-
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں کا تعارفی سلسلہ قسط :(۱۰) الإستغاثة فى الرد على البكري کا تعارف پیش خدمت ہے۔در اصل یہ کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے زمانہ میں قبر پرستی کی طرف دعوت دینے والے علی بن یعقوب البکری(724ھ) اور ان کے گمراہ کن آراءپر رد ہے ۔
کتاب کے تعارف سے پہلے ہم یہ جان لیتے ہیں کہ شیخ الاسلام نے جس پر رد کیاہے وہ کون ہیں ؟
نام و نسب اور تاریخ ولادت:
أبو الحسن نور الدين علي بن يعقوب بن جبريل بن عبد المحسن البكري الشافعي المصري۔
سنہ 673ھ میں ان کی ولادت ہوئ ہے ۔
اساتذہ : ان کے اساتذہ میں ابن الجزری قابل ذکر ہیں ۔
فقہی مذہب:سبکی اور اسنوی نے طبقات الشافعیہ وغیرہ میںلکھاہے کہ علامہ بکری شافعی المسلک تھے ،ہاں شافعی مذہب کے تعلق سےان کی کوئ خاص خدمات نہیں ہیں ۔
بکری کاعقیدہ:بکری صوفی اور قبوری تھے ،جیسا کہ شیخ الاسلام نے خوب واضح طورپر اس کی وضاحت کیاہے ۔اسی طرح بکری صوفیہ کے اقوال کا دفاع کرتے ہیں اور ان اقوال کو قد ر کی نگا ہ سے بھی دیکھتے ہیں ۔
وفات : سنہ 724ھ میں ان کا انتقال ہوا ۔
اس کتاب کی تالیف کے حوالہ سے ایک عجیب و غریب واقعہ:
یہ واقعہ علامہ ابن کثیر نے ذکر کیاہے جو واقعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے اعلی اخلاق پر دلالت کرتا ہے۔
اس کتاب کی تالیف کے بعد ابن البکری اور ان کے ساتھیوں کا ایک گروہ ابن تیمیہ کے انتظار میں راستے میں تھا اور انہوںنے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اتنا مارا کہ وہ زمین پر گر پڑے اور وہ لوگ وہاں سے چلے گئے ،بعد میں ان کے ارد گرد لوگ اور سپاہی جمع ہوئے اور ان سے لوگوں نے کہاکہ آپ ان سے انتقام لینے کی اجازت دیں ،لیکن ابن تیمہ نے انہیں اجازت نہیں دی اور ان سے کہاکہ یا تو حق میرے لئے ہے یا تمہارے لئے ہے یا اللہ کے لئے ہے ،اگر حق میرے لئے ہے تو وہ آزاد ہیں اور اگر حق تمہارے لئے ہے اور تم میرے بات نہیں مانے تو مجھ سے فتوی مت پوچھنا،اور جو چاہو تم کرو اور اگر حق اللہ کے لئے ہے تو وہ جب چاہے گا اپنا حق لے لے گا،لیکن لوگوں نے ابن تیمیہ کی باتوں کی پرواہ نہیں کی اور ہر ممکنہ طورپر ابن البکری کو تلاش کیا ،اور ابن البکری کو ابن تیمیہ کے گھر کے علاوہ کہیں اور چھپنے کے لئے جگہ نہ ملی ،چنانچہ ابن تیمیہ نے ان کو پناہ دیا اور ان کے لئے سلطان کے پاس شفاعت کی گئ پھر ابن تیمیہ نے ابن البکری کومعاف کردیا ،شیخ الاسلام کے اس عظیم کردار سے متاثر کو اشاعرہ کے بعض علماء نے کہا کہ ایسے اخلاق سے انبیاء اور معدودے افراد ہی متصف ہوسکتے ہیں ۔
أن شيخ الإسلام لما ألف كتابه “الاستغاثة” ( حول الاستغاثة بالله وحده وتحريم عبادة القبور و الاضرحة ودعاءهم من دون الله)
ترصد له ابن البكري (الصوفي القبوري) على الطريق ومعه جماعة من أصحابه وضربوا شيخ الإسلام ضربًا شديدًا حتى طرحوه على الأرض ثم هربوا.. تجمع الناس بعدها ومعهم الجند وطلبوا من شيخ الإسلام أن يأذن لهم بالانتقام من ابن البكري فرفض شيخ الإسلام وقال لهم : “إما أن يكون الحق لي أو لكم أو لله؛ فإن كان لي فهو فى حلٍّ وإن كان لكم؛ فإن لم تسمعوا مني فلا تستفتوني، وافعلوا ما شئتم وإن كان لله، فالله يأخذ حقه كيف شاء متى شاء”..
لكنهم لم يكترثوا لكلام شيخ الإسلام وسعوا فى طلب ابن البكري فى كل مكان ..
لم يجد ابن البكري مكانا يختبئ فيه إلا بيت شيخ الإسلام..
آواه شيخ الإسلام وخبأه حتى يشفع له عند السلطان فيعفو عنه..وقد فعل.. وهذا الموقف العجيب جعل بعض علماء الأشاعرة يقولون عن شيخ الإسلام.. تخلق بأخلاق لا تكاد تحصل إلا لأنبياء الله تعالى وأفراد الناس..
رحم الله شيخ الإسلام ابن تيمية..
البداية والنهاية (١٤/٧٦)، وذيل طبقات الحنابلة (٢/٤٠٠)، والعقود الدرية (ص٢٨٦)، والكواكب الدرية (ص١٣٩)
کتاب کانام:یہ کتاب دوناموں سے زیادہ معروف ہے ۔
1- “الاستغاثة”اور بعض لوگ یہ بھی اس کے ساتھ اضافہ کرتے ہیں: المعروف “الرد على البكري”، أو “في الرد على البكري”.
شیخ الاسلام نے اس کتاب کا نام “الاستغاثة الكبير”رکھا ہے۔دیکھیں۔(قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة لابن تيمية، ت. ربيع المدخلي ص 224 ط. الأولى 1412 هـ، الناشر مكتبة دمنهور – مصر.) “الكبير”،کا اضافہ شیخ الاسلام نے اس وجہ سے کیاہے تاکہ ان کی اس موضوع پرلکھی گئ ایک دوسری کتاب سےتفریق ہوسکے۔
2-الرد على البكري في الاستغاثة.
یہ نام ابن القیم،ابن عبد الھادی وغیرہم نے ابن تیمیہ کی مؤلفات کے ضمن میں ذکر کیاہے ۔دیکھیں۔
أسماء مؤلفات ابن تيمية لابن القیم۔(ص 19 تحقيق د. صلاح الدين المنجد الطبعة الثالثة 1976 م.) العقود الدريةلابن عبد الھادی(ص 19 تحقيق محمد حامد الفقي، طبعة مطبعة حجازي بالقاهرة عام 1356 هـ.)
اوپر کی باتوں سے یہی معلوم ہوتا ہےکہ مؤلف نے کتاب کا نام “الاستغاثہ ” ہی رکھا ہے،اوریہی نام تمام نسخوں میں اور اکثر ترجمہ نگاروں نے ذکر کیاہے،بعض لوگوں نے “الرد على البكري” أو “في الرد على البكري”جو ذکر کیاہے وہ صرف مؤلف کی اسی موضوع پر لکھی گئ ایک دوسری کتاب سے تفریق کرنے کے لئے کیاہے۔آج یہ کتاب لوگوں کے مابین “”كتاب الاستغاثة في الرد على البكري”.کے نام سے معروف ہے۔
کتاب کی نسبت مؤلف کی جانب:
شیخ الاسلام کی جانب اس کتاب کی نسبت کے حوالہ سے کئ دلائل ہیں۔چندایک ذکر کئے جاتے ہیں۔
1-مؤلف نے خود اپنی کتاب ” قاعدة جليلة” میں یہ نام ذکر کیاہے۔
2-اس کتاب کے جتنے بھی مخطوطات ہیں ،ان تمام میں اس کتاب کی نسبت ابن تیمیہ ہی کی جانب ہے۔
3-علامہ ابن القیم ، علامہ صفدی ،ابن عبد الھادی وغیرہم نے ابن تیمیہ ہی کی جانب اس کتاب کی نسبت کو ثابت کیاہے۔دیکھیں۔( أسماء مؤلفات ابن تيمية (ص 19.)، فوات الوفيات للفدی (شيخ الإسلام ابن تيمية سيرته وأخباره ص 64.)، في العقود الدريةلابن عبد الهادي (ص 37.)
4-اس کتاب کے اندر ابن تیمیہ نے اپنی بعض دوسری کتابوں کی طرف احالہ کیاہے ،جیسے “الصارم المسلول على شاتم الرسول”۔دیکھیں۔ (ص 376، 386، 393.).
مستفاد:(الاستغاثة في الرد على البكري:ص56)
سن تالیف:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے یہ کتاب دو مرحلوں میں تالیف کیا ہے،سب سے پہلا مرحلہ سنہ 714ھ سے پہلے اوردوسرا اس کےبعد۔ایک طرح سے کہلیں سنہ 711ھ سے سنہ 724ھ کے درمیان کی یہ تالیف ہے۔
اس کتاب میں ابن تیمیہ کا منھج:
1 – رد میں جامعیت:
اس کتاب پر پہلی نظر ڈالنے والے کو یہ اندازہ ہوگا کہ شیخ الاسلام نے بکری پر رد کیاہے،لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ شیخ الاسلام نے قبرپرستی پر رد کیاہے،شیخ الاسلام نے اس مسئلہ پر بڑی مفصل گفتگو کی ہے،ان کے اعتقادات ،اقوال اور ان کی کئ ساری چیز یں ذکر کیا ہے۔
2:تالیف کا مقصد بالکل واضح ہے:
اس کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں”لوگوں نے مجھ سے تقاضا کیا کہ اس شخص کے گمراہ کن عقائد کو لوگوں کے لئے بیان کروں تاکہ لوگ اس کی باتوں سے گمراہ نہ ہوں،بعض لوگوں نے یہاں تک کہا کہ اس کی باتوں پر گفتگو کرنا بڑا افضل ہے ،کیونکہ اس پر گفتگو کرنا ایک طرح سے توحید کو بیان کرنا اور شرک کی نفی کرنا ہے،ایک دووسرے پرردود کے سلسلہ میں اہل سنت والجماعت اور اہل بدعت کے ہدف و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا اہل سنت کا مقصد حق کو بیان کرناہے اور کلمیہ توحید کو بلندکرنا ہے جبکہ اہل بدعت کا مقصد کتاب وسنت کی مخالفت اوراجماع صحابہ کی مخالفت ہے اور ان تمام لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں جو ان کی مخالفت کرتاہے ۔اسی وجہ سے ہم ابن تیمیہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ تکفیر ،جھوٹ اور بہتان تراشی سے کوسوں دور نظر آتے ہیں ،جبکہ بکری نے شیخ الاسلام پر جھوٹ باندھا اور ان کی تکفیر ،لعنت اور گالی وغیرہ تک دیا ہے۔
3 – پورے اعتماد کے ساتھ اپنے منھج پر قائم رہنا:
شیخ الاسلام کی تمام کتابوں میں ایک ہی منھج نمایاں ملے گا اور وہ ہےکتاب وسنت اور سلف کے اقوال کی روشنی میں حق کو آشکارا کرنا۔
اور یہی منھج اس کتاب میں نمایاں ہے ، مخالف کو ظلم او ر جہل سے تو متصف کرتے ہیں لیکن اس کی تکفیر نہیں کرتے ہیں ،جبکہ بکری کبھی تو ابن تیمیہ طرف الحاد اور کبھی زندیقیت اور کفر کی نسبت کرتے ہیں۔
4-علمی امانت اور صداقت:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ بکری کے اقوال پوری ایمانداری کے ساتھ نقل کرنے کےبعدرد کرتے ہیں،جبکہ بکری کے یہاں علمی امانت مفقود ہے۔تفصیل کے لئے رجوع کریں۔الاستغاثة في الرد على البكري۔(ص61)
کتاب کی علمی افادیت :
1-قبر میں مدفون لوگوں سے مدد کے سلسلہ میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے جامع کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی یہی کتاب ہے۔
2-اس موضوع پر عام طور پر جنہوں نے کتابیں لکھی ہیں ان میں اکثر لوگ اسی کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
فوائد علمیہ:
1-جہم بن صفوان پہلا شخص ہے جس نے اس بات کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کیا کہ بندہ مجازی طور پر اپنے فعل کا فاعل ہے اصلا اللہ ہی ہے ، جبکہ درست اور صحیح موقف اہل سنت والجماعت کا یہ ہے کہ اصلا او رحقیقتا بندہ ہی اپنے فعل کا فاعل ہے۔مثلا کبھی بھی یہ بات نہیں کہی جائے گی کہ بندے نے نہیں کھایا ،نہیں پیا ،نہیں رکوع کیا،نہیں سجدہ کیا،نہیں روزہ رکھا ،نہیں طواف کیا ،نہیں سعی کیا،سواری پر نہیں سوار ہوا ،بلکہ یہ تما م کام اللہ نے کیا۔جو کہ درست نہیں ہے۔
