Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • انسانی زندگی پر اعمال صالحہ کے اثرات

    قارئین کرام! اسلام خیر و بھلائی،تقویٰ وپرہیزگاری،خیر خواہی اور نفع رسانی کا دین ہے، دین اسلام اپنے ماننے والوں کو اعمال صالحہ کا حکم دیتا ہے،برے اور گندے کاموں سے منع کرتا ہے،اسلام مسلمانوں کو نیکی اور حسن اخلاق کی تلقین کرتا ہے، مختلف ذرائع اور اسلوب میں مسلمانوں کو سب کے ساتھ نیکی اور حسن اخلاق کا حکم دیتا ہے،اچھی گفتگو ، اچھے اعمال،حسن اخلاق،اچھا کردار،اچھی سوچ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے،بلکہ اعمال صالحہ کو ایمان کا حصہ بتاتا ہے ، اپنے ماننے والوں کی کامیابی اور حصول جنت کیلئے اعمال صالحہ کو فرض قرار دیتا ہے، بلکہ انبیاء ورسل کو بھی اعمال صالحہ کا حکم دیا گیا ہے،انبیاء کرام کو عمل صالح کا حکم دینا اس کی اہمیت،عظمت اور ضرورت پر سب سے بڑی دلیل ہے،اور انہی کے واسطے سے تمام انسانوں کو بھی اس کی تلقین ہے ۔اللہ کا ارشاد ہے:
    {يَاأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ }
    ’’اے پیغمبرو!حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں‘‘[المؤمنون :۵۱]
    اسلام کی تعلیم ہے کہ موت اور زندگی کا یہ سلسلہ اسی لئے قائم کیا گیا ہے تاکہ آزما کر دیکھا جائے کہ کس کے اعمال سب سے بہترین ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {اَلَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ}
    ’’جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب (اور)بخشنے والاہے‘‘[الملک:۲]
    قارئین کرام: اسلام میں اعمال صالحہ(اچھی بات،اچھا کام،اچھے ارادے)کا مقام بہت اونچا اور بلند ہے اسی طرح اس کے اثرات بھی بہت گہرے اور فوائد بھی ہمہ گیر ہیں،دنیا وآخرت کی کامیابی بغیر اعمال صالحہ کے ممکن ہی نہیں ہے ۔ارشاد رب العالمین ہے:
    {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
    ’’اے ایمان والو! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘[الحج:۷۷]
    بلکہ اللہ نے قسم کھا کر کہا کہ اعمال صالحہ سے دوری انسانیت کیلئے سراپا نقصان اور خسارہ ہے، اس ہمہ گیر نقصان سے محفوظ وہی لوگ ہیں جو اعمال صالحہ سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں،اسی کی تلقین کرتے ہیں اور نیکی کی راہ میں ہر تکلیف کو برداشت کرتے ہیں لیکن نیکی سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرتے ہیں۔ارشاد رب العالمین ہے:
    {وَالْعَصْرِإِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ۔إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ}
    ’’زمانے کی قسم ۔بیشک (بالیقین)انسان سرتا سر نقصان میں ہے،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے)آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی‘‘[العصر:۱۔۳]
    قرآن کریم کی سیکڑوں آیات میں ’’عمل صالح‘‘کی بار بار تلقین کی گئی ہے،کیونکہ ایمان کا ثمرہ نیک اعمال ہی ہیں ، نیک اعمال سے خالی زندگی بے ایمانی اور گمراہی کی علامت ہے،اللہ تعالیٰ نے جب جب اہل ایمان کا ذکر خیر اور تعریف فرمائی ہے،توبطور علامت ان کے اعمال صالحہ ہی ذکر فرمائے ہیں اور پھر جنت اور مغفرت کا وعدہ ربانی کا ذکر فرمایا ہے،بطور مثال قرآن کریم کی ایک آیت پیش خدمت ہے،تاکہ آپ یہ یقین کرلیں کہ واقعی مومن کے مومن ہونے کی دلیل ان کے اعمال صالحہ ہی ہیں۔اللہ کا فرمان ہیں:
    {وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء ُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ أُولٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ إِنَّ اللّٰهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ}
    ’’مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور)دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والاحکمت والاہے‘‘[التوبۃ:۷۱]
    ذرا غور فرمائیں!!! اللہ نے رحمت کے مستحق اہل ایمان کا ذکر فرمایا لیکن ان کے مومن ہونے کی علامت اور پہچان کیلئے ان کے اوصاف کا ذکر فرمایا تاکہ مدعیان ایمان اس دعوے سے الگ ہوجائیں،ان کے چھ اوصاف اور خوبیاں بیان فرمائیںاور وضاحت فرمایا کہ مومن ایسے ہوتے ہیں:
    (۱) آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں(۲) بھلائی کا حکم دیتے ہیں(۳) برائی سے منع کرتے ہیں (۴) نماز قائم کرتے ہیں(۵) زکوٰۃ ادا کرتے ہیں( ۶) اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔
    اس آیت کے پہلے مخاطب صحابہ کرام ہیں گویا ان کیلئے بھی اعمال صالحہ ایمان کی پہچان ہے،اور رضی اللہ عنہ کا خطاب عظیم اس لئے ملا کیونکہ وہ نیکیوں میں سبقت کرنے والے تھے،آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے والے تھے،نیکیوں سے محبت کرتے تھے،فرائض وسنن اور نوافل کا پورا اہتمام کرتے تھے،اللہ کی رضا و خوشی اور نیکیاں پانے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے تھے،جیسا کہ اللہ نے صحابہ کرام کے اعمال صالحہ اور اوصاف حمیدہ کا ذکر فرمایا اور مغفرت واجر عظیم کا وعدہ فرمایا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّائُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَائُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ}
    ’’محمد (ﷺ)اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیںکافروں پر سخت ، آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں،ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرات سے ہے‘‘[الفتح :۲۹]
    لیکن افسوس!! جہالت،دنیا پرستی،ہوس پرستی اور آخرت سے غفلت کی وجہ سے ہم اعمال صالحہ سے دور ہوگئے ہیں، ضرورت ہے کہ اعمال صالحہ کو اختیار کریں اور نیکیوں سے محبت کریں،اور نیکیوں سے بھر پور زندگی گزاریں۔اسی میں ہماری سلامتی اور نجات ہے،پاکیزہ زندگی اور حصول جنت کی راہ یہی ہے۔
    عمل صالح کیا ہے: ہر وہ قول و عمل جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے وہ عمل صالح ہے۔لیکن اس کی قبولیت کیلئے تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ (۱)ایمان (۲)اخلاص (۳)اتباع رسول
    اللہ کا فرمان ہے:{وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَي لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا}
    ’’اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیے، وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی ‘‘ [الإسراء:۱۹]
    عمل صالح کی مختلف شکلیں اور قسمیں ہیں جو قرآن وسنت میں بالتفصیل بیان کی گئی ہیں، جیسے فرائض وواجبات، سنن ومستحبات وغیرہ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پہلے فرائض کو ادا کرے کیونکہ فرائض کی ادائیگی سے اللہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور اس کے بعد اپنی استطاعت کے مطابق سنن ومستحبات اور نوافل کا اہتمام کرے۔
    ہماری زندگی پر اعمال صالحہ کے اثرات وثمرات :
    نیک اعمال سے ہماری زندگی پر بہت اچھے اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،دنیاوآخرت میں سعادت و کامیابی ملتی ہے،نیک انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر نیکی کے اثرات پہونچتے ہیں اور نیک انسان بے شمار فوائد حاصل کرتا ہے،ان میں سے دس بڑے اور اہم ثمرات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
    (۱) اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔ جو انسان نیکی کی راہ پر چلتا ہے،حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتا ہے،نیکی سے محبت کرتا ہے،صالح انسان بن کر زندگی گزارتا ہے،تو اللہ بھی ایسے صالح بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں،نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ’’مَنْ عَادَي لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰي أُحِبَّهُ‘‘
    ’’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ)اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں‘‘[صحیح البخاری:۶۵۰۲]
    (۲) فرشتوں اور نیک لوگوں کے دلوں میں محبت اور قبولیت ڈال دی جاتی ہے: یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا } [مریم:۹۶]
    ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے عنقریب ان کے لیے رحمان عظیم محبت پیدا کر دے گا‘‘
    اس محبت کی وضاحت کیلئے پیارے رسول ﷺکی یہ حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں:
    ’’إِذَا أَحَبَّ اللّٰهُ الْعَبْدَ نَادَي جِبْرِيلَ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَائِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ‘‘
    ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو، چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں‘‘ [صحیح البخاری :۳۲۰۹]
    (۳) دنیا وآخرت کی سعادت اور پاکیزہ زندگی ،پرسکون لائف ایمان وعمل صالح سے ہی ملتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَيٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُون}
    ’’جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقینا ہم انہیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے‘‘[ النحل:۹۷]
    علامہ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’پاکیزہ زندگی‘‘ہر قسم کے آرام اور راحت کو شامل ہے۔
    (۴) موت کے وقت فرشتے جنت میں داخلے اور رنج و غم سے نجات کی بشارت سناتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    {إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ}
    ’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جائو جس کاتم وعدہ دئے جاتے تھے۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمہارے دل چاہیں گے اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ یہ بے حد بخشنے والے، نہایت مہربان کی طرف سے مہمانی ہے‘‘[ فصلت:۳۰۔۳۱]
    (۵) قبر کے عذاب سے نجات ملتی ہے: نیک انسان کو قبر میں آرام وسکون ملتا ہے،گھبراہٹ اور ڈر وخوف سے حفاظت کی جاتی ہے،اور تنہائی ومصیبت سے محفوظ رہتا ہے،اور یہ بہت بڑا انعام ہے جو صرف عمل صالح کی وجہ سے ایک نیک انسان کو ملتا ہے، پیارے رسول ﷺنے فرمایا:
    ’’إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَي الْقَبْرِ،فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ،وَلَا مَشْعُوفٍ‘‘
    ’’مرنے والا قبر میں جاتا ہے، نیک آدمی تو اپنی قبر میں بیٹھ جاتا ہے، نہ کوئی خوف ہوتا ہے نہ دل پریشان ہوتا ہے‘‘ [ابن ماجہ :۴۲۶۸،صحیح]
    (۶) مال اور اہل وعیال کی حفاظت ہوتی ہے: موسیٰ اور خضر علیہما السلام ایک بستی سے گزر رہے تھے،انہیں ایک دیوار گرتی ہوئی محسوس ہوئی تو خضر علیہ السلام نے فوراً سیدھی کردی اور بعد میں موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا۔آیت کریمہ یوں ہے:
    {وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ}
    ’’اور رہ گئی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا تو تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، تیرے رب کی طرف سے رحمت کے لیے‘‘[الکہف:۸۲]
    ’’ وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا‘’’اور ان کا باپ نیک تھا‘‘اس آیت کی تفسیر میں عبد اللہ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ان کی حفاظت ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے کی گئی،اور ان بچوں کی نیکی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔معلوم ہوا کہ نیک انسان کے مال واولاد کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کی جاتی ہے۔
    (۷) مصائب ومشکلات سے نجات ملتی ہے:رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے تین لوگوں کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ تین لوگ ایک غار میں پھنس گئے،موت کے بالکل قریب پہنچ کر یہ لوگ بچ گئے کیونکہ ہر ایک نے اپنے اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ سے دعا مانگی تو اللہ نے ان کو ان کی نیکی کی وجہ سے نجات عطا فرمائی اور غار سے نکلنے کا راستہ بنا دیا۔[صحیح البخاری:۲۲۷۲]
    اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام کو جب مچھلی نے نگل لیا اور آپ تین تاریکیوں میں گھر گئے تو دعا فرمانے لگے:
    {لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ}
    ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں میں ہو گیا‘‘[الأنبیاء :۸۷]
    اللہ نے آپ کونجات دی،نبوت رسالت سے سرفراز فرمایا، کیونکہ آپ صالح انسان تھے۔اللہ کا ارشاد ہے:
    {فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ، لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُون}
    ’’پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا، تو یقینا اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے‘‘[ الصافات:۱۴۳۔۱۴۴]
    پیارے رسول ﷺ کی جملہ تکالیف کو دور کرنے کا علاج ربانی تسبیح،تحمید،تہلیل،صلاۃ اور اللہ کی عبادت کو تجویز فرمایا گیا ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ،وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰي يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ}
    ’’ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے ،آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں،اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے‘‘[الحجر:۹۷،۹۸،۹۹]
    (۸) اللہ صالح انسان کے معاملات اور حالات کو بہترین بنادیتا ہے۔فرمان الہٰی ہے:
    {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ }
    ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اس پر بھی ایمان لائے جو محمد (ﷺ)پر اتاری گئی ہے اور دراصل ان کے رب کی طرف سے سچا (دین)بھی وہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ دور کر دیئے اور ان کے حال کی اصلاح کردی‘‘[ محمد:۲]
    (۹) نیک اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کو صالحین کے مبارک گروہ میں شامل کر لیتا ہے:صالحین بندوں میں شمولیت بہت بڑا اعزاز ہے،حضرت ابراہیم،یوسف،سلیمان علیہم السلام نے اس شمولیت کیلئے خصوصی دعائیں فرمائی ہیں،نیک عمل کے خوگر کو یہ اعزاز عطا کردیا جاتا ہے اور وہ اللہ کا خاص اور مقرب بندہ بن جاتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ}[ العنکبوت :۹]
    ’’اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کیے انہیں میں اپنے نیک بندوں میں شمار کر لوں گا‘‘
    (۱۰) ہر مسلمان کی طرف سے سلامتی کی دعا ملتی ہے:جب ایک نمازی تشہد میں کہتا ہے۔’’السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ‘‘ ’’ہم پر سلام اور اللہ کے تمام صالح بندوں پر سلام‘‘
    تو اس کی دعا آسمان وزمین میں موجود اللہ کے ہرصالح بندے کو پہنچ جاتی ہے۔
    سبحان اللہ!!!کتنا بڑا اعزاز ہے کہ صالح انسان کیلئے تمام مسلمانوں کو اپنی نماز میں سلامتی کی دعاء کی تلقین کی گئی ہے، بہت سارے لوگ دوسروں سے بکثرت یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’دعاء میں یاد رکھنا‘‘انہیں چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو صالح بنائیں،دعائیں خود ان تک پہونچ جائیں گی۔
    خاتمہ: اسلام نیکی کا دوسرا نام ہے،نیکی مسلمان کی پہچان ہے،نیکی کی راہ جنت کی راہ ہے،نیکی سے دل کو سکون ملتا ہے،نیکی کی توفیق اللہ کی نعمت ہے،اعمال صالحہ اسلام کا سب سے بڑا پیغام ہے،آج اس کی عظمت واہمیت کو سمجھنا، اس پر عمل کرنا،اس کی دعوت دینا،ہم سب کی ضرورت ہے،دنیا میں باعزت زندگی کیلئے بھی اور آخرت میں کامیابی اور دخول جنت کیلئے بھی۔اللہ ہم سب کو نیکی و بھلائی کی زندگی گزارنے کی توفیق بخشے،فرائض وواجبات ادا کرنے والا اور سنن ومستحبات اور نوافل کا اہتمام کرنے والا بنائے،اور ہمیں اعمال صالحہ سے محبت کرنے والا اورسدا نیکی کی راہ پر چلنے والا بنائے آمین۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings