Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • حسدا من عند أنفسہم (ایک حسد کرنے والے کا نصیحت آموز واقعہ)

    امیہ بن ابی الصلت طائف کا رہنے والا تھا۔ اس کا تعلق ہوازن کی شاخ ثقیف سے تھا۔ اس کی ماں رقیہ عبد مناف کی پوتی تھی۔ گویا باپ بنو بکر سے اور ماں قریش سے تھی۔ یاد رہے ہوازن وہی قبیلہ ہے جس سے آپ ﷺ کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ کا تعلق تھا۔ بنو بکر اور بنو سعد اپنی زبان دانی اور فصاحت میں مشہور تھے۔ دونوں کا تعلق ہوازن سے ہے۔
    امیہ بن ابی الصلت محض بنو ثقیف ہی نہیں زمانۂ جاہلیت میں پورے عرب کا مشہور شاعر تھا۔ زبان پختہ، اسلوب نہایت قوی اور انداز موثر تھا۔ صاف ستھری فصیح زبان میں شاعری کرتا تھا۔ اس کا ایک مکمل دیوان ہے جو اس کے زبان وبیان کی قدرت پر شاہد ہے۔ مگر اس کی اصل شہرت یہ نہیں ہے۔
    امیہ بن ابی الصلت ان لوگوں میں سے تھا جنہیں حنفاء کہا جاتا ہے۔ جو زمانۂ جاہلیت میں بھی شرک سے دور تھے، بتوں کی پوجا سے نفرت کرتے تھے، ایک اللہ کے قائل اور یوم آخرت پر یقین رکھتے تھے اور جنت و جہنم کی باتیں کیا کرتے تھے، امیہ کی شاعری میں یہ چیزیں جگہ جگہ مل جائیں گی، اسی لیے امیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے:’’أسلم شعره، وكفر قلبه ‘‘’’کہ اس کی شاعری نے تو اسلام قبول کرلیا تھا، مگر دل نے کفر ہی کو ترجیح دیا‘‘۔
    بس ایک بڑا فرق تھاکہ امیہ اپنی حنفیت میں ان حنفاء سے کہیں آگے تھا، اس کے حصے میں پیشوائی آئی تھی، بکثرت سفر کرتا، یہود و نصاریٰ کے علماء سے ملاقاتیں کرتا، ان سے دینی گفتگو ہوتی، آسمانی کتابوں کو پڑھتا، ان میں موجود حقائق سے براہ راست استفادہ کرتا، ان چیزوں نے اس کی فکر پر گہرا اثر ڈالااور وہ حنیفیت کی طرف مائل ہوا، پھر اس پر پختگی کے ساتھ جم گیا۔
    تاہم امیہ صرف توحید کا قائل ہی نہیں تھا، بلکہ اس کی طرف دعوت بھی دیتا تھا۔ لوگوں کو بتوں کی پوجا سے منع کرتا، اللہ تعالیٰ سے ڈراتا اور یوم آخرت کی باتیں بکثرت کرتا، یہاں تک کہ اس میں مشہور ہوگیا۔
    چونکہ امیہ کے تعلقات یہود و نصاریٰ سے تھے، اہل علم کی مجالست تھی، خود تورات و انجیل پڑھا کرتا تھا اس لیے اسے یہ معلوم تھا کہ آخری نبی کا ظہور بس ہونے ہی والا ہے، اور اس کا ظہور اسی جزیرۂ عرب میں ہوگا۔ یہ باتیں بھی وہ لوگوں سے برابر کیا کرتا تھا۔
    لیکن!!!
