Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • بچوں کے درمیان عدل :فوائد و ثمرات

    الحمد للّٰہ والصلاۃ والسلام علٰی رسول اللّٰہ وبعد۔
    ایک انسان کیلئے ماں باپ سے بڑھ کر کوئی اور محسن نہیں ہے،کیونکہ والدین اس کے وجود کا سبب ہیں،جب انسان دنیا میں تشریف لاتا ہے اس وقت وہ کمزور،مجبور،جاہل ہوتا ہے،ایسے وقت میں اس کی ہر ضرورت کی تکمیل یہی والدین اپنا فریضہ سمجھ کر خوشی خوشی ادا کرتے ہیں،والدین کی تکریم وتعظیم،عزت واحترام،محبت وشفقت اور حسن سلوک فطرتاً انسان کو معلوم ہے،ان کا احسان اتارنا ناممکن ہے،مقام والدین کی عظمت ورفعت کی وجہ سے ہی اللہ نے والدین کے شکر اور احسان کو اپنی عبادت اور شکر کے ساتھ ذکر کیا ہے،خصوصاً والدہ کی حمل وولادت اور رضاعت کی تکالیف کا کئی مقام پر ذکر فرمایا ہے،تاکہ انسان اپنے رب کے ساتھ ساتھ والدین کا شکرگزار رہے،اور یہ شکرگزاری،احسان مندی،حسن سلوک خود انسان کی موت تک جاری رہے،والدین کے ساتھ بدسلوکی،بے رحمی،بے ادبی،تلخ کلامی کا کوئی جواز انسان پیش نہیں کرسکتا ہے،بڑھاپے میں ’’اُف‘‘تک کہنے سے منع فرمادیا گیا ہے،والدین کے ساتھ حسن سلوک کیلئے اللہ نے ماں اور باپ کے جس احسان کا ذکر کیا ہے وہ احسان ہر والدین اپنی اولاد کے ساتھ کرتے ہی ہیں،ابتداء حمل سے لیکردردِزہ اورولادت اور پھر دودھ کی شکل میں خون جگر سے پرورش ورضاعت کے دوسال تک تکلیف پر تکلیف،درد پر درد اٹھانا،بخوشی جھیلنا اور پھر اس طویل مدت تک باپ کا اپنا،وقت،مال،محبت،توجہ اور نگرانی کی قربانی ایک ایسا احسان ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا:
    {وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ}
    ’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو)میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘
    [ لقمان:۱۴]
    ’’إِلَیَّ الْمَصِیرُ‘‘’’(تم سب کو)میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘کہہ کر اللہ نے شوق اور خوف دلایا ہے کہ اگر تم نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا،تومیرے پاس انعام و اکرام اور جنت ہے،اور اگر انہیں ضائع کیا،بدسلوکی کیا تو لوٹ کرمیرے پاس آؤگے تو میں سزا دوںگا،صالح اولاد کیلئے تشویق اور طالح اولاد کیلئے تخویف کا مقام ہے۔
    والدین کی اس عظمت وشان کے ساتھ ساتھ شریعت نے ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں،ان کی ادائیگی سے ان کی عظمت میں چار چاند لگ جاتے ہیں،ان کا مقام رب کے یہاں مزید بڑھ جاتا ہے،ان کی سعادت اور خوش نصیبی میں اضافہ ہوجاتا ہے،درحقیقت ہر منصب کا حجم ذمہ داریوں سے ہی طے ہوتا ہے،جتنا بڑا مقام ومرتبہ اتنی ہی بڑی ذمہ داریاں، ذمہ دار انسان رب کا محبوب بندہ ہے،قیامت کے دن کامیاب ہوگا،رب اسے انعام عطا فرمائے گا،جنت دے گا،اور ذمہ داریوں کو ضائع کرنے والا رب کو ناراض کرتا ہے،قیامت کے دن سزا پائے گا اور ناکام ہوگا۔پیارے رسول ﷺنے فرمایا:
    ’’أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘
    ’’تم میں سے ہر شخص نگراں(ذمہ دار)ہے اور ہر ایک سے سوال ہو گا اس کی رعیت کا‘‘
    [صحیح مسلم:۴۷۲۴]
    آپ نے خصوصی طور پر ماں باپ کو گھر اور اولاد کا ذمہ دار قرار دیا،جس کے متعلق قیامت کے دن سوال ہوگا،آج اس ذمہ داری کو ادا کرنے والے والدین کل رب کے مہمان ہونگے،اور من مانی کرنے والے والدین قیامت کے دن عذاب میں گرفتار ہونگے۔آپ نے فرمایا:
    ’’وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا‘‘
    ’’انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا‘‘
    [ صحیح بخاری:۸۹۳]
    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اولاد کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں،تاکہ رب العالمین کی نوازشیں اور رحمتیں پائیں،اللہ ہمیں اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کی توفیق بخشے۔ آمین
