-
وقف کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں وقف کی لغوی تعریف:
وقف کا لغوی معنیٰ ٹھہرنا، رکنا یا توقف اختیار کرنا ہے۔(معجم المعانی)
وقف کی شرعی تعریف:
وقف کا مطلب ہے کسی چیز کو اللہ کے لیے مخصوص کردینا، جیسے زمین، مال یا جائیداد، تاکہ اس کا فائدہ ہمیشہ جاری رہے اور اس سے نیکی کا کام کیا جائے (جیسے مسجد، مدرسہ، ہسپتال وغیرہ)۔
[موسوعۃ الفقہ الإسلامی- محمد بن إبراہیم بن عبد اللہ التویجری، ص:۶۸۴]
اسلام میں وقف کی اہمیت :
وقف اسلام کا ایک اہم اور مستحب عمل ہے جس میں کوئی شخص اپنی ملکیت کی چیز (جیسے زمین، مکان، باغ، کنواں وغیرہ) کو اللہ کی رضا کے لیے دائمی طور پر وقف کردیتا ہے تاکہ اس کا فائدہ معاشرے کو ملتا رہے، یہ ایک صدقۂ جاریہ ہے جس کا ثواب وقف کرنے والے کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔
نیز وقف کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا، نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرنا اور سماجی یکجہتی قائم کرنا بھی ہے۔
وقف کی تاریخ بڑی پرانی ہے، عہد رسالت ﷺمیں خود آپ ﷺاور متعدد صحابۂ کرام نے اللہ کے لیے اپنی جائیدادیں وقف کیں، جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی :
{لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰي تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ}
[سورۃ آلِ عِمْرَانَ:۹۲]
ترجمہ:’’تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچوگے جب تک ان چیزوں میں سے(اللہ کے لیے)خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں‘‘۔
وقف میں زمینیں، مکانات، دُکانیں، گاڑیاں یعنی ہرقابل انتفاع چیز جس میں دوام کی صفت پائی جاتی ہو، وقف کی جاسکتی ہے، وقف انسان کو خیر کے کاموں میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے اور دراصل یہ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا ایک دوامی طریقہ ہے، جو انسان کے لیے تسلسل کے ساتھ ذخیرہ آخرت بنتا رہتا ہے اور اس سے انسان کے مال وعزت میں اضافہ ہوتا ہے۔
نبی کریمﷺتمام بڑے صحابہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت معاذ وغیرہم رضی اللہ عنہم نے اپنی جائدادیں وقف کیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ :
’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ انصار میں سے اسّی صحابہ نے متاع (وقف) صدقہ کیا‘‘۔
[المغنی، ۸ ؍۱۸۵]
صحابہ کے بعد بھی نسلاً بعد نسل مسلمانوں نے وقف کے سلسلہ کو جاری رکھا۔
وہ آیات اور احادیث جن میں وقف کا ذکر ہے:
وقف کی اسلام میں بہت اہمیت ہے اسی وجہ سے بہت سی آیات اور احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔
وقف کی اہمیت قرآن کی روشنی میں :
(۱) {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰي تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْئٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ}
[آل عمران: ۹۲]
ترجمہ:’’تم ہرگز نیکی کو حاصل نہ کرسکو گے جب تک کہ تم اپنی محبوب چیز اللہ کے راہ میں خرچ کردو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو، اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔
یہ آیت دلیل بننے کی وجہ ذیل میں ذکر ہونے والی حدیث ہے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ:
’’ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے، اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے، اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاء کا باغ تھا، یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا، اور رسول اللہ ﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰي تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ…(آل عمران:۹۲)’’تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو‘‘، یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو، اور مجھے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے، اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں، اللہ کے حکم سے جہاں آپ ﷺ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے، راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’خوب!یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے، یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے، اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی، اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دے ڈالو‘‘، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا‘‘۔[صحیح البخاری:۱۴۶۱]
(۲) {مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآئُ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ}
[البقرہ:۲۶۲]
ترجمہ:’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھا دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔
وقف حدیث کی روشنی میں:
(۱) عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:
