Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • حدیث: اَدُّوا صَاعًا مِّنْ طَعَامٍ یَعْنِی فِی الْفِطْرِتحقیق کے میزان پر

    الحمد للّٰه رب العالمين والصلاة والسلام علٰي رسوله الأمين،أما بعد:
    محترم قارئین! اِس تحریر میں ان شاء اللہ حدیث : ’’اَدُّوا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ يَعْنِي فِي الْفِطْرِ‘‘ کی تحقیق پیش کی جائے گی۔ بغور ملاحظہ فرمائیں:
    مذکورہ حدیث کو امام حماد بن زید رحمہ اللہ سے اُن کے تین شاگردوں نے روایت کیا ہے:
    (پہلے شاگرد) امام قتیبہ بن سعید الثقفی رحمہ اللہ
    ٭ امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳ھ) فرماتے ہیں:
    اَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ اَيُّوبَ، عَنْ اَبِي رَجَائٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَخْطُبُ عَلٰي مِنْبَرِكُمْ – يَعْنِي مِنْبَرَ الْبَصْرَةِ- يَقُولُ: ’’صَدَقَةُ الْفِطْرِ صَاعٌ مِنْ طَعَام‘‘۔
    [سنن النسائی بتحقیق الالبانی والشیخ زبیر علی زئی رحمھما اللّٰہ: ح:۲۵۱۰]
    اِس حدیث کی سند کو علامہ البانی اور شیخ زبیر علی زئی رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
    (دوسرے شاگرد) امام سلیمان بن حرب البصری رحمہ اللہ
    ٭ امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی رحمہ اللہ (المتوفی :۴۵۸ھ) فرماتے ہیں:
    اَخْبَرَنَا اَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ، أنْبَأنَا اَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ اَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا رَجَائٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَخْطُبُ عَلَي الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ.
    [السنن الکبریٰ للبیہقی بتحقیق محمد عبد القادر عطا:۴؍۲۸۰، ح:۷۷۰۵]
    امام بیہقی رحمہ اللہ نے اِس روایت کو حوالہ مذکور میں صحیح قرار دیا ہے۔
    (تیسرے شاگرد) عبد اللہ بن الجراح التمیمی رحمہ اللہ
    ٭ امام ابونعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۳۰ھ) فرماتے ہیں:
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْقَاضِي، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَيُّوبَ، قَالَ: اَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، قَالَ: ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ اَيُّوبَ، عَنْ اَبِي رَجَائٍ الْعُطَارِدِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: ’’اَدُّوا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ يَعْنِي فِي الْفِطْرِ‘‘۔
    [حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء:۳؍۱۲ و۶؍۲۶۲]
    امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو اپنی مذکورہ کتاب میں دو جگہ ذکر کیا ہے اوردونوں جگہ اسے غریب قرار دیا ہے ۔
    قارئین! اب آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حماد بن زید کے دو اعلیٰ پائے کے ثقہ شاگردوں نے زیر بحث روایت کو موقوف بیان کیا ہے ۔دونوں کے ترجمے کے لیے دیکھیں:[سیر اعلام النبلاء بتحقیق مجموعۃ من المحققین: ۱۱؍۱۳، ت:۸ و۱۰؍۳۳۰،ت:۸۱]
    جبکہ تیسرے شاگرد نے اِسے مرفوعا ًبیان کیا ہے جن کے بارے میں ائمہ کرام کے اقوال کو دیکھتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’صدوق يُخطء‘‘‘۔’’آپ صدوق ہیں، خطا کرنے والے ہیں‘‘۔[تقریب التہذیب بتحقیق محمد عوامۃ: ص:۲۹۸، ت:۳۲۴۸]
    انہیں اقوال کو دیکھتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حسن الحديث إن شاء اللّٰه تعالي‘‘۔’’ان شاء اللہ آپ حسن الحدیث ہیں‘‘۔[الصحیحۃ:۳؍۱۷۵، ح:۱۱۷۹]
    اِن کی بابت ائمہ کرام کے اقوال کے لیے دیکھیں: [تہذیب الکمال للمزی بتحقیق بشار عواد:۱۴؍۳۶۱، ت:۳۱۹۹]
    اور میرے علم کی حد تک کسی نے اِن کی متابعت نہیں کی ہے۔واللہ اعلم۔
    اب میں خود کچھ نہ کہہ کر زیر بحث روایت کے تعلق سے علماء کرام کا فیصلہ نقل کرتا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں:
    (۱) امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸ھ) موقوف روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’هٰذَا هُوَ الصَّحِيحُ مَوْقُوفٌ‘‘۔’’یہ روایت موقوف ہی صحیح ہے‘‘۔[السنن الکبریٰ للبیہقی بتحقیق محمد عبد القادر عطا:۴؍۲۸۰، ح:۷۷۰۵]
    پھر آپ نے عبد اللہ بن جراح والی مرفوع روایت کو ذکر کیا ہے۔
    (۲) امام محمد بن احمد بن عبد الہادی الحنبلی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۴ھ)
    آپ رحمہ اللہ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے فیصلے کو نقل کیا ہے لیکن کوئی تعاقب نہیں کیا ہے۔دیکھیں:[تنقیح التحقیق فی احادیث التعلیق بتحقیق سامی بن محمد:۳؍۱۸۰]
    (۳) امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸ھ) ر قمطراز ہیں:
    ’’الصحيح وقفه‘‘۔’’اِس روایت کا موقوف ہونا صحیح ہے‘‘۔[المہذب فی اختصار السنن الکبیربتحقیق دار المشکاۃ :ص:۱۵۲۵، رقم:۶۷۶۸]
    (۴) دکتور عبد الملک بن عبد اللہ حفظہ اللہ عبد اللہ بن جراح والی روایت پر حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’اسناده حسن والصواب وقفه‘‘۔ ’’اِس کی سند حسن ہے اور اِس کا موقوف ہونا درست ہے‘‘۔[فی تحقیق الاحادیث المختارۃ للمقدسی:۱۳؍۱۰، ح:۳]
    اِن کے علاوہ مرفوع والے طریق کو امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے غریب بھی قرار دیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ: ’’وَلَا اَعْلَمُ لَهُ رَاوِيًا إِلَّا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الْجَرَّاحِ‘‘۔[حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء :۶؍۲۶۲]
    خلاصۃ التحقیق : ’’اَدُّوا صَاعًا مِّنْ طَعَامٍ يَعْنِي فِي الْفِطْرِ‘‘ اِس روایت کا موقوف ہونا ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم۔
    ٭ تحریر لکھنے کی وجہ : محترم قارئین! بعض احباب ایسے ہیں جو دوسروں کو یہ طعنہ دیتے ہیں یا یہ سبق سکھاتے ہیں کہ آپ نے فلاں روایت کے طرق کو جمع نہیں کیا، آپ کو جمعِ طرق کا علم ہی نہیں ہے اِس لیے آپ سے غلطی ہو گئی اور اُس غلطی کو لے کر بہت شور مچاتے ہیں اور دنیا کو یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ہم اِس علم کے ماہر اور جانکار ہیں۔
    میں نے کئی مرتبہ یہ بات کہی کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، اتنا زیادہ شور مت مچاؤ، کسی کی عزت کو سرِ عام مت اچھالو، غلطی ہو جائے تو صاحب غلطی کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے پیار محبت سے سمجھاؤ جیسے دوسرے خیر خواہ علماء کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی عادت سے باز نہیں آتے ہیں، اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے ۔ آمین۔
    اور یہ تحریر میں نے صرف اس لیے لکھی ہے تاکہ طعنہ دینے والوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ جیسے سامنے والے سے غلطی ہوتی ہے ویسے ہی آپ سے بھی غلطی ہوتی ہے لہٰذا جب کسی سے غلطی ہو جائے تو اُس کو طعنہ مت دو، علمی دادا گیری مت دکھاؤ بلکہ پیار محبت سے اسے اپنا بھائی سمجھتے ہوئے سمجھائیں۔ اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔
    زیر بحث روایت کو دو بھائیوں نے اپنے مضمون میں مرفوعاً ذکر کر کے استدلال کیا ہے اور ایک بھائی نے تو اِس روایت کو دو الگ الگ روایت سمجھ کر اپنے مضمون میں ذکر کیا لیکن ان دونوں احباب نے زیر بحث روایت کے طرق کو جمع کر کے غور نہیں کیا جبکہ اُن کو غور کرنا چاہے تھا کیونکہ ان دونوں نے اس سے استدلال کیا تھا۔ میرے اِس مضمون سے انہیں اپنی غلطی کا علم ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ اسی لیے اِس مضمون میں نا میں نے اُن کا نام ذکر کیا ہے اور نہ ہی اُن کے مضمون کا ذکر کیا ہے۔ اگر انہیں پھر بھی لگتا ہے کہ امام بیہقی اور دیگر علماء کرام کی یہ تحقیق صحیح نہیں ہے تو وہ پیار محبت سے ان کا جواب لکھ سکتے ہیں اور اگر صحیح سمجھتے ہیں تو اپنی غلطی کی اصلاح کریں۔ اللہ حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings