-
کھانے پینے کے سولہ( ۱۶)اہم اسلامی آداب تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں محمد رسول اللہ ﷺہی کے اسوہ اور طریقہ کے مطابق زندگی گزاریں ، مگر جب ہم اپنے مسلم سماج اور معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسے بھی مسلمان بھی نظر آتے ہیں جو ایک طرف نماز و روزہ اور حج وو زکوٰۃوغیرہ کے ضروری مسائل سے ناواقف ہیں تو دوسری طرف وہ کھانے پینے کے آداب سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺکی سنتوں اور آپ ﷺکی تعلیمات سے بالکل نابلد نظر آتے ہیں ،جبکہ ایک مسلمان کی پوری زندگی محمد رسول اللہ ﷺکے اسوۂ حسنہ کے مطابق ہی ہونی چاہیے ۔
میں نے اپنے اس مختصر مضمون میں اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے کھانے پینے سے متعلق محمد رسول اللہ ﷺکے اسوہ حسنہ سے سنتیں بحوالہ پیش کی ہیں ، تاکہ عام مسلمان انہیں یاد کرکے ان پر عمل کرسکیں ۔
(۱) ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ صرف انہی چیزوں کو کھائے اور پئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حلال قرار دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
{يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلّٰهِ إِنْ كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ}
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں کھانے کو عطا کی ہیں وہی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو‘‘۔
[البقرۃ :۱۷۲]
اور یہ بھی اللہ کی رحمت سے ہے کہ حرام چیزوں کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جن چیزوں کو حلال کہا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔اور جوچیزیں حرام ہیں بھی ان کے حرام ہونے میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے خواہ وہ مصلحت شریعت نے بیان کی ہو یا نہ بیان کی ہو۔ مثلاً بعض چیزیں اس وجہ سے حرام ہیں کہ ان میں ہمارے لیے نقصان ہی نقصان ہے جیسے زہر ۔
(۲) کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ کہنا اور آخر میں الحمد للہ کہنا سنت ہے،اگر کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ کہنابھول جائے تو یوں کہہ لے :بسم اللّٰہ فی اولہ وآخرہ۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’إِذَا اَكَلَ اَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلْيَقُلْ:بِسْمِ اللّٰهِ، فَإِنْ نَسِيَ فِي اَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ:بِسْمِ اللّٰهِ فِي اَوَّلِهِ وَآخِرِه‘‘
۔’’ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم لوگوں میں سے کوئی کھانا کھائے تو بسم اللہ پڑھ لے، اگر شروع میں بھول جائے تو یہ کہے : بسم اللّٰہ فی اولہ وآخرہ۔‘‘
[سنن ترمذی :۱۸۵۸](علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے )۔
عَنْ اَبِي اُمَامَةَ: اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَعَ مَائِدَتَهُ قَالَ: الحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلاَ مُسْتَغْنًي عَنْهُ، رَبَّنَا۔
حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ :جب نبی کریم ﷺ اپنا دستر خوان اٹھاتے تو یہ دعاپڑھتے’’ الحمد للّٰہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ، غیر مکفی، ولا مودع ولا مستغنی عنہ، ربنا‘‘۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے، بہت زیادہ پاکیزہ برکت والی، ہم اس کھانے کا حق پوری طرح ادا نہ کر سکے اور یہ ہمیشہ کے لیے رخصت نہیں کیا گیا ہے (اور یہ اس لیے کہا تاکہ) اس سے ہم کو بے پرواہی کا خیال نہ ہو، اے ہمارے رب۔
[صحیح بخاری۸۴۵۸]
(۳) سونے اور چاندی کے برتنوں میں پینا اور کھانا حرام ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إن الذی یاکل او یشرب فی آنیۃ الذہب و الفضۃ إنما یجرجر فی بطنہ نار جہنم۔’’جوسونے اور چاندی کے برتنوں میں سے کھاتا ہے یا پیتا ہے۔ جہنم کی آگ کو اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے‘‘۔
[صحیح مسلم:حدیث:۲۰۶۵]
(۴) حرام کمائی سے کھانااور پینا حرام ہے اسی طرح حرام کمائی کھانے اور پینے والے کی نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے نہ عبادت ۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’اَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللّٰهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللّٰهَ اَمَرَ الْمُوْمِنِينَ بِمَا اَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ:{يَا اَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ}[المومنون:۵۱] وَقَال:{يَا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ}[البقرة:] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَي السَّمَائِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَاَنَّي يُسْتَجَابُ لِذَالِكَ؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اے لوگو!اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک (مال)کے سوا (کوئی مال)قبول نہیں کرتا، اللہ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے پیغمبران کرام!پاک چیز یں کھاؤ اور نیک کام کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جا ننے والا ہوں اور فرمایا:اے مومنو!جو پاک رزق ہم نے تمہیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے کھاؤ۔پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا:جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے۔ (دعا کے لیے)آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہاتھ پھیلاتا ہے، اے میرے رب!اے میرے رب!جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے ،اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبو ل ہو گی؟
[صحیح مسلم ۱۰۱۵]
(۵) بائیں ہاتھ سے کھانا اور پینا حرام ہے الا یہ کہ کوئی شخص دائیں ہاتھ سے کھانے پینے سے عاجز ہو۔
ہر مسلمان کو کھانے پینے کے لیے ہمیشہ اپنے دائیں ہاتھ کاہی استعمال کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے:
’’لَا يَاْكُلَنَّ اَحَدٌ مِنْكُمْ بِشِمَالِهِ، وَلَا يَشْرَبَنَّ بِهَا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَاْكُلُ بِشِمَالِهِ، وَيَشْرَبُ بِهَا‘‘۔
’’تم میں سے کوئی شخص ہرگز اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ اس سے پیے، کیونکہ شیطان اپنے بائیں سے کھاتا اور پیتا ہے‘‘۔
[صحیح مسلم:۲۰۲۰]
ازراہ تکبر بائیں ہاتھ سے کھانے سے متعلق ایک عبرت آموز واقعہ :
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْاَكْوَعِ رضي اللّٰه عنه اَنَّ رَجُلًا اَكَلَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِمَالِهِ، فَقَال:كُلْ بِيَمِينِكَ، قَالَ: لَا اَسْتَطِيعُ، قَال: لَا اسْتَطَعْتَ، مَا مَنَعَهُ إِلَّا الْكِبْرُ، قَال: فَمَا رَفَعَهَا إِلَي فِيْهِ۔
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھا۔ وہ بولا کہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کرے تجھ سے نہ ہو سکے۔ اس نے ایسا غرور کی راہ سے کیا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ ساری زندگی اس ہاتھ کو منہ تک نہ اٹھا سکا۔
[صحیح مسلم:۲۰۲۱]
(۶) کھانے پینے کے دوران برتن میں سانس لینا جائز نہیںہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: نَهَي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الْإِنَائِ، اَوْ يُنْفَخَ فِيهِ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
[سنن ابی دائود:۳۷۲۸](علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے )۔
فوائد:
(۱) افضل یہ ہے کہ انسان تین سانس میں پیے اور برتن کومنہ سے الگ کرکے سانس لے۔
(۲) کھانے پینے کی چیز میں پھونک مارنا بھی جائز نہیں۔
(۳) اگر کھانا یا مشروب زیادہ گرم ہو تو انتظار کرلے اور ٹھنڈا کرکے کھائے پئے۔
(۴) اس طرح اگر کوئی تنکا وغیرہ اس میں گرا پڑا ہوتو ہاتھ سے نکال لے(یا اتنا حصہ بہادے)لیکن پھونک نہ مارے۔
(شرح سنن ابی دائود، از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث نمبر: ۳۷۲۸)
(۷) ٹوٹے ہوئے یا ٹیڑھے پیالے کے سرے سے پیناناپسندیدہ ہے۔
عَنْ اَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، اَنَّهُ قَالَ: نَهَي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، وَاَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَابِ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
[سنن ابی دائود:۳۷۲۲]
(علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے )۔
(۸) ایک مسلمان کے لیے کھانے یا پینے کی چیزوں میں عیب لگانا مکروہ (ناپسندیدہ )ہے اگر اس کی خواہش کے مطابق ہو تو اسے کھا لے ورنہ چھوڑدے ۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:مَا عَابَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ، كَانَ إِذَا اشْتَهَي شَيْئًا اَكَلَهُ، وَإِنْ كَرِهَهُ تَرَكَه۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ :رسول اللہ ﷺنے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکا لا اگرکوئی چیز آپ کو پسند آتی تو آپ اس کو کھا لیتے اور اگر ناپسند ہو تی تو اسے چھوڑ دیتے۔
[صحیح مسلم :۲۰۶۴]
(۹) مسلمان شخص کے لیے ٹیک لگا کر کھانا مکروہ (ناپسندیدہ )ہے۔
عَنْ اَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ:كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَهُ:’’لَا آكُلُ وَاَنَا مُتَّكيِء‘‘۔
حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیاکہ :میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ ﷺ نے ایک صحابی سے جو آپ کے پاس موجود تھے فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا‘‘۔
[صحیح بخاری: ۵۳۹۹]
بعض حضرات کا خیال ہے کہ ٹیک لگا کر نہ کھانا صرف رسول اللہ ﷺ کا خاصہ تھا، امت کے لیے منع نہیں ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے ان کا کہنا ہے کہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ متکبرین کا فعل ہے، تاہم کسی عذر کی وجہ سے ٹیک لگا کر کھایا جا سکتا ہے۔کھانے والے کے لیے مستحب یہ ہے کہ کھاتے وقت درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرے:
٭ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے جیسا کہ تشہد میں بیٹھا جاتا ہے۔
٭ دایاں گھٹنا کھڑا کر کے بایاں پاؤں زمین پر بچھا دے۔[فتح الباری: ج:۹،ص:۵۴۱]
(۱۰) ایک ساتھ بیٹھ کر ایک دسترخوان پر کھانا مستحب ہے کیونکہ ایسا کرنے سے کھانے میں خوب برکت ہوتی ہے۔
عَنْ وَحْشِيِ بْن ِحَرْبٍ اَنَّ اَصْحَابَ النَّبِيِّ، صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ إِنَّا نَاْكُلُ وَلَا نَشْبَعُ، قَالَ: لَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُوْنَ؟ قَالُْوْا: نَعَمْ، قَال: فَاجْتَمِعُوا عَلٰي طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ يُبَارَكْ لَكُمْ فِيْهِ۔’’
وحشی بن حرب حبشی حمصی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن پیٹ نہیں بھرتا تو آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو؟ لوگوں نے کہا: ہاں!آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ مل کر اور بسم اللہ کر کے (اللہ کا نام لے کر)کھائوتمہارے کھانے میں برکت ہو گی۔
[سنن ابی دائود:۳۷۶۴](علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے )
اسی طرح ایک ساتھ مل کرکھانے میں اس قدر برکت ہوتی ہے ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے اور دوآدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْاَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْاَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ۔
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا کہ آپ فرمارہے تھے:’’ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
[صحیح مسلم :۲۰۵۹]
(۱) کھانے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے ہی سامنے سے کھائے اور برتن میں ادھر ادھر ہاتھ نہ گھمائے ۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ اَبِي سَلَمَةَ، وَهُوَ ابْنُ اُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال: اَكَلْتُ يَوْمًا مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا، فَجَعَلْتُ آكُلُ مِنْ نَوَاحِي الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لِيْ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: كُلْ مِمَّا يَلِيكَ۔
عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے، وہ نبی کریم ﷺکی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے (ابوسلمہ سے)بیٹے ہیں۔ بیان کیا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھایا اور برتن کے چاروں طرف سے کھانے لگا تو نبی کریم ﷺنے مجھ سے فرمایا کہ اپنے نزدیک سے کھائو۔
[صحیح بخاری: ۵۳۷۷]
نوٹ: البتہ اگر کھانے کی اشیاء مختلف ہوں تو دل پسند چیز جہاں ہووہاں سے بھی لیا جاسکتا ہے۔
(۱۲) تھالی یا پلیٹ کے کنارے سے کھانا مستحب ہے، نہ کہ درمیان سے کیونکہ برکت درمیان میں نازل ہوتی ہے۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال: البَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ، فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ، وَلَا تَاْكُلُوا مِنْ وَسَطِهِ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے، اس لیے تم لوگ اس کے کناروں سے کھاؤ، بیچ سے مت کھاؤ‘‘۔
[صحیح مسلم :۱۸۰۵]
اسی طرح تین انگلیوں سے کھانا اور کھانے کے بعد انگلیوں کا چاٹنا بھی مستحب ہے ۔
عَنْ كَعْبِ ابْنِ مَالِكٍ اَنَّهُ حَدَّثَهُمْ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَاْكُلُ بِثَلَاثِ اَصَابِعَ، فَإِذَا فَرَغَ لَعِقَهَا۔‘‘
کعب (بن مالک) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تین انگلیوں سے کھاتے تھے اور جب کھانے سے فارغ ہوتے توان کو چاٹ لیتے تھے۔
[صحیح مسلم :۲۰۳۲]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اسْتِحْبَابُ الْاَكْلِ بثلاث اصابع ولايضم اليها الرابعة والخامسة إلالعذر بان يكون مرقاوغيره مما لايمكن بِثَلَاثٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْاَعْذَارِ‘‘۔
’’انگلیوں سے کھانا سنت ہے لہٰذا ان تینوں کے ساتھ چوتھی اور پانچویں انگلی نہ ملائی جائے الاّ یہ کہ کھانے کی چیز سالن وغیرہ ہو ،جسے تین انگلیوں سے کھانا ممکن نہ ہویا اس جیسا کوئی عذر ہوتو ایسی صورت میں کھاتے وقت چوتھی اور پانچویں انگلی کا استعمال بھی جائز ہے‘‘۔
[المنہاج شرح مسلم ابن لحجاج :حدیث :۲۰۳۲]
(۱۳) اگر کھانا دسترخوان پر گرجائے تو گندگی صاف کرکے اسے کھالینا مستحب ہے۔
عَنْ جَابِرٍ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: إِذَا وَقَعَتْ لُقْمَةُ اَحَدِكُمْ فَلْيَاْخُذْهَا، فَلْيُمِطْ مَا كَانَ بِهَا مِنْ اَذًي وَلْيَاْكُلْهَا، وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ ،فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي اَيِّ طَعَامِهِ الْبَرَكَةُ‘‘۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کسی شخص کالقمہ گر جائے تو وہ اسے ا ٹھا لے اور اس پر جو ناپسندیدہ چیز (تنکا، مٹی)لگی ہے اس کو اچھی طرح صاف کرلے اور اسے کھالے، اس لقمے کو شیطان کے لیے نہ چھوڑے، کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے‘‘۔
[صحیح مسلم :۲۰۳۳]
(۱۴) کھانا کھاتے وقت پیٹ کا تین حصہ کرنا مستحب ہے ۔
عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مَلَاَ آدَمِيٌّ وِعَاء ً شَرًّا مِنْ بَطْن۔ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ اُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ۔
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: کسی آدمی نے اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے‘‘۔
[سنن ترمذی:۲۳۸۰]
(علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے)۔
فائدہ: مذکورہ روایت میں زیادہ کھانے کی ممانعت ہے اور کم کھانے کی ترغیب ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور حکماء و اطباء کا اس پر اتفاق ہے کہ کم کھانا صحت کے لیے مفید ہے۔
(۱۵) بیٹھ کر پینا مستحب اورکھڑے ہو کر پینا جائز ہے۔
عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: لَا يَشْرَبَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَائِمًا، فَمَنْ نَسِيَ فَلْيَسْتَقِئْ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص کھڑے ہوکر ہر گز نہ پیے اور جس نے بھول کرکھڑے ہوکر پی لیا، وہ قے کردے۔
[صحیح مسلم:۲۰۲۶]
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال: سَقَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَمْزَمَ فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ:میں نے رسول اللہ ﷺ کو زم زم کا پانی پلایا تو آپ نے کھڑے کھڑے پیا۔
[صحیح مسلم :۲۰۲۷]
فائدہ: صحیح مسلم کی مذکورہ دو نوں روایتوں میں سے پہلی روایت میں کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع کیا گیا ہے اور دوسرے روایت میں اس بات کا صریح تذکرہ موجود ہے کہ خود رسول اللہ ﷺنے کھڑے ہوکر زمزم کا پانی پیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھڑے ہو کر کھانا اور پینامکروہ ہے البتہ ضرورت کے وقت کھڑے ہو کر کھانا اور پینا جائز ہے۔
(۱۶) لوگوں کو پلانے والے (میزبان )کے لیے سب سے آخر میں پینا مستحب ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :’’إِنَّ سَاقِيَ الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا‘‘۔ ’’قوم کو پانی پلانے والا سب سے آخر میں پیتا ہے۔[صحیح مسلم :۶۸۱]
آخر میں دعاگو ہوں کہ رب العالمین ہمیں پوری زندگی محمد عربی ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم تمام مسلمانوں کوخاتمہ بالخیر نصیب فرمائے ۔آمین
٭٭٭