Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تراویح:خواہشیں اور فرمائشیں

    قیام اللیل یعنی راتوں کو جاگ کر تنہائی وتاریکی میں اللہ کو یاد کرنا، اپنے گناہوں پر رونا اور لمبی لمبی نمازیں ادا کر نا اللہ کے محبوب بندوں کی خاص پہچان بتلائی گئی ہے۔ قرآن وحدیث کے اندر اس کے فضائل ومحاسن پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ بڑی پابندی اور مستعدی سے اس پر تاحیات قائم ودائم رہے ، آپ کے بعد صحابہ، تابعین اور ہر دور کے نیکوکاروں نے اس عمل کی اہمیت کو سمجھا اور اس پر کاربند رہنا اپنا شیوہ بنایا۔
    لیکن حقیقت یہ ہے کہ نرم وگداز بستر چھوڑ کر تنہائی وتاریکی میں رب پاک سے مناجات کے لیے اٹھ کھڑے ہونا بڑی اولو العزمی اور زبردست قوت ایمانی ہی سے ممکن ہوپاتا ہے ، اور یہ توفیق سب کو نہیں مل پاتی، گویا اسی لیے رمضان المبارک کے مہینہ میں اسے باجماعت مشروع قرار دے کر تمام مومنوں کو اس عمل عظیم کے فیوض وبرکات سے اپنے دامن مراد کو بھر لینے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے، چنانچہ رمضان میں با جماعت تراویح کے ذریعہ قیام اللیل کا عمل بہت آسان ہوجاتا ہے اور ہر شخص اس سنت مبارکہ کی روحانیت اور اس کی حلاوت سے لطف اندوز ہو تا ہے۔ ہمارے بعض معاشروں میں تراویح کے تعلق سے کچھ غلط چیزیں رواج پاچکی ہیں جو اس عظیم الشان عبادت کو اس کی روح سے جدا کر کے ایک مشینی عمل میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے عوارض واسباب کی نشاندہی کی جائے اور ان کے مفاسد ومضرات سے عوام وخواص کو آگاہ کر کے ان سے اجتناب کی گزارش کی جائے، سطور ذیل میں اس تعلق سے چند امور کی طرف توجہ مبذول کرائی جا رہی ہے:
    تراویح میں ختم قرآن کی مدت: تیسری تراویح سے ختم قرآن کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے، کہیں پانچویں دن ، کہیں دسویں دن اور اسی طرح پندرہویں ، بیسویں اور ستائیسویں اور اٹھائیسویں، انتیسویں تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
    کم سے کم مدت میں تراویح میں قرآن ختم کر نے یا کرانے کے پیچھے جو اسباب وعوامل کا ر فرما ہوتے ہیں ان میں ایک سبب یہ بھی ہو تا ہے کہ جلد از جلد اس عمل سے فارغ ہو کر پوری یکسوئی وبے فکری سے اپنی تجارت کے فروغ میں لگ جایا جائے، کیوں کہ ایسے لوگ گویا یہی تصور کر بیٹھے ہیں کہ تراوایح میں قرآن ختم ہوجانے کے بعد تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ چنانچہ وہ گھو م گھوم کر معلومات حاصل کر تے ہیں کہ کس مسجد میں کتنا پڑھا جا رہا ہے ، اگر معلوم ہو گیا کہ فلاں مسجد میں پانچ پارے یومیہ پڑھے جاتے ہیں تو اسی میں شمولیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاکہ چھٹویں تراویح میں قرآن ختم کر کے فراغت حاصل کرلی جائے ،اس کے بعد اس مسجد کی ساری رونق ختم ہو جاتی ہے اور تراویح تو کجا، عشاء کی نماز میں بھی عام دنوں جیسا ماحول واپس آجاتا ہے، علاوہ ازیں ایسی صورت میں ایسی تیز رفتاری سے قرآن پڑھا جاتا ہے کہ سننے والے کو واضح طور سے قرآن کی آیتیں سنائی نہیں دیتیں۔ اس جزئیے پر آگے روشنی ڈالی جائے گی۔
    یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قیام یا تراویح پورے رمضان کے لیے مشروع ہے، بالخصوص عشرہ اخیرہ میں اس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، کیونکہ اس عشرہ میں شب قدر ہوتی ہے، اللہ کے رسولﷺ اس عشرے میں عبادت وریاضت کے لیے کمر کس لیا کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے تھے ، لیکن افسوس کہ اب آخری عشرہ میں مساجد کی ساری رونق ختم ہو کر بازاروں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ بہت سارے لوگ اس عشرہ میں عشاء کی نماز سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، اس غلط ماحول سازی میں بڑاد خل ان ائمہ وحفاظ کا بھی ہے جو بہت پہلے اپنی تراویح میں قرآن ختم کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے اس کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اب تراویح پڑھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی، مصلیان ومتولیان کو چاہیے کہ پورے رمضان تراویح پڑھنے پڑھانے کا نظم کریں اور اس غلط تصور سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کریں۔
    قرآن خوانی میں عجلت بازی : کم سے کم مدت میں قرآن ختم کر لینے کی کوشش میں اکثر حفاظ حددرجہ تیزی کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں ، بلکہ اس معاملے میں ایک طرح سے مسابقت کا ماحول ہو تا ہے، لوگوں کو کہتے سناجاتا ہے کہ فلاں حافظ بڑا ماہر ہے، بڑی سرعت سے پڑھتا ہے اور فلا ں سست رفتار ہے۔ سرعت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بسا اوقات حروف کٹ جاتے ہیں اور آیت کے آخری لفظ کے علاوہ کوئی اور عبارت واضح نہیں ہوپاتی ، ایسا صرف وہ حفاظ ہی نہیں کر تے جو کم مدت میں قرآن ختم کرتے ہیں بلکہ آخری عشرہ میں ختم کر نے والے بعض حفاظ بھی ایسا کیا کر تے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کم وقت میں تراویح مکمل ہوجائے، کیونکہ بہت سارے مصلیان ائمہ وحفاظ کو کوستے رہتے ہیں اور ان سے مطالبہ کر تے رہتے ہیں کہ جس قدر تیزی سے پڑھ سکیں پڑھیں تاکہ تراویح میں زیادہ وقت نہ لگے، بعض مصلی ایسی ذہنیت کے بھی ہوتے ہیں کہ فلاں مسجد میں تراویح (اتنے منٹ)پہلے ختم ہو جاتی ہے اور فلاں میں (اتنے منٹ) بعد ، اس لیے جہاں پہلے ختم ہوتی ہے وہیں تراویح پڑھنے کو وہ ترجیح دیتے ہیں ، یہ تمام حرکات وتصورات ، آداب تلاوت اور آداب نماز کے سراسر خلاف ہیں ، خود قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ قرآن کو ترتیل سے پڑھا جائے۔( سورہ مزمل:۴)
    ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی تلاوت کی کیفیت بیان کر تے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپ کی قرأت میں ایک ایک حرف واضح رہتا تھا ۔(صحیح ابی داؤد :ح:۴۰۰۱)
    حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک سورہ ترتیل سے پڑھنا مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ پورا قرآن (بغیر ترتیل کے) پڑھوں۔ (التبیان فی آداب حملۃ القرآن للنووی: ص۶۴)
    آپ کے ایک شاگرد حضرت مجاہد سے پوچھا گیا کہ دو آدمی میں سے ایک نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران دونوں کی تلاوت کی جبکہ دوسرے نے صرف سورہ بقرہ پڑھی ، اور دونوں کے رکوع ، سجود اور جلوس وغیرہ کی مدت برابر رہی ، تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ حضرت مجاہد نے کہا جس نے صرف سورہ بقرہ پڑھی وہی بہتر ہے۔ (ایضا:)
    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عہن نے اپنی ایک نصیحت میں کہا ہے کہ سکون واطمینان سے قرآن پڑھا کرو اور اختتام سورہ تک پہنچنا تمہارا مقصد نہیں ہوناچاہئے ۔(مجالس شہر رمضان لابن عثیمین)
    یہ ضروری نہیں کہ جو لوگ عربی زبان کی جانکاری رکھتے ہیں اور قرآنی آیات کے مطالب ومعانی کو سمجھتے ہیں انہیں ہی تدبر اور تفکر اور ترتیل سے قرآن پڑھنا چاہئے بلکہ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہوںانہیں بھی چاہئے کہ سکون واطمینان سے قرآن پڑھیں اور پڑھائیں کیونکہ قرآن کی عظمت وتوقیر کا یہی تقاضا ہے، نیز یہ کہ ایسی قرات جس میں حروف کٹتے ہوں یا گڈمڈ ہو تے ہوں بالاتفاق حرام ہے۔ ساتھ ہی اگر رکوع وسجود وغیرہ میں بھی امام اس حد تک سرعت سے کام لیتا ہو کہ اعتدال واطمینان سے مصلیان ارکان نہیں ادا کر پاتے تو یہ ایک الگ خرابی ہے ، کیونکہ تعدیل ارکان نماز کا ایک اہم جز ہے۔
    لمبی قرأت کی توجیہ : بعض حفاظ جو ضرورت سے زیادہ مقدار میں تراویح میں قرآن پڑھتے ہیں ان سے جب ایک پارہ یا سوا پارہ یومیہ پڑھنے کے لیے کہا جاتا ہے تو اسے قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول اتنی اور اتنی لمبی تہجد پڑھتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاؤں پھول جاتے تھے، وغیرہ غیرہ ، بات تو اپنی جگہ درست ہے مگر سیاق وسباق ، خارجی قرائن اور موقع ومحل کے تناظر میں دیکھا جائے تو دلیل فی غیر محلہ معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ ایسے حفاظ کا اصل مقصد زیادہ قرآن پڑھ کر جلد از جلد ختم کر لینا اور اپنی چھٹی لے لینا ہوتا ہے۔
    پہلے دن کی تطویل: بعض حفاظ کو دیکھا جا تا ہے کہ رمضان کے عام دنوںمیں تراویح میں ایک پارہ یا سوا پارہ تو ضرور پڑھتے ہیں ، مگر پہلی تراویح میں بسا اوقات دو پارہ یا پوری سورہ بقرہ (تقریباً ڈھائی پارے) پڑھ دیتے ہیں ، معلوم نہیں وہ ایسا کیوں کر تے ہیں، ہوسکتا ہے کہ بغیر کسی معقول سبب کے،یونہی دوسروں کی دیکھا دیکھی وہ ایسا کر دیتے ہوں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی مہارت کا مظاہرہ کر نے اور مصلیان پر رعب ڈالنے کی غرض سے ایسا کر تے ہوں، بہر حال مقصد جو بھی ہو اس طرز عمل کا مصلیان پر بہت ہی خراب اثر پڑتا ہے، کیونکہ ابتداء میں جبکہ لوگ عادی نہیں ہوتے یکبارگی اس قدر لمبے قیام سے ان کی ہمت ڈول جاتی ہے اور اگلے دنوں میں تراویح پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں وہ سوچنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ ضعیف الارادہ مصلیوں کے لیے پہلے دن کی یہ غیر معمولی تطویل فیصلہ کن ہوتی ہے اور آگے یہ سلسلہ جاری نہ رکھنے کا عزم کر کے وہ مسجد سے باہر نکلتے ہیں،الغرض پہلے دن کی تطویل بڑی آزمائشی ثابت ہوتی ہے، اور لوگوں کو تراویح سے متنفر کر نے کا سبب بنتی ہے ، لہٰذا اس سے پرہیز کر نا چاہئے، بلکہ حکمت ودانش مندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلے دن بقیہ دنوں کی مقدار کے بالمقابل کم ہی پڑھاجائے تاکہ لوگوں کو ثقالت کا زیادہ احساس نہ ہو اور وہ اگلے دنوں میں بھی تراویح پڑھنے کی اپنے اندر رغبت پائیں۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings