-
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، یزید اور حدیث قسطنطنیہ یزید یا کسی بھی شخصیت کے اخلاق و کردار کی بابت درست موقف یہ ہے کہ جو باتیں ثابت شدہ ہوں انہیں ثابت مانا جائے اور جو باتیں ثابت شدہ نہ ہوں ان کی تردید کردی جائے خواہ اس کا قائل کوئی بھی امام ہو۔
بعض لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یزید کے بارے میں ان کا مکمل اور ہو بہو وہی موقف ہے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے۔
لیکن جیسے ہی ان کو یہ بتاؤ کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو یزید کو اس جیش مغفور میں شمار کیا جس کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی کہا ہے تو یہ جھٹ سے ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر رد کرنا شروع کردیتے ہیں۔
یہ دوغلی پالیسی نہیں تو اور کیا ہے ؟
اگر یزید سے متعلق اپنے موقف کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنا ہے تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مکمل موقف کو اپنائیں یا پھر صاف صاف کہیں کہ آپ کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے مکمل اتفاق نہیں ہے ۔
جیش مغفور میں یزید کی شمولیت سے متعلق ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی:۷۲۸)نے کہا:
’’ ولهذا كان الصحابة رضي اللّٰه عنهم يغزون مع يزيد وغيره، فإنه غزا القسطنطينية فى حياة أبيه معاوية رضي اللّٰه عنه وكان معهم فى الجيش أبو أيوب الأنصاري رضي اللّٰه عنه وذلك الجيش أول جيش غزا القسطنطينية. وفي صحيح البخاري عن ابن عمر رضي اللّٰه عنهما، عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أنه قال:أول جيش يغزو القسطنطينية مغفور لهم ‘‘۔
’’ اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم یزید وغیرہ کے ساتھ جہاد کرتے تھے ۔چنانچہ یزیدنے اپنے والد معاویہ کی زندگی میں قسطنطنیہ پرحملہ کیا اور اس کے ساتھ لشکر میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔ اوریہ پہلا لشکر تھا جس نے قسطنطنیہ پرحملہ کیا اور صحیح بخاری میں ابن عمر (صحیح ام حرام ) رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا پہلا لشکر جو مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پرحملہ کرے گا وہ سب کے سب مغفور (بخشے ہوئے ) ہوں گے‘‘۔
[منہاج السنۃ النبویۃ:۴؍۵۴۴]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرح ان کے شاگرد حضرات اور دیگر کئی اہل علم نے بھی یہی بات لکھی ہے چنانچہ:
امام مہلب بن احمد اسدی (۴۳۵ھ)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’…في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر‘‘
’’اس حدیث سے یزید کی خلافت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتاہے کہ وہ جنتی ہے نیز اس حدیث میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ہے کیونکہ سب سے پہلے انہوں نے سمندری لڑائی لڑی اوران کے لڑکے یزید کے لئے بھی منقبت ہے کیونکہ یزید ہی نے سب سے پہلے مدینہ قیصر (قسطنطنیہ )پر حملہ کیا‘‘۔
[قید الشرید :ص:۵۷،فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۶؍۱۰۲]
امام ابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی۵۷۱ھ) نے بھی جیش مغفور سے متعلق ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا
’’أم حرام كانت من الفوج الأول الذين غزوا قبرس فى خلافة عثمان وهذه من الفوج الآخر وإنما غزا المنذر بن الزبير القسطنطنية مع يزيد بن معاوية فى أيام أبيه ‘‘۔
’’ام حرام اس پہلے لشکر میں تھیں جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قبرس پر حملہ کیا اور یہ خاتون دوسرے لشکر میں تھیں ، اور منذر بن الزبیر نے یزید بن معاویہ کے ساتھ ان کے والد کے دور میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا ‘‘۔
[تاریخ دمشق لابن عساکر:۷؍۲۸۰]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (المتوفی۷۷۴ھ) نے کہا:
’’كانت وفاته وهو محاصر القسطنطينية مع يزيد بن معاوية وهو أول جيش غزاها وهم، مبشرون بالجنة والمغفرة‘‘
’’ان (ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ)کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ وہ یزید بن معاویہ کے ساتھ قسطنطنیہ کامحاصرہ کئے ہوئے تھے ۔اوریہ پہلالشکرتھاجوقسطنطنیہ پرحملہ آور ہوا، اوراس لشکروالے جنت اور مغفرت کی بشارت یافتہ ہیں‘‘۔
[جامع المسانید والسنن:۹؍۳۹]
ایک دوسری جگہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقد كان يزيد أول من غزي مدينة قسطنطينية فى سنةو تسع واربعين فى قول يعقوب بن سفيان وقال خليفة بن خياط سنة خمسين ثم حج بالناس فى تلك السنة بعد مرجعه من هذه الغزوة من أرض الروم وقد ثبت فى الحديث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال أول جيش يغزو مدينة قيصر مغفور لهم‘‘۔
’’یزید ہی نے سب سے پہلے قسطنطنیہ کے شہر پرحملہ کیا ۔ یہ حملہ یعقوب بن سفیان کے بقول(۴۹ھ)میں ہوا اور خلیفہ خیاط کے بقول(۵۰ھ)میں ہوا ۔ پھر اس حملہ سے لوٹنے کے بعد اسی سال لوگوں کا امیر بن کراس نے حج کیا ۔اورصحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہے کہ میری امت کا پہلا لشکر جو مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پرحملہ کرے گا وہ سب کے سب مغفور(بخشے ہوئے) ہوں گے‘‘۔
[البدایۃ والنہایۃ، مکتبۃ المعارف:۸؍۲۲۹]
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
’’ له على هناته حسنة، وهى غزو القسطنطينية، وكان أمير ذلك الجيش، وفيهم مثل أبي أيوب الأنصاري‘‘۔
’’یزید کی کوتاہیوں کے باوجود اس کی ایک نیکی ہے اور وہ قسطنطنیہ پرحملہ ہے ،یزید اس لشکر کا امیر تھا اور اس لشکر میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے لوگ تھے‘‘۔
[سیر أعلام النبلاء للذہبی:۴؍۳۶]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
’’فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق‘‘۔
’’یزید اس پہلے لشکرکا امیرتھا، اس پرسب کا اتفاق ہے‘‘۔
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۶؍۱۰۳]
امام قسطلانی (المتوفی:۹۲۳) فرماتے ہیں:
’’وكان أول من غزا مدينة قيصر يزيد بن معاوية ومعه جماعة من سادات الصحابة كابن عمرو بن عباس وابن الزبير وأبي أيوب الأنصاري وتوفي بها سنة اثنتين وخمسين من الهجرة، واستدلّ به المهلب على ثبوت خلافة يزيد وأنه من أهل الجنة لدخوله فى عموم قوله مغفور لهم‘‘۔
’’مدینہ قیصر پر سب سے پہلے جس نے حملہ کیا وہ یزیدبن معاویہ ہے اس کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کی جماعت تھی جیسے عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس و عبداللہ بن زبیر اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم۔ اورابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ یہیں پر۵۲ہجری میں فوت ہوئے ۔اوراس حدیث سے مہلب نے یزید کی خلافت پراستدلال کیا ہے اوراس بات پر کہ یزید اہل جنت میں سے ہے کیونکہ مغفورلہ کے عموم میں وہ داخل ہے‘‘۔
[إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری :۵؍۱۰۴]
نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
’’استدل به على خلافة يزيد ، وأنه من أهل الجنة‘‘۔
’’اس حدیث سے یزید کی خلافت پر استدلال کیا گیا ہے اوراس بات پر کہ یزید اہل جنت میں سے ہے‘‘۔
عون الباری لحل ادلۃ البخاری:۴؍۳۹۱]
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ اہل سنت کے کئی ائمہ نے یہ ذکر کیا ہے اور یہ صراحت کی ہے کہ یزید جیش مغفور میں شامل تھا بلکہ اس کا امیرتھا ۔
اور ابن حجر رحمہ اللہ نے تو اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ یزید اس لشکر کا امیر تھا ۔