-
خدمتِ خلق: ایک دینی فریضہ، ایک اخلاقی ذمہ داری خدمت خلق ایک جامع تصور ہے، اس کا مفہوم نہایت وسیع ہے، خدمت خلق اللہ سے محبت کرنے کی علامت ہے۔
خدمت خلق کا لغوی معنیٰ : مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔اصطلاح میں رضائے الٰہی کے حصول کے لیے جائز امور میں اللہ کی مخلوق کا تعاون کرنا۔خدمت خلق کے کئی طریقے ہیں جیسے کہ کسی کی مدد کرکے اور کسی کی پریشانی سن کر بھی خدمت کی جاسکتی ہے۔خدمت خلق نا صرف صالح سماج کی تشکیل ہے بلکہ محبت اور رضائے الٰہی کا تقاضہ ہے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ‘‘ ۔’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘‘۔[صحیح مسلم :۲۵۶۴]
ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اُسے دشمنوں کے سپرد کرتا ہے، اور جو کسی مسلمان کے رنج وغم کو دور کرے گا اللہ اُس کے رنج وغم کو دور کرے گا، اور جو کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا قیامت کے دن اللہ اُس کے عیب کو چھپائے گا۔خدمت ِخلق سے مراد اللہ کی خوشی کے لیے اُس کے مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کرنا اور اِس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور اورچرند پرند بھی شامل ہیں۔
اسی طرح نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی مدد کرنا چاہیے، جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے تو اللہ اُس بندے کی مدد کرتا رہتا ہے، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’تم اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ!ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں، لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)‘‘۔ [صحیح بخاری :۲۴۴۴]
آپ ﷺ کی پوری زندگی خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ رہی ہے، آپ معاشرے میں خدمت خلق، محتاجوں و مسکینوں کی دادرسی، یتیموں سے ہمدردی، پریشان حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے کاموں کے حوالے سے معروف تھے، قرآن و حدیث سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ خدمت خلق کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، لیکن دور حاضر میں خدمت خلق کا جذبہ بہت کم لوگوں کے اندر دیکھنے کو ملتا ہے ۔اللہ نے ہمیں اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کے لیے کچھ حصہ ضرور نکالیں، مریضوں کا مفت یا کم فیس میں علاج کریں، غریبوںاور مسکینوں کو کھانا کھلائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { فَکُلُوْا مِنْـہَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْـرَ} ’’پس تم اس میں سے خود (بھی)کھاؤ اور خستہ حال فقیروں کو بھی کھلاؤ‘‘۔[الحج :۲۸]
اللہ تعالیٰ نے خود کے کھانے کے ساتھ مسکینوں کا بھی خیال رکھنے کو کہا ہے، مخلوق کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کی خدمت کرنے کے زمرے میں آتا ہے، جس طرح اللہ کی عبادت دین ہے اسی طرح بندوں کی خدمت بھی دین کا ایک حصہ ہے، خدمت خلق کے ذریعے بندوں کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہے، حاجت مندوں کی مدد کرنا اور مشکل حالات سے دو چار انسانوں کو سہارا دینا ایک مفید معاشرتی عمل ہے۔آپ کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں۔اور اس کے بدلے کی اُمید اللہ رب العزت سے رکھیں اُس سے بالکل نہیں جس کی آپ مدد کر رہے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیاں خدمت خلق کا عملی نمونہ تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیماروں کی عیادت کرتے تھے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ راتوں کو گشت کرتے، بھوکے اور محتاج لوگوں کو تلاش کرتے اور ان کی ضروریات خود پوری کرتے، اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے عوام کے لیے ’’بئر رومہ‘‘کنواں خرید کر وقف کر دیا تاکہ سب مفت پانی استعمال کرسکیں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا:’’یقینا عقل، نقل (یعنی وحی)، فطرت اور مختلف نسلوں، ملتوں اور عقائد کی حامل امتوں کے تجربات سے اس بات کی واضح دلیل ملتی ہے کہ پروردگارِ عالم کا قرب حاصل کرنا اور اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی و احسان کرنا ہر خیر کو لانے والے عظیم ترین اسباب ہیں، اور ان کے برعکس رویے ہر شر کو دعوت دینے والے سب سے بڑے اسباب میں سے ہیں، پس اللہ کی نعمتیں سمیٹنے اور اس کے عذاب کو ٹالنے کا کوئی ذریعہ اس کی اطاعت اور مخلوق کے ساتھ احسان کے برابر نہیں ہوسکتا‘‘۔[الجواب الکافی: ص:۱۸]
لہٰذا آئیے! ہم بھی اس کارِ خیر کا حصہ بنیں، کسی کو کھانا کھلا کر، کسی کو کپڑا پہنا کر، کسی کو خوشی دے کر سچائی اور شفقت کے ساتھ لوگوں کی مدد فرمائیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو‘‘[صحیح الجامع :۳۲۸۹]
یہ حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اچھائی، بھلائی، مدد، اور دوسروں کے فائدے کے لیے کام کرنا ہی اصل نیکی اور انسانیت کا معیار ہے، خدمت خلق سے انسان کے اندر نرمی پیدا ہوتی ہے وہ لوگوں کے جذبات کو سمجھتا ہے، ظلم و ستم، جبر و تشدد جیسی بری چیزوں کا علاج خدمت خلق کے ذریعہ ہی کیا جاسکتا ہے، خدمت خلق سے اُلفت و محبت اور ہمدردی کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص کے ساتھ دوسروں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین