-
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں رضوان اللہ عبد الروف سراجی(مدرس:مر کز الامام البخاری تلولی)
محترم قارئین! معاشرے کی ایک برائی ظلم ہے اور یہ برائی بر وقت سر چڑھ کر بو ل رہی ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی ایک علاقے کا یہ مسئلہ ہے ،عصر حاضر میںظلم ایک بیماری بن کر رہ گئی ہے ،آج ہر مضبوط اپنے سے کمزور کو ستانے کے در پے ہے ،یتیموں ، بیواؤں،غریبوںاور بے کسوں کا جینا تک دوبھر کر رکھا ہے، ہر کس و نا کس اسے ایک معمولی جرم سمجھ بیٹھا ہے ، حالا نکہ ظلم کوئی معمولی جرم نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نگاہ میںظلم خطرناک اور موذی جرم ہے اور یہ صرف مسلمانوں کے نزدیک گناہ تصور نہیںکیا جاتا ہے بلکہ مسلم ہویا نان مسلم ،اسے ہر کو ئی گناہ تصور کرتا ہے، جہاں مسلمانوں کی کتابو ںمیں اسے گناہ تسلیم کیا گیا ہے وہیں ہندؤں اور دیگر مذہبی کتابو ں میں بھی اسے گناہ کہا گیا ہے۔
ظلم کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جھوٹ ،غیبت ،چغلی ،چوری ،استہزاء و مذاق اور بدگمانی وغیرہ سب حرام ہیں اور ان سب سے اللہ پاک ہے لیکن ان میں سے کسی کے تئیں یہ نہیں کہا کہ میں نے ان کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے لیکن ظلم کے تئیں بقول رسول ﷺاللہ نے فرمایا کہ:
’’ يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰي نَفْسِي، وَ جَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا‘‘ ’’ میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے او پرحرام کیاہے،اور اسے میں نے تمہارے مابین بھی حرام کر دیا ہے پس تم آپس میں ظلم نہ کرو‘‘ [صحیح مسلم: ۲۵۷۷]
پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپرظلم حرام کررکھا ہے حالانکہ ظلم جیسے جرم کا ارتکاب اللہ تعالیٰ سے محال اور نا ممکن ہے کیوں کہ جب ساری چیزوں کا خالق،مالک وہی ہے ،ساری چیزیں اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں تو پھر ظلم کس بات کی،اگر وہ ہم سے اپنا دیا ہوا سامان واپس لے لے تو بھی وہ ظالم نہیں قرار پائے گا،اس کی چیز تھی اس نے لے لیا ۔
عبادت وہ چیز ہے کہ اس کی بابت صرف انسان اور جنات سے پوچھ تاچھ ہوگی لیکن ظلم ایک ایسا گناہ ہے جس کی بابت حیوانوں سے بھی پوچھ تاچھ ہوگی جیسا کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
’’لَتُوَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَي اَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ،حَتّٰي يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَائِ، مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَائِ‘‘ ’’تم قیامت کے دن حقداروں کے حق ادا کرو گے، یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا (گو کہ جانوروں کو عذاب و ثواب نہیں لیکن قصاص ضرور ہو گا‘‘[صحیح مسلم:۲۵۸۲]
پتہ چلا کہ انسانوں کی طرح بروز قیامت حیوانوں کو بھی دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ظلم کے معاملے میں حیوانوں سے بھی پوچھاجائے گااورگو اس روایت میں بکری آیا ہے لیکن بکری ہی کا ہونا کوئی ضروری نہیں یہ توایک مثال ہے ،اس میں ہر جانور شامل ہے ،کسی بھی جانور نے کسی جانور کو تکلیف دیاہوگا تو اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہو گا ۔
اللہ کے رسولﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے وقت فرمایا کہ:
’’ أَلَا إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَائَكُمْ وَاَمْوَالَكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا، فِي بَلَدِكُمْ هٰذَا، فِي شَهْرِكُمْ هٰذَا، اَلَا هَلْ بَلَّغْتُ قَالُوا:نَعَمْ، قَالَ:اللّٰهُمَّ اشْهَدْ۔ ثَلاَثًا۔ وَيْلَكُمْ، اَوْ وَيْحَكُمْ، انْظُرُوا، لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ‘‘’’اچھی طرح سن لو کہ جس طرح آج اس شہر اوراس مہینہ میں تمہارے خون اور تمہارے مال کو حرام کیا گیا ہے، اسی طرح آئندہ بھی حرام ہے، اس کے بعد آپ نے پوچھا کیا میں نے اللہ کے احکامات آپ کو پہنچا دئیے؟ سب نے یک زبان ہو کر اقرار کیا اور کہا جی ہاں!آپ نے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا، پھر فرمایا:کہ دیکھو، یہ افسوسناک کام مت کرنا کہ میرے بعد کافر بن کرآپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘ [صحیح بخاری:۴۴۰۳]