2-بعض کجری فکری کے شکار لوگ جیسے حلولیہ ،ابن عربی اور ان جیسے لوگوں کا گمان ہے کہ اللہ کسی کو بھی اپنا نائب بنا سکتا ہے،جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ زمین پر آدم علیہ السلام اللہ کے خلیفہ تھے ۔جبکہ یہ عقیدہ غلط ہے وہ اس وجہ سے کہ اللہ کبھی غائب نہیں ہوتا ہے ،کائنات کی کوئ بھی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہےپھر اس کا نائب کیسا؟ جبکہ مخلوق اپنی کمزوری ،جہالت اور غیبوبیت کی بنیاد پر اپنا کسی کو نائب بناتی ہے۔واضح رہے کہ یہ عقید ہ کفریہ اور جہالت پر مبنی عقیدہ ہے،اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والاہے،زمین و آسمان کے تمام معاملات کی تدبیر وہی کرتاہے، آدم علیہ السلام کو بھی اسی نے پیدا کیا، وہ ہمیشہ موجود رہنے والا ہے۔
3-لوگوں کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس خاتونے سے نکاح کیا ،پھر دخول کے بعد طلاق دے دیا یا دخول سے قبل طلاق دے دیا تو کیااس عورت کا شمار امھات المؤمنین میں ہوگایانہیں۔ تفصیل کے لئے رجوع کریں ۔ (الاستغاثة في الرد على البكري:ص371)
4-مردوں سے استغاثہ کسی بھی چیز میں جائز نہیں ہے ، اسی طرح زندوں سے کسی ایسی چیز کامطالبہ کرنا جس پر اللہ کے علاوہ کوئ اور قدرت نہیں رکھتا ہے وہ بھی جائز نہیں ہے۔
5-روافض کا عقیدہ ہےکہ علی رضی اللہ عنہ بقیہ تینوں خلفاء راشدین پر مقدم ہیں ، او ر وہ معصوم ہیں ،جو ان کے اس عقیدہ کی مخالفت کرتاہے اس کی وہ تکفیر کرتے ہیں،اور ان کے اس عقیدہ کی مخالفت کرنے والے جمہور صحابہ او رمؤمنین ہیں ،یہاں تک کہ یہ لوگ ابو بکر وعمر وعثمان کی بھی تکفیر کرتےہیں۔
6-اہل بدعت کے عقیدہ کی جو بھی محالفت کرتا ہے اس کی وہ سیدھے تکفیر کرتے ہیں ،جیسے روافض ،قدریہ ،جہمیہ اور حلولیہ وغیرہ ۔
7-فضیل بن عیاض اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتےہیں{ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا } [هود: 7]بندہ کا وہی عمل قبول کیاجائے گا جو اخلاص پر مبنی ہو اور سنت کے مطابق ہو ، اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سےبھی وہ عمل خالی رہا تو وہ عبادت اللہ کے یہاں ناقابل قبول ہے۔
8-اگر کوئ شخص کہتاہے”اے اللہ تیرے نبی کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے “تو اصلا وہ رسول اکر م سے ہی سوال کررہا ہے ، اور تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ شرکیہ عقیدہ ہے ۔
9-حدیث الاعمی سے اہل قبور استدلا ل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انبیاء اور اولیاء کی ذات سے وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔ آئیے سب سے پہلے حدیث الاعمی کا متن دیکھتے ہیں پھر جو جواب ابن تیمیہ نے دیا ہے اسے نقل کرتے ہیں ۔
“عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي، قَالَ: ” إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ “، قَالَ: فَادْعُهْ، قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: ” اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ، مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ “. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ۔
(ترمذی:3578)۔
پہلاجواب: مدد کے لئے انہوںنے نہیں کہاتھا بلکہ توجہ کی بات کہی تھی ۔( أنه ليس هو استغاثة بل توجه به.)
دوسراجواب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا کواپنی ذات بابرکات سے وسیلہ پکڑنے کا مشورہ آپﷺنے نہیں دیا تھا،
بلکہ آپﷺ سے اپنی دعاء کی قبولیت کی درخواست کی تھی ۔مزید تفصیل کےلئے رجوع کریں۔(الاستغاثة في الرد على البكري: (ص257)
10-قبروں کی زیارت میت کی استغفار کے لئے مشروع ہے لیکن میت سے رحمت ،مغفرت وغیرہ کے لئے قبروں کی زیارت شرک کے زمرے میں آتی ہے۔
11-صحیحین کی یہ روایت ان لوگوں پر رد ہے جو نبی اکرم سے موت کے بعد بھی مدد طلب کرنے کے جواز کے قائل ہیں،جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر اپنے عزیز و اقارب کو بھی موت کے بعد فائدہ پہنچانے سے انکار کردیاتو پھر ان کے علاوہ کی کیاحیثیت ہے
“يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ، بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًاً”.
ترجمہ:اے عباس بن عبدالمطلب! اللہ کی بارگاہ میں میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ، رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔
12-کیا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی برات کا علم نزول وحی سے پہلے سے تھا؟ شیخ الاسلام نے یہ مسئلہ اس کتاب اندر شاید اس وجہ سے کیاہے کہ ان لوگوں پر رد کرسکیں جو نبی کی شان میں غلو کرتے ہیں ۔
13-جو چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھیں ان میں سے ایک چیز یہ بھی تھی کہ اگر کوئ مؤمنہ عورت اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کرتی ہے تو اس کا قبول کرنا جائز ہے ،لیکن یہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔
اس موضوع سےمتعلق لکھی گئ کتابیں:
1 – ” الفرج بعد الشدة والضيق”، لأبي الحسن على بن محمد المدائني (ت 225 هـ).
2 – “الفرج بعد الشدة”، لأبي بكر بن أبي الدنيا (ت 281 هـ).
3 – “مجابو الدعوة”، لأبي بكر بن أبي الدنيا أيضاً.
4 – “الفرج بعد الشدة”، للقاضي أبي على المحسن بن أبي القاسم التنوخي (ت 384 هـ)، وهذا الكتاب أجمع الكتب السابقة وأوسعها، وله مختصرات كثيرة منها: مختصر لطف الله بن حسن التوقاني.
5 – كتاب “المستصرخين بالله”، للقاضي (بهاء الدين أبي الوليد) يونس بن عبد الله بن محمد بن مغيث بن الصفار القرطبي (ت سنة 429 هـ)، وصف الذهبي كتبه: “بأنها نافعة۔
6 – كتاب “المستغيثين بالله -تعالى- عند المهمات والحاجات والمتضرعين إليه سبحانه بالرغبات والدعوات، وما يسر الله -الكريم- لهم من الإجابات والكرامات”، تأليف الإمام الحافظ (أبي القاسم) خلف بنعبد الملك بن مسعود بن بشكوال (ت سنة 578 هـ)
7 – “العدة للكرب والشدة”، جمع أبي عبد الله محمد بن عبد الواحد المقدسي (ت 643 هـ) (2).
8 – “الفرج بعد الشدة والضيقة”، تأليف الشريف إبراهيم بن عبد الله الحازمي.
تحقیقات،شروحات ،حواشی ۔
1-الكتاب: الاستغاثة فى الرد على البكري،المؤلف: شيخ الإسلام أحمد بن تيمية (ت 728 هـ)دراسة وتحقيق: د. عبد الله بن دجين السهلي،أصل التحقيق: رسالة ماجستير – قسم الثقافة الإسلامية بكلية التربية بجامعة الملك سعود،
الناشر: مكتبة دار المنهاج للنشر والتوزيع، الرياض – المملكة العربية السعودية،الطبعة: الأولى، 1426 هـ،عدد الصفحات:495
اس محقق نسخہ کی چند نمایاں خصوصیات۔
1- کئ مخطوطات کو سامنےرکھ کرکےمتن کی تحقیق کی گئ ہے۔
2-قرآنی آیات اور احادیث کی نسبت کا اہتمام۔
3-اقوال،مسائل اور فقہی آراء کے نسبت کی تحقیق۔
4-غیر معروف شخصیات کا چند سطور میں تعارف ،قبائل وغیرہ کا بھی تعارف ۔
5-اس تحقیق نسخہ میں رموز اور مصطلحات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ مثلا سیراعلام النبلاء کے لئے صرف “سیر ” لکھ دیا گیا ہے۔
2-تلخیص کتاب الاستغاثة:حققه و خرج أحاديثه و علق عليه أبو عبد الرحمن محمد بن علي عجال.
توضیحی نوٹ: تلخیص الاستغاثہ کے مؤلف علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ ہیں ، بعض باحثین ابن کثیر کی اس کتاب سے بعض چیزیں نقل کرتے ہیں اور حوالہ”الاستغاثة في الرد على البكري” کا دیتے ہیں۔ جو کہ غلط ہے ۔علامہ ابن کثیر نے تلخیص میں بعض ایسی باتیں ذکر کیا ہے،جن کا ذکر علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب”الاستغاثة في الرد على البكري”میں نہیں کیاہے۔تفصیل کے لئے رجوع کریں۔(الاستغاثة في الرد على البكري۔دراسة وتحقيق: د. عبد الله بن دجين السهلي-ص :10)۔
2-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی اس موضوع سے متعلق کئ ایک کتابیں اور ہیں۔
1 – رسالة الاستغاثة۔
2-رسالة أخرى:
وهي جواب عن سؤال أطول من السؤال السابق، ويظهر أن السائل من تلاميذ ابن تيمية، ويشير إلى كلام البكري دون ذكر اسمه، ويذكر أقواله مثل: “تكفير من منع الاستغاثة بالنبي صلى الله عليه وسلم”، وفي السؤال أيضاً بعض أقوال ابن تيمية من كتاب الرد على البكري.
وقد أجاب الشيخ على السؤال أيضاً دون ذكر للبكري، ولكن يظهر من ألفاظ الجواب وكأنها مختصرة من هذا الكتاب، ولم يذكر لها عنواناً أو تاريخ تأليف، ولكن من المؤكد أنها بعد الرسالة السابقة وردِّ البكري عليها۔(مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية 1/ 101 – 107.)
3-قاعدة جليلة فى التوسل والوسيلة:
توسل کے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے ،توسل ،استغاثہ ،شفاعت ،دعا میں کیافرق ہے اس کی وضاحت ہے اس کتاب میں ہے۔
4-“الرد على الأخنائي”: وهو فى الرد على القاضي تقي الدين المالكي، فى مسألة شد الرحال۔
5-“الجواب الباهر فى زوار المقابر”: كتبه للسلطان فى زيارة القبور وما كُذبَ عليه فيها، وهو مطبوع ضمن مجموع الفتاوى۔