-
کیا ایک ہی امام دو جگہ نماز عید کی امامت کرواسکتا ہے؟ یہ سوال کثرت سے پوچھا جارہا ہے کہ کیا ایک ہی امام دو جگہ الگ الگ لوگوں کو نماز عید پڑھا سکتا ہے؟
اس بارے میں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ، اس کی دلیل نماز خوف کا وہ طریقہ ہے جس میں اللہ کے نبی ﷺنے ایک گروہ کو دو رکعات پڑھا کر سلام پھیرا اس کے بعد دوسرے گروہ کو دو رکعات پڑھا کر سلام پھیرا ملاحظہ ہو یہ روایت:
امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۱)نے کہا:
حدثنا عبد اللّٰه بن عبد الرحمٰن الدارمي، اخبرنا يحيي يعني ابن حسان، حدثنا معاوية وهو ابن سلام، اخبرني يحيي، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان جابرا، اخبره، ’’انه صلى مع رسول اللّٰهﷺصلاة الخوف، فصلي رسول اللّٰه ﷺباحدي الطائفتين ركعتين، ثم صلى بالطائفة الاخري ركعتين، فصلي رسول اللّٰه ﷺاربع ركعات، وصلي بكل طائفة ركعتين‘‘
ابو سلمہ عبدالرحمٰن نے روایت کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہ:’’ انہوں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز خوف پڑھی۔ اور رسول اللہ ﷺنے ایک گروہ کے ساتھ دو رکعت پڑھی اور پھر دوسرے گروہ کے ساتھ دو رکعت، تو آپ ﷺنے چار رکعت پڑھیں ہر گروہ کے ساتھ دو رکعت‘‘ [ صحیح مسلم:۲؍۵۷۶،رقم :۸۴۳]
اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے دونوں گروہ کو دو سلام سے علیحدہ علیحدہ نماز پڑھائی۔
مسند احمد کی ایک روایت میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے صراحت بھی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے ہرگروہ کو الگ الگ سلام سے نماز پڑھائی ۔[مسند احمد ط الرسالۃ:۳۴؍۱۳۶،وقال المعلقون علیہ:صحیح لغیرہ]
یہی صراحت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بھی ہے ۔[صحیح ابن خزیمۃ ت ماہر:۲؍۴۸۸، وقال المحقق:حدیث صحیح]
جابر رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں بھی یہ صراحت موجود ہے :[شرح معانی الآثار :۱؍۳۱۷،ورجالہ ثقات والحدیث صحیح]
صراحت والی احادیث میں کچھ کمزوریاں ہیں جو قادح نہیں ہیں ، اور بہرصورت یہ تمام احادیث باہم مل کر ضرور پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہیں۔ نیز دیکھیں:[المحلی بالآثار:۳؍۱۴۶]
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺنے ایک ہی نماز دو گروہوں کو علیحدہ علیحدہ پڑھایا ، اس طرح ہرگروہ نے دو رکعات پڑھیں ،اور اللہ کے نبی ﷺنے چاررکعات پڑھیں ، جن میں دو رکعات آپ ﷺکے لئے فرض تھیں اور باقی دو نفل ، امام شافعی رحمہ اللہ نے یہی تشریح کی ہے ۔[الام للشافعی:۱؍۲۰۰]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک امام دو علیحدہ علیحدہ جماعت کی امامت کرا سکتا ہے۔ لہٰذا موجودہ صورت حال میں گاؤں وغیرہ میں اگر ایک امام دویا اس سے زائد جگہ کے لوگوں کو باری باری نماز عید پڑھا دے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
نیز معاذبن جبل رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جس میں مذکور ہے معاذ رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی ﷺسے ساتھ نماز پڑھ کر اپنے علاقہ کے لوگوں کو بھی وہی نماز پڑھاتے تھے۔[صحیح البخاری : رقم: ۷۰۰]
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنے قوم کے لوگوں کو امامت کرواتے تھے اس کے باوجود وہ اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ والی جماعت میں بھی مقتدی بن کر نماز پڑھتے تھے۔
اور اسی جماعت میں جب وہ بحیثیت مقتدی شریک ہوسکتے ہیں تو بحیثیت امام بھی شریک ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ اصول ہے کہ جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کی امامت بھی صحیح ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ:
ایک ہی امام دو یا اس سے زائد جگہ کے لوگوں نماز عید کی امامت کرواسکتا ہے ، پہلی نماز امام کے حق میں فرض ہوگی اور باقی نفل ، واللہ اعلم
٭٭٭