ظلم کی قباحت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مظلوم کی بد دعا رائیگاں نہیں جاتی۔ جیسا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’ ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ:دَعْوَةُ الْوَالِدِ، وَ دَعْوَةُ الْمُسَافِرِ،وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ‘‘ ’’تین دعاؤں کی قبولیت میں شک نہیں(۱)باپ کی دعا(۲)مسافر کی دعا اور(۳)مظلوم کی دعا۔ [سنن ابی داؤد: ۱۵۳۶،صحیح الجامع:۳۰۳۰]
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے جہاں بہت ساری وصیتیں کی تھیں وہیں ایک با یہ بھی کہی تھی کہ :
’’وَاتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ‘‘ ’’اور مظلوم کی بد دعا سے بچو کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے‘‘[صحیح بخاری:۱۴۹۶،صحیح مسلم:۱۹]
پتہ چلا کہ ظلم یہ بہت بڑا جرم ہے اور ظلم کی کئی قسمیں ہیں مثلا ًکسی کوناحق مارنا ،ستانا یاکسی کی جائداد غصب کر لینا وغیرہ حتیٰ کہ آپ نے کسی کا مذاق اڑایا تو یہ بھی ظلم ہے،آپ نے کسی پرتہمت لگادی تو یہ بھی ظلم ہے اور ہر ایک کا انجام بہت برا ہے، آئیے انجام کے حوالے سے بطور عبرت و نصیحت چند مثالیں پڑھتے چلیں ۔
(۱) جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
’’شَكَا اَهْلُ الكُوفَةِ سَعْدًا إِلَي عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا، فَشَكَوْا حَتّٰي ذَكَرُوا اَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَاَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ:يَا اَبَا إِسْحَاقَ إِنَّ هٰوُلَائِ يَزْعُمُونَ اَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ اَبُو إِسْحَاقَ:اَمَّا اَنَا وَاللّٰهِ فَإِنِّي كُنْتُ اُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اَخْرِمُ عَنْهَا، اُصَلِّي صَلَاةَ العِشَائِ، فَاَرْكُدُ فِي الاُولَيَيْنِ وَاُخِفُّ فِي الاُخْرَيَيْنِ، قَالَ:ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا اَبَا إِسْحَاقَ، فَاَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا اَوْ رِجَالًا إِلَي الكُوفَةِ، فَسَاَلَ عَنْهُ اَهْلَ الكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَاَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتّٰي دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ اُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَي اَبَا سَعْدَةَ قَالَ:اَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يَعْدِلُ فِي القَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ:اَمَا وَاللّٰهِ لَاَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ:اللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هٰذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَائً وَسُمْعَةً، فَاَطِلْ عُمْرَهُ، وَاَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ: شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ، اَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ المَلِكِ: فَاَنَا رَاَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلٰي عَيْنَيْهِ مِنَ الكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ‘‘
’’ اہل کوفہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو معزول کردیا اور عمار رضی اللہ عنہ کوان کا حاکم بنادیا،ان لوگوں نے (سعد کی کئی)شکایتیں کیںیہاں تک کہ بیان کیا کہ وہ نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے، تو عمررضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا کہ اے ابواسحاق!یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو، کہا سنو!اللہ کی قسم!ان کے ساتھ میں ویسی ہی نماز ادا کرتا ہوں جیسے اللہ کے رسولﷺکی نماز ہوتی تھی، چنانچہ پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا تھا اور اخیر کی دو رکعت میں تخفیف کرتا تھا،عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق!تم سے یہی امید تھی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص یا چند لوگوں کو سعد رضی اللہ عنہ کے ہمراہ کوفہ بھیجاتاکہ وہ کوفہ والوں سے سعد رضی اللہ عنہ کی بابت پوچھیں ( چنانچہ وہ گئے)اور انہوں نے کوئی مسجد نہیں چھوڑی کہ جس میں سعد رضی اللہ عنہ کی کیفیت نہ پوچھی ہو اور سب لوگ ان کی عمدہ تعریف کرتے رہے یہاں تک کہ بنی عبس کی مسجد میں گئے تو ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا، اس کو اسامہ بن قتادہ کہتے تھے کنیت اس کی ابوسعدہ تھی ،اس نے کہا کہ سنو!جب تم نے ہمیں قسم دلائی تو مجبور ہو کر میں کہتا ہوں کہ سعد لشکر کے ہمراہ جہاد کو خود نہ جاتے تھے اور غنیمت کی تقسیم برابر نہ کرتے تھے اور کوئی مقدمہ انصاف کے ساتھ حل نہیں کرتے تھے سعد (یہ سن کر)کہنے لگے کہ دیکھ میں تین بددعائیں تجھ کو دیتا ہوں اے اللہ!اگر یہ تیر ابندہ جھوٹا ہو نمود و نمائش کے لئے اس وقت کھڑا ہوا ہو تو اس کی عمر بڑھا دے اور اس کو فقر میں مبتلا کر اور اس کو فتنوں میں مبتلا کردے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے بعد جب اس سے (اس کا حال)پوچھا جاتا تو کہتا ایک بڑی عمر والا بوڑھا ہوں، فتنوں میں مبتلا مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی، عبد الملک کہتے ہیں کہ میں نے اس کو دیکھا ہے،اس کی دونوں ابرو اس کی آنکھوں پر بڑھاپے کی وجہ سے جھکی ہو ئیں ہیں، وہ راستوں میں لڑکیوں کو چھیڑتااور ان پر دست درازی کرتا ہے‘‘[صحیح بخاری:۷۵۵،صحیح مسلم:۴۵۳]
(۲) سعید بن زیدرضی اللہ عنہ نیک اور برگزیدہ صحابی تھے،ان پر ارویٰ بنت اویس نامی ایک عورت نے زمین کے ہڑپنے کا الزام لگادیاتھاجس سے انہیں کافی تکلیف ہوئی اور انہوں نے اس پر بد دعا کردی جس کے نتیجے میںوہ عورت اندھی ہو گئی اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہوا جیسا کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’اَنَّ اَرْوَي بِنْتَ اُوَيْسٍ، ادَّعَتْ عَلٰي سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ اَنَّهُ اَخَذَ شَيْئًا مِنْ اَرْضِهَا، فَخَاصَمَتْهُ إِلَي مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَقَالَ سَعِيدٌ:اَنَا كُنْتُ آخُذُ مِنْ اَرْضِهَا شَيْئًا بَعْدَ الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:مَنْ اَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْاَرْضِ ظُلْمًا، طُوِّقَهُ إِلٰي سَبْعِ اَرَضِينَ، فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ: لَا اَسْاَلُكَ بَيِّنَةً بَعْدَ هٰذَا، فَقَال: اللّٰهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَعَمِّ بَصَرَهَا، وَاقْتُلْهَا فِي اَرْضِهَا، قَالَ:فَمَا مَاتَتْ حَتّٰي ذَهَبَ بَصَرُهَا، ثُمَّ بَيْنَا هِيَ تَمْشِي فِي اَرْضِهَا، إِذْ وَقَعَتْ فِي حُفْرَةٍ فَمَاتَتْ ‘‘
’’ارویٰ بنت اویس نے دعویٰ کیا کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے اس کی کچھ زمین لے لی ہے اوریہ مقدمہ اس نے مروان بن حکم کے پاس پیش کیا تو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بھلا میں اس کی زمین لوں گا جب کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سن چکا ہوں، مروان نے کہا کہ تم اللہ کے رسول ﷺسے کیا سنے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین ظلما ًاڑا لے تو اسے سات زمین کا طوق پہنا یا جا ئے گا،مروان نے کہا کہ اب میں تم سے کوئی دلیل نہیں مانگوں گا،اس کے بعد سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ!اگر ارویٰ جھوٹی ہے تو اس کی بینا ئی چھین لے اور اسی کی زمین میں اس کو مار۔ راوی کہتے ہیںکہ ارویٰ اندھی ہو کر ہی مری ،اسی دوران وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ گڑھے میں گری اور مر گئی‘‘[صحیح مسلم:۱۶۱۰]
(۳) فرعون بہت بڑا ظالم و جابر بادشاہ تھا،ویسے تو یہ کمزوروں پر کافی ظلم ڈھاتا لیکن اس کے ظلم کی داستان اس وقت بڑھی جب اس نے خواب دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ بھڑکی جو مصر کے ہر ہر قبطی کے گھر میں گھس گئی اور بنی اسرائیل کے مکانات میں وہ نہیں گئی اور اس کی تعبیر یہ بتا دی گئی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کے ہاتھوں اس کا غرور ٹوٹے گا،الوہیت کے دعویٰ کی اسے بدترین سزا ملے گی، یہ تعبیر سنتے ہی، اس ملعون نے چاروں طرف احکام جاری کر دئیے کہ بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو، سرکاری طور سے اس کی دیکھ بھال رکھی جائے اگر لڑکا ہو تو فوراً مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے،اس کے اس ظلم کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بایں انداز کھینچا ہے :
{وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوئَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ اَبْنَائَ كُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَائََكُمْ وَفِي ذَالِكُمْ بَلَاء ٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ}
’’اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو ذبح کر دیتے اور تمہاری عورتوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس میں تمہارے رب کی بڑی آزمائش تھی‘‘ [البقرۃ:۴۹]
حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے جب اس کی اصلاح کے لئے موسیٰ اور ان کے بھا ئی ہارو ن کو اس کے پاس بھیجا تو اس نے نہ صرف یہ کہ انکار کردیا بلکہ اس نے اللہ ہو نے کا دعویٰ بھی کر دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰي }’’کہا کہ میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں‘‘[النازعات:۱۵]
پھر اس پر اللہ کا عذاب آیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْاُولٰي ،إِنَّ فِي ذَالِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَّخْشٰي }’’تو اللہ نے اسے دنیوی و اخروی عذاب میں گرفتار کرلیا،اس میں ڈرنے والوں کے لئے نصیحت ہے‘‘[النازعات:۲۵۔۲۶]
اور بطور عذاب اللہ تعا لیٰ نے اسے قحط سالی میں مبتلا کردیا،کھیتیاں کم آئیں، قحط سالیاں پڑگئیں، درختوں میں پھل کم لگے یہاں تک کہ ایک درخت میں ایک ہی کھجور لگی ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَقَدْ اَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ}’’ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وہ نصیحت قبول کریں‘‘[الاعراف:۱۳۰]
لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب انہیں صرف اس لئے دیا تھا کہ انہیں حقیقت کا پتہ چلے اور وہ سیدھے راستے پر آئیں لیکن سدھرنے کے بجا ئے اس قوم کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو اسے دریا میں ڈبو کر ہلاک کردیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{ وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنَاكُمْ وَاَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ}’’اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا چیر (پھاڑ)دیا اور تمہیں اس سے پار کردیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا‘‘ [البقرۃ: ۵۰]
مذکورہ واقعات کی روشنی میں اندازہ لگائیے کہ ظلم کتنا خطرناک گناہ ہے ، اگر مظلوم بد دعا کردے تو اس کی بد دعا رائیگاں نہیں جاتی ہے لہٰذا ظلم سے ہمیں ہر حال میں بچنا ہوگا ۔ ذرا غور کرو کہ ایک سے ایک آئے لیکن اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچا نہ سکا ،ان کی ساری طاقت و قوت خاک میں مل گئی اور دنیا والوں کے لئے وہ نشان عبرت بن گئے ۔
اور یہ نہ سمجھو کہ ظلم صر ف مومن پر حرام ہے بلکہ مومن ہو یا کافر سب پر حرام ہے ،مظلوم کافر کی بھی بدد عاقبول ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا:
’’ اتَّقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، وَإِنْ كَانَ كَافِرًا، فَإِنَّهُ لَيْسَ دُونَهَا حِجَابٌ‘‘ ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو اگر چہ وہ کافر ہی کیوںنہ ہو، کیونکہ اس کے اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں‘‘ [مسند احمد:۱۲۵۴۹، صحیح الجامع:۱۱۷]
بسا اوقات کچھ لوگوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ دنیا میں بے شمار ظالم گھوم رہے ہیں لیکن ان پر اللہ کا عذاب کیوں نہیں آتا ہے؟یہ اعتراض بودہ اور بکواس ہے ،یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ گنہگار کو اللہ تعالیٰ علی الفور سزا دے بلکہ گنہ گاروں کو موقع فراہم کرنااللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے ،اللہ تعالیٰ اتمام حجت کے لئے انہیں مہلت دیتا ہے لیکن جب اس مہلت کا مطلب انسان یہ سمجھ لیتاہے کہ کچھ نہیں ہونے والا ہے اور اسی غلط فہمی میں آکر وہ ظلم و تعدی اور دیگر گناہوں کے کرنے میں ذرہ برابر خوف نہیں کھاتاتب اللہ تعالیٰ اس پر اپنی پکڑ بناتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
’’إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ يُمْلِي لِلظَّالِمِ، فَإِذَا اَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ، ثُمَّ قَرَاَ وَكَذَالِكَ اَخْذُ رَبِّكَ، إِذَا اَخَذَ الْقُرَي وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ اَخْذَهُ اَلِيمٌ شَدِيدٌ‘‘
’’ اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دیتا ہے مگر جب ان کی گرفت فرماتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا ہے اس کے بعد آپ ﷺنے اس آیت کی تلاوت فرمائی {وَكَذَالِكَ اَخْذُ رَبِّكَ، إِذَا اَخَذَ الْقُرٰي وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ اَخْذَهُ اَلِيمٌ شَدِيدٌ }’’اس طرح تیرا رب ظالموں کی بستیوں کو پکڑتا ہے اس کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘ [صحیح بخاری:۴۶۸۶،صحیح مسلم:۲۵۸۳]
پتہ چلا کہ اللہ کی طرف سے ملنے والی ڈھیل اور مہلت سے کبھی دھوکے میں نہیں پڑناکیوں کہ وہ جب پکڑتا ہے تو بہت سخت پکڑتا ہے اور معاشرے میں اس کا معائنہ کرکے دیکھ لو دیر سویر ہی سہی ہر ظالم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اس کے کرتوت کا مزہ چکھا دیا ہے اور رہی بات آخرت کی تو وہ ابھی باقی ہے ، یہ کوئی نہ سمجھے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے عذاب سے دو چار کردیا تو اب آخرت میں نجات مل گئی بلکہ اخروی عذاب سے بھی دو چار ہونا پڑے گا ، اللہ کے سامنے بھی ہمیں جواب دہ ہونا پڑے گا، اس پر بے شمار دلیلیں ہیں ۔ چند ملاحظہ ہوں ۔
(۱)بروز قیامت جب اللہ پوچھے گا تو وہاںظالموں کاکوئی مددگار نہ ہوگا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ} ’’ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘[الحج:۷۱]
(۲) اسی طرح جب ظالموں کو اللہ تعالیٰ سزا دے گا تو کوئی وہاںان کے حق میں کوئی سفارش نہ کرے گا اور نہ ہی وہاں کوئی دوست کام آئے گا ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ حَمِيْمٍ وَّلَا شَفِيْعٍ يُّــطَاعُ}’’ظالموں کا کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے گی ‘‘[غافر:۱۸]
(۳) اسی طرح ظلم بروز قیامت اندھیروں کا باعث ہوگا ،ظالم کے سامنے ظلم اندھیرا بن کرآئے گا اور راستے کا روڑا بنے گاجیسا اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
’’اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ اَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، حَمَلَهُمْ عَلٰي اَنْ سَفَكُوا دِمَاء َهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ ‘‘
’’تم ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہیں (ظلم کو قیامت کے دن بوجہ تاریکی اور اندھیرے کے راہ نہ ملے گی)اور تم بخیلی سے بچوکیونکہ بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کیا بخیلی کی وجہ سے (مال کی طمع)انہوں نے خون کئے اور حرام کو حلال کیا‘‘ [صحیح مسلم: ۲۵۷۸ ]
حتیٰ کہ اللہ کے رسول ﷺجب اپنی امت کے حق میں شفاعت کریں گے تو ظا لموں تک آپ ﷺکی شفاعت نہیں پہنچے گی جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے خود اس کی وضاحت کرتے ہو ئے فرمایا:
صِنْفَانِ مِنْ اُمَّتِي لَنْ تَنَالَهُمَا شَفَاعَتِي:إِمَامٌ ظَلُومٌ غَشُومٌ وَكُلُّ غَالَ مَارِقٍ‘‘’’ میری امت کے دو قسم کے لوگوں کو میری سفارش نہ پہنچے گی (۱)ظلم اور غصب کرنے والا حاکم (۲)اور غلو و الحاد کرنے والا شخص‘‘[صحیح الجامع:۳۸۹۸]
(۴) اسی طرح ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی،اگر ظالم کے پاس نیکیاں نہ ہو ں گی تو مظلوم کے گناہ ظالم کے سر ڈال دیئے جائیں گے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
’’مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِاَخِيهِ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهَا، فَإِنَّهُ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، مِنْ قَبْلِ اَنْ يُوْخَذَ لِاَخِيهِ مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ اُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ اَخِيهِ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ‘‘
’’جس کے پاس اپنے بھا ئی کے لئے ظلم ہوتو وہ اسے اس سے معاف کرالے اس سے قبل کہ اس کے بھائی کے لئے اس کی نیکیاں لے لی جائیں اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس کے بھائی کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے کیوں کہ اس دن درہم و دینار نہ ہوں گے ‘‘ [صحیح بخاری:۶۵۳۴]