Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • حیات ابراہیم: دروس وعبر

    انبیاء کرام اور بندہ مومن کے لیے دنیا کی زندگی اور آسائشیں سب کچھ گراں ہیں ،ان کے لیے دنیاوی حیات صرف صعوبتوں، پریشانیوں، مشقتوں، آزمائشوں اور قربانیوں کی وہ سنگلاخ وادی ہے جس سے انہیں جانفشانی وعرق ریزی کے ساتھ گزر کر اپنی حیات کو پار کرنا ہے اور اس قربانی کا مقصد صرف خالق کائنات کی رضا مندی ہو تاکہ اخروی زندگی میں راحتیں، آرام، رحمتیں اور نعمتیں ان پر سایہ فگن ہوں۔
    سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَائُ وَالضَّرَّائُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰي يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا مَعَهُ مَتَي نَصْرُ اللّٰهِ؟ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ}
    [بقرہ: ۲۱۴]
    ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر ان لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے؟ اُنہیں سختیاں اور مصیبتیں پیش آئیں، اور وہ اتنے ہلا دیئے گئے کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے:’’آخر اللہ کی مدد کب آئے گی؟یاد رکھو!بے شک اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔
    اس کرۂ ارض پر بے شمار انبیاء کرام علیہم السلام آئے جو طرح طرح کی ابتلاء وآزمائشوں کا شکار ہوئے، لیکن خوشخبری ہے ان کے لیے جنہوں نے فانی دنیا کی صعوبتوں کو برداشت کرکے ہمیشگی والی دنیا میں راحت وسکون کا سامان تیار کرلیا، انہی انبیاء کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    {إِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَيٰٓ أُولَٰٓئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ۔ لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَهَا وَهُمْ فِيْ مَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَـالِدُوْنَ}
    [الأنبیاء:۱۰۱-۱۰۲]
    ’’بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی مقدر ہوچکی ہے، وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے، وہ اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور اپنی من پسند چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
    اسی طرح ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
    {وَمَن يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّنَ واَلصِّدِّيقِيْنَ وَالشُّهَدَآئِ وَالصَّـالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَٰٓئِكَ رَفِيْقًا}
    [النساء :۶۹]
    ’’اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین، اور کیا ہی اچھے ساتھی ہیں یہ‘‘۔
    انہی انبیاء کرام میں سے ایک نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں جن کی حیات پر اگر دقت نظری سے غور وخوض کیا جائے تو واقعتاان کی زندگی ہمیں بہت سا پیغام سناتی ہوئے گزرتی ہے۔
    آپ ابتداء ہی سے حق کی تلاش میں لگ گئے تھے جس کے بارے میں قرآن کریم بیان کرتا ہے:
    {وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيْمُ لِأَبِيْهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّيْ أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ}
    [الأنعام: ۷۴]
    ’’جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا:کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ بے شک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں‘‘۔
    آپ نے آنکھ کھولتے ہی شرک و کفر کی فضا دیکھی، مگر فطرتِ سلیمہ اور نورِ الٰہی کی رہنمائی میں شرک و بت پرستی کو رد کیا، یہاں تک کہ اپنے والد اور پوری قوم کے خلاف کلمۂ حق بلند کیا۔
    یہی وہ نبی ہیں جنہوں نے آنکھ کھولتے ہی شرک وکفر کی بو سونگھی، یہی وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم حتیٰ کہ والد کے ساتھ بھی مجادلہ کیا۔آپ نے بادشاہ نمرود جیسے ظالم کے سامنے بھی کلمۂ توحید کی صدا بلند کی، اس نے آپ کو آگ میں جلانے کا حکم دیا، مگر اللہ نے فرمایا:
    {قُلْنَا يَا نَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَسَلَامًا عَلٰي إِبْرَاهِيْمَ}
    [الأنبیاء:۶۹]
    ’’ہم نے کہا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا‘‘۔
    یہ اللہ کی قدرت اور ابراہیم علیہ السلام کی صداقت و استقامت کا روشن معجزہ تھا،اور اسی کے بعد سے آپ کی قربانی کی شروعات ہوئی ،والد، قوم، بیوی اور بچے ہر کسی کی جدائی برداشت کرنی پڑی۔
    ابراہیم علیہ السلام نے محض کلمۂ توحید کے لیے اپناوطن، والداور عزیز و اقارب کو چھوڑا، پھر اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور نومولود بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ وادی (مکہ مکرمہ)میں اللہ کے حکم پر تنہا چھوڑ دیا، فرمایا:
    {رَبَّنَا إِنِّيْ أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ}
    [إبراہیم:۳۷]
    ’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے قریب ایسی وادی میں بسایا ہے جو کھیتی والی نہیں‘‘۔
    یہ اللہ پر کامل یقین اور توکل کی انتہا تھی، صبر، ایمان، اور ایثار کی اس مثال کو رب العالمین نے رہتی دنیا تک زندہ کردیا۔
    نمرود جیسے سخت دل کافر سے ڈٹ کر مقابلہ کیا، اس کے بار بار اکسانے اور ستانے کے باوجود بھی انہوں نے اپنا ایمان بچائے رکھا، آگ تک کو اللہ نے گلستاں ہونے کا حکم دے دیا اور یہاں دشمن قوم حیراں وپریشاں سر گرداں سی رہ گئی کہ آگ میں جانے کے بعد کوئی صحیح سالم کیسے رہ سکتا ہے، لیکن یہ اللہ کی رحمت اور ابراہیم علیہ السلام کی عظمت پر دال ہے، اور یہاں وہ اپنی قوم، والداور اعزاء واقارب کی قربانی دے کر اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے، یہی ایک قربانی پر زندگی تمام نہیں ہوئی بلکہ پوری زندگی ابتلاء وآزمائش جاری رہی۔
    مزید ہوا یہ کہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے، بہت تمناؤں دعاؤں اور کاوشوں کے بعد اولاد جیسے رنگین رنگ سے رنگے ابھی اس رنگین دنیا سے کچھ ہی سال لطف اندوز ہوئے تھے کہ ان کی کل کائنات شریک حیات اور عزیز بیٹے سے جدائی کا حکم دے دیا گیا لیکن اللہ کی محبت کے آگے ساری محبت سے دست بردار ہوگئے اور چٹیل، بے آب، صحرا وبیاباں جہاں انسان تو دور پرندہ بھی پر نہ مارتا ہو وہاں ایک اکیلی عورت اور چند سالہ بچے کو تن تنہا چھوڑ کر آنے کا درد اس والدین سے پوچھو جن کی اولاد نہ ہو یا ہو بھی تو اکلوتی اولاد، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنیاوی محبت کو حقیر جان کر اللہ کی محبت اور رضا مندی کو مقدم رکھا اور بیوی بھی ایسی صابرہ کہ اللہ کے حکم کے آگے سرنگوں ہوگئیں، اور الحمد للہ بیٹے نے بھی نہایت ہی کم عمری میں اپنے آپ کو اپنے والد کے سامنے قربان ہونے کے لیے بلا چوں وچراں پیش کرکے ایسی عظیم مثال قائم کی کہ اللہ تعالیٰ کو ان باپ بیٹے کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ دنبہ ہی بھیج دیا، قرآن نے ان باپ بیٹے کی قربانی کو کچھ اس عظیم انداز میں بیان کیا ہے۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ملا، قرآن میں ہے:
    {قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّيْ أَرَيٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ}
    [الصافات:۱۰۲]
    ’’ابراہیم نے کہا: اے بیٹے!میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں‘‘۔
    اسماعیل علیہ السلام نے بلا تردد عرض کیا:
    {يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِيْ إِن شَائَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِيْنَ}
    [الصافات:۱۰۲]
    ’’اے ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔
    یہ منظر انسانیت کی تاریخ کا ایسا واقعہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے’’ذِبْحٌ عَظِیمٌ‘‘قرار دیا اور قیامت تک کے لیے قربانی کو امت مسلمہ کی عبادت میں شامل کردیا۔
    اسی ادا کو دیکھتے ہوئے اور اس کو یادگار کے طور پر زندہ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو ہر سال کے لیے فرض کردیا تاکہ ان باپ بیٹے کی قربانی کو ہر سال تازہ کیا جائے۔
    یقینا آپ کی تمام زندگی قربانیوں و آزمائشوں کی آماجگاہ تھی لیکن انہیں خلیل اللہ کا لقب ملا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’خلیل اللہ‘‘(اللہ کا دوست)کا رتبہ عطا فرمایا:
    {وَاتَّخَذَ اللّٰهُ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيلًا}
    [النساء:۱۲۵]
    ’’اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنالیا‘‘۔
    ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل (دوست) بنایا‘‘۔
    [صحیح بخاری:۳۳۵۱]
    یہ مقام آپ کو محض عبادت و دعا سے نہیں ملا، بلکہ زندگی بھر کی قربانی، استقامت، اخلاص اور ایمان کے نتیجے میں حاصل ہوا۔
    ان کی قربانی کو دنیا والوں کے لیے نمونہ بنادیا گیا، اور کہیں ان کو موحد وراست گو قرار دیا گیا، سب کچھ انہی قربانیوں کا صلہ ہے، حدیث میں ہے:
    ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صداقت و نبوت کا بیان، کہ وہ اللہ کے سچے بندے اور نبی تھے‘‘۔
    [صحیح بخاری: ۳۳۵۲]
    واقعتا آپ کی حیات کا مطالعہ کرنے والوں کے قلب پر ایک رقت طاری ہوجاتی ہے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہے کہ ذات اقدس سے اتنی عظیم محبت، ایمان پر اس قدر ثابت قدمی، اللہ کے حکم کی اس درجہ پختگی کہ اولاد بیوی تک ان کی راہ میں حائل نہ ہوسکی۔
    اگر اب بھی دنیا میں شریک حیات اتنی عظیم اور ساتھ دینے والی ہوجائیں کہ اللہ کے حکم کے آگے سارے احکام پس پشت ڈال دیں اور اپنے اولاد کی اتنی عظیم پرورش کریں کہ وہ اللہ کی راہ میں خوشی خوشی قربان ہوجائیں تو یقینا معاشرے میں وہ ایام دوبارہ گردش کر سکتے ہیں اور کفار ومشرکین کا مکر وفریب ظلم واستبداد پھول بن سکتا ہے، مومنوں کے قلب واذہان میں ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی طرح ایمان پختہ ہوسکتا ہے۔دشمنان باطلہ کا غرور اور انا ملیا میٹ ہوسکتی ہے۔
    اگر آج کی مائیں حضرت ہاجرہ کی طرح صبر و رضا کا پیکر بن جائیں، اگر والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ کی رضا کے لیے ہر قربانی دینے والے ہوں، اور اگر بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح فرمانبردار و مطیع بن جائیں، تو آج بھی ایمان کی بہار لوٹ سکتی ہے، باطل کے ایوان لرز سکتے ہیں، اور مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ پاسکتے ہیں، اور ہمارے دلوں میں بھی شمعِ ابراہیم روشن ہوسکتی ہے۔ ان شاء اللہ
    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب العالمین ہم تمام لوگوں کے دلوں میں قربانی کا جذبہ پیدا کرے اور اسلام و ایمان کی محبت ہمارے دلوں میں بیدار کردے۔ آمین

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings