-
تصویر سازی کی شرعی حیثیت (نصوص شرعیہ واقوال سلف کی روشنی میں) (دوسری قسط) تصویر سازی کا مسئلہ جو کہ عصر حاضر میں ہر خاص و عام سے متعلق ہے، شریعتِ مطہرہ کے ان اہم مسائل میں سے ہے جن کی بابت شرعی حکم کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، اس مسئلے کی اہمیت اور اس ضمن میں نصوص شرعیہ کی قطعی صراحت، سلف صالحین وکبار علماء کرام کے فتوؤں اور لوگوں کی بے راہ روی کے پیش نظر اس مضمون پر قلم اٹھانا پڑا، جس کی پہلی قسط قارئین کرام کی زینتِ نظر ہوچکی ہے، اس قسط میں ہم نے تصویر سازی کی حرمت کو پندرہ صحیح احادیث نبویہ کی روشنی میں واضح کیا تھا اور قوت دلائل سے یہ ثابت کیا تھا کہ جاندار کی تصویر بنانا یا بنوانا نصوصِ قطعیہ کی رو سے ممنوع وحرام ہے۔
اب جبکہ احادیث مبارکہ سے اس مسئلے کی شرعی بنیاد واضح ہوچکی ہے، تو یہ امر ضروری ہے کہ اس پر سلف صالحین اور کبار معاصر ائمہ دین کا موقف بھی پیش کیا جائے، کیونکہ فقہاء امت ہی نصوص کے معانی اور ان سے مستنبط ہونے والے احکام کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں، لہٰذا اس دوسری قسط میں ہم سلف امت کے ارشادات ا ورمتأخرین علمائے کرام کے فتاویٰ اور اقوال کو جمع کریں گے تاکہ شرعی حکم مزید آشکار ہوسکے اور اس پر امت کا اجماع یا اختلاف اگر موجود ہو تو سامنے آئے۔
علاوہ ازیں چونکہ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کے کئی شعبوں میں انقلاب برپا کیا ہے، وہیں تصویر سازی اور منظر کشی کی نئی صورتیں بھی متعارف کرائی ہیں، جن میں بالخصوص ’’ویڈیو گرافی‘‘شامل ہے، قسط ہذا میں ہم ویڈیو گرافی کے مسئلے کا بھی اجمالی جائزہ لیں گے، جو کہ ایک مستقل بحث کا طالب ہے مگر یہاں اختصار کے پیش نظر اس کی شرعی حیثیت پر علماء کے نقطہ نظر کو چند نکات کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔
آخر میں اس پورے مضمون کا خلاصہ پیش کیا جائے گا تاکہ تصویر سازی کی شرعی حکم کے تمام پہلو ایک جامع صورت میں سامنے آجائیں۔
تصویر کی مطلقاً حرمت پر ائمہ کرام کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
(۱) امام محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ (۱۲۴ھـ) سے مروی قول ہے کہ :
’’تصویر کے سلسلہ میں وارد ممانعت عمومی ہے، اور اسی طرح ان چیزوں کا استعمال بھی ممنوع ہے جس میں تصویر استعمال کی گئی ہو، اور اس گھر میں داخل ہونا بھی جس میں تصویر ہو ممنوع ہے، چاہے وہ کپڑے پر ہو یا کسی اور چیز پر، چاہے وہ دیوار پر ہو یا قالین پر، چاہے وہ استعمال میں ہو یا نہ ہو، یہ حکم احادیث کے ظاہر پر عمل کرنے کے عین مطابق ہے، خاص طور پر حدیث نمرقہ‘‘۔[إعلان النکیر علی المفتونین بالتصویر: (۱؍۳۶]
(۲) امام بغوی رحمہ اللہ (۵۱۶ھ) فرماتے ہیں :
’’حدیث کا ظاہر مفہوم تمام اقسام کی تصاویر کو شامل ہے‘‘۔[شرح السنۃ للإمام البغوی:۱۲؍۱۲۷، رقم:۳۲۱۳]
(۳) امام نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھـ) نے فرمایا :
ہمارے اصحاب اور دیگر علماء کا کہنا ہے کہ:
’’کسی بھی جاندار کی تصویر بنانا سخت حرام ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اس پر سخت وعید آئی ہے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے، خواہ وہ بطور پیشہ تصویر سازی کرے یا بغیر پیشہ کے بنایا جائے، اس کی تصویر سازی تو ہر حال میں حرام کیونکہ اس میں اللہ کی تخلیق کی مشابہت ہے، چاہے یہ تصویر کپڑے، قالین، سکے، برتن، دیوار یا کسی اور چیز پر بنائی گئی ہو، نیز اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کا سایہ ہو یا نہ ہو، چنانچہ اس مسئلہ میں یہی قول ہمارے (شافعی) مذہب کا خلاصہ ہے‘‘۔[صحیح مسلم بشرح النووی:۱۴؍ ۸۱-۸۲]
(۴) علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (۷۵۱ھـ) فرماتے ہیں کہ:
’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک جانداروں کی تصویر بنانا ہے، چاہے وہ تصویر سایہ دار ہو یا غیر سایہ دار‘‘۔[أعلام الموقعین:۴؍۴۰۳، فصل:بعض الکبائر]
(۵)سابق مفتی مملکہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ (ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’ذی روح کی تصاویر بنانا، انہیں اپنے پاس رکھنا اور ان کا استعمال کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، نیز اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مجسمہ کی شکل میں ہو یا کاغذ پر بنائی گئی تصویر ہو، یا وہ کسی آلے سے لی گئی ہو یا پھر کسی اور طریقے سے تصویر سازی کی گئی ہو (ہر حال میں حرام ہے)‘‘۔[کتاب فتاویٰ ورسائل سماحۃ الشیخ محمد بن إبراہیم بن عبد اللطیف آل الشیخ :(۱۷۴؍۱۳)]
(۶) شیخ سلیمان بن عبد الرحمن بن حمدان رحمہ اللہ (۱۳۹۷ھ) نے فرمایا:
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ فوٹوگرافی حرام تصاویر میں شامل نہیں ہے، کیونکہ یہ صرف سائے کی تصویر ہے، جیسے آئینے میں نظر آنے والی تصویر، لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ آئینے میں نظر آنے والی تصویر غیر مستقل ہوتی ہے اور دیکھنے والے کا اس میں (تصویر سازی کی طرح کا)کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، اور نہ ہی آئینہ میں دیکھنے والے کو مصور کہا جاتا ہے اور نہ ہی آئینہ میں دکھنے والے عکس کو لغت، شریعت یا عرف میں تصویر کہا جاتا ہے۔
لیکن فوٹوگرافی کی تصاویر کے سلسلہ میں کوئی شک نہیں ہے، جو شخص شرعی احکام اور ان کی علتوں کی ادنیٰ سی بھی معرفت رکھتا ہے، وہ اسے حرام تصاویر میں شامل قرار دیتا ہے۔
کیونکہ اسے بنانے کے لیے خاص آلات استعمال کیے جاتے ہیں، اور اسے ثابت اور رنگین بنانے کے لیے کیمیکل اور دیگر چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے اسے اصلی تصویر کہا جاتا ہے اور اسے بنانے والے کو مصور کہا جاتا ہے، یہ قولاً، شرعاً اور عرفاً کے لحاظ سے بھی تصویر ہی کہلاتی ہے، تصویر کشی حرام ہے چاہے تصویر کسی کھڑے شخص کی ہو یا کسی دیوار، چھت، سکہ، کپڑا، قالین یا کسی اور چیز میں نقش ونگار کے طور پر بنائی گئی ہو، اسی طرح چاہے وہ موم، آٹا یا کیک وغیرہ پر بنائی گئی ہو، بہر حال ہر صورت میں تصویر بنانا حرام ہے، اور یہ حکم ہر قسم کی تصاویر پر لاگو ہوتا ہے۔[الدر النضید علی أبواب التوحید للشیخ سلمان الحمدان: ص:۳۱۹]
(۷) شیخ حمود بن عبد اللہ التویجری رحمہ اللہ (۴۱۳ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’مذکورہ احادیث ان مفتیوں کے شبہات کا بہترین جواب ہیں جو تصاویر بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں، جو شخص ان احادیث کو عمومی طور پر تصاویر کی حرمت کے سلسلہ میں تسلیم نہیں کرتا، وہ یا تو جاہل ہے یا پھر نبی کریم ﷺکی ثابت شدہ احادیث کو جان بوجھ کر رد کرنے پر مُصر ہے۔
