-
صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت سے متعلق مندرجہ باتوں پر اعتقاد رکھنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے:
۱۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت مسلَّم ہے۔
۲۔ ان کے درجات متفاضل ہیں۔
۳۔ ان سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔
۴۔ ان کے لیے دعا کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔
۵۔ ان کا ذکر خیر کیا جائے۔
۶۔ ان کی رحمت و رأفت کی گواہی دی جائے۔
۷۔ ان کی بشری غلطیوں پر سکوت اختیار کیا جائے۔
۸۔ ان کے آپسی اختلافات پر خاموشی اختیار کی جائے۔
۹۔ ان کے ساتھ جو بغض رکھے، ان سے بعض رکھا جائے۔
۱۰۔ ان کے منہج اور طریقہ کار کی اتباع کی جائے۔
اس باب میں اہل السنہ والجماعہ کے مخالفین :
۱۔ خوارج :
جو حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں، مگر حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سمیت جنگ جمل و صفین میں شریک ہونے والے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر گردانتے ہیں۔
۲۔ معتزلہ :
أ۔ واصل بن عطا کے نزدیک جنگ صفین میں شامل ہونے والی صحابۂ کرام کی دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت فاسق ہے۔
ب۔ عمرو بن عبید کے نزدیک دونوں ہی جماعت فاسق ہے۔
۳۔ نواصب :
جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔
۴۔ روافض:
جو چند صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر اس مقدس جماعت کے تمام افراد کو لعن طعن اور ان کی تکفیر کرتے ہیں۔
اس باب میں مخالفین کی تردید کے لیے چند بنیادی اصول :
۱۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت مسلم ہے۔
۲۔ وہ عادل ہیں، اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی ہے (اور اگر کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال صالحہ اور استغفار کی بدولت یقیناً انہیں معاف کر دیا ہے)۔
۳۔ کسی ایک صحابیٔ رسول (ﷺ)کی عدالت پر طعن کرنا گویا تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر طعن کرنا ہے۔
۴۔ صحابۂ کرام سے متعلق روایات تین حال سے خالی نہیں:
أ۔ محکم روایات ،اور یہی اصل ہیں۔
ب۔ متشابہ روایات ، اس صورت میں محکم روایتوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
ج۔ جھوٹی اور بناوٹی روایات ، ان کی تردید کرنا اور انہیں نظر انداز کرنا ضروری ہے۔
۵۔ اس باب میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق شرعی نصوص ہی کا اصل اعتبار ہے، جبکہ تاریخی روایات ان کے تابع ہیں۔
نوٹ:
یہ علمی فائدہ استاذ محترم دکتور صالح سندی حفظہ اللہ کے دروس مستفاد ہے۔
٭٭٭