-
شش عیدی (شوال کے چھ)روزے (الف): شش عیدی روزوں کی مشروعیت:ـ
ماہ رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ ماہ شوال کے چھ روزوں کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ،حدیث ہے:
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ قَالَ:’’ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘۔
ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے رمضان کے چھ روزے رکھے پھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے،اس کو عمربھرکے روزوں کاثواب ملے گا‘‘۔
[صحیح مسلم:۔کتاب الصیام :باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال اتباعا لرمضان ،رقم۱۱۶۴]
(ب): شش عیدی روزوں کی حکمت:ـ
ماہ شوال کے ان روزوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن رجب حنبلی رقم طراز ہیں :
’’أفضل التطوع ما كان قريبا من رمضان قبله و بعده و ذٰلك يلتحق بصيام رمضان لقربه منه و تكون منزلته من الصيام بمنزلة السنن الرواتب مع الفرائض قبلها و بعدها فيلتحق بالفرائض فى الفضل و هي تكملة لنقص الفرائض و كذلك صيام ما قبل رمضان و بعده فكما أن السنن الرواتب أفضل من التطوع المطلق بالصلاة فكذلك صيام ما قبل رمضان و بعده أفضل من صيام ما بعد منه‘‘۔
’’رمضان سے پہلے اوررمضان کے بعدسب سے بہترنفل وہ ہے جوماہ رمضان کے بالکل قریب ہو،رمضان سے قریب ترہونے کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزوں کے ساتھ ملادیاگیا،اورانہیں رمضان کے روزوں کے فوراًبعد ہونے کی وجہ سے فرائض کے پہلے وبعد والی سنتوں کامقام دیاگیا، لہٰذا افضلیت میں یہ فرائض کے ساتھ ملادی گئیں اوریہ فرائض کی کمی پوری کرنے والی ہو ں گی اوررمضان سے پہلے اوربعد روزہ رکھنابھی اسی طرح افضل ہے جس طرح فرض نمازوں کے پہلے وبعد والی سنتیں مطلق نوافل پڑھنے سے بہترہیں‘‘۔
[لطائف المعارف :۱۳۸۱]
ٹھیک یہی بات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے، چنانچہ آپ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’والسر فى مشروعيتها أنها بمنزلة السنن الرواتب فى الصلاة…‘‘
’’یعنی ان چھ روزوں کی مشروعیت کاراز یہ ہے کہ جس طرح نماز کے سنن ونوافل ہوتے ہیں جن سے نماز کافائدہ مکمل ہوتاہے،اسی طرح یہ چھ روزے بھی روزوں کے سنن ونوافل کے قائم مقام ہیں ‘‘۔
[حجۃ اللّٰہ البالغۃ :۱۷۶]
(ج): شش عیدی روزوں کے لئے ماہ شوال کی وجہ ِتخصیص:ـ
رمضان کے بعد چھ روزو ں کے لئے ماہ شوال ہی کوکیوں منتخب کیاگیا؟اس سلسلے میں علامہ عبدالرؤف المناوی فرماتے ہیں :
’’وخص شوال لأنه زمن يستدعي الرغبة فيه إلى الطعام لوقوعه عقب الصوم فالصوم حينئذ أشق فثوابه أكثر‘‘۔
’’ان چھ رورزوں کے لئے ماہ شوال کو اس لئے خاص کیاگیاکیونکہ یہ ایک ایسامہینہ ہے جس میں لوگ کھانے پینے کی طرف زیادہ راغب رہاکرتے ہیں چونکہ وہ ابھی ابھی رمضان کے روزوں سے گزرے ہوئے ہوتے ہیں ،لہٰذا جب کھانے کاشوق وخواہش شدت پرہو اوراس حالت میں روزہ رکھاجائے تواس کاثواب بھی زیادہ ہوگا‘‘۔
[فیض القدیر: ۱۶۱۶]
اور علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَقَالَ آخَرُونَ: ’’لَمَّا كَانَ صَوْم رَمَضَان لَا بُدّ أَنْ يَقَع فِيهِ نَوْع تَقْصِير وَتَفْرِيط، وَهَضْم مِنْ حَقِّهِ وَوَاجِبِهِ نَدَبَ إِلَي صَوْم سِتَّة أَيَّام مِنْ شَوَّال، جَابِرَةٍ لَهُ ،وَمُسَدِّدَة لِخَلَلِ مَا عَسَاهُ أَنْ يَقَع فِيهِ۔ فَجَرَتْ هٰذِهِ الْأَيَّام مَجْرَي سُنَن الصَّلَوَات الَّتِي يُتَنَفَّل بِهَا بَعْدهَا جَابِرَة وَمُكَمِّلَة ، وَعَلٰي هٰذَا: تَظْهَر فَائِدَة اِخْتِصَاصهَا بِشَوَّال، وَاَللّٰه أَعْلَم‘‘۔
بعض اہل علم کاکہناہے کہ:’’ رمضان کے روزوں کے حقوق وواجبات میں کچھ نہ کچھ کوتاہی وکمی ہوہی جاتی ہے ،اس لئے شوال کے چھ روزے مستحب قراردئے گئے ہیں تاکہ ان کوتاہیوں اورکمیوں کی تلافی ہوسکے گویاکہ یہ روزے فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں کے قائم مقام ہیں جونمازوں میں واقع کمی وکوتاہی کودورکرنے کے لئے ہوتی ہیں ،اس سے ظاہرہوتاہے کہ ماہ شوال ہی کے ساتھ شش عیدی روزوں کی تخصیص کافائدہ کیاہے‘‘۔
[تہذیب سنن ابی داؤد وایضاح مشکلاتہ:۴۹۰۱]
(د): شش عیدی روزوں کے لئے عددچھ(۶)کی وجہ تخصیص:ـ
شوال کے ان چھ روزوں کی تعداد صرف چھ ہی کیوں ہے؟اس کی وضاحت حدیث میں آگئی ہے،ملاحظہ ہویہ حدیث:
عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَي رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِﷺأَنَّهُ قَالَ:’’ مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ كَانَ تَمَامَ السَّنَةِ‘‘ {مَنْ جَاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا}
[الأنعام:۶؍۱۶۰]
ثوبان رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:’’جس نے عید الفطرکے بعدچھ روزے رکھے تواسے پورے سال کے روزوں کاثواب ملے گا‘‘،جوایک نیکی کرتاہے اسے دس نیکیوں کاثواب ملتاہے۔
[سنن ابن ماجہ:۔کتاب الصوم باب صیام ستۃ ایام من شوال،رقم (۱۷۱۵) واسنادہ صحیح]
مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکی ایک نیکی دس نیکی کے برابرہے،یعنی ایک روزہ دس روزہ کے برابرہے،اس لحاظ سے رمضان کے تیس روزوں کے ساتھ شوال کے چھ روزے ملالئے جائیں توکل چھتیس(۳۶)روزے ہوتے ہیں ، پھران میں ہر روزہ جب دس (۱۰)روزے کے برابر ہوگا،توچھتیس (۳۶)روزے تین سوساٹھ(۳۶۰)روزوں کے برابر ہوجائیں گے،اورچونکہ ایک سال میں کم وبیش (۳۶۰)دن ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ روزے پورے سال کے روزوں کے برابرہوئے۔
درج ذیل حدیث میں اسی چیز کی مزید وضاحت ہے:
عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ:’’ صِيَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ، وَصِيَامُ السِّتَّةِ أَيَّامٍ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ صِيَامُ السَّنَةِ‘‘، يَعْنِي رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ۔
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’رمضان کے ایک ماہ کاروزہ رکھنے سے دس(۱۰)ماہ کے روزوں کاثواب ملتاہے،اور(شوال کے)چھ دنوں کاروزہ رکھنے سے دوماہ کے روزوں کاثواب ملتاہے،اس لحاظ سے رمضان وشوال کے مذکورہ دنوں میں روزہ رکھنے سے پورے سال بھرکے روزوں کاثواب ملتاہے‘‘
[صحیح ابن خزیمۃ:۔۲۹۸۳رقم۲۱۱۵واسنادہ صحیح]
اب اگرہرسال رمضان کے روزوں کے ساتھ باقاعدگی سے شوال کے چھ روزے رکھے جائیں توہرسال، پورے سال کے روزوں کاثواب ملے گااوراگریہی سلسلہ عمربھررہاتوگویاکہ اس طرح عمربھر کے روزوں کاثواب ملے گا،جیساکہ مسلم کی گزشتہ حدیث میں ہے: ’’كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘ ۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ شوال کے ان روزوں میں عددچھ کی وجہ تخصیص کیاہے۔
(ھ): شش عیدی روزوں کورکھنے کاطریقہ:
شوال کے ان چھہ روزوں کوعید کے بعدفوراًرکھ سکتے ہیں اسی طرح بیچ میں اوراخیرمیں بھی رکھ سکتے ہیں ،نیزان روزوں کومسلسل بھی رکھ سکتے ہیں اورالگ الگ ناغہ کرکے بھی رکھ سکتے ہیں ،کیونکہ حدیث میں کسی بھی قسم کی کوئی تقییدوتعیین نہیں آئی ہے،علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’إذا ثبت هذا فلا فرق بين كونها متتابعة أو مفرقة فى أول الشهر أو فى آخره لأن الحديث ورد بها مطلقا من غير تقييد‘‘۔
’’حدیث میں شوال کے چھ روزہ رکھنے کی فضیلت مطلقاًواردہوئی ہے ،یہ روزے مسلسل ایک ساتھ رکھے جائیں یاالگ الگ ناغہ کرکے رکھے جائیں یاآخری دنوں میں ،ہرطرح جائزہے ،کیونکہ حدیث بغیرکسی تقیید کے مطلق وارد ہوئی ہے‘‘۔
[المغنی :۱۱۲۳]
’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ‘‘میں ہے:
س: هل صيام الأيام الستة تلزم بعد شهر رمضان عقب يوم العيد مباشرة أو يجوز بعد العيد بعدة أيام متتالية فى شهر شوال أو لا؟
ج: لا يلزمه أن يصومها بعد عيد الفطر مباشرة، بل يجوز أن يبدأ صومها بعد العيد بيوم أو أيام، وأن يصومها متتالية أو متفرقة فى شهر شوال حسب ما يتيسر له، والأمر فى ذلك واسع، وليست فريضة بل هي سنة۔
س: کیاشش عیدی روزے رمضان کے ختم ہونے پرعید کے فوراًبعد ہی رکھناضروری ہے یاعیدکے چند دن بعدبھی پے درپے رکھ سکتے ہیں ؟
ج: یہ روزے عید کے بعدفوراًہی رکھنے ضروری نہیں ہیں ،بلکہ عید کے ایک دن بعد یاچنددنوں کے بعد بھی اسے رکھاجاسکتاہے ،اورشوال کے مہینے میں کبھی بھی مسلسل یاناغہ کرکے جس طرح بھی سہولت ہو،رکھ سکتے ہیں ،اس معاملے میں وسعت ہے،نیزیہ مسنون روزے ہیں فرض اورواجب نہیں۔
[فتاوی اللجنۃ الدائمۃ:ج۱۰ص۳۹۱ ]
مگرواضح رہے کہ بعض احادیث میں تسلسل کی قید بھی ہے مگروہ تمام احادیث ضعیف ہیں ،مثلادیکھئے:
[سلسلۃ الاحادیث الضیعفۃ:۔ج۱۱القسم الاول ص۳۰۷،۳۰۸رقم۵۱۸۹]
(و): پہلے شش عیدی روزے یارمضان کے فوت شدہ روزے…؟
اگرشرعی عذرکی بناپرکسی شخص کے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے تویہ شخص پہلے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے گا،پھرشوال کے روزے رکھے گا،اس لیے کہ شوال کے ان چھ روزوں کی فضیلت جس حدیث میں وارد ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ:
’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘
’’یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اسے ہمیشہ روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوگا‘‘۔
لیکن اگرکوئی شخص رمضان کے روزوں کی قضاء پہلے نہ کرسکے اورمخصوص نفلی روزوں کے وقت کے نکلنے کاڈر ہو،اس بنیادپروہ پہلے نفلی روزے رکھ لے پھربعدمیں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کرلے،تواس کے دونوں روزے صحیح ہوںگے۔
ڈاکٹرفضل الرحمن مدنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’…اگرکسی نے نفلی روزے پہلے رکھ لیے اورفوت شدہ روزوں کی قضاء بعد میں کی تودونوں روزے صحیح ہوجائیں گے،لیکن اگرنفلی روزے رکھے پھرفرض روزے نہیں رکھ سکاتواس پرمؤاخذہ ہوگا‘‘۔(فتاویٰ رمضان:ص۸۰،۸۱)
(ز): شش عیدی روزوں کی قضاء شوال کے علاوہ دوسرے ماہ میں :
اگر کوئی شخص کسی عذر وغیرہ کی بناپرشوال میں شش عیدی روزے نہ رکھ سکے تو وہ شوال کے علاوہ دیگر ماہ میں ان کی قضاء نہیں کرسکتا،ا بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ولا يشرع قضاؤها بعد انسلاخ شوال، لأنها سنة فات محلها سواء تركت لعذر أو لغير عذر‘‘۔
’’یعنی شوال کامہینہ گزرجانے کے بعد ان کی قضاء مشروع نہیں ہے خواہ وہ عذر کی وجہ سے چھوٹے ہوں یابغیر عذر کے اس لیے کہ یہ روزے سنت ہیں اوران کاوقت گزرچکاہے‘‘[مجموع فتاوی بن باز:۳۸۹۱۵ ]
٭٭٭