھی دینی واخلاقی اعتبار سے اہل ایمان کی کایا پلٹ کرنے والا ایک نصاب ہے: ’’لعلكم تتقون‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے یہی بات بیان فرمائی ہے،بعینہٖ زکوٰۃ اپنی تمام ترحکمتوں کے علاوہ ایک عظیم الشان مقصد بھی رکھتی ہے،وہ یہ ہے کہ سماج و معاشرے میں جو نابرابری ہے،جو معاشی عدم توازن ہے، جو بڑھتی ہوئی غربت و مسکنت ہے،جو محتاجی اور فاقہ کشی ہے،اس کا ازالہ اور اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی طرف پیش رفت ہو،تاکہ مصیبت زدہ لوگوں کی داد رسی ہو،افلاس و نارسائی کا علاج ہو،دبے کچلے لوگوں کے حالات بہتر ہوں،مصارف زکوٰۃ پر نظر ڈالیے تو ہر طرح کی انسانی ضرورت اور مسائل کو مدنظر رکھ کے ترجیحات طے کی گئی ہیں،زکوٰۃ کا یہ مقصد صرف نظریاتی سطح پر اسلام کا قد اونچا کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ عملی طور پر اس کے لامحدود اثرات و نتائج اس پر شاہد ہیں،دور نبوت سے عالم اسلام میں زکوٰۃ کا چلن تھا،وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور دیکھتے دیکھتے حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خوش حالی اتنی آگئی کہ لوگوں کو مستحقین بآسانی نہیں ملتے تھے،اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص اپنی زکوٰۃ لے کراندھیری رات میں مستحق کی تلاش میں نکلا اور ایک مقام پر ایک شخص کو دیکھ کر اسے زکوٰۃ سونپنے لگا،وہ شخص کہتا ہے،یہ آپ مجھے کیا دے رہے ہیں؟پہلا شخص بولتا ہے،یہ میری زکوٰۃ ہے اور میں آپ کو مستحق سمجھ کر دے رہا ہوں،وہ کہتا ہے،دراصل آپ نے غلط سمجھا،میں بھی اپنی زکوٰۃ لیے ہوئے مستحق کی تلاش میں ہوں،یہ صحیح معنوں میں اسلامی نظام زکوٰۃ کی برکت تھی،یہ حوالے جب پڑھو تو ہمیں اپنے کٹھور سماج کے رویوں پر دکھ ہوتا ہے،غرباء و مساکین کی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے،لوگوں کے دل خراش حالات کا مداوا زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا تھا جو امت کی غفلت اور بے شعوری کے سبب اپنی افادیت کھو چکا ہے،آج امت زکوٰۃ نکال رہی ہے اور زکوٰۃ تقسیم بھی کررہی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ مسائل اور مشکلات روزافزوں ہیں،کیا وجہ ہے کہ امت کشکول لیے دردر کی ٹھوکر کھارہی ہے؟کیا وجہ ہے کہ بیوہ اور نادار مارے مارے پھر رہے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ مریض علاج کے بغیر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ خوش حالی اور وسعت کے لیے آج تک امت ترس رہی ہے؟ دراصل زکوٰۃ کا نظام پوری طرح سے انتشار اور بدنظمی کا شکار ہے،زکوٰۃ لوگوں کی صوابدید اور مصلحتوں کے تابع ہوچکا ہے، دینے والوں کے دل صاف نہیں اور لینے والوں کا معاملہ بھی درست نہیں ہے،ایک کروڑ پتی بھی زکوٰۃ کے نام پر چند رسید پھڑوالینے اور چند نوٹ غرباء میں تقسیم کرنے کو کافی سمجھ لیتا ہے،زکوٰۃ کے لیے منصفانہ حساب اور اس کے مطابق عمل دررآمد بہت کم لوگوں کے یہاں پایا جاتا ہے،منتشر شکل میں پڑے ہوئے مال کا حساب کرکے ایمانداری کے ساتھ ڈھائی فیصد الگ کرنا اور غرباء کے اس حق سے اپنی مصلحتوں کو لاتعلق کرلینا مشکل امر بن چکا ہے،اللہ نے اسے غرباء کا حق کہا ہے،مگر صاحب نصاب اسے اپنی ملکیت سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر دیتا بھی ہے تو احسان کی نفسیات کے ساتھ دیتا ہے،حدیث رسول ﷺ میں زکوٰۃ کو تاوان سمجھنے کی بات موجودہ احوال پر صادق آرہی ہے۔ ایک کثیر تعداد زکوٰۃ کا مال خود ڈکار جاتی ہے،غور کریں کہ ایک شخص جو کروڑوں اور اربوں کا مالک ہے،اربوں روپیہ بزنس اور تجارت میں لگایا ہوا ہے،وہ اگر انصاف کے ساتھ زکوٰۃ نکالے تو صرف ایک شخص کی زکوٰۃ لاکھوں تک پہنچے گی،اس طرح اگر سیکڑوں افراد کی زکوٰۃ کا آپ حساب لگائیں تو تخمینہ کہاں تک پہنچے گا؟اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف بطور زکوٰۃ اتنی خطیر رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ غرباء و مساکین خوش حال ہوجائیں گے بلکہ دینی اداروں کے لیے بھی کفایت کرجائے گی،مگر افسوس منصفانہ عمل درآمد اور شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ کا نظام اپنا کردار ادا نہیں کرپا رہا ہے۔
رقوم زکوٰۃ کی تقسیم بھی بدعنوانی کا شکار ہے،زکوٰہ کو ذاتی ملکیت سمجھنے کے تصور نے اصحاب نصاب کو بدعنوان بنادیا ہے،لوگ اپنی صوابدید کے مطابق مال زکوٰۃ خرچ کرنے کے مجاز ہیں،کوئی پوری رقم اپنے گاؤں کے مکتب میں دے رہا ہے،کوئی پردھانی کاالیکشن لڑنے کے لیے دے رہا ہے ،کوئی کسی کو بزنس میں سپورٹ کرنے کے لیے دے رہا ہے،کوئی ایک خطیر رقم کسی عصری ادارے کے تعمیری کام میںدے رہا ہے،کوئی زکوٰۃ کے پیسے سے کیس لڑرہا ہے اور وکیل کی فیس دے رہا ہے،تعلقات کی بنیاد پر بڑی بڑی رقم بغیر یہ دیکھے دی جارہی ہے کہ زکوٰۃ کے مستحق ہیں کہ نہیں،کہیں نو مسلموں کے نام پر زکوٰۃ جمع کی جارہی ہے،کہیں بچیوں کی شادی میں جہیز کے لیے زکوٰۃ مانگی جارہی ہے، کہیں فیک رسیدوں کے سیلاب میں اموال زکوٰۃ تتر بتر ہورہے ہیں،کہیں مساجد کی تعمیر میں زکوٰۃ کا استعمال ہورہا ہے، ایک لوٹ پڑی ہے،بندر بانٹ ہورہی ہے،گویازکوٰۃ نہ ہوئی لوٹ کا مال ہوگئی،یہ ناانصافیاں اور دھاندلیاں ہیں جس نے زکوٰۃ کی برکت اور اس کی افادیت کو ختم کردیا ہے،غربت کہاں سے ختم ہوگی؟مسائل کا ازالہ کیسے ہوگا؟تشنہ ضرورتوں کی تکمیل کیسے ہوگی؟سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کی یہ ساری بے اعتدالیاں رمضان کے مبارک مہینے میں ثواب سمجھ کر کی جاتی ہیں،اللہ امت کو عقل سلیم عطا کرے اور زکوٰۃ کے مسئلے میں صحیح شعور عنایت فرمائے۔ آمین