-
نماز عید کی قضاء سے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک اثر امام ابن المنذر (المتوفی :۳۱۹)نے کہا:
حدثنا محمد بن علي، قال: ثنا سعيد، قال:ثنا هشيم، قال:أخبرنا مطرف، عن الشعبي، عن مسروق، عن ابن مسعود، قال:’’ من فاتته الصلاة مع الإمام يوم الفطر فليصل أربعا‘‘
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:’’جس کی عید الفطر کی نماز امام کے ساتھ چھوٹ جائے وہ چار رکعات پڑھے ‘‘[الأوسط لابن المنذر:۶؍۴۹۵، رقم:۲۱۴۶،وإسنادہ صحیح]
اس اثر سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نماز عید فوت ہوجانے کے بعد اس کی قضاء کے قائل نہ تھے اور انہوں نے جو چار رکعات پڑھنے کے لئے کہا وہ عوض اور بدل کے طور پر پڑھنے کے لئے کہا ہے ۔
اسی سے ملتی جلتی بات ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے ان کے الفاظ :
’’فهكذا يوم العيد إذا لم يمكنه الخروج مع الإمام سقط عنه ذالك وجوز له أن يفعل ما يقدر عليه ليحصل له من العبادة فى هذا اليوم ما يقدر عليه فيصلي أربعا وتكون الركعتان بدل الخطبة‘‘
’’یہی معاملہ عید کے دن کا ہے جب کسی کو امام کے ساتھ نماز عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو اس سے یہ نماز ساقط ہوجائے گی اور اس کے لئے یہ جائز ہوگا کہ وہ بقدر استطاعت کچھ پڑھ لے جس سے اس دن اسے عبادت کا ثواب مل جائے ، چنانچہ وہ چار رکعات پڑھ لے جن میں سے دو رکعات خطبہ کے بدل کے طور پر ہوں گی‘‘[مجموع الفتاوی، ت ابن قاسم:۲۴؍۱۸۶]
یعنی چار میں دو رکعات نماز عید کا بدل ہوں گی اور دو رکعات خطبہ کا بدل ہوں گی ۔
ان اقوال میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہاں بعد میں پڑھی جانے والی نماز کو نماز عید نہیں کہا جارہا ہے بلکہ نماز عید کو تو ساقط کہا جارہا ہے اور پھر اس کی جگہ بطور بدل چار رکعات پڑھنے کی بات کہی جارہی ہے۔
بعض لوگ اس قسم کے اقوال کا یہ مطلب سمجھ لیتے ہیں کہ بعد میں جو نماز پڑھنے کے لئے کہا گیا ہے وہ عید کی نماز ہے جبکہ یہ ائمہ بعد میں پڑھی جانے والی اس نماز کو عید کابدل مانتے ہیں نہ کہ عید کی نماز۔
بطور فائدہ یہ بھی عرض ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ سے جب رات کی نماز گیارہ رکعات چھوٹ جاتی تھی تو آپ ﷺ ان کی جگہ دن میں بارہ رکعات پڑھتے تھے ، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ بارہ رکعات رات کی نماز کی قضاء نہیں بلکہ بدل ہوتی تھیں۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ اثر کی استنادی حالت:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا:
’’أخرجہ سعید بن منصور بإسناد صحیح‘‘
’’اسے سعیدبن منصور نے صحیح سند سے روایت کیا ہے‘‘[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۲؍۴۷۵]
عرض ہے کہ سنن سعید بن منصور کا موجودہ نسخہ ناقص ہے اور اس میں یہ روایت موجود نہیں ہے ۔لیکن سعیدبن منصور ہی کے طریق سے امام ابن المنذر نے اسے روایت کیا ہے جیساکہ اوپر موجود ہے ۔
امام ابن المنذر رحمہ اللہ کی تضعیف اور اس کا جواب :
امام ابن المنذر نے اس سند کو اس لئے ضعیف کہا ہے کہ’’ مطرف ‘‘کے دوسرے شاگرد’’ الحسن بن صالح‘‘ کی روایت میں’’ مطرف‘‘ نے ایک’’ رجل‘‘ کے واسطے سے’’ شعبی‘‘ سے اسے نقل کیا ہے ۔[الأوسط لابن المنذر: ۶؍۴۹۵]
عرض ہے کہ اس کی مکمل سند نہیں مل سکی لیکن اگر واسطے والی یہ روایت ثابت ہوجائے تو بھی یہ ضعیف کی دلیل نہیں کیونکہ:
اولاً:
ممکن ہے کہ’’ مطرف‘‘ نے پہلے ’’رجل‘‘ کے واسطے سے سنا ہو اور بعد میں براہ راست ’’شعبی‘‘ سے بھی سن لیا اس لئے بعد میں’’ شعبی‘‘ سے ڈائریکٹ بیان کردیا ، کیونکہ اگر یہ مان لیں کہ انہوں نے بعد میں بھی’’ شعبی‘‘ سے نہیں سنا اور ’’رجل ‘‘کا واسطہ ساقط کرکے اپنے استاذ’’ شعبی‘‘ سے بیان کردیا تو اس سے ان کا مدلس ہونا ثابت ہوجائے گا لیکن کسی بھی امام نے انہیں مدلس نہیں کہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے یہاں تدلیس نہیں کی ہے ، بلکہ یہاں المزید فی متصل الاسانید کی صورت ہے ۔
ثانیاً:
اگر یہ کہاجائے کہ ’’مطرف ‘‘نے ’’رجل‘‘ کے واسطے سے ہی بیان کیا ہے جیساکہ ان کے شاگر’’د الحسن بن صالح ‘‘ کی روایت ہے لیکن ان کے شاگرد’’ہشیم‘‘ نے یہ واسطہ چھوڑ دیا ہے ، تو یہ بھی غیرمقبول ہے کیونکہ ایسی صورت میں’’ ہشیم‘‘ کا تدلیس تسویہ کرنا ثابت ہوجائے گا مگران پر تدلیس کا الزام تو ہے لیکن کسی بھی امام نے ان پرتدلیس تسویہ کا الزام نہیں لگایا ہے۔
نیز امام طحاوی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۱)نے کہا ہے کہ:
’’وسعيد بن منصور ،وهو أضبط الناس لألفاظ هشيم وهو الذى ميز للناس ما كان هشيم يدلس به من غيره‘‘
’’اورسعید بن منصور یہ ہشیم کے الفاظ کو سب سے زیادہ ضبط کرنے والے تھے ، اور یہی وہ امام ہیں جو ہشیم کی تدلیس شدہ روایت کو غیر تدلیس شدہ روایت سے الگ کرتے تھے‘‘[شرح معانی الآثار، ت النجار:۱؍۳۸۷]
اور یہاں پر’’ ہشیم ‘‘سے اس روایت کو نقل کرنے والے سعیدبن منصور ہی ہیں۔
اور اگرکہا جائے کہ’’ ہشیم‘‘ کی غلطی سے سند سے ’’رجل ‘‘کا واسطہ چھوٹ گیا تو یہ بھی مقبول نہیں کیونکہ’’ الحسن بن صالح ‘‘کے مقابل میں ’’ہشیم‘‘ زیادہ اوثق ہیں ۔کیونکہ’’ الحسن بن صالح‘‘ کتب خمسہ کے راوی ہیں اور امام ذہبی نے انہیں ’’صدوق ‘‘کہا ہے جبکہ’’ ہشیم‘‘ یہ کتب ستہ کے راوی اورثقہ وثبت امام ہیں ۔
علاوہ بریں امام طحاوی کے مذکورہ قول کو بھی سامنے رکھیں کہ سعیدبن منصور رحمہ اللہ’’ ہشیم‘‘ کے الفاظ کوسب زیادہ ضبط کرنے والے تھے اور یہاں ان سے سعید بن منصور ہی روایت کررہے ہیں ۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے ۔
نیز امام ابن رجب رحمہ اللہ نے امام ابن المنذر رحمہ اللہ کی تضعیف کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے:
’’ولا عبرة بتضعيف ابن المنذر له، فإنه روي بأسانيد صحيحة‘‘
’’ابن المنذر رحمہ اللہ کی تضعیف کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ روایت صحیح سندوں نے مروی ہے ‘‘[فتح الباری لابن رجب:۹؍۷۷]
سندوں میں بعض اختلاف اور اس کی حقیقت:
اس روایت کی تمام سندیں یکجا کریں تو ان میں ایک اختلاف یہ سامنے آتا ہے کہ بعض طرق میں عامرشعبی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جبکہ بعض طرق میں اتصال ہے۔لیکن اس اختلاف سے فرق نہیں پڑتا اور اتصال والے طریق سے یہ روایت صحیح ہے ، کیونکہ:
اولاً:
دراصل عامرشعبی ارسال کرنے والے راوی ہیں اور ارسال کرنے والے راوی کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اور مرسل عنہ کے بیچ کا واسطہ کبھی بیان نہیں کرتا اور کبھی بیان کردیتا ہے اس طرح کسی ایک روایت سے متعلق اس کی سند کی دو شکلیں ہوجاتی ہیں اور دونوں میں اس کا بیان ثابت ہوتا ہے۔
مثلاً عامرشعبی رحمہ اللہ ہی کو لے لیں یہ جب اللہ کے نبی ﷺ سے ارسال کرتے ہیں تو اپنے اور اللہ کے نبی ﷺ کے بیچ کا واسطہ حذف کردیتے ہیں جیساکہ مراسیل ابی داؤد وغیرہ میں ہے ، اور کبھی بیان بھی کردیتے ہیں ۔ اسی طرح یہ جب کسی صحابی سے ارسال کرتے ہیں تو اپنے اور اس صحابی کے بیچ کا واسطہ حذف کردیتے ہیں جیساکہ کتب مراسیل میں ان کے تعلق سے صراحت ہے ، اور کبھی بیان بھی کردیتے ہیں ۔
اس طرح کسی ایک مرفوع یا موقوف روایت سے متعلق ان کا دو انداز بیان ہوتا ہے اور ان کے شاگردوں سے وہ دونوں نقل ہوجاتا ہے۔
یہی معاملہ اس روایت کا بھی ہے۔
عامرشعبی کا تذکرہ کتب مراسیل میں موجود ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان کی مرسلات کا خصوصی ذکر بھی ہے۔ نیز عامر شعبی رحمہ اللہ کی مرسلات بہت قوی مانی جاتی ہیں بلکہ امام عجلی نے تو ان کی مرسل روایات کی تصحیح بھی کردی ہے ۔
اورامام ابن معین کہتے ہیں کہ عامرشعبی جب کسی آدمی سے روایت کریں اور اس کا نام لے لیں تو وہ ثقہ ہیں اور ان کی روایت حجت ہے۔ ابن معین رحمہ اللہ کا یہ قول بھی اشارہ کررہا ہے کہ وہ اپنے استاذ کا نام چھوڑدیا کرتے ہیں لیکن کبھی ذکربھی کردیتے اور جب ذکر کردیں تو ان کی بات معتبر ہے۔
مزید یہ کہ عامر شعبی رحمہ اللہ امام ومحدث ہونے کے ساتھ مجتہد ومفتی بھی ہیں اور ایسے علماء کبھی روایت بیان کرتے ہوئے سند کے بیان پر نشیط نہیں ہوتے بلکہ مرسل ہی بیان کردیتے، نبی ﷺ کی بات ہے تو براہ راست نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں اور اگر صحابی کی بات ہے تو براہ راست صحابی سے بیان کرتے ہیں ۔بلکہ کبھی کبھی صحابی کے کسی فتویٰ سے متفق ہوتے ہیں تو اسے بلا حوالہ بطور فتویٰ بھی بیان کرتے ہیں ۔
یہی حال عامر شعبی کا اس روایت میں ہے۔
انہوں نے نماز عید چھوٹ جانے پر چار رکعت پڑھنے کی بات کبھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے متصل سند کے ساتھ بیان کی ہے۔ کبھی اپنے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیچ کا واسطہ چھوڑ کر ڈائریکٹ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اور کبھی تو خود ہی اپنی طرف سے بیان کردی ہے جیساکہ کتب آثار میں بسند صحیح منقول ہے کیونکہ وہ اس سے متفق تھے۔
بنا بریں ان کے شاگر مطرف کے بارے میں کوئی بعید نہیں ہے کہ انہوں نے دونوں طرح سے روایت سن رکھی ہوں اور دونوں طرح بیان کرتے رہے ہوں ، اسی سبب ان کے شاگردوں کے بیان میں اختلاف ہے ۔ لہٰذا ایسے معاملے میں اختلاف کو شذوذ پر محمول کرنے کے بجائے الگ الگ بیان پر ہی محمول کرنا چاہئے، اور سب کو ثابت ماننا چاہے۔
ثانیاً:
اس روایت کی سندوں سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی چنانچہ :
عامر شعبی کے شاگرد مطرف پر اختلاف کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے تین رواۃ ، ہشیم ، ابن عیینہ اور ثوری نے بیان کیاہے۔
ہشیم کی روایت:
’’أخبرنا أبو بكر الفريابي، ثنا قتيبة، ثنا هشيم، عن مطرف، عن الشعبي، عن ابن مسعود، قال:من فاتته الصلاة يوم العيد فليصل أربعا‘‘[أحکام العیدین للفریابی :ص:۲۰۷]
ابن عیینہ کی روایت:
’’حدثنا سفيان بن عيينة ، عن مطرف ، عن الشعبي ، عن عبد اللّٰه ، قال :يصلي أربعا‘‘[مصنف ابن أبی شیبۃ۔سلفیۃ:۲؍۱۸۳]
سفیان ثوری کی روایت:
’’عن الثوري، عن مطرف، عن الشعبي قال:قال عبد اللّٰه:من فاته العيدان فليصل أربعا‘‘ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمی:۳؍۳۰۰]
اورہشیم سے تین رواۃ سعید ، حسن بن صالح اور قتیبہ نے بیان کیاہے۔
سعید کی روایت:
’’حدثنا محمد بن على ، قال:ثنا سعيد ، قال:ثنا هشيم ، قال:أخبرنا مطرف ، عن الشعبي ، عن مسروق ، عن ابن مسعود ، قال: من فاتته الصلاة مع الإمام يوم الفطر فليصل أربعا ‘‘ [الأوسط لابن المنذر:۶؍۴۹۵]
حسن بن صالح کی روایت:
’’روي يحيي بن آدم، عن الحسن بن صالح، عن مطرف، قال:حدثني رجل، عن الشعبي، عن مسروق، عن عبد اللّٰه‘‘[الأوسط لابن المنذر:۶؍۴۹۵]
قتیبہ کی روایت:
’’أخبرنا أبو بكر الفريابي، ثنا قتيبة، ثنا هشيم، عن مطرف، عن الشعبي، عن ابن مسعود، قال :من فاتته الصلاة يوم العيد فليصل أربعا‘‘[أحکام العیدین للفریابی: ص:۲۰۷]
ان میں ’’سعید ‘‘اور ’’حسن بن صالح ‘‘دونوں شعبی کے بعد’’ مسروق‘‘ کے اضافہ پر متفق ہے ۔ اور صرف قتیبہ یہ واسطہ بیان نہیں کرتے ۔اوراوپر امام طحاوی کے حوالے سے بتایا جاچکا ہے کہ ہشیم سے سعید بن منصور کے بیان کردہ الفاظ زیادہ معتبر ہیں ، بالخصوص جبکہ سعید بن منصور صاحب کتاب بھی ہیں ، لہٰذا اس معاملے میں سعید بن منصور ہی کے بیان کو ترجیح ملنی چاہے ، بالخصوص جبکہ حسن بن صالح’’ مسروق‘‘ کے اضافہ پر ان کے متابع بھی ہیں گرچہ خود انہوں نے ایک رجل کا بھی اضافہ کیا ہے جس میں ان کا کوئی متابع نہیں ہے ،اور وہ مضربھی نہیں ہے جیساکہ ماقبل میں وضاحت موجودہے۔
ہشیم سے مطرف کے علاوہ ایک اور طریق اس طرح ہے:
حدثنا هشيم، وحفص، عن حجاج، عن مسلم، عن مسروق، قال:قال عبد اللّٰه:’’من فاته العيد فليصل أربعا‘‘[مصنف ابن أبی شیبۃ۔سلفیۃ:۲؍۱۸۳]
یہ طریق بھی مسروق کے اضافہ کی تائید کررہاہے، مگر سند میں ضعف ہے جیساکہ واضح ہے ۔حاصل یہ کہ مطرف سے مسروق کے اضافہ کا بیان ہشیم سے ثابت ہے۔
اب رہی بات سفیانین کی روایات کی تو پہلے وضاحت کی جاچکی ہے ان دو کی طرف سے عدم اضافہ کو عامرشعبی کے الگ الگ بیان پر محمول کرنا چاہئے جسے ان کے شاگرد مطرف بھی اسی طرح الگ الگ بیان کرتے تھے ۔کیونکہ عامرشعبی نبی ﷺ اور صحابی دونوں کے حوالے سے ارسال کرتے تھے ۔
مزید یہ کہ مطرف بھی منفرد نہیں ہے بلکہ دو اورطریق سے ان کی متابعت بھی ہوتی ہے:
حدثنا هشيم، وحفص، عن حجاج، عن مسلم، عن مسروق، قال:قال عبد اللّٰه:’’من فاته العيد فليصل أربعا‘‘[مصنف ابن أبی شیبۃ۔سلفیۃ:۲؍۱۸۳]
حدثنا الحسين، قال:حدثنا الحسن بن أبي الربيع، قال:حدثنا يزيد، عن الحجاج، عن عامر، عن مسروق، عن عبد اللّٰه، قال:’’من فاته العيدان والجمعة فليصل أربعا‘‘[صلاۃ العیدین للمحاملی : ص:۲۰۲]
یعنی دو مزید راوی’’ مسلم ‘‘اور ’’حجاج‘‘ بھی مسروق کا اضافہ بیان کررہے ہیں ۔تو اس طرح اضافہ بیان کرنے والے تین ہوگئے جبکہ اضافہ نہ بیان کرنے والے صرف دو ہیں، لیکن مؤخر الذکر دونوں روایات ضعیف ہیں تاہم ایک ارسال کرنے والے راوی کے معاملے میں ان سے تائید لینے میں کوئی حرج نہیں۔ یعنی سارے طرق کو سامنے رکھتے ہوئے یہی معاملہ سامنے آتا ہے کہ سند میں انقطاع کے مقام پر جو راوی ساقط تھا اس کا ذکر دوسرے طرق میں آچکا ہے اوروہ ثقہ ہے لہٰذا روایت صحیح ہے۔
علاوہ بریں اگر اس بات پر غور کریں کہ’’ ہشیم بن بشیر ‘‘کوئی معمولی درجے کے راوی نہیں بلکہ انہیں ائمہ نے ثقۃ ثبت ، حافظ متقن ، استاذ الائمہ ، شیخ الحفاظ بلکہ ان کے حفظ کو عجوبہ قرار دیا ہے، اب اگر ایسا متقن امام ، عام روایات میں بھی سفیانین کے مقابلے میں کوئی اضافہ بیان کردے تو اسے رد کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ اضافہ حافظ متقن کی طرف سے ہے ،نیز ان کی تائید میں بھی ضعیف طرق سے روایات ہیں، ان سب پر مستزاد یہ کے عامرشعبی کا ارسال کرنا ایک اضافی قرینہ بھی ہے جس کی وضاحت ہوچکی ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ سفیانین کا اختلاف قادح نہیں ہے بالخصوص جبکہ ابن حجر رحمہ اللہ اور ابن رجب رحمہ اللہ روایت کی تصحیح بھی کرچکے ہیں ۔واللہ اعلم
نوٹ:
اس اثر کو بطور فائدہ پیش کیا گیا ہے ورنہ ہمارا موقف یہی ہے کہ عذر کی صورت میں گھر میں بھی نماز عید پڑھی جاسکتی ہے۔واللہ اعلم
٭٭٭
٭