-
قربانی کا اصل پیغام اسلامی شریعت نے اپنے ماننے والوں کو جن دو عیدوں کی اجازت ہے ان میں سے دوسری عید یعنی ’’عید الاضحی‘‘ بالکل سامنے ہے، اس مہا ماری اور لاک ڈاؤن کے دور میں عید اور قربانی کا عمل کیسے انجام پائے گا اس پر ہمارے علماء و اکابرین ذمہ داروں سے مل کر صلاح و مشورے کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ نتیجہ بہتر ہی آئے گا اور پھر اسی پر ہم سب کو عمل بھی کرنا چاہئے کیونکہ یہ مشکل ، پریشانی اور مجبوری کا دور چل رہا ہے اور ایسے حالات میں بہت ساری چیزیں اللہ کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے معاف ہو جایا کرتی ہیں، تو ہمیں بلا وجہ بہت زیادہ پریشان ہونے اور جذبات میں آنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صبر اور حوصلے کے ہتھیار سے اپنے آپ کو لیس کر کے اس مشکل دور سے خوش اسلوبی کے ساتھ گزر جانے کی تدبیریں کرنا چاہئے تاکہ ہماری دنیا بھی سلامت رہے اور آخرت بھی خراب نہ ہو۔
محترم قارئین! عید قرباں یا قربانی کا یہ عمل ہم اور آپ کو کیا پیغام دیتا ہے یہ ہمیں سوچنے اور اپنی زندگی میں اسے برتنے کی ضرورت ہے، قربانی کی تاریخ انسانی تاریخ جتنی پرانی ہے اور عید الاضحی کے موقع پر پیش کی جانے والی قربانی ہمیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی یاد دلاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں ہماری حیثیت جو کچھ بھی ہو، ہم کتنے ہی زیادہ مالدار اور عہدے والے کیوں نہ ہوں لیکن ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی ہر ہر بات سر جھکا کردل وجان سے قبول کرنا چاہئے اور زبان و بدن سے اس کا اظہار بھی ہونا چاہئے، اس لئے کہ جب تک ہم اپنی سب سے بہترین چیز کو رب کے لئے دینے کا جذبہ و حوصلہ نہیں رکھتے ہیں تب تک ہم اس کے محبوب بھی نہیں بن سکتے، ایک لمبی مدت اور ان گنت دعاؤں کے بعد اگر ایک بچے کی پیدائش آپ کے یہاں ہو اور پھر کچھ دنوں کے بعد اسی کو قربان کرنے کا حکم آ جائے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟ یقینا آ پ ساکت و جامد ہو جائیں گے،آپ ناراض بھی ہوں گے، کسی غلط رد عمل کا اظہار بھی کریں گے لیکن نہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب کے ذریعے حکم ملا اور وہ فوراً رب کے اس فیصلے پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گئے، اور دوسری طرف بیٹا بھی ایسا کہ باپ نے معاملہ سامنے رکھنے کے بعد سوچنے کے لئے کچھ وقت دینا چاہا کہ غور کر لو تم کیا کہتے ہو مگر بیٹا فوراً جواب دیتا ہے کہ آپ کو جس کام کا حکم ہوا وہ آپ کر جایئے ، یقینا آپ مجھے اس مسئلے میں صابر و شاکر پائیں گے، اور پھر نتیجہ آپ جانتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے ایک جانور قربان کیا گیا ، اللہ کو تو بس امتحان لینا مقصود تھا کہ میرے یہ بندے کس قدر عبادت و بندگی کرنے والے ہیں اور ان دونوں کو مجھ سے محبت کتنی اور کس معیار کی ہے؟ معلوم یہ ہوا کہ بکرا یا کوئی اور جانور عید الاضحی کے دنوں میں قربان کر دینا اصل نہیں ہے کیونکہ اللہ کو اس جانور کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون، بلکہ اصل یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں میں رب کی محبت کو بٹھا لیں، جیسے اس کی محبت میں ہم قربانی کا عمل انجام دیتے ہیں ایسے ہی ہمیں اس کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور اس کی محبت کی خاطر اپنی محبوب ترین چیزوں کو بھی قربان کر دینے کا حقیقی جذبہ بھی ہونا چاہئے۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
مگر افسوس کہ اگر آج ہم اپنا جائزہ لیں توہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس ہو چکے ہیںکہ ہم سسکتی بلکتی انسانیت کو دیکھ کر آنسو کے چند قطرے تو گرا سکتے ہیں لیکن اپنے اعمال کی اصلاح نہیں کر سکتے، ہم نبی کریمﷺ کے نام پر سب کچھ قربان کر دینے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن احادیث نبوی پر عمل کرنے کے معاملے میں زیرو بَٹَا سنّاٹا نظر آتے ہیں ، علماء کی زبانی قال اللہ و قال الرسول کی صدا سننے کے لئے ہم بڑے بڑے اسٹیج تو لگوا سکتے ہیں لیکن اسٹیج کے سامنے سے ہٹتے ہی شیطان کو خوش کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں ، قربانی کے موقع سے جانور خریدنے کے معاملے میں ہم ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی تو کر سکتے ہیں، دو دو چار چار جانور خرید کر انہیں قربان کرنا تو ہمیں یاد رہتا ہے لیکن قربانی کے اصل پیغام کو ہم اپنی زندگی میں برتنا بھول جاتے ہیں، ہم وہ قوم بن چکے ہیںجو بھٹکے ہوؤں کو روشنی کی طرف لانے کی پر زور وکالت تو کرتی ہے لیکن ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘کا محاورہ یہاں بھی سچ ثابت ہوتا نظر آ جاتا ہے ، کتنے ہی خونچکاں حادثات آ جائیں لیکن ہم من حیث القوم بس دو سے تین دن ٹھیک رہتے ہیں اور پھر وہی پرانی روِش، وہی ضلالت و گمرہی کے راستے ،وہی بے رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں۔
افسوس! ترقی کرنے کے سارے اسباب و عوامل جس قوم کے پاس ہیں آج وہی پستی کا شکار ہے، وہی در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، آہ! امت مسلمہ تجھ کو کیا ہو گیا،دیکھ دشمن زمانہ تیرا ہو گیا۔
٭٭٭