    امیہ یہ سوچتا تھا کہ جس ڈھب سے وہ زندگی گزار رہا ہے بھلا اس کے علاوہ نبوت کسی اور کو کیسے مل سکتی ہے؟ چنانچہ یہیں اسے ہوائے نفس نے جا لیا، دھیرے دھیرے اسے یہ یقین ہو چلا کہ نبوت کے شرف سے وہی با مشرف ہوگا۔ ہوائے نفس نے اس یقین کو اس کے یہاں اس قدر پختہ کردیا کہ تورات و زبور کو پڑھنے والا اور اہل علم کی صحبت میں وقت گزارنے والا یہ نہیں سمجھ سکا کہ رسالت تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنا بڑا شرف اور ایسی سنگین ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے اللہ کے بہت ہی خاص بندے مخصوص ہوتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے فضل خاص و حکمت بالغہ سے یہ شرف وفضیلت عطا کرتا ہے:اللّٰہ أعلم حیث یجعل رسالتہ۔
    جب آپ ﷺ کا ظہورا ہوا اور اسے نبوت محمدیہ کی خبر لگی تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کے سارے خواب یکلخت چکنا چور ہوگئے۔
    بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس نے آپ ﷺ سے ملاقاتیں بھی کیں۔ آپ کی حقانیت کا متعدد بار اعتراف بھی کیا اور آپ کے برحق ہونے کی گواہی بھی دی۔
    تاہم اگر وہ روایت درست مان لی جائے جس میں آتا ہے کہ امیہ نے اپنے مرض الموت میں کہا: ’’ قد دنا أجلي، وهذه المرضة منيتي، وأنا أعلم أنَّ الحنيفية حق، ولكن الشك يداخلني فى محمد‘‘۔
    تو اس میں موجود شک سے مقصود وہ معہود شک نہیں لگتا جو یقین کے بالکل منافی ہوتا ہے۔
    وہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت اور ہوائے نفس کے اس ملغوبہ کا نام ہے جس کی بنیاد اس امر پر رکھی جاتی ہے کہ جو چیز میری رائے، میری مرضی، میری خواہش، میری مصلحت اور میرے یقین و اذعان کے خلاف ہو، وہ بھلا کیونکر درست ہو سکتی ہے؟
    اس طرح وہ رائے جس قدر بھی صداقت پر مبنی ہو ایک ہوی پرست مخالف کے یہاں ہمیشہ کم از کم شک کے دائرے میں رہتی ہے، اور ہوائے نفس سے مغلوب یہ کمزور انسان کسی بات کی صداقت کا اعتراف کرنے سے محض اس لیے عاجز ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی خواہش، اس کی مرضی اور اس کی مصلحت کے خلاف ہوتی ہے۔
    امیہ کا وہ شک بھی در اصل ہوائے نفس کا وہ غلغلہ تھا جو اس کی رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا، جو اس کے شعور و احساس پر اس قدر مسلط ہو چکا تھا کہ وہ یہ تصور نہیں کر پاتا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی اور بھی نبی ہو سکتا ہے؟ اور اس کی موجودگی میں نبوت کسی اور کو بھی مل سکتی ہے؟ یہ شدید احساس بسا اوقات اسے ایک ایسے موہوم شک کی طرف لے جاتا تھا جس میں اپنی ذات یا اپنے موقف کے لیے کوئی ٹمٹماتی ہوئی امید چھپی ہو، مگر اس کی حیثیت حسرت و یاس اور نامرادی کے استعارہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
    جس طرح جب ہم کوئی ایسی خبر سنتے ہیں جو ہماری خواہش، ہماری مصلحت، ہمارے پختہ یقین اور ہماری تمام امیدوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہے، تو پہلے مرحلہ میں ہم اس کا یقین نہیں کرتے۔ اس پر شک کی دبیز چادر چڑھاتے اور اسے جھٹلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ جب انکار کی کوئی گنجائش نہیں بچتی اور وہ خبر حقیقت بن کر ہمارے سامنے پوری طاقت سے کھڑی ہوجاتی ہے، تب بھی ہم اپنے دل کے نہاں خانے میں کہیں نہ کہیں محض تسلی ہی کی خاطر اس کی تکذیب کرتے اور امکانیات کے سارے زاویے سامنے رکھ کر اس کے اطراف شک کی سوئی گھماتے رہتے ہیں بھلے خارج کا یقین اس کا ساتھ بالکل نہ دے۔ نفس انسانی کے عجائب میں سے یہ بھی ایک بڑا عجوبہ ہے کہ ایسے حالات میں وہ شک و یقین دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ بسااوقات اس کی اندرونی خواہش شک کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ عقل اور حقیقت یقین کے ساتھ۔ اس حالت میں اس کے نفس کے احوال ہوتے ہیں اور اس کا موقف عموماً انہی احوال کے اردگرد گھومتا رہتا ہے۔ اگرچہ حاسم مواقف اور سنجیدہ ظروف اسے اعتراف حق پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ اس کنڈیشن میں اگر مگر کی بوسیدہ چادر میں لپٹا یہی شک نفس انسانی کے لیے اس کی ٹوٹتی امید کا آخری سہارا، اس کی حسرت و یاس کا استعارہ اور اس کی نامرادی کا کنایہ بنا رہتا ہے۔ جبکہ دل میں حیرت و استعجاب اور مسلسل کشمکش کی ایک کیفیت بنی رہتی ہے۔
    جس قدر ہمارا جھوٹا یقین پختہ اور ہمارا ٹوٹتا خواب قوی ہوگا، شک کا یہ کانٹا بھی ہمارے دل میں اسی قدر زور سے چبھتا اور کھٹکتا رہے گا۔ بھلے ہی اس شک کی ایک سلیم فطرت انسان کے یہاں کوئی حیثیت ہی نہ ہو، بلکہ اسے یہ ایک مضحکہ خیز چیز لگتی ہو۔ نفس انسانی میں موجود عجائب کی یہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے جس سے انکار نا ممکن سا لگتا ہے۔
    امیہ کا یہ شک بھی -واللہ اعلم- کچھ ایسے ہی لگتا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’یداخلنی‘‘کا یہ لفظ ’’یخالجنی‘‘ سے متقارض ہو، اور کہنے والا جان بوجھ کر بظاہر اس لفظ سے بچ تو رہا ہے مگر سیاق وظروف اس تقارض پر بخوبی دلالت کر رہے ہیں۔ گویا ’’یخالجنی‘‘سے متقارض’’یداخلنی‘‘کی یہ دقیق تعبیر امیہ کے خلجات نفس اور داخلی کیفیات کی نہ صرف بھرپور انداز میں ترجمانی کر رہی ہے بلکہ اس کی نفسیاتی کیفیات کے ساتھ ساتھ، ہوائے نفس اور حق کے درمیان چل رہی اس کے اندر کی جنگ اور کشمکش کو بھی بہت اچھی طرح درشا رہی ہے۔
    ورنہ ایسے ذی علم و جہاں دیدہ پر بھلا آپ کے نبوت کی حقانیت کیسے مخفی رہ سکتی تھی؟ یہی وجہ ہے کہ متعدد بار اس سے آپ ﷺ کی صداقت اور نبوت کے تئیں حقانیت کا اعتراف منقول ہے۔
    جب آپ ﷺ کی نبوت کا اعلان ہوگیا تو اب اس کے پاس دو راستے تھے: ایک راستہ ایمان و اتباع کا تھا جو اس کے علم کا متقاضی تھا کہ یہ بندہ ایمان لاکر سابقین اولین میں اپنا نام لکھوا لیتا اور دنیا وآخرت میں سرخرو ہوتا۔ دوسرا راستہ مکابرت و عناد اور حقد و حسد کا تھا جس کی طرف ہوائے نفس اسے بلا رہا تھا۔
    چنانچہ اس نے دوسرا راستہ چنا، اور ہوائے نفس نے اس کے سارے علم کو آخر کار چت کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بندہ نبوت کے بارے میں اس قدر علم رکھنے اور زمانۂ جاہلیت میں توحید کا داعی رہنے کے باوجود ایمان نہیں لا سکا، اور کفر کی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔
    امیہ کے سوانح پڑھیں تو کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بسا اوقات اس کا میلان ایمان کی طرف ہوتا تھا، مگر ہوائے نفس کا تسلط اس کے نفس پر اس قدر شدید تھا کہ ایمان نہیں لا پاتا اور کسی نہ کسی بہانے اس سے صرف نظر کر جاتا۔
    امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا:’’آپ ﷺ سے حسد کی بنا پر یہ بندہ ایمان نہیں لایا اور کفر کی موت مرا‘‘۔
    حسد انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ جب یہ گندگی اپنی تمام آلائشوں کے ساتھ دل میں اترتی ہے تو حاسد کوکسی بھی حد تک لے کر چلی جاتی ہے۔ حاسد بھلے ہی خود حسد کی آگ میں جل جل کر خاک ہوجائے اور اپنا سب کچھ جلا ڈالے، مگر اس کی پوری کوشش رہتی ہے کہ محسود کو خاک کردے، اور جس نعمت کی بنا پر وہ اس آگ میں جل رہا ہے وہ محسود سے چھن جائے تاکہ اسے سکون ملے۔ کوئی دوسری چیز اسے سکون نہیں فراہم کر سکتی۔
    حاسد کے پاس نہ کوئی اصول ہوتا ہے نہ ضابطہ، نہ کوئی اخلاقی قاعدہ نہ انسانی حوالہ۔ محسود کے تئیں وہ ہمیشہ متناقض اور ہمہ وقت نچلی سے نچلی سطح تک اترنے کے لیے تیار رہتا ہے، بس محسود کو زک پہنچ جائے اور اس سے وہ نعمت چلی جائے جو حاسد کو بے چین کیے رہتی ہے۔
    اب آپ امیہ کی حالت پر غور کریں۔
    امیہ غزوۂ بدر کے بعد جب شام کے سفر سے لوٹا تو حجاز آیا۔ بدر سے گزرا تو قلیب بدر (میدان بدر کا وہ کنواں جس میں صنادید قریش کی لاشیں ڈال دی گئی تھیں)تک گیا۔ اسے بتایا گیا کہ اس قلیب میں قریش کے بڑے بڑے سردار دفن ہیں جو غزوہ ٔبدر میں محمد ﷺسے جنگ میں مارے گئے تھے۔ نیز اسی میں ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ بھی ہیں، در اصل ربیعہ امیہ کا ماموں لگتا تھا، اس طرح یہ دونوں اس کے ماموں زاد بھائی بھی تھے، یہ سن کر امیہ نے ان کے سوگ میں اپنی اونٹنی کے کان کاٹ دیئے۔ اور اپنا وہ مشہور قصیدہ کہا جس میں نہ صرف بدر کے مقتولین کا نوحہ اور صحابۂ کرام کی ہجو تھی، بلکہ کھل کر اس نے قریش کو اس بات پر ابھارا کہ وہ محمد ﷺ سے اپنے مقتولین کا بدلہ لیں۔
    غور کریں یہ اس شخص کی حالت تھی جو زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کو توحید کی طرف بلاتا اور یوم آخرت پر ایمان کی بات کرتا تھا، جنت و جہنم جس کی گفتگو کا محور اور ایک اللہ کی عبادت جس کے مجالس کا عنوان ہوا کرتا تھا۔ حسد نے اس کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ جب موحد اعظم ﷺ توحید کی حقیقی دعوت لے کر آئے تو یہ ان کا دشمن ہوگیا اور انہی لوگوں کی صف میں جا کھڑا ہوا جو کفر و شرک میں لت پت اور یوم آخرت کے منکر تھے۔ یہ حسد کا شاخسانہ تھا، اس کے مکروہ نتائج تھے اور ایک حاسد کے بدترین انجام کی طرف واضح اشارہ تھا۔
    بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان: {وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِيَ آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَي الأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} اسی کے بارے میں ہے۔
    موجودہ آیات چاہے امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں ہوں یا بنی اسرائیل کے کسی اور شخص کے بارے میں، یا ان کا سبب نزول کچھ اور ہو، مگر آپ غور کریں کہ امیہ پر یہ آیتیں کس قدر فٹ آتی ہیں۔ امیہ کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا، شعور عطا کیا، زبان وبیان کی قدرت دی، اگر چاہتا تو آپ ﷺپر ایمان لاکر سرخرو ہوجاتا اور دنیا وآخرت میں بلند مرتبہ کا حامل ہوتا۔ مگر اس نے سفالت و پستی کا راستہ چنا، دنیا کو ترجیح دی، خواہش نفس کی پیروی کی۔ چنانچہ ہوائے نفس نے اس سے توفیق الٰہی کا استحقاق ہی چھین لیا، حقد و حسد اور کبر و عناد آڑے آگیا اور اس نے ایمان پر کفر کو ترجیح دے دی۔
    عدم توفیق بسا اوقات اچھے بھلے انسان کو سفالت کے کس درجہ میں پہنچاتی ہے اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ جب امیہ سے کہا گیا کہ تم محمد ﷺ پر ان کی حقانیت واضح ہوجانے کے باوجود ایمان کیوں نہیں لے آتے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں بھلا بنوثقیف کی ان عورتوں کو میں کیا جواب دوں گا جن سے کبھی میں کہا کرتا تھا کہ عنقریب میں نبوت سے سرفراز ہونے والا ہوں۔
    امیہ کو پختہ یقین تھا کہ نبوت جیسی عظیم نعمت کا حقدار تو وہ ہے۔ وہ کسی اور کو کیسے مل سکتی ہے؟ چنانچہ اس عظیم استحقاق کا فیصلہ وہ خود کرنے بیٹھ گیا۔ اور جب نبوت نہیں ملی تو اس نے سوچا اگر یہ شرف عظیم مجھے نہیں ملا، تو کسی اور کے لیے اس شرف کا اعتراف کیوں؟ بھلے ہی اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے اور دنیا وآخرت دونوں ہاتھ سے نکل جائے۔
    یہ زمانۂ جاہلیت میں حنیفیت کی زندگی گزارنے والے، جس زمانے میں شرک کا دور دورہ تھا اس وقت توحید کی طرف بلانے والے، جنت وجہنم کی باتیں کرنے والے اور کفریہ ماحول میں یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے اس امیہ بن ابی الصلت کا مائنڈ سیٹ تھا جس کے حصہ میں حنفاء کی پیشوائی آئی تھی۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings