-
محرم کی حقیقت اور عاشقان حسین محرم کا مہینہ شروع ہوتے ہی مسلم علاقوں کی کیفیت اور ہیئت بدل جاتی ہے لیکن وہاں کے افراد کے کردار اور اطوار میں تبدیلی نہیں آتی ہے، اسٹیج اور جلوس کے ذریعے اسلامی حمیت کا ڈھنڈورا تو پیٹا جاتا ہے لیکن عملی اعتبار سے یہ جوش ٹھنڈا ہی رہتا ہے، کالی پٹیاں باندھ کر اور شربتوں و سبیلوں کے مٹکے لگا کر’’محبت حسین‘‘کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے لیکن’’محبت حسین‘‘کے حقیقی تقاضوں کو فراموش کر دیا جاتا ہے، جس دن روزہ رکھنا مشروع کیا گیا اور کہا گیا کہ اس کی وجہ سے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اسی دن ’’حسین رضی اللہ عنہ‘‘سے عقیدت کے نام پر لوگوں کو’’جام‘‘ ’’شربت‘‘اور’’پانی‘‘پلایا جاتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں اسی دن پیاسا رکھ کر شہید کر دیا گیا تھا اس لیے ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم کسی کو بھی پیاسا نہ رکھیں جبکہ حسین رضی اللہ عنہ کے نانا، علی رضی اللہ عنہ کے سسر، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بابا اور امت کے سردار و قائد، مسلمانوں کے متبع اور اللہ کے حبیب، کائنات کے امام اور سید الانبیاء والمرسلین کا کہنا تھا کہ اس دن روزہ رکھا جائے، بھلا نواسہ کب نانا سے آگے بڑھ گیا کہ نواسہ تو یاد رہ گیا لیکن نانا کو بھلا دیا گیا، نواسے کی قربانیاں یاد رہ گئیں لیکن دین کے لیے دی گئی نانا کی قربانیوں کو بھلا دیا گیا؟ نواسہ بھی محترم اور نانا بھی محترم، نواسے کی قربانیاں بھی ستائش کے لائق اور نانا کی قربانیاں بھی عظیم و بے مثال لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیں نانا یعنی نبی ﷺسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، نواسے یعنی حسین رضی اللہ عنہ یا اہل بیت کی اتباع کا نہیں ۔
مزید یہ کہ جس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا اور کہا گیا کہ چونکہ یہ یہودیوں کا عمل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اسی دن فرعون اور اس کے لشکر کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی اسی خوشی میں ان لوگوں نے روزہ رکھا تو ہم یہودیوں کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حق دار ہیں اور ہمیں بھی روزہ رکھنا چاہیے لیکن چونکہ وہ اہل کتاب ہیں اور ان کی مخالفت بھی ضروری ہے اس لیے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھ لیا جائے اور ایک کے بجائے دو روزے رکھنے کا اہتمام ہو، یعنی عبادت میں بھی جن یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کا حکم دیا جا رہا ہے آج اسی نبی ﷺ اور ان کے اہل بیت سے محبت کا دعویٰ کرنے والے قدم قدم یہودیوں کے جیسا اٹھا اور رکھ رہے ہیں، ان کی مکمل پیروی اور اتباع کر رہے ہیں بلکہ صحابہ سے بغض و نفرت کے معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
’’یا علی مدد‘‘اور ’’یا حسین مدد‘‘کی گہار تو لگائی جاتی ہے لیکن علی و حسین رضی اللہ عنہما نے کس سے مدد مانگا اور کس کو مشکل کشا سمجھا اس حقیقت کی جانب توجہ نہیں جاتی ہے، اہل بیت سے محبت کے نام پر صحابہء کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تک کو گالیاں دی جاتی ہیں لیکن اہل بیت سے صحابہ کی محبت اور صحابہ سے اہل بیت کی محبت کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا ہے، جھوٹی، ضعیف اور خود ساختہ احادیث کا حوالہ دے کر وہ باتیں بھی بیان کی جاتی ہیں کہ جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، ہر اسٹیج کا ہر ذاکر اپنی ہی بنائی ہوئی باتوں کو بیان کرتا ہے اور اس میں وہ نمک، مرچ اور مسالہ لگاتا ہے کہ اللہ کی پناہ! ابلیس اور اس کے چیلے بھی خوش ہوتے ہیں کہ محنت رنگ لا رہی ہے، ان کے برے اعمال کو بھی ایسا مزین کر کے ہم نے پیش کر دیا ہے کہ یہ لوگ اسی کو سچ اور حق سمجھتے ہیں جو ان کے اپنے دماغ میں پنپتا اور بنتا ہے۔
نوحہ اور ماتم کو نبی ﷺ نے زمانۂ جاہلیت والا عمل قرار دیا اور نوحہ کرنے والوں کی سزا بھی بتائی کہ جو نوحہ کرنے والا یا والی نوحہ و ماتم کے بعد بنا توبہ کے مر جائے تو قیامت کے دن اس کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے جسم پر تارکول کی شلوار اور خارش (کھجلی)کی قمیص ہوگی، ماتم کرتے ہوئے گال پیٹنا، گریبان پھاڑنا، میت کی خوبیاں بیان کر کے رونا، زور سے چیخنا اور چلانا ان سب سے شریعت نے سختی سے منع کیا، بلکہ شریعت میں نوحہ اور ماتم کی اجازت ہی نہیں، ہاں یہ کہا گیا کہ اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے سوائے اس عورت کے کہ جس کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے تو وہ چار مہینے دس دن کی عدت گزارے گی۔
لیکن افسوس کہ محرم کے اس مہینے میں ’’محبان اور عاشقان حسین‘‘شریعت کی اس تعلیم کی وہ دھجیاں اڑاتے ہیں کہ الامان والحفیظ، جسموں کو زخمی کرنا، چاقو، چھری اور زنجیروں سے خود کو خون آلود کرنا، آگ اور انگاروں پر چلنا اور دوڑنا، بعض کا مصلیٰ بچھا کر نماز ادا کرنا اور یہ نماز بھی ایسی کہ منافق بھی ہنسنے پر مجبور ہو جائے، لبیک یا حسین کا نعرہ لگانا اور کربلا کے میدان میں شہید ہو جانے والوں کا نام لے لے کر اور ان کی خوبیاں بیان کر کے وہ شور بپا کرنا کہ شیطان بھی شرما جائے، آخر یہ کس حسین رضی اللہ عنہ کی تعلیم ہے؟ کس علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے؟ اہل بیت میں سے کس نے ان سب کاموں کی اجازت دی ہے؟ کیا نبی ﷺ نے ان سب کاموں کو کرنے کا حکم دیا تھا؟ خود کو زخمی کرنا حرام ہے، قتل کرنا حرام ہے، خون بہانا حرام ہے، آلات اور ہتھیاروں سے خود کو تباہ کرنا بدترین قسم کی جہالت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
محرم حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کی ہر صورت تعظیم اور احترام ہونا چاہیے، حرمت والا مہینہ تقدس اور محترم ہے اتنا محترم کہ بطور خاص اس میں خود پر ظلم کرنے سے منع کیا گیا ہے، محرم کو’’شھر اللہ‘‘یعنی اللہ کا مہینہ کہا گیا کہ جو اس مہینے کی عظمت کی واضح دلیل ہے، مگر ’’نقلی مسلمانوں‘‘کے یہاں اس الٰہی نسبت کا بھی کوئی احترام نہیں، رمضان کے بعد اس مہینے کے روزوں کو اللہ کے نزدیک سب سے افضل کہا گیا اور یہ بھی کہ نفلی روزوں میں سب سے افضل روزے اسی مہینے یعنی محرم کے روزے ہیں لیکن اس تعلیم پر کتنا اور کہاں تک عمل ہے؟
محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے لیکن مسلمانوں کا یہ سماج اسلامی سال، مہینوں اور اس کی تاریخ کے بارے میں کتنا جانتا ہے؟ جھوٹی اور ضعیف روایتوں کے سایوں میں پلنے والا حقیقت کی دنیا کا مسافر کہاں بن سکتا ہے؟
محرم کا مہینہ ہجرت کی یاد دلاتا ہے کہ ہجرت کو ہی بنیاد بنا کر اسلامی اور ہجری سال کا آغاز کیا گیا، گویا یہ بتایا گیا کہ مذہب اسلام اور نبی ﷺ کی زندگی میں ہجرت ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے کہ ہجرت آسان نہیں ہوتی ہے، ہجرت سے ملنے والے زخم اور کرب کو جھیلنا آسان نہیں ہوتا ہے، اپنا گھربار، کنبہ، قبیلہ، شہر اور اس سے جڑی ہوئی یادیں کون چھوڑنا چاہتا ہے لیکن نبیﷺ اور ان پر قربان ہو جانے والے صحابہ نے ہجرت کی ان تمام کربناک لمحات کو گزارا اور اسلام کے لیے اپنی تمام تر چیزیں قربان کر دیں لیکن موجودہ دور میں چند سکوں اور چمک دمک کے عوض بک جانے والے ان یہودیوں، یہود نوازوں، شیعہ اور شیعہ نوازوں نیز ان کے راستے پر چلنے والے ’’مسلمانوں‘‘کو ان سب سے کیا اور کیوں مطلب؟
قصۂ مختصر یہ کہ محرم کا احترام ضروری ہے اور اس سے جڑی ہوئی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ساتھ ہی یہ سمجھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟ اصلی مسلمان کون ہے اور نقلی مسلمان کون؟ صحابہ کون ہیں اور ان کا مقام کیا ہے؟ شیعہ کون ہیں اور ان کے عقائد و نظریات کیا ہیں؟ یہ سب جب تک سمجھ کر ان کو حقیقت کی دنیا میں برتا نہیں جاتا تب تک عاشقان حسین یا عاشقان رسول کا نعرہ محض نعرہ رہے گا، اس سے نہ ایمان بڑھتا ہے اور نہ ہی شیطان کو ان سب سے ذرہ برابر کوئی تکلیف ہوتی ہے، علم حاصل کرو اور عقلمند بنو، بے وقوف یا جاہل نہیں اس لیے کہ بے وقوفی اور جہالت انسان سے وہ کام کروا لیتی ہے کہ جس سے انسان کا عقیدہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے پھر انسان دنیا کا ہو سکتا ہے لیکن آخرت کا نہیں۔