Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تعویذ سے متعلق عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث کا تحقیقی جائزہ

    کچھ دنوں قبل ہمارے علاقہ میں ایک بریلوی مقرر تشریف لائے اورسامعین کو خطاب کیا ، اس خطاب کی ریکارڈنگ ہمارے پاس لائی گئی ، ہم نے تقریرسنی ، موصوف کا اندازبیان روایتی بریلوی خطباء سے ذرا ہٹ کرتھا ، آں جناب نے اپنی تقریرمیں باربار اہل حدیث حضرات کانام لیا ، مگر ہمارے علم کے مطابق موصوف نے کوئی تلخ کلامی نہیں کی ، بلکہ دوران خطاب غیر مقلد کہنے کے بجائے اہل حدیث بھائی اورسلفی بھائی کہہ کر ہمیں مخاطب کیا ، نیز آں جناب کی بعض باتوں سے اس چیزکی بھی تصدیق ہوگئی کہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کا وجود انگریزوں کے دورمیں نہیں ہوا۔
    کیونکہ آں جناب نے تعویذ سے متعلق ایک روایت پیش کی اوراس کے بعد ان اہل علم کی فہرست پیش کی جنہوں نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ، فہرست میں بعض اہل علم کے ناموں کو گنانے کے بعد موصوف نے کہا کہ اب میں ان اہل حدیث علماء کے نام پیش کررہاہوں جنہوں نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اس کے بعد موصوف نے اہل حدیث علماء کی فہرست پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام پیش کیا اس کے بعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگردوں مثلاً ابن کثیر امام ذہبی اوردیگراہل علم کے نام پیش کئے۔
    موصوف کی اس بات سے یہ حقیقت طشت ازبام ہوگئی کہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کا وجود انگریزوں کے دورسے پہلے بلکہ بہت پہلے ہی سے تھا، کیونکہ موصوف نے خود اہل حدیث علماء کی فہرست میں ایسے لوگوں کے نام گنائے ہیں جو انگریزوں کے وجود سے صدیوں سال پہلے اس دنیا سے چلے گئے۔
    بہرحال موصوف نے تعویذ والی روایت سے متعلق اپنی جو تحقیق پیش کی ہے ہم ذیل کے سطور میں اس کاجائزہ لیتے ہیں:

    حدیث مع سند ومتن:
    امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا:
    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ:حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ اَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِﷺ، قَالَ:’’إِذَا فَزِعَ اَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ:اَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَاَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ ۔فَكَانَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَمْرٍو، يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ ‘‘۔
    عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے:  أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ۔ (یعنی میں اللہ کے غضب، عقاب، اس کے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے‘‘
    [سنن الترمذی :۵؍۵۴۲رقم ۳۵۲۸]
    اس روایت کو ترمذی ،ابوداؤد اوربہت ساری کتابوں سے موصوف نے پیش کرکے کہا کہ اس پریہ اعترض ہوسکتاہے کہ اس کی سند میں محمدبن اسحاق ہے اوریہ ضعیف ہے لیکن میں اس کی توثیق ثابت کرسکتاہوں۔
    جواباً عرض ہے کہ کسی بھی اہل حدیث کا یہ اعتراض نہیں ہے کہ محمدبن اسحاق ضعیف ہے بلکہ اعتراض یہ ہے کہ ساری کتابوں میں یہ روایت ایک ہی سند سے نقل کی گئی ہے اوراس میں محمدبن اسحاق راوی ہے جس نے عن سے روایت کیا ہے اوریہ مدلس ہے۔
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
    ’’هُوَ كَثِيرُ التَّدْلِيسِ جِدًّا ‘‘۔
    ’’یہ بہت زیادہ تدلیس کرنے والے ہیں‘‘۔
    [الضعفاء الکبیر للعقیلی:۴؍۲۸،وسندہ صحیح، و الحضربن داود ثقۃ علی الراجح]
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے کہا:
    ’’كان يدلس على الضعفاء فوقع المناكير فى روايته ‘‘۔
    ’’یہ ضعفاء پر تدلیس کرتے تھے جس کے سبب ان کی روایت میں منکرات ہیں‘‘۔
    [الثقات لابن حبان:۷؍۳۸۳]
    خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفی۴۶۳)نے کہا:
    ’’ویدلس فی حدیثہ‘‘۔’’یہ اپنی حدیث میں تدلیس کرتے ہیں ‘‘۔
    [تاریخ بغداد:۲؍۲۱]
    امام ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی۸۰۷)نے کہا:
    ’’محمد بن إسحاق وہو مدلس‘‘۔
    ’’محمدبن اسحاق مدلس ہیں ‘‘۔[مجمع الزوائد:۱۰؍۲۷]
    حافظ ابن حجررحمہ اللہ انہیں طبقات المدلسین کے چوتھے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’صدوق مشهور بالتدليس عن الضعفاء والمجهولين وعن شر منهم‘‘۔
    ’’یہ صدوق ہیں اور ضعفاء ومجہولین اوران سے بھی بدترین لوگوں سے تدلیس کرنے میں مشہور ہیں‘‘۔
    [تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس :ص:۵۱]
    مذکورہ بالا تمام اقوال کاخلاصہ یہ کہ محمدبن اسحاق کثیر التدلیس مدلس راوی ہیں اوراصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ کثیرالتدلیس مدلس کا عنعنہ مردود ہوتاہے، یعنی جس روایت کو وہ عن سے روایت کرے وہ روایت ضعیف وغیرمقبول ہوتی ہے۔
    اورمذکورہ حدیث کے کسی بھی طریق میں محمدبن اسحاق کے سماع کی تصریح نہیں ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
    کیا حدیث مذکورکی کوئی دوسری سند بھی ہے؟
    بریلوی مقرر نے لوگوں کو مغالطہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ اس حدیث کی ایک دوسری سند ایسی بھی ہے جس کے اندر محمدبن اسحاق راوی نہیں ہے ، چنانچہ موصوف نے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب ’’خلق افعال العباد‘‘ سے مذکورہ حدیث درج ذیل سند سے پیش کی :
    قَالَ اَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ:ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ اَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:’’ كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ الْوَلِيدِ رَجُلًا يَفْزَعُ فِي مَنَامِهِ، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللّٰهِ ﷺ فَقَالَ لَهُ النَّبِيّﷺ:إِذَا اضْطَجَعْتَ لِلنَّوْمِ فَقُلْ:بِسْمِ اللّٰهِ اَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشيَاطينَ، وَاَنْ يَحْضَرُونَ فقَالَهَا فَذَهَبَ ذَلِكَ عَنْهُ وَكَانَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا:مَنْ بَلَغَ مِنْ بَنيِهِ عَلَّمَهُ إِيَّاهُنَّ، وَمَنْ كَانَ مِنْهُمْ صَغيرًا لَا يَعِيهَا كَتَبَهَا وَعَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ‘‘۔
    [خلق افعال العباد للبخاری: ص:۹۶،بتحقیق عبد الرحمن عمیرۃ]
    اس کو پیش کرنے کے بعد بریلوی مقررنے کہا کہ دیکھیں اس سند میں محمد بن اسحاق نہیں ہے اس لیے اس سند پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔
    جواباً عرض ہے کہ یہ بات کہنا یا تو اصول حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، یا صریح ہٹ دھرمی ہے ، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی محولہ کتاب ’’خلق افعال العباد‘‘ والی روایت کی سندمیں بھی محمدبن اسحاق ہی ہے۔
    دراصل’’ خلق افعال العباد‘‘ کا جونسخہ عبد الرحمن عمیرۃ صاحب کی تحقیق سے چھپا ہے اس میں غلطی سے مذکورہ حدیث کی سند میں محمدبن اسحاق کی جگہ محمدبن اسماعیل چھاپ دیا گیا ہے، مکتبہ شاملہ میں بھی یہی نسخہ ہے اوراس میں بھی یہی غلطی ہے، مقررموصوف نے جہالت یا ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے دوسرا راوی سمجھ لیا ۔
    حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ کتاب ہمارے ناقص علم کے مطابق پوری دنیا میں سب سے پہلے ہندوستان سے چھی اوراس میں حدیث کی سند میں محمدبن اسحاق ہی چھپا تھا۔ دیکھئے:( خلق افعال العباد :ص :۸۸مطبوعہ ہند)
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی ہندوستانی مطبوعہ نسخہ سے اس حدیث کی سنداپنی کتاب صحیحہ میں نقل کی جیساکہ بریلوی مقررنے بھی اس کا حوالہ دیا تھا لیکن آن جناب نے یہ مغالطہ دیا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے جبکہ ایساہرگزنہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
    البتہ اس حدیث کا ابتدائی ٹکڑا جس میں تعویذ والی مستدل بات نہیں ہے وہ چونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق میں دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے اس لیے صرف اس حصہ کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے اورساتھ میں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کردی ہے کہ اس حدیث میں تعویذوالی بات ہے اس کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ یہ بات صرف اسی ضعیف حدیث ہی میں ہے اس لیے یہ ضعیف ہے۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ’’ الصحیحۃ ‘‘میں لکھتے ہیں:
    قلت:’’لكن ابن إسحاق مدلس وقد عنعنه فى جميع الطرق عنه، وهذه الزيادة منكرة عندي، لتفرده بها‘‘۔واللّٰه اعلم
    میں (البانی)کہتاہوں:’’لیکن ابن اسحاق مدلس ہیں اورتمام طرق میں عن سے روایت کیا ہے ، اوریہ زیادتی میرے نزدیک منکر ہے کیونکہ اسے صرف ابن اسحاق نے ہی بیان کیا ہے‘‘۔
    [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۱؍۵۲۹]
    اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب’’ خلق افعال العباد مطبوعہ ھند‘‘ سے اس روایت کی سند ان الفاظ میں پیش کی ہے:
    ’’وقد علقه البخاري فى افعال العباد (ص:۸۸طبع الهند): قال احمد بن خالد حدثنا محمد بن إسحاق به مثل لفظ ابن عياش‘‘۔
    [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۱؍۵۲۹]
    لیکن بریلوی مقررنے یہ سب کچھ دیکھنے اورپڑھنے کے باوجود بھی عوام کودھوکہ دیااوران کے سامنے صرف یہ کہا کہ اہل حدیث کے بہت بڑے عالم البانی نے بھی اسے صحیحہ میں نقل کیا ہے۔
    نیز اسی صحیحہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’خلق افعال العباد‘‘ کے ہندوستانی مطبوعہ نسخہ سے مذکورہ حدیث کی سندمیں محمدبن اسحاق کانام نقل کیا ہے لیکن بریلوی مقررنے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں ۔
    ہندوستانی مطبوعہ نسخہ کے علاوہ بلاد عرب میں امام بخاری رحمہ اللہ کی یہی کتاب شیخ فہدبن سلیمان الفہید کی تحقیق سے بھی چھپی ہے اوراس میں اس حدیث کی سند میں محمدبن اسماعیل کے بجائے محمدبن اسحاق ہی ہے ۔
    صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس کتاب کے جتنے بھی مخطوطے ہیں ہماری ناقص علم کے مطابق کسی ایک میں بھی مذکورہ سند میں محمدبن اسحاق کی جگہ محمدبن اسماعیل نہیں ہے، شیخ فہدبن سلیمان الفہید نے سات قلمی نسخوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کتاب کی تحقیق کی ہے لیکن کسی ایک بھی مخطوطہ میں انہیں محمدبن اسحاق کی جگہ محمدبن اسماعیل نظر نہیں آیا ، کیونکہ انہوں نے مذکورہ حدیث کی سند میں محمدبن اسحاق ہی کانام درج کیا ہے اورحا شیہ میں محمدبن اسحاق کے نام پرکوئی حاشیہ نہیں لگایا ہے اوراس مقام پر کسی بھی نسخے کا کوئی اختلاف ذکر نہیں کیا ہے۔

    ایک اورزبردست شہادت:
    امام بخاری رحمہ اللہ نے خلق افعال العباد میں جس راوی احمد بن خالد سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب’’ معرفۃ الصحابۃ:۵؍۲۷۲۷‘‘میں روایت کیا ہے اور امام ابونعیم رحمہ اللہ کی اس کتاب میں بھی احمد بن خالد کے استاذ کا نام محمد بن اسحاق ہی ہے ۔
    دوسری زبردست شہادت:
    امام بخاری رحمہ اللہ نے’’ خلق افعال العباد ‘‘میں جس راوی احمد بن خالد سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب (عمل الیوم واللیلۃ: ص:۴۵۳،رقم:۷۶۶)میں روایت کیا ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ کی اس کتاب میں بھی احمد بن خالد کے استاذ کا نام محمد بن اسحاق ہی ہے ۔ملاحظہ ہو امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۳)نے کہا:
    أَخْبرنِي عمرَان بن بكار قَالَ حَدثنَا أَحْمد بن خَالِد قَالَ حَدثنَا ابْن اسحق عَن عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده قَالَ:’’ كَانَ خَالِد بن الْوَلِيد بن الْمُغيرَة رجلا يفزع فِي مَنَامه فَذكر ذَلِك لرَسُول اللّٰه ﷺ فَقَالَ لَهُ النَّبِي ﷺإِذا اضطجعت فَقل باسم اللّٰه أعوذ بِكَلِمَات اللّٰه التَّامَّة من غَضَبه وعقابه و (من) شَرّ عباده وَمن همزات الشَّيَاطِين وَأَن يحْضرُون فَقَالَهَا فَذهب ذَلِك عَنهُ‘‘۔
    [عمل الیوم واللیلۃ للنسائی: ص:۴۵۳رقم:۷۶۶]

    تیسری زبردست شہادت:
    امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’خلق افعال العباد‘‘ میں جس راوی احمد بن خالد سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب (التمہید:۲۴؍۱۱۰) میں روایت کیا ہے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اس کتاب ’’التمہید‘‘ میں بھی احمد بن خالد کے استاذ کا نام محمد بن اسحاق ہی ہے ۔
    ملاحظہ ہو:
    امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (المتوفی۴۶۳)نے کہا:
    أَخْبَرَنَا قَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَنْجَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جده كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ يُرَوَّعُ فِي مَنَامِهِ قَالَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللّٰهِ ﷺفَقَالَ النَّبِيّﷺإِذَا اضْطَجَعْتَ لِلنَّوْمِ فَقُلْ بِسْمِ اللّٰهِ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَشَرِّ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَقَالَهَا فَذَهَبَ عَنْهُ ذَلِكَ فَكَانَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَمْرٍو يُعَلِّمُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ كَانَ منهم صغيرا لَا يُقِيمُهَا كَتَبَهَا وَعَلَّقَهَا عَلَيْهِ۔
    [التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید:۲۴؍۱۱۰]

    کچھ مزید شواہد:
    مذکورہ حقائق کے ساتھ اس بات پر بھی غورکیجئے کہ :
    احمد بن خالد کے اساتذہ میں محمدبن اسحاق کا ذکر تو ملتا ہے مگر محمدبن اسماعیل کاذکرکہیں نہیں ملتاہے۔
    عمرو بن شعیب کے شاگردوں میں محمدبن اسحاق کا ذکر تو ملتا ہے مگر محمدبن اسماعیل کاذکرکہیں نہیں ملتاہے۔
    مذکورہ حدیث بہت ساری کتب احادیث میں ہے مگر سب میں محمدبن اسحاق ہی کے طریق سے مروی ہے۔
    ’’محمدبن اسماعیل‘‘کون؟
    ان تفصیلات کے بعد بھی اگرکوئی بضد ہے کہ خلق افعال العباد میں محمد بن اسحاق نہیں بلکہ محمدبن اسماعیل ہے توہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اس طبقہ میں اس راوی کا تعین کریں اوراس کے حالات اوراس کی توثیق پیش کردیں، نیزاس کے اساتذہ اورتلامذہ کی فہرست بھی پیش کریں۔
    اوراگریہ معلومات نہ پیش کرسکیں تو خود اس راوی کی عدم معرفت کے سبب یہ روایت بھی ضعیف قرارپائے گی۔
    خلاصۂ کلام:
    الغرض یہ کہ مذکورہ روایت کی صرف اورصرف ایک ہی سند ہے جس میں ابن اسحاق مدلس راوی نے عن سے روایت کیا ہے اورکسی بھی طریق میں نہ تو اس کے سماع کی تصریح ہے اورنہ ہی اس کا کوئی ثقہ متابع موجود ہے ، اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings