-
وہ جماعت ’’سلف‘‘کے ’’یوسف‘‘تھے ہم گلابی شہر’’جے پور‘‘کے دونوں’’یوسف و یوسفی‘‘کے نہ صرف مشتاق تھے بلکہ ان کو صلاحِ دین و ادب کا ’’ایّوبی‘‘ مانتے تھے، صَلاح الدین نامی اپنے ’’احسن البیان‘‘والے ٹھیک اپنے مقررہ وقت پر موت کے ذائقے سے گزر گئے، اللہ انہیں اعلیٰ علیّین میں جگہ عطاء فرمائے آمین۔ عبد العزیز نامی’’حسن البیان‘‘والے اور صلاح الدین نامی ’’احسن البیان‘‘ والے دونوں عبقریوں کو اہل علم رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے، وہ یقینا جماعت سلف کے ’’یوسف‘‘بھی تھے اور’’صلاح الدین‘‘بھی، ان کا قلم ’’ایّوبی‘‘تھا اور ان کی روشنائی میں صبر ایّوب کا آمیزہ اور چشم یعقوب کی بصیرت بھی شامل تھی، اسی لیے انہوں نے نہایت کم عمری ہی میں ’’ملوکستین و خلافستان‘‘کے ارد گرد کے جالے، تانے بانے، طعنے اور جھاڑ جھنکار کوعلمی طور پر دلائل وبراہین کے قلم سے قلم زد کر دیئے اور حقیقی منظر نامے سے لوگوں کو روشناس کرایا۔
جب سے خبر ملی میرا ذہنی اضطراب اور بڑھ گیا، دن میں جب بھی غنودگی والی کروٹ لی حافظ صاحب ذہن میں سوار رہے، ان کا خوبصورت مسکراتا ہوا اصلی سلفی چہرہ، روشن اور چمکدار آنکھیں، ان کی جاہ جلال والی نورانی ریش مبارک، آہ، واہ اور کراہ میں یہ دن بسر ہوگئے، تعزیت اور دعاء کے الفاظ زبانی کہہ لیے کہ لکھنے کی سکت نہ تھی۔
طبیعت میں انشراح، مصروفیات اور مصائب و حوادث سے فرصت ملے گی تو ان شاء اللہ کچھ ٹوٹے پھوٹے تاثرات لکھے جائیں گے، جبکہ ان پر لکھنے والوں نے اچھی معلومات فراہم کردی ہیں۔ہم لوگ تو حافظ صاحب کے نادیدہ عاشق اور ان کی کتابوں کے بھارتی ناشر ہیں۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ کی شاہکار اور ساحرانہ اسلوب والی ڈرامائی کتاب کا جواب لکھ کر حافظ صاحب مرحوم نے’’آگ کا دریا‘‘کی علمی حیثیت کو ’’آگ کا دیا‘‘بنا دیا تھا، یہ ایک علمی اور منہجی اختلاف تھا جس میں یقینا حافظ صاحب نہ صرف صلاح الدین بنے بلکہ وہ مکمل یوسفی بھی بنے اور ایّوبی کے قلم نے پر جوش و پر ہوش عقیدت مندوں کے بھی جوش کو نہ صرف ایک حد تک ٹھنڈا کیا بلکہ باتوفیقوں کو قبول و رجوع کرنے کا بھی حوصلہ دیا۔
حافظ صاحب کی اکثر کتابیں یہاں بھارت میں بھی دستیاب ہیں، جو نہیں دستیاب وہ بھی عنقریب دستیاب ہوں گی ان شاء اللہ۔
لکھنے کا موڈ بالکل نہ تھا لیکن شخصیت ہی ایسی گزر گئی کہ ہر شخص اداس اور اس کی طبیعت نراش ہے۔