Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • کورونا وائرس کی وجہ سے جمعہ اور جماعت ترک کرنے کا حکم

    عربی سے اردو ترجمہ : عبدالغفار سلفی، بنارس

    سوال : اس بات کی کیا دلیل ہے کہ کورونا وائرس کے باوجود جمعہ واجب ہے، میرا یہ ماننا ہے کہ جمعہ واجب ہے جب کہ میرے گھر والے اس بات سے متفق نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ان جگہوں پر بہت تیزی سے پھیلتا ہے جہاں لوگ اکٹھا ہوں اور مسجد میں نماز کے لیے بچھے قالین وغیرہ میں بھی یہ وائرس موجود ہو سکتا ہے…
    انہیں لوگوں کی وجہ سے میں نے پچھلا جمعہ ترک کر دیا اور ظہر پڑھی۔میں نے ان لوگوں سے بہت بحث کی مگر وہ قائل نہیں ہوئے تو کیا اس سلسلے میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟
    جواب:
    الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، وعلی آلہ وصَحْبہ ومن والاہ، أما بعدُ:
    جمعہ کی نماز اسلام کے عظیم شعائر میں سے ایک ہے، یہ ہر اس شخص پر فرض عین ہے جو بالغ ہو، عاقل ہو، تندرست ہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَي ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ}
    ’’اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور کاروبار چھوڑ دو‘‘[الجمعۃ:۹]
    ابو داؤد کی روایت ہے، طارق بن شہاب روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
    ’’الجمعة حق واجب على كل مسلم فى جماعة إلا أربعة: عبد مملوك، أو امرأة، أو صبي، أو مريض‘‘
    ’’یعنی جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ لازم اور واجب ہے ہر مسلمان کے اوپر سوائے چار کے، غلام، عورت، بچہ یا مریض کے‘‘
    بغیر شرعی عذر کے جمعہ کی نماز سے پیچھے رہنا کبیرہ گناہ ہے اور ایسا کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت وعید ہے۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
    ’’لَيَنتَهينَّ أقوامٌ عن ودْعِهم الجمُعات، أو ليختِمنَّ اللّٰه على قلوبهم، ثمَّ ليكونُنَّ من الغافلين‘‘
    ’’یعنی لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلین میں سے ہوجائیں گے‘‘
    ابوجعد ضمری کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
    ’’مَن ترك الجمُعة ثلاثَ مرَّات تهاوُنًا بها، طَبَع اللّٰه علٰي قلبه‘‘
    ’’جس شخص نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے تین جمعہ چھوڑ دیا اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے‘‘(ترمذی)
    دل میں مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بھلائی اور خیر نہیں پہنچتا۔
    لیکن اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ رحمت ہے کہ وہ انہی چیزوں کا مکلف کرتا ہے جو بندوں کی طاقت اور اختیار میں ہو۔اسی لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جمعہ اور جماعت سے پیچھے رہنا ان لوگوں کے لئے جائز رکھا ہے جن کو کوئی خوف یا عذر لاحق ہو۔خواہ وہ خوف جان ومال کا ہو یا اہل وعیال کا ہو، جس کی وجہ سے جمعہ یا جماعت میں جانا مشکل ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’جو اذان سن کر جماعت میں نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الا یہ کہ اس کو کوئی عذر ہو۔صحابہ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول!عذر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:خوف یا مرض‘‘(ابو داؤد)
    امام ابو عمر بن عبدالبر اپنی کتاب التمہید (۱۶؍۲۴۳)میں کہتے ہیں:’’حدیث میں آپ نے جو یہ فرمایا’’بغیر عذر کے‘‘تو اس سلسلے میں گفتگو کافی گنجائش رکھتی ہے۔مختصر یہ کہ ہر وہ چیز جو انسان کے اور جمعہ کے درمیان رکاوٹ بنتی ہو، جس سے انسان کو تکلیف پہنچتی ہو یا دشمن کا ڈر ہو یا جس سے کوئی ضروری اور لازمی چیز کالعدم اور بے کار ہو جاتی ہو، مثلاً کوئی ظالم بادشاہ ظلم کر رہا ہو، یا مسلسل موسلادھار بارش ہو رہی ہو، یا کوئی ایسا مرض ہو جس نے انسان کو روک رکھا ہو وغیرہ وغیرہ‘‘
    امام ابن قدامہ المغنی (۱؍۴۵۱)میں فرماتے ہیں:
    ’’جمعہ اور جماعت چھوڑنے کے سلسلے میں خوفزدہ شخص معذور ہے۔اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ’’عذر خوف یا مرض ہے‘‘خوف کی تین قسمیں ہیں جان کا خوف، مال کا خوف، اہل وعیال کا خوف۔پہلے کی صورت یہ ہے کہ انسان کو اپنی جان کے بارے میں کسی بادشاہ کا ڈر ہو جو اس کو گرفتار کرلے یا چور، درندے، چوپائے، سیلاب وغیرہ کا ڈر ہو جس سے اس کی جان کو خطرہ ہو‘‘
    امام مرداوی’’الانصاف‘‘میں فرماتے ہیں :
    ’’جن چیزوں کی وجہ سے انسان جمعہ اور جماعت کے چھوڑنے کے سلسلے میں معذور ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنی معاشی ضرورت کے سلسلے میں نقصان کا ڈر ہو یا کسی مال کے ضیاع کا ڈر ہو جس کی نگرانی کی ذمہ داری اسے دی گئی ہو جیسے کسی باغ وغیرہ کی ذمہ داری یا امام کے طویل قرأ ت کی وجہ سے اسے مالی نقصان کا اندیشہ ہو‘‘
    ابن النجار ’’منتھی الارادات‘‘میں فرماتے ہیں:
    ’’جمعہ اور جماعت کے ترک کے سلسلے میں ایک عذر یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے مال و خوراک کے ضیاع یا نقصان کا ڈر ہو یا اپنی معاشی ضرورت کے سلسلے میں کسی خطرے کا اندیشہ ہو‘‘
    ہماری حکیمانہ شریعت نے جمعہ کی نماز سے پیچھے رہ جانے کے سلسلے میں بارش کی وجہ سے رخصت دی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے،تو اس میں ان چیزوں کو بھی شامل کیا جائے گا جو ایذا کا سبب ہوں جیسے وبائیں وغیرہ کیونکہ جان کا خطرہ دونوں میں مشترک ہے۔صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے بارش والے دن اپنے مؤذن سے کہا جب تم ’’أشہد أن محمدا رسول اللہ‘‘کہو تو’’حی علی الصلاۃ‘‘کے بجائے ’’صلوا فی رحالکم‘‘کہو۔لوگوں کو یہ بات کچھ عجیب لگی تو انہوں نے کہا کہ یہ کام اس ذات نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر ہے یعنی نبی صلی اللہ وسلم نے، پھر فرمایا:’’بے شک جمعہ ضروری ہے لیکن میں نے اس بات کو نا پسند کیا کہ آپ لوگوں کو تنگی میں ڈالوں اور آپ لوگ کیچڑ میں پھسلتے ہوئے نماز کے لیے چل کر آئیں‘‘
    آپ نے اگر یہ بات نہ کہی ہوتی تو لوگ اذان سن کر دوڑے چلے آتے۔
    ابن قدامہ(المغنی:۲؍۲۵۲)میں کہتے ہیں :
    ’’جس شخص کے راستے میں اتنی بارش ہو جس سے کپڑے بھیگ جاتے ہوں یا اتنی کیچڑ ہو جس سے چلنا مشکل ہو تو اس پر جمعہ واجب نہیں۔کیونکہ یہ چیز بیماری کی طرح جماعت کے لیے عذر ہے اس لیے جمعہ کے لیے بھی عذر ہے۔ جس عذر سے جماعت ساقط ہوتی اس سے جمعہ بھی ساقط ہو جاتا ہے‘‘
    مالکیہ نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ شدید بارش یا کیچڑ جمعہ اور جماعت سے پیچھے رہ جانے کا ایک عذر ہے۔جیسا کہ امام الدردیر کی ’’الشرح الکبیر‘‘میں صراحت ہے۔
    نیز شریعت اسلامیہ کی بنیاد احتیاط، سدِ ذریعہ اورتحفظات اختیار کرنے پر ہے، نیز یہ کہ صحت کی حفاظت کی جائے، بیماری سے بچانے والے اسباب اختیار کئے جائیں اور متعدی امراض میں مبتلا لوگوں سے دور رہا جائے تاکہ وہ بیماریاں چھونے کی وجہ سے یا ملنے جلنے سے یا مہک کے ذریعے صحت مند لوگوں میں منتقل نہ ہوں۔مریض کے ساتھ ملنا جلنا بھی ان اسباب میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مرض کے پھیلنے کا سبب بنایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَي التَّهْلُكَةِ}
    ’’اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘[البقرۃ:۱۹۵]
    نیز فرمایا:{وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} ’’اپنے آپ کو قتل مت کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے‘‘[النساء:۲۹]
    اللہ کے رسول ﷺ نے بیمار اونٹوں کے مالک کو اس سے منع کیا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس لے جائے کہ کہیں وہی مرض انہیں بھی لاحق نہ ہوجائے۔آپ نے فرمایا :
    ’’لا يوردن ممرض على مصح لئلا تنتقل العدوي‘‘
    ’’یعنی بیمار اونٹوں والا صحت مند اونٹوں والے کے پاس نہ جائے تاکہ بیماری منتقل نہ ہو‘‘
    لہٰذا آپ نے واضح کردیا کہ بیمار کے ساتھ ملنا جلنا بھی بیماری کے منتقل ہونے یا وہم اور خوف میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہے۔
    صحیح بخاری میں عمرو بن شرید سے روایت ہے، وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے، انہوں نے کہا:ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی آدمی تھا، نبی ﷺ نے اس کو پیغام بھجوایا کہ :ہم نے تم سے بیعت کر لی ہے تم لوٹ جاؤ۔یہ حدیث صحیح بخاری کی دوسری حدیث کے موافق ہے جو حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’کوڑھی سے بھاگو جس طرح تم شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو‘‘
    یہ دونوں حدیثیں واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ متعدی امراض کے شکار لوگوں سے دور رہا جائے۔ آپ ﷺ نے طاعون کے بارے میں فرمایا:’’جب تم کسی سرزمین کے سلسلے میں طاعون کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور جب کسی سرزمین پر طاعون واقع ہوجائے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے فرار اختیار کرتے ہوئے مت نکلو‘‘(متفق علیہ) لہٰذا متعدی امراض سے دور رہنا ہی دل کے لیے باعث سکون ہے۔
    حاصل کلام یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے اور اسباب کا چھوڑ دینا شرعی اعتبار سے غلط ہے۔
    امام ابن القیم (زاد المعاد:۴؍۱۳۴)میں فرماتے ہیں :
    ’’یہ فصل ہے اس بیان میں کہ نبی ﷺ نے طبعی طور پر متعدی بیماریوں سے بچنے کے سلسلے میں کیا رہنمائی کی ہے، نیز ان بیماریوں میں مبتلا لوگوں سے صحت مند لوگوں کو دور رہنے کے سلسلے میں آپ نے کیا حکم دیا ہے۔
    اپنی امت کے لیے انتہائی شفیق اور خیرخواہ ہونے کی وجہ سے نبی ﷺ نے ان چیزوں سے منع فرمایا ہے جو بدن اور دل میں کسی قسم کی خرابی اور فساد لاحق ہونے کا سبب بنتی ہیں، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کبھی کبھی بدن میں خفیہ طور پر بیماریوں کو قبول کرنے کی صلاحیت اور داعیہ موجود ہوتا ہے، انسانی طبیعت بہت جلد متأثر ہوتی ہے اور اپنے آس پاس کے ملنے جلنے والے جسموں کا اثر بہت جلدی قبول کرتی ہے اور اس کو منتقل کر لیتی ہے۔کبھی کبھی تو بیماری میں مبتلا ہونے کا سب سے بڑا سبب یہی خوف اور وہم ہوتا ہے، وہم ایک ایسی چیز ہے جو انسانی مزاج پر بہت جلد حاوی ہوجاتا ہے، کبھی کبھی بیمار آدمی کی مہک تندرست آدمی تک پہنچتی ہے اور وہ بیمار ہو جاتا ہے، بعض بیماریوں کے سلسلے میں یہ چیز دیکھی جا سکتی ہے۔مہک بھی بیماریوں کے منتقل ہونے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔اور ان سب کے ساتھ ساتھ بدن کے اندر بیماری کو قبول کرنے اور جذب کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مریض کو تندرست لوگوں کے درمیان رہنے سے روکا جائے۔چنانچہ ’’مختصر الفتاوی المصریۃ:ص:۴۵۰‘‘میں فرماتے ہیں :’’جو شخص متعدی امراض میں مبتلا ہو اسے تندرست لوگوں کے درمیان رہنے سے روکنا جائز ہے، وہ تندرست لوگوں کے ساتھ نہ رہے۔
    لہٰذا اگر کورونا وائرس کا خوف یقینی ہو یا جہاں آپ مقیم ہوں وہاں اس کے ہونے کا غالب گمان ہو تو آپ کے لیے جمعہ اور جماعت سے پیچھے رہنا جائز ہے۔لیکن اگر آپ کے لئے انفیکشن سے بچنا ممکن ہو اس طرح کہ آپ الگ سے کسی مصلیٰ وغیرہ پر نماز پڑھیں، نیز ماسک لگائے ہوں اور مسجد کی حدود کے باہر بیٹھے ہوں تو پھر آپ وہی صورت اپنائیں گے۔البتہ اگر ماہر ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق اس بیماری سے بچنا تبھی ممکن ہو جب لوگ بالکل بھی اکٹھا نہ ہوں تو ایسی صورت میں جماعت سے پیچھے رہنا ہی بہتر ہے۔واللہ اعلم۔
    (صاحب تحریر فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین میں سے ہیں، معروف ویب سائٹ طریق الاسلام کے مفتی اور مشیر ہیں)
    نوٹ: اصل عربی مضمون یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں :
    https://ar.islamway.net/fatwa/78102/حکم-ترک-الجمعۃ-والجماعۃ-بسبب-فیروس-کورونا

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings