-
استقبال رمضان اور ہماری نظری وعملی تیاری تمام انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت وعبادت کی دعوت دی تھی، حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ کریم کو نازل فرمایا اور اپنے پسندیدہ دینِ اسلام کی تکمیل فرمائی اور اپنے آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا تو اپنی کتاب مقدس قرآنِ کریم میں یہ اعلان فرما دیا کہ جن وانس کی تخلیق کی غرض وغایت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے رب یعنی پروردگار کی حیثیت سے پہچانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں، اس طرح انسان وجنات کی تخلیق کا مقصدِ وحید ہی عبادت قرار پایا، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ}
[الذاریات:۵۶]
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
یعنی ان دونوں کو پیدا کرنے سے میرا مقصد اور ارادہ شرعیہ یہی ہے کہ وہ میری عبادت اور میری بندگی کریں اور اپنی پوری زندگی میرے احکام کے مطابق گزاریں۔
چنانچہ ہر وہ قول وعمل جو اخلاص اور متابعت شریعت پر مبنی ہو وہ عبادت ہے، جیسے کہ نماز وزکوٰۃ، حج، ذکر واذکار وغیرہ، انہی عبادات میں سے ایک عبادت روزہ بھی ہے، روزہ مسلمانوں پر فرض کردہ فرائض میں سے ایک شرعی فریضہ ہے، اور روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جس کو بطور فریضہ انجام دینے کے لیے اللہ رب العزت نے ماہ رمضان کا ایک خاص مہینہ مقرر فرمایا، رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے، یہ مہینہ اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا مہینہ ہے، اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے، رمضان المبارک ہی وہ مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيٓ أُنزِلَ فِيْهِ الْقُرْئَ انُ هُدَي لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰت مِّنَ الْهُدَيٰ وَالْفُرْقَانْ}
[البقرۃ:۱۸۵]
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے باعثِ ِہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور (حق و باطل کے درمیان) فرق کرنے کی نشانیاں ہیں‘‘۔
ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کردیتا ہے، اور شیاطین کو جکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو اس طرح گمراہ نہ کرسکیں جس طرح عام دنوں میں کرتے ہیں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنادی جاتی ہیں‘‘۔
[سنن نسائی:۲۱۰۶، صحیح]
یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے توشیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر!آگے آ، اے شر کے متلاشی!رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے، ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے‘‘۔
[سنن نسائی: ۶۸۲، صحیح]
رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے، نبی کریمﷺنے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات (روزہ ،قیام، تلاوت قرآن، صدقہ، خیرات، اعتکاف، لیلۃ القدر کی عبادت، دعا، ذکر واذکار وغیرہ) کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔
رمضان کا مہینہ ان بابرکت اوقات پر مشتمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تمام تر برکات کا نزول ہوتا ہے اور بندہ اس مہینہ کے احکامات پر عمل کرکے اپنے خالق سے ان رحمتوں کو حاصل کرسکتا ہے۔
چنانچہ جب رمضان المبارک اتنا خیر و برکت و فضیلتوں والا مہینہ ہے تو اس کے لیے ہم پر پہلے سے جسمانی وروحانی استعداد ضروری ہے، تاکہ ہم رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے کو اس کے احکام و ضوابط کے مطابق گزار سکیں۔
چنانچہ رمضان کے لیے جسمانی و روحانی استعداد کے لیے چند امور ملاحظہ فرمائیں :
(۱) توبہ : یہ بات مسلم ہے کہ ہر انسان خطاکار ہے، ہر انسان گناہ کرتا ہے، جانے یا انجانے میں اس سے کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے، دن رات حقوق اللہ وحقوق العباد میں ہم سے کوتاہی ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’كل ابن آدم خطاء وخير الخطائين التوابون‘‘۔
’’سارے انسان خطاکار ہیں اور خطاکاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔
[سنن ترمذی: ۲۴۹۹، حسن]
چنانچہ توبہ حقیقی کامیابی اور دنیا و آخرت کی کامرانی نیز خوش نصیبی و خوشحالی سے ہمکنار ہونے کا سبب وذریعہ ہے، اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
{وَتُوبُوٓا إِلَي اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
[النور:۳۱]
’’اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کے جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ‘‘۔
توبہ محبت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے، اور توبہ کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے :
{إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ}
[البقرۃ:۲۲۲]
’’یقینا اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔
سچی توبہ کی بدولت اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بیابان و سنسان وادی کی طرف سفر کررہا ہوتا ہے، راستہ میں وہ آرام کرنے کے لیے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ جاتا ہے اور پاس ہی وہ اپنی اونٹنی کو بھی باندھ دیتا ہے جس پر اس کا سامانِ سفر ہوتا ہے، اور پھر وہ آرام کرنے کے لیے ایک پیڑ کے سایہ تلے لیٹ جاتا ہے جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی وہ سواری موجود نہیں جس پر اس کا سامان سفر بھی تھا، وہ جگہ جگہ چھان مارتا ہے لیکن اس کی اونٹنی نہیں ملتی، لہٰذا وہ حیران وپریشان اور مایوس ہوجاتا ہے، اور اسی جگہ آکر لیٹ جاتا ہے، جب وہ دوبارہ سوکر اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی وہ سواری جو غائب تھی اپنی جگہ کھڑی ہے یہ دیکھ کر وہ شدت خوشی سے پاگل ہوجاتا ہے اور یہ کہہ دیتا ہے :
’’اَللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّك‘‘۔
’’اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں‘‘۔
(جب کہ کہنا چاہئے:
’’اَللّهُمّ أَنْتَ رَبِّيْ وَأَنَا عَبْدُكَ‘‘
’’ اے اللہ!تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں)
[صحیح مسلم:۲۷۴۷]
اس سے بھی زیادہ خوشی اللہ کو ہوتی ہے جب بندہ توبہ کرکے اللہ کے حضور رجوع کرتا ہے۔
اسی طرح توبہ بہترین سامانِ زندگی، بارش کے نزول، قوت کی زیادتی اور اموال و اولاد میں اضافہ کا سبب ہے۔
لہٰذا سب سے پہلے سچی توبہ کرکے اس مہینہ کے لیے تیاری کریں، کیوں کہ جب بندہ اور خیر کے کام کے درمیان گناہ حائل رہتا ہے تو یہ گناہ بندہ کو نیک اعمال کرنے سے روکے رکھتا ہے اور جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو پھر بندے کی طبیعت نیکیاں کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہتی ہے۔
(۲) دعا : بنی نوعِ انسان اپنی زندگی کے لمحہ بہ لمحہ اور قدم بہ قدم اللہ رب العزت کا محتاج و فقیر ہے، قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے:
{يَـٰٓأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَآئُ إِلَي اللّٰهِ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ)
[ فاطر:۱۵]
’’اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے‘‘۔
بندہ جب اللہ رب العزت کے حضور گریہ وزاری کرتا ہے تو اللہ رب العزت اسے پسند فرماتا ہے اور ان سے اجابت و قبولیت کا وعدہ بھی فرماتا ہے، اور دعا نہ مانگنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے، اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِيٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيْنَ}
[غافر:۶۰]
’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔
دعا اللہ کے نزدیک ایک اہم عبادت ہے، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’دعا ہی عبادت ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی :
’’وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِيٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ‘‘۔
’’تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا‘‘۔
[سنن ابن ماجہ: ۳۸۲۸، صحیح]
دعا اللہ کے نزدیک بڑا عظمت والا عمل ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی عمل نہیں ہے‘‘۔
[سنن ترمذی:۳۳۷۰، حسن]
دعا نازل شدہ اور نازل ہونے والی تمام آفات کے لیے فائدہ مند ہے، دعا کرنے والے کو اللہ کبھی محروم نہیں رکھتا، اللہ رب العزت جسے اپنی رحمت سے نوازتا ہے اسے دعا کی توفیق بخشتا ہے۔
رمضان المبارک کی تیاری کثرتِ دعا کے ذریعہ کریں، کیوں کہ کثرتِ دعا کی وجہ سے آدمی کو اللہ تعالیٰ اطاعت کی توفیق عطا فرماتا ہے اور اس کے وقت میں برکت ڈال دیتا ہے اور مختلف قسم کی نیکیوں کے کام اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے کروادیتا ہے، کیوں کہ تمام امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کی طرف سے توفیق ملتی ہے، اس لیے اس ماہ کے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد بھی ہر لمحہ اور ہر آن اس رب کریم کا دروازہ دعا کے ذریعہ کھٹکھٹاتے رہیں۔
اور دعا کرتے وقت ان اوقات کو ضرور ملحوظ رکھیں جن اوقات میں دعاؤں کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے ،مثلاً:
۱۔ رات کے آخری حصے میں کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے، یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے کہ ان کی ضروریات اور تکالیف دور کرنے کے لیے نزول فرماتا ہے، اور صدا لگاتا ہے:’’کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھے سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگے، تو اسے بخش دوں‘‘۔
[صحیح بخاری:۱۱۴۵]
۲۔ اسی طرح اذان اور اقامت کے درمیان، نبی ﷺسے صحیح حدیث ثابت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی‘‘۔
[صحیح الجامع :۲۴۰۸]
۳۔ جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی میں، رسول اللہ ﷺنے جمعہ کے دن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:’’اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے کھڑے ہو کر دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرماتا ہے‘‘۔ اور نبیﷺ نے اس گھڑی کے انتہائی مختصر ہونے کا اشارہ بھی فرمایا۔
[صحیح بخاری:۹۳۵]
۴۔ سجدے کی حالت میں دعا، نبی ﷺکا فرمان ہے: ’’بندہ اپنے رب کے قریب ترین سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لیے کثرت سے سجدے کی حالت میں دعا کرو‘‘۔
[صحیح مسلم:۴۸۲]
لہٰذا رمضان المبارک کے لیے کثرت سے دعا کا اہتمام کیجئے اور دعا کرتے ہوئے یقین کامل اور رزق حلال کی شرط مفقود نہ ہو، نیز اوقات مستجابہ میں دعا کرنے کی کوشش کریں۔
(۳)تلاوت و تدبرِ قرآن کو لازم پکڑنا: قرآن کی حقانیت وصداقت مسلم و مصدق ہے، یہ ایسا سر چشمہ اور رشد و ہدایت کی کتاب ہے کہ جس نے بڑے بڑے بگڑوں کو راہِ ہدایت دکھائی، قرآن کریم کسی قوم کے عروج و زوال کا پیمانہ اور معیار بھی ہے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا :
’’اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو اونچا کردیتا ہے اور بہتوں کو اس کے ذریعے سے نیچے گراتا ہے‘‘۔
[صحیح مسلم:۸۱۷]
یہ ایسی کتابِ نصیحت ہے کہ جس نے بھی پڑھا اپنا خیر خواہ ہی پایا، یہ ایسی سراپا رحمت و برکت کتاب ہے کہ جس نے اسے منشورِ حیات بنالیا وہ دنیا و آخرت کی تمام تر رحمتوں، نعمتوں، عنایتوں اور برکتوں سے اپنا دامن بھر کر ہی گیا، تلاوتِ قرآن کی فضیلت بہت زیادہ ہے یہ اللہ والوں کے لیے دلوں کی خوراک ہے، اس کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا، اسے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے‘‘۔
[سلسلہ احادیث صحیحہ: ۲۹۲۶]
حتیٰ کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
’’خيركم من تعلم القرآن وعلمه‘‘۔
’’کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے‘‘۔
[صحیح بخاری:۵۰۲۷]
صحابۂ کرام اور تابعین قرآن کو پڑھنے یاد کرنے اس کی آیات کو سمجھنے، غور و فکر کرنے اور ان پر عمل کرنے کا خاص اہتمام کرتے تھے، یہی حال اور یہی معمول دیگر تمام سلف صالحین کا رہا ہے۔
لہٰذا اس مہینے میں تلاوت قرآن کثرت سے کریں تاکہ انوار الٰہی کی تجلی سے سینے کے کینے دور ہوجائیں، غفلت کی چادر تن سے جدا ہوجائے اور بدن پر عبادت کی لذت اور کیف کے اثرات ایسے مرتب ہوں کہ پھر دل گناہوں کی طرف نا جائے۔
سلف صالحین کے نزدیک ماہ شعبان کی بڑی قدر ومنزلت تھی یہی وجہ ہے، کہ شعبان کے آتے ہی عبادات کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرلیتے۔
حافظ ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’شعبان کے مہینے میں روزوں اور تلاوتِ قرآن کی کثرت اس لیے کی جاتی ہے، تاکہ ماہِ رمضان کی برکات حاصل کرنے کی مکمل تیاری ہوجائے اور نفس رحمن و رحیم کی اطاعت و فرماں برداری پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہوجائے‘‘۔[لطائف المعارف :ص:۲۵۸]
اسی طرح حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں‘‘۔ [لطائف المعارف: ۱۳۵]
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر کریں تاکہ رمضان المبارک میں اس کے حلاوت کی لذت محسوس کرسکیں، نیز ہم میںسے جو تارکین قرآن ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ آج بلکہ ابھی سے قرآن مجید سے جڑ جائیں، صبح وشام اس کی تلاوت کرتے رہیں، اس میں غور وتدبر کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
اور جو قرآن مجید کی تلاوت پہلے سے اہتمام سے کرتے ہوں وہ ماہ رمضان سے قبل اس ماہ سے ہی اپنی تلاوت مزید بڑھا دیں اور زیادہ سے زیادہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کے لیے معتمد سلفی تفاسیر کا انتخاب کریں جیسے کہ احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ، تیسیر الرحمن لبیان القرآن از شیخ لقمان سلفی رحمہ اللہ وغیرہ۔
( ۴)چھوٹے ہوئے فرض روزوں سے بری الذمہ :
فرض روزوں سے بری الذمہ ہونے کا مفہوم :
فرض روزوں سے بری الذمہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کے عذر شرعی کی بنا پر گزرے رمضان المبارک کے روزے چھوٹ گئے ہوں اور وہ آپ کے ذمہ ابھی بھی باقی ہوں تو اسے آنے والے رمضان سے قبل مکمل کرلیں۔
رمضان المبارک کے روزے ان ارکان میں سے ایک ہیں جن پر دین کی بنیاد رکھی گئی ہے، اور اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں خبر دی ہے کہ اس نے رمضان المبارک کے روزے اس امت پر فرض کئے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسا کہ پچھلی امتوں پر کئے گئے تھے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{يَـٰٓأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
[البقرۃ:۱۸۳]
’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔
چنانچہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آجائے تو اسے پانے والے ہر مسلمان، مکلف اور مقیم شخص پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے روزے رکھے سوائے کسی عذر شرعی کی بنا پر کہ ایسی صورت میں شریعت مطہرہ نے روزہ چھوڑنے کا اختیار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلٰي سَفَر فَعِدَّة مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ}
[البقرۃ: ۱۸۵]
’’تم میں سے جو شخص اس (رمضان )مہینے کو پائے تو اس کو روزہ رکھنا ہے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو (تو اس کے لیے روزہ چھوڑنے کا اختیار ہے لیکن)اسے (رمضان بعد) دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے‘‘۔
شریعتِ اسلامیہ کا کوئی حکم انسان کی قدرت واستطاعت سے باہر نہیں ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اسلام نے ہر ایک کی جسمانی ساخت اور ذہنی قوت کے اعتبار سے اس کو شرعی احکام کا مکلف اور پابند بنایا ہے، اور یہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے کہ اس نے روزہ صرف انہی لوگوں پر فرض کیا ہے جو اس کی طاقت رکھتے ہیں، اور جو کسی شرعی عذر کی بنا پر روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے، انھیں روزہ چھوڑنے کی رخصت دی گئی ہے، جب تک کہ ان سے یہ عذر شرعی ختم نہ ہوجائے۔
لہٰذا مریض، مسافر، حائضہ، نفساء ، حاملہ اور مرضعہ کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے اور ان پر بعد میں ان روزوں کی قضا واجب ہے۔
معاذہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، میں نے کہا : حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا:کیا تم حروریہ (خوارج کا ایک فرقہ) ہو؟ میں نے عرض کیا:میں حروریہ نہیں، (صرف) پوچھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا‘‘۔[صحیح مسلم:۳۳۵]
چنانچہ جس پر رمضان کے روزے ابھی باقی ہوں تو وہ رمضان المبارک آنے سے قبل ان روزوں کی ادائیگی کرلے، کیوں کہ فرض روزوں کو دوسرے رمضان تک بغیر کسی شرعی عذر کے موخر کرنا جائز نہیں ہے۔
ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص پر رمضان کا روزہ ہو تو جب تک اگلا رمضان نہیں آتا اس سے پہلے پہلے وہ روزہ رکھ سکتا ہے، اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :’’مجھ پر ماہ رمضان کے روزے باقی ہوتے تھے اور میں اس وقت تک نہیں رکھ پاتی تھی کہ شعبان کا مہینہ آجاتا تھا‘‘۔[صحیح بخاری:۱۹۵۰]
لہٰذا آئندہ رمضان کے آنے تک بلا عذر روزوں کی قضا میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رمضان تک ان روزوں کو موخر نہیں کیا، اگر رمضان کے بعد تک ان کے لیے موخر کرنا ممکن ہوتا تو وہ کر لیتیں۔ [المغنی :۳؍۸۵]
خصوصاً عورتوں کے ساتھ فطری طور پر یہ مجبوری ہوتی ہے کہ ان کے لیے مہینے کے چند ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ بدنی وذہنی طور پر تکلیف سے دوچار ہوتی ہیں، شریعت نے ان ایام کی رعایت کرتے ہوئے اس حالت میں عورت پر نماز جیسی اہم عبادت کو بھی معاف کردیا ہے، اس حالت میں عورتوں کو روزے بھی نہیں رکھنے ہیں البتہ رمضان بعد ان متروکہ روزوں کی قضا کرنا ہے۔
اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایام حیض میں چھوٹے ہوئے ان روزوں کی قضا عورت کو اگلے سال رمضان آنے سے پہلے ہر حال میں مکمل کرلینی چاہئے، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’رمضان کے جو روزے مجھ سے چھوٹ جاتے تھے شعبان سے پہلے مجھے ان کی قضا کی توفیق نہ ہوتی‘‘۔[صحیح بخاری:۱۹۵۰]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان روزوں کو شعبان تک نبی کریم ﷺکی رعایت کرتے ہوئے موخر کرتی تھیں، کیونکہ شعبان میں نبی کریم ﷺ بھی بکثرت روزہ رکھتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان روزوں کو شعبان ہی میں پورا کرنے کی کوشش سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان روزوں کی قضا میں اتنی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے کہ دوسرا رمضان آجائے‘‘۔[فتح الباری:۱۹۱؍۴]
اس لیے متنبہ رہنا چاہیے کہ رمضان سے پہلے فرض روزوں کی ادائیگی میں جلدی کریں خاص کر عورتیں کہ وہ بلا شرعی عذر کے اپنے فرض روزوں کو دوسرے رمضان تک موخر نہ کریں، کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ جب تمہارے لیے خیر کا دروازہ کھولا جائے تو اس کی طرف جلدی سے لپکو؛ کیا معلوم کہ وہ کب تم پر بند ہوجائے۔
(۵) رمضان کے آمد کی مسرت و شادمانی : نیکیوں، رحمتوں، ڈھیر سارے تحفوں اور ایمانی جذبے کے تروتازگی کے مہینے کی آمد کی خوشی۔
برکتیں، بخشش، عنایت، توفیق، عبادت، زہد و تقویٰ، مروت و خاکساری، مساوات، صدقہ و خیرات، رضائے الٰہی، جنت کی بشارت اور جہنم سے نجات کے مہینے کی آمد کی خوشی۔
اور ہمیں اس مہینے کی آمد سے خوشی کیوں کر نہ ہو!جبکہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے:خیر کے طلب گار!آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار!رک جا، اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہی میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے‘‘۔ [سنن ترمذی:۶۸۲، وصححہ الألبانی]
ہمیں خوشی کیوں نہ ہو! جب کہ یہ گناہوں سے بخشش کا مہینہ ہے، کہ جب رمضان کے مہینہ کا اختتام ہو تو ساتھ میں ہمارے گناہوں کے رجسٹر میں کچھ نہ بچے، اور ہماری نیکیوں کا رجسٹر نیکیوں و بھلائیوں سے بھرا ہوا ہو، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے‘‘۔ [صحیح بخاری:۳۸]
ہمیں خوشی کیوں نہ ہو! جبکہ روزے کے اجر کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے، حدیث ہے:’’ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، چنانچہ یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا‘‘۔[صحیح بخاری: ۵۹۲۷]
ایک دوسری حدیث میں روزے دار کو یوں بشارت دی گئی ہے :
’’روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوش ہوگا‘‘۔ [صحیح بخاری:۱۹۰۴]
جب رمضان المبارک کی آمد قریب ہوتی، تو رسول اللہ ﷺکے مزاجِ مبارک میں نشاط بڑھ جاتا، طبیعت میں بہارِ تازہ کا احساس ہوتا، اس قدر مسرّت اور شادمانی کا اظہار فرماتے، جیسے کوئی اپنے محبوب شخصیت کی آمد پر ہوتا ہے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اکٹھا فرماتے اورخطبہ دیتے، جس میں اُنہیں رمضان کی آمد کی خوشخبری سُناتے، رمضان کی فضیلت و اہمیت بیان فرماتے اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کی تیاری کے سلسلے میں توجّہ دلاتے، ایسے ہی ایک خطبے میں آپﷺنے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! عن قریب تم پر ایک عظیم الشّان مہینہ جلوہ افروز ہونے والا ہے، اس ماہِ مقدّس میں ایک رات ایسی بھی ہے، جو ہزار راتوں سے بہتر ہے‘‘۔[صحیح الجامع :۵۵، وصححہ الألبانی]
ماہِ رمضان کی آمد ایک عظیم رحمتِ الٰہی ہے جس کی آمد پر خوشی ومسرت کا اظہار ضروری ہے۔
علامہ ابنِ باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اور استقبالِ رمضان کے لیے میں کوئی معین چیز نہیں جانتا سوائے اس کے کہ مسلمان اس کا فرحت و مسرت کے ساتھ استقبال کرے، اور اللہ رب العزت کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے رمضان تک پہنچایا، اسے اس کی توفیق بخشی، اور اسے ان زندہ لوگوں میں شامل کیا جو نیکی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں، چنانچہ رمضان کی آمد اللہ رب العزت کی جانب سے ایک بہت بڑی نعمت ہے‘‘۔[مجموع فتاواہ ومقالاتہ:۱۵؍۹]
وہ خوش نصیب جنہیں اس رمضان سے استفادہ کا موقع مل رہا ہے، انہیں چاہئے کہ پوری محبت و خوشی سے رمضان کو خوش آمدید کہیں، نیکی کے تمام مواقع سے خوب فائدہ اٹھائیں۔
اسی طرح ہمیں چاہیے کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل احکامِ رمضان و فضلِ رمضان کے بارے میںجانیں، نیز اس میں ایک مومن کے لیے کیا اجر و ثواب رکھے گئے ہیں اسے جانیں۔
سلفِ صالحین کا اس مہینے میں معمول تھا کہ وہ اپنے آپ کو عبادت کی مختلف اقسام کے لیے فارغ کرلیتے، جیسے نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن، دعا، صدقہ و خیرات دینا، اور اطاعت کے وہ دوسرے اعمال جن سے ایک مسلمان اس مہینے میں فائدہ اٹھاسکتا ہے۔
کیا ہم بھی اپنے اسلاف کی طرح اس بابرکت مہینے کے لیے اس کے شایان شان تیاری کرتے ہیں؟
کیا ہم اپنے اہل خانہ کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس سلسلے میں تیاری کریں اور غفلت سے کام نہ لیں؟
اللہ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے، اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔یہ صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے یہ وہ ماہ مبارک ہے، جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے۔
چنانچہ ماہِ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام، اس کی عظمت، اس کی فضیلت، اس کے مقصد اور اس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
یاد رکھیں کہ یہ گنتی کے چند دن ہیں لہٰذا زیادہ وقت عبادات اور باعثِ اجر کاموں پر لگائیں، مباح اور ذاتی ضروریات کی تگ و دو پر کم وقت لگائیں اور غیر ضروری مصروفیات ترک کردیں، اور اس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا ماحصل ہے۔
اللہ رب العزت ہم سبھی کو ماہِ رمضان کی رحمتیں، برکتیں، اور نعمتیں عطا فرمائیں۔
بشراكم بشراكم شهر الصوم أتاكم۔
٭٭٭