’’مجھے خیبر میں (حصہ میں) ایک زمین ملی، میں رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور آپ ﷺسے کہا:مجھے بہت اچھی زمین ملی ہے، مجھے اس سے زیادہ محبوب و پسندیدہ مال (کبھی) نہ ملا تھا، آپ ﷺنے فرمایا:اگر چاہو تو صدقہ کر سکتے ہو تو انہوں نے اسے بایں طور صدقہ کردیا کہ وہ زمین نہ تو بیچی جائے گی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جائے گی اور اس کی پیداوار فقیروں، محتاجوں اور قرابت داروں میں، گردن چھڑانے (یعنی غلام آزاد کرانے میں)، مہمانوں کو کھلانے پلانے اور مسافروں کی مدد و امداد میں صرف کی جائے گی اور کچھ حرج نہیں اگر اس کا ولی، نگراں، محافظ و مہتمم اس میں سے کھائے مگر شرط یہ ہے کہ وہ معروف طریقے (انصاف و اعتدال) سے کھائے (کھانے کے نام پر لے کر) مالدار بننے کا خواہشمند نہ ہو اور دوسروں (دوستوں)کو کھلائے‘‘۔
[صحیح مسلم:۱۶۳۳]
(۲) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین کے:صدقۂ جاریہ ، نفع بخش علم، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے‘‘۔
[صحیح مسلم:۴۳۳۲]
اس حدیث میں صدقۂ جاریہ سے مراد وقف بھی ہوگا کیونکہ مرنے والے کو وقف کردہ چیز کا ثواب ملتا رہے گا۔
رسول اللہ ﷺ کے دور میں وقف کی صورتیں :
(۱) مسجد
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا:’’اے بنو النجار، اپنی یہ دیوار مجھے قیمت کے طور پر دے دو۔ انہوں نے کہا:نہیں، اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت اللہ کے سوا کسی سے نہیں مانگتے یعنی اللہ کے لیے وقف کرتے ہیں‘‘۔[صحیح مسلم:۱۱۷۲]
(۲) باغ
سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی ماں عمرہ بنت مسعود کا انتقال ہوا تو وہ ان کی خدمت میں موجود نہیں تھے، انہوں نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ!میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا، کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپﷺ نے اثبات میں جواب دیا، تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے(وقف)صدقہ ہے‘‘۔[رواہ البخاری:۲۷۵۶]
(۳) بئر رومہ:
ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ محاصرے میں لیے گئے تو (اپنے گھر کے) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم ﷺ کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص بئر رومہ کو کھود دے گا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھودہ تھا، کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرہ (غزوہ تبوک پر جانے والے لشکر)کو جو شخص ساز و سامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا، راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی‘‘۔[صحیح البخاری : ۲۷۷۸]
اس کے علاوہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ کی راہ میں ہر وہ چیز وقف کرتے تھے جو لوگوں کے لیے مفید ہو۔
وقف کی مدت:
وقف کی مدت دائمی ہے۔
جو کوئی زمین یا مکان اللہ کے لیے وقف کرتا ہے، وہ اب اس کی جائیداد نہیں ہے، اور اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا، بطور تحفہ، یاوراثت میں نہیں دیا جاسکتا اور دوبارہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ سے خیبر کی زمین وقف کرتے وقت یہ کہا :’’کہ اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف)کریں کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ وراثت میں کسی کو دے سکتے ہیں‘‘۔[صحیح البخاری:۲۷۷۲]
وقف کے شروط:
اوقاف کے صحیح ہونے کے لیے شریعت نے چند شرطیں عائد کی ہیں، ان کے بغیر وقف صحیح نہیں ہوسکتا۔
(۱) جو زمینیں اورجائیداد وقف کی جائیں، اس پر کسی کا دعویٰ نہ ہو، بلکہ وہ واقف کی ملکیت میں ہو اوروہ وقف بالآخر فقراء اورمساکین کے لیے ہو۔
(۲) واضح لفظ میں وقف کیا جائے، ایسے الفاظ میں وقف نہ ہو، جس میں وعدے کا شبہ ہو اور نہ اس طرح وقف کیا جائے کہ مستقبل میں اس وقف کے ختم ہونے کا اندیشہ ہو۔
(۳) یہ وقف اللہ کی رضا اورخوشنودی کے لیے کیا جائے اوریہ بھی ضروری ہے کہ وقف کرنے والا عاقل وبالغ ہو۔
(۴) وہ وقف مرض الموت میں نہ کیا گیا ہو، اسی طرح وقف کا مقصد کسی وارث کو محروم کرنا نہ ہو، اگر کسی وارث کو محروم کرنے کے لیے وقف کیا گیا ہو تو وہ وقف صحیح نہ ہوگا۔
(۵) وقف نیکی کے کاموں کے لیے کیا گیا ہو، جو جائیداد وقف کی جارہی ہو وہ موجود بھی ہو۔
وقف کی گئی چیز پر قبضہ کرنے والے کے لیے وعید:
وقف کردہ چیز چونکہ عام لوگوں کے استعمال کے لیے ہوتی ہے، لہٰذا اس پر کسی ایک شخص کا ناحق طریقے سے قبضہ کرنا اس کے لئے دنیا و آخرت میں رسوائی کا سبب بن سکتی ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لے لیا، تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا‘‘۔[صحیح البخاری:۲۴۵۴]
خلاصہ :
وقف ایک عظیم اسلامی عبادت ہے جو معاشرتی فلاح و بہبود، تعلیم، صحت اور دینی خدمات کو فروغ دیتا ہے، یہ نہ صرف آخرت میں ثواب کا ذریعہ ہے بلکہ دنیا میں بھی انسانیت کی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے، عام انسانی ضروریات کی تکمیل کی کوشش، اس کے لیے اوقاف قائم کرنا اور کرانا، اس کی دیکھ بھال، حفاظت اور اس کو ترقی دینا اس دور کی بڑی دینی ضرورت ہے ، یہ سب اجتماعی کفالت کے طریقے ہیں جن میں مسلمانوں کو آگے آنا چاہیے اور اوقاف کرکے اس کو ترقی دینا اور اس کے مصارف میں خرچ کرنا ہمارا شیوہ ہونا چاہیے۔