جب اس کی حرمت معلوم ہو ہی گئی ہو تو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ نہ قرآن میں اور نہ ہی سنت میں کوئی ایسی دلیل ہے جو ہاتھ کی تصویر، سر کی تصویر یا فوٹوگرافی کے ذریعہ تصویر کھینچنے کو جائز قرار دے، بلکہ یہ سب بغیر ثبوت ودلیل کے فتوے ہیں اور مفتی پر اس کے جواز کے سلسلہ میں دیئے گئے فتوے پر عمل کرنے والے کا گناہ ہوگا‘‘۔[تحریم التصویر والرد علی من أباحہ للشیخ حمود التویجری:ص: ۴۶-۴۷]
(۸) شیخ محمد بن ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (۴۲۰ھ) نے فرمایا:
’’دیواروں پر تصاویر لگانا، خواہ وہ مجسم ہوں یا غیر مجسم، سایہ دار تصاویر ہوں یا غیر سایہ دار، ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا فوٹوگرافی کی گئی ہو، یہ سب ناجائز ہے، اور جو شخص ان کو ہٹا سکتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ انہیں ہٹا دے، اگر نہ ہٹا سکے تو پھر انہیں پھاڑ دے‘‘۔(آداب الزفاف للشیخ الألبانی: ص:۵)
(۹) شیخ بن باز رحمہ اللہ (۱۴۲۰ھ) سے پوچھا گیا کہ :
’’آپ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسان کی فوٹو گرافی کے ذریعے لی گئی تصویر تو جائز ہے، لیکن ہاتھ سے تصویر بنانا حرام ہے؟
’’تصویر بنانا جائز نہیں ہے، چاہے وہ ہاتھ سے بنائی جائے یا کسی اور طریقے سے، ہر قسم کی تصاویر بنانا ناپسندیدہ و ناجائز ہے‘‘۔[مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعۃ – ابن باز،(۲۸؍۳۷)]
نیز انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’جو لوگ فوٹوگرافی اور مجسمہ سازی کے درمیان فرق کرتے ہیں، وہ بڑی غلطی پر ہیں، اسی طرح جو لوگ سایہ دار اور بنا سایہ دار تصاویر کے درمیان فرق کرتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ اس موضوع پر جو بھی صحیح احادیث آئی ہیں، وہ دونوں قسم کی تصویروں کو شامل ہیں، نیز مجسمہ سازی اور سایہ دار تصاویر میں جو نقصانات اور خرابیاں ہیں، وہی خرابیاں اور نقصانات فوٹوگرافی میں بھی ہیں، بلکہ فوٹوگرافی کے نقصانات اور خرابیاں کئی لحاظ سے اور کہیں زیادہ ہیں‘‘۔[مقدمۃ الإمام بن باز رحمہ اللہ لکتاب إعلان النکیر علی المفتونین بالتصویر للشیخ حمود التویجری :ص ۳-۴]
(۱۰) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ (۱۴۲۱ھ) نے فرمایا:
’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک صرف مجسم تصاویر حرام ہیں اور باقی تصاویر حرام نہیں، وہ ہم پر جھوٹ باندھتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہر اس لباس کا پہننا حرام ہے جس میں تصویر ہو، خواہ وہ بچوں کے لباس ہوں یا بڑوں کے، اسے پہننا ہرگز جائز نہیں ہے، اسی طرح یادگار کے طور پر یا کسی اور مقصد کے لیے تصاویر رکھنا بھی جائز نہیں، الا یہ کہ کسی کام کے لیے ان تصاویر کی ضرورت ہو، جیسے شناختی کارڈ یا لائسنس وغیرہ۔[مجموع فتاویٰ ورسائل للشیخ ابن عثیمین:(۲؍۲۶۹)]
(۱۱) شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ (۱۴۲۲ھ) نے فرمایا :
’’دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تمام جاندار مخلوق کی تصاویر بنانا حرام ہے، چاہے سایہ دار تصاویر ہوں یا غیر سایہ دار، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اخبارات، رسائل، ٹیلی ویژن، ویڈیو اور دیگر جدید آلات میں شائع ہونے والی تصاویر سب حرام ہیں، چنانچہ آپ اہلِ خواہشات کی طرف سے پیش کی جانے والی شبہات سے بچیں، کیونکہ آپ کے سامنے احادیث گزر چکی ہیں کہ ’’کل مصور فی النار‘‘ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہوگا، اور لفظ ’’کل‘‘عمومی الفاظ میں سے ہے، اسی طرح ’’ولا تمثالًا إلا طمستہ‘‘اور کوئی مجسمہ نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا، یہاں ’’تمثالا‘‘نکرہ ہے جو تمام جانداروں کو شامل ہے‘‘۔[غارۃ الفصل علی المعتدین علی کتب العلل، للشیخ مقبل الوادعی: ص ۱۲۴-۱۲۵]
(۱۲) سوال: فضیلۃ الشیخ! یادگار کے لیے فوری کیمرے سے تصویر لینے کا کیا حکم ہے؟ میں نے ایک فتویٰ سنا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ یہ جائز ہے، بشرطیکہ اسے محفوظ جگہ پر رکھا جائے…!
اس کے جواب میں شیخ احمد بن یحییٰ النجمی رحمہ اللہ (۱۴۲۹ھ) نے فرمایا:
تصویر نکالنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، چاہے وہ فوری کیمرے سے ہو یا کسی اور طریقے سے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو تصویریں بناتے ہیں، ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو‘‘۔(حدیث)، لہٰذا، یادگار کے لیے تصویریں نکالنا جائز نہیں ہے، لیکن ضرورت کے تحت جیسے پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، اور شناختی کارڈ وغیرہ کے لئے جائز ہے، یادگار کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے، واللہ اعلم۔ [فتح الرب الودود فی الفتاوی والرسائل والردود للعلامۃ أحمد بن یحیی النجمی – رحمہ اللہ – (۱؍۱۱۱)]
(۱۳) محدث مدینہ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:
فوٹوگرافی یا ویڈیو کیمرے سے تصویر بنانے کا کیا حکم ہے؟
شیخ متعہ اللہ بالصحۃ والعافیۃ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’فوٹوگرافی یا ویڈیو کیمرے سے لی گئی تصاویر سب تصویر کشی ہی شمار کی جاتی ہیں، اور تصویر کشی میں سے صرف وہ جائز ہے جو ضرورت کے تحت بنائی جاتی ہوں، لیکن جو تصاویر یادگار یا ان جیسے امور کے طور پر لی جائیں، تو ہرگز تصویر نہیں لی جائے گی‘‘۔(فتاویٰ محدث مدینہ شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ):
https://youtu.be/W1B4mjf6VIQ?si=HSgsf23eE0Rbb2tz )
(۱۴) شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
حدیث ’’کل مصور‘‘میں سخت وعید ہے، اور یہ ہر قسم کی تصاویر کو شامل ہے، چاہے وہ مجسمہ ہو، کاغذ پر ہو، تختیوں پر ہو، دیواروں پر ہو، یا حالیہ دور میں ایجاد ہونے والے فوٹوگرافی کے آلات سے ہو، کیونکہ جو شخص بھی تصویر کشی کرتا ہے اسے مصور کہا جاتا ہے، اور اس کا عمل تصویر بنانا کہلاتا ہے، تو جب یہ تصویر اور اس کا یہ عمل تصویر بنانا کہلاتا ہے، تو اس وعید سے کیا چیز اسے خارج کرتی ہے؟
اور یہ بات معلوم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے کلام کو صرف اللہ اور اس کے رسول کے کلام سے ہی مخصوص کیا جاسکتا ہے، نہ کہ انسانی اجتہادات، تخمینات اور فلسفوں سے، یہ اصول حدیث اور اصول تفسیر میں سے ہے کہ عام دلیل کو صرف دوسری دلیل کی بنا پر خاص کیا جاسکتا ہے نہ کہ ان بشری اجتہادات سے جو وہ قیاس آرائی سے کہتے ہیں، جبکہ یہ مسلمہ ومتفق علیہ قاعدہ ہے تو ایسے رائے زنوں کا اس قاعدہ سے صرف نظر کیا معنی رکھتا ہے جو کہتے ہیں کہ کیمرے سے تصویر لینا حرام نہیں ہے؟
یہ سب بے معنیٰ باتیں ہیں اور ان باتوں کی علماء و فقہاء کے نزدیک کوئی حیثیت وقیمت نہیں ہے۔
ایک طرف رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں :
’’ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہوگا‘‘۔
اور ایک طرف فلان وعلان کہتا ہے کہ فوٹوگرافی سے تصویر کشی کرنے والا جہنم میں نہیں جائے گا۔
یاد رکھیں کہ’’ہر طرح کا مصور جہنمی ہے، اور قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر سازوں کو دیا جائے گا‘‘۔
یہ احادیث ہر مصور کے لیے عام ہیں، خواہ تصویر کسی بھی طریقہ سے بنائی گئی ہو۔لیکن ضرورت کے تحت جو تصویریں بنائی جائیں، ان میں رخصت ہے، جیسے پاسپورٹ یا شناختی کارڈ وغیرہ کے لیے تصویریں، کیونکہ اس کے بغیر ان کا کوئی ضروری کام ہو ہی نہیں ہوسکتا، تو یہ من باب الضرورۃ جائز ہے اور ایسی صورت میں ضرورت کی حد تک تصویر کا استعمال جائز ہے لیکن اس کے علاوہ ہر قسم کی تصویر حرام ہے، چاہے وہ یادگار کے لیے ہو، فنکاری کے لیے ہو، یا دیواروں کی زینت کے لیے ہو، یا کسی اور مقصد کے لیے، سب حرام ہے‘‘۔[إعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید للشیخ صالح الفوزان: ص:۶۵-۶۹]
(۱۵) شیخ سلیمان رحیلی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا کہ تصویروں کی طرف لوگوں کا میلان اور ان کا اس سلسلہ میں سستی برتنے کے بارے میں آپ کی کیا نصیحت ہے؟
اس پر شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ نے فرمایا:
’’سب سے پہلے ہمیں یہ بات جاننی چاہیے کہ فوٹوگرافی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، لیکن میرے نزدیک – واللہ اعلم – فوٹوگرافی حرام ہے، اور عام نصوص کی بنا پر فوٹوگرافی ہرگز جائز نہیں ہے، کیونکہ اسے بھی تصویر کشی ہی کہا جاتا ہے، نیز تصویر کشی اور آئینے میں دیکھنا دونوں مختلف چیزیں ہیں۔
(مزید تفصیلی جواب درج ذیل لنک سے سن سکتے ہیں جس میں شیخ حفظہ اللہ نے اس مسئلہ کی کافی وضاحت کی ہے):
(فتاویٰ فقیہ مدینہ شیخ سلیمان رحیلی حفظہ اللہ :
https://youtube.com/shorts/ueYDnvIXUaI?si=hahyBcvn-NqQseXj
(۱۶) فتاویٰ لجنہ دائمہ سے تصویر کے سلسلہ میں دسیوں سوالات پوچھے گئے جس کے ہر جواب میں اس کے عدم جواز کا ہی کہا گیا اور فقط ضرورت کے تحت اس کے استعمال کی رخصت دی گئی، ایک نموذج درج ذیل ہے :
فتاویٰ نمبر (۱۵۵۲۸) :
سوال (مختصر مفہوم میں)
کسی اسلامی جمعیہ خیریہ میں کام کرنے والے شخص نے ایسے البم وفوٹوگرافی کے سلسلہ میں پوچھا جو غریبوں یتیموں کے مساعدہ کے بعد لی جاتی ہیں کہ اس کا حکم کیا ہے؟
جواب:’’تصویر کشی کی عمومی ممانعت اور اس پر سخت وعید کی بنیاد پر تصویر کشی نہ تو کیمرے سے جائز ہے اور نہ ہی کسی اور طریقہ سے، البتہ بوقت ضرورت اس کا استعمال جائز ہے ، اور ان تصاویر کو جمع کرکے رکھنا بھی جائز نہیں جن کی ضرورت نہ ہو، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے انہیں مٹانے اور تلف کرنے کا حکم دیا ہے، اور فرمایا:’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو‘‘۔
تصویر کشی اور کچھ تصاویر کو رکھنے کی اجازت صرف ضرورت کے وقت ہے، جیسے کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، اور ڈرائیونگ لائسنس میں موجود تصاویر‘‘۔
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ۔
عضو:بکر أبو زید رحمہ اللہ عضو: عبد العزیز آل الشیخ.
عضو:صالح الفوزان حفظہ اللہ عضو:عبد اللہ بن غریان.
الرئیس عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ
فتاویٰ لجنہ دائمہ کے اس فتاویٰ کے علاوہ بھی دیگر درج ذیل فتاوے دیکھے جاسکتے ہیں :
رقم الفتاویٰ: (۱۲۳۳۷) (۱۲۱۸۱) (۱۴۷۶۵) (۱۵۶۴۱) (۱۵۷۵۵) (۱۵۹۵۲) (۱۶۲۵۹) (۱۶۳۳۱) (۱۶۶۵۹) (۱۶۷۸۶) (۱۶۹۱۶) (۱۶۹۲۱) (۱۷۳۱۵) (۱۵۳۸۸)
مذکورہ تمام اقوال کا خلاصہ :
پہلی بات: شریعت میں ہر طرح کی تصویر کشی حرام ہے، خواہ وہ سایہ دار ہو یا نہ ہو، اور غیر سایہ دار تصاویر میں ہر وہ تصویر شامل ہے جو ہاتھ یا آلات سے بنائی جائیں، جیسے دیوار وملبوسات پر نقش و نگار یا اوراق وپیپر پر تصویر سازی یا کیمرہ کے آلات سے فوٹوگرافی یا موبائل سے سیلفی وغیرہ، گو کہ اس میں ہر طرح کی تصویر عام ہے، اور ہر صورت حرام و ناجائز ہے، کیونکہ نصوص کے الفاظ (کل، صورۃ، تمثالا وغیرہ)نکرہ وارد ہوئے ہیں جو کہ عموم پر دلالت کرتے ہیں۔
دوسری بات: حکم کے اعتبار سے تصویر سازی کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک ذی روح جو کہ اصلاً حرام ہے، اور دوسرا غیر ذی روح جس کو جمہور علماء نے جائز قرار دیا ہے۔
تیسری بات: چونکہ نصوص پر مبنی حکم کے مطابق تصویر میں اصل ’’حرمت‘‘ہے، یعنی تصویر اصلاً حرام ہی ہے لیکن بوقت ضرورت صرف چند وجوہات کی بنا پر جائز ہے، کیونکہ مشہور ومتفق علیہ فقہی قاعدہ ہے کہ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ یعنی کبھی کبھی اشد ضروتیں شرعی محرمات کو بھی مباح کردیتی ہیں، مطلب یہ ہوا کہ جتنی ضرورت ہو بس اس حد تک تصویر کا استعمال جائز ہے، جیسے کہ پاسپورٹ یا حکومتی کارڈ وغیرہ بنانے کے لیے تصویر بنانا۔
چوتھی بات: عصر حاضر کے علماء میں سے بعض علماء نے فوٹوگرافی کو تصویر سازی سے علیحدہ مانا ہے، لیکن ان کا قول مرجوح ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں جو بھی ان کی تاویل یا تحلیل ہے وہ سب قیاس مع الفارق کی صورتیں ہیں اور ان تمام تعلیلات اور قیاسات کا تفصیلی جواب کبار علماء نے دے دیا ہے، جن کو اوپر ذکر کردیا گیا ہے۔
پانچویں بات: تصویر کی حرمت فقط اللہ کی تخلیق کی مشابہت کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ شرک کا وسیلہ، گھروں میں فرشتوں کا عدم دخول اور کفار ومشرکین کی مشابہت بھی اس کے حرام ہونے کی وجوہات ہیں۔
ان تمام نصوص وآثار سے اتنی بات تو واضح ہوچکی ہے کہ شریعت میں ہر طرح کی تصویر حرام ہے، اور جو جائز ہے تو وہ فقط بقدر ضرورت، حتیٰ کہ ان تصاویر کو بطور تذکار ویادگار محفوظ رکھنا بھی حرام ہے، سوائے ضروری کاغذات کے جیسے پاسپورٹ اور آئی ڈی کارڈ وغیرہ۔
نوٹ : البتہ جہاں تک ویڈیو گرافی کی بات ہے تو اس پر اکثر علماء کی رائے یہی ہے کہ اس میں تفصیل ہے جو کہ درج ذیل ہے:
(۱) اگر ویڈیو گرافی کا مقصد گناہ ومعاصی ہو تو وہ بالکلیہ حرام ہے۔
(۲) اسی طرح ویڈیو گرافی عورتوں کے لیے بھی مطلقاً حرام ہے۔
(۳) اگر دعوت دین مراد ہو تو اکثر علماء کے نزدیک جائز ہے اور کچھ علماء اس کو بھی جائز نہیں سمجھتے، کیونکہ مقصد آواز سے مکمل ہوجاتا ہے، اپنا حلیہ تصویر ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے، اور ویڈیو گرافی کے عدم جواز کے قائلین کی ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ ویڈیو گرافی کے بعد ویڈیو کو روک کر بھی اس کی شخصی تصویر لی جاسکتی ہے، اس طرح ویڈیو بھی تصویر کشی کا ایک وسیلہ بن جاتا ہے چنانچہ اگر دعوت دین میں ویڈیو گرافی جائز بھی ہو تب بھی احوط وأقرب الی الصواب اس کے عدم استعمال کا ہے۔
(۴) اسی طرح اگر کوئی دعوت دین کے نام پر تصدر اور ناموری کا خواہشمند ہو تو اس کا یہ مقصد بھی گناہ ہی شمار ہوگا جو کہ اصلاً ریا ہے، اور ریا کو نبی کریم ﷺنے شرک اصغر سے تعبیر کیا ہے۔
تصویر کشی کے بعض مفاسد اور خاتمۂ بحث :
(۱) یہ شرک کا وسیلہ بن سکتا ہے، خواہ وہ شرک اکبر ہو جیسے کہ نوح علیہ السلام کی قوم میں اس کا آغاز ہوا، یا پھر شرک اصغر کا سبب بن سکتا ہے، جیسے کہ ریاکاری کے لیے اپنے عبادات کی تصویر کشی کرنا وغیرہ۔
(۲) اسی طرح یہ بدعت کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے، جیسے کہ عبادات میں آج جو ہم دیکھ رہے ہیں، وہ دن دور نہیں کہ اس کو عبادت کا ہی ایک جزء سمجھا جانے لگے۔
(۳) یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی نقالی ہوسکتی ہے، جو کہ حرام ہے جیسا کہ نصوص میں ہم نے ملاحظہ کیا۔
(۴) اس سے کفار ومشرکین کی مشابہت لازم آتی ہے، نیز تصویر بنانے والا اللہ تعالیٰ کی نظر میں بدترین مخلوق شمار کیا جاتا ہے، جیسے کہ اس پر حدیث حبشہ دلالت کرتی ہے۔
(۵) تصویر کشی سے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے، جیسے اوپر حدیث میں گزرا۔
(۶) تصاویر سے دیگر انسان فتنوں یا دھوکہ میں مبتلا ہوسکتے ہیں، جیسے کہ نسوانی تصاویر وغیرہ۔
(۷) جو تصاویر کا دلدادہ ہو وہ نفسانی مریض بن سکتا ہے، کہ ہر دن تصاویر وسیلفی لینا اور لائکس وکمنٹس کے لیے اس کو نشر کرنا، اور اپنا مقصد حاصل نہ ہونے پر نفسانی مرض کا شکار ہوسکتا ہے، اور اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
(۸) مقدس زمان ومکان کے حرمت کی پامالی ہوتی ہے، جیسے کہ حرمین شریفین میں تصویر کشی، مساجد میں تصویر کشی، عیدین وجمعہ کے موقع پر تصویر کشی، چنانچہ اتنے مقدس مکان واوقات میں اپنی دل لگی کے طور پرتصویر کشی اختیار کرنا حدود اللہ کی پامالی اور حد سے تجاوز کرنا ہے۔
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ (۱۴۲۱ھ) سے منقول ہے کہ:
حجاج کرام (ومعتمرین) کا عبادت کی جگہوں میں تصاویر لینا دو وجوہات کی بنا پر جائز نہیں ہے۔
پہلی وجہ: وہ یہ تصاویر یادگار کے طور پر محفوظ کرنے کے لیے لیتے ہیں اور ہر وہ تصویر جو یادگار کے طور پر محفوظ کرنے کے لیے لی جائے، حرام ہے۔
دوسری وجہ: یہ اکثر ریاکاری سے خالی نہیں ہوتی، کیونکہ انسان یہ تصاویر لوگوں کو دکھانے کے لیے لیتا ہے کہ اس نے حج (یا عمرہ)کیا ہے۔
[مجموع الفتاویٰ (۲۴-۷۱)]
(۹) تصویر کشی حسد، نظر بد اور موت کا سبب سن سکتی ہے، کیونکہ جب کوئی اپنی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر نشر کرے جیسا کہ آج ایک ٹرینڈ بن گیا ہے، اور لوگ اس کی واہ واہی کرنے لگیں، تو اس سے کمتر لوگ اس سے حسد کرسکتے ہیں، نیز یہ نظر بد اور موت کا سب بھی بن سکتا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’أكثرُ مَن يموتُ من أُمَّتي بعدَ قضاء ِ اللهِ وقدَرِه بالعَيْنِ‘‘۔
’’میری امت میں قضا و قدر کے بعد سب سے زیادہ لوگ نظر لگنے کی وجہ سے فوت ہوتے ہیں‘‘۔
[مسند الطیالسی وحسنہ الألبانی فی صحیح الجامع :۱۲۰۴]
اس میں ان والدین کے لیے بالخصوص عورتوں کے لیے بھی نصیحت ہے جو اپنے چھوٹے بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالتی ہیں، یا اپنے پروفائل پکچر کے طور پر اپنے بچوں کی تصاویر رکھتی ہیں، اور عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو نظر بد بہت جلد لگتی ہے اور اس پر نبی کریم ﷺسے مروی نصوص بھی دلالت کرتے ہیں۔
(۱۰) آخری مفسدہ یہ ہے کہ اس پر اگر ابھی روک تھام نہیں کی گئی تو آگے چل کر یہ فتنہ کی ایسی صورت بن سکتی ہے کہ اس کی حرمت پر بولنے والوں کو متشدد کہا جانے لگے گا، اور اس سلسلہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ (۱۴۲۰ھ) کا وہ قول یاد آتا ہے جو انہوں نے گانے کے سلسلہ میں بیان کیا تھا، کہ :
’’أخشي أن يزداد الأمر شدة، فينسي الناس حكم الغناء حتي إذا ما قام أحد ببيانه أُنكر عليه ونُسب إلى التشدد والرجعية‘‘۔
’’مجھے خدشہ ہے کہ (یہ گانے کا) معاملہ مزید سنگین ہوتا جائے گا اور لوگ گانے بجانے کے حکم (تحریمی)کو بھول جائیں گے اور اگر کوئی اس پر رد بھی کرے گا تو اسی کو برا بھلا کہا جائے گا اور اس کو انتہا پسندی اور رجعت پسندی سے منسوب کر دیا جائے گا‘‘۔
[تحریم آلات الطرب :۱۶]
اب گانے باجے کے ساتھ ساتھ تصویر کشی کا معاملہ ہی دیکھیں، کہ اگر کوئی شخص حرمت کا کہہ بھی دے تو لوگ اس کو شدت پسند کہنے لگیں گے، اور اگر شدت پسند نہ بھی کہیں تو ضعیف تعلیلات سے اس کے مباح ہونے پر بحث کرنے لگیں گے۔ اللّٰہ المستعان وعلیہ التکلان۔واللّٰہ الموفق والہادی إلی سواء السبیل۔