    ٭ اولاد کے درمیان عدل وانصاف: والدین کی ایک اہم ترین ذمہ داری بچوں کے درمیان عدل کرنا ہے،اسلام عدل وانصاف کا دین ہے وہ ہرحال میں عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے،ظلم کسی بھی حال میں قابل برداشت نہیں،آسمان وزمین کا نظام عدل کی وجہ سے ہی قائم ہے،ظلم سے صرف تباہی اور بربادی وجود میں آتی ہے،اسلام اسی لئے والدین کو بھی حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں کے درمیان ہر حال میں عدل وانصاف کریں،جب تحفہ دیں تو سبھی کو عطا کریں،جب پیار کریں تو سبھی کو کریں،ان کی تعلیم وتربیت،توجہ ونگرانی میں عدل وانصاف کریں،یہ والدین کی ذمہ داری ہے،رسول ﷺ نے عدل کرنے کا حکم دیا ہے:
    ’’اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِكُمْ‘‘
    ’’اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو‘‘
    [ سنن ابی داؤد:۳۵۴۴صحیح ]
    بچوں کے درمیان عدل وانصاف،انفاق،تعلیم وتربیت کا حکم اسی طرح اہم ہے جس طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا حکم دیا گیا ہے،جس طرح والدین کے ساتھ بدسلوکی ظلم ہے اسی طرح اولاد کے درمیان برابری نہ کرنا،ان پر مال نہ خرچ کرنا،لاپرواہ ہوجاناظلم و ناانصافی ہے،شریعت نے احسان کا بدلہ احسان ہی قرار دیا ہے، والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ احسان کرنا ہے تاکہ بچے بھی ان کے ساتھ احسان کریں۔
    اولاد کے درمیان عدل اور ظلم کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں،عدل بچوں کے درمیان رشتوں کو مضبوط کرتا ہے،خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ والدین کے احترام میں اضافہ کا سبب بنتا ہے،والدین کے تئیں دلوں میں محبت اور نرمی پیدا ہوتی ہے اس کے برعکس ظالمانہ سلوک سے بچوں میں حسد،تعصب،احساس کمتری پیدا ہوتی ہے، دلوں میں نفرت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے،مظلوم بچہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے،بسا اوقات اس کے اثرات پوری زندگی ختم نہیں ہو پاتے ہیں،والدین کے ساتھ حسن سلوک سے ہی نفرت ہوجاتی ہے،ظلم کرنے والے اور اولاد کے درمیان تفریق کرنے والے والدین کو اس کے خوفناک اثرات پر غور کرنا چاہئے،ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ سارے بچے ان سے پیار کریں،حسن سلوک کریں،نیکی اور بھلائی کریں،تو انہیں بھی بچوں کے درمیان عدل وانصاف کرنا چاہئے،ان کی ناانصافی کی نحوست ایسی دل شکن ہوتی ہے کہ ظالم والدین مظلوم بچے کے حسن سلوک سے سدا محروم رہتے ہیں،رسول اکرمﷺنے اسی پہلو کو ایک حدیث میں یوں واضح فرمایا:
    ’’أَيَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا إِلَيْكَ فِي الْبِرِّ سَوَاء ً؟ قَالَ:بَلٰي، قَالَ:فَلَا إِذًا‘‘
    ’’کیا تو خوش ہے اس سے کہ تیرے ساتھ نیکی کرنے میں سب برابر ہوں۔ میرا باپ بولا:ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:تو پھر ایسا مت کر۔ (یعنی ایک کو دے، ایک کو نہ دے)‘‘
    [ صحیح مسلم:۴۱۸۵]
    آج سماج میں ایسے والدین بکثرت موجود ہیں جو اپنی اولاد کی بے رخی سے پریشان ہیں،ان کی بدسلوکی سے نالاں ہیں،اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو وہ پیار نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا،ان کے ساتھ بچپن میں جو قرب و نزدیکی اور گہرے تعلقات بنانے تھے،وہ نہیں بنائے گئے،جو احسان اور عدل وانصاف کرنا تھا وہ نہیں کیا گیا اس لئے بطور نتیجہ کے اولاد والدین کے ساتھ حسن سلوک سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے،اور یہی بات اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری ساری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے تو تمہیں بھی ان کے ساتھ نیکی اور عدل کرنا چاہئے۔
    قابل قدر والدین!!! اللہ نے اولاد کی شکل میں جو نعمت آپ کو عطا فرمائی ہے یہ اللہ کی امانت ہے،ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت آپ کی ذمہ داری ہے،سارے بچے آپ کے خون جگر ہیں،ان کے ضروریات کی تکمیل اور تحائف وہدایا میں برابری کرنا آپ پر فرض ہے،قلبی میلان،خواہش نفس کی بنا پر اولاد کے درمیان نا انصافی اللہ ورسول ﷺ کی نافرمانی ہے،اولاد کے درمیان دشمنی اور دنیا وآخرت میں رسوائی کا سبب ہے،ذرا سوچو کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے اولاد کے ساتھ عدل وانصاف کیا، لیکن یوسف علیہ السلام کے ساتھ آپ کی شدید محبت نے ان کے دوسرے بچوں کو باپ سے بدظن کردیا،اور حسد نے ان کو مجبور کردیا کہ یوسف کو ہر حال میں باپ سے جدا کردیں تاکہ باپ کی محبت وہ پاسکیں،اور وہ یہ مجرمانہ کام کرگزرے حالانکہ وہ ایک پاکیزہ گھر،عظیم نبی کے زیر سایہ پرورش پائے ہوئے تھے،ذرا غور کیجئے ہم جیسے گناہ گار لوگ اگر اپنے بچوں کے درمیان ناانصافی کریں گے،ایک کو دیں گے دوسروں کو محروم کریں گے،تو ان کے دلوں میں کیسی نفرتیں،عداوتیں،کدورتیں جنم لیں گی اس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے ہیں،ایک ماں اور باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے درمیان الفت ومحبت کے رشتہ کو مضبوط کریں،لیکن آپ عدم مساوات کی وجہ سے بچوں کو ایک دوسرے کا اور خود اپنا دشمن بنارہے ہوتے ہیں،آپ ایسا نہ کریں،تاکہ آپ کا گھر امن وسکون کا گہوارہ بنارہے، اور آپسی الفت ومحبت قائم ودائم رہے۔
    اولاد کے درمیان برابری اور عدل کی اہمیت سمجھنا اور سمجھانا بے حد ضروری ہے،بسا اوقات انسان نادانی میں عدم مساوات کرتا ہے،اور یہ نادانی اس کیلئے خطرناک ہے،اس کا حل یہ ہے کہ انسان فیملی سے متعلق مسائل کا علم حاصل کرے تاکہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکے،اور اپنی فطری محبت سے ہر بچے کو سرشار کرے،بنا بھید بھاؤ اپنی شفقت ومحبت سب پر نچھاور کرے،اور بسااوقات ظلم و ناانصافی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کرتا ہے،اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ بھی کروں،میرا کوئی کیا بگاڑ لے گا،بعض اولاد کی ہر ضرورت پوری کرنا،بعض کو بالکل نظر انداز کرلینا،بعض کی عزت کرنا اور بعض کی توہین کرنا،بعض کو قریب رکھنا اور بعض کو پاس بھی بھٹکنے نہ دینا،بعض سے کام زیادہ لینا بعض کو آرام دینا،بعض سے نفرت اور بعض سے محبت کرنا،بعض کے ساتھ نرمی کرنا بعض کو سدا ڈانٹ ڈپٹ کرنا ایسے بے شمار حالات ہیں جو ہمارے گھروں کا حصہ بن چکے ہیں،اور ہمیں پرواہ نہیں ہے حالانکہ یہ ظلم کی شکلیں ہیں،جن کے برے اثرات جلد ہی ظاہر ہوجاتے ہیں،اور ہمارا فیملی سسٹم،اولاد اور والدین،بھائی اور بہن کا رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔اس کا حل یہ ہے ہم تکبر سے اپنے آپ کو بچائیں اور اللہ کا ڈر دل میں لائیں تاکہ ظلم سے ہم بچ سکیں ،اسی لئے پیارے رسول ﷺ نے اولاد کی ضروریات کی تکمیل میں اور تحفہ وعطایا دینے میں عدل وانصاف کا حکم دیا ہے،اور بعض کو دینے اور بعض کو محروم کردینے کو ’’ظلم‘‘قرار دیا ہے،اور صحابی رسول نے ظلم کی شناعت وقباحت کو سمجھا اور فوراً دیا ہوا عطیہ واپس لے لیا۔اسی جذبہ اتباع اور دینی سمجھ کی ہمیں ضرورت ہے،تاکہ ہم اسلامی تعلیمات سے استفادہ کرسکیں۔
    محترم قارئین: والدین کا مقام بہت بلند ہے،ان کا اپنے ہی اولاد کے ساتھ ظلم کرنا بہت ہی شرمناک ہے،والدین کے رفعت ومقام اور ایمان کا تقاضہ ہے کہ اولاد کے حقوق ادا کئے جائیں،ان کے درمیان عدل کیا جائے تاکہ باہمی الفت قائم رہے،اولاد کے دل میں والدین کا احترام باقی رہے،اور بھائی بہنوں کا رشتہ مضبوط رہے،اخلاقی خرابیوں سے گھر اور سماج محفوظ رہیں۔
    خوش نصیب ہیں وہ والدین جو اپنے بچوں کے درمیان عدل وانصاف کرتے ہیں،ان کے حقوق ادا کرتے ہیں، اپنے فیصلوں میں عدل کرتے ہیں،آخرت میں ایسے لوگ رب کے پاس بڑی ہی عزت پانے والے ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
    ’’إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللّٰهِ عَلٰي مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا ‘‘
    حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو لوگ انصاف کرتے ہیں وہ اللہ عزوجل کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے پروردگار کے دا ہنی طرف اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں (یعنی بائیں ہاتھ میں جو داہنے سے قوت کم ہوتی ہے یہ بات اللہ تعالیٰ میں نہیں کیونکہ وہ ہر عیب سے پاک ہے)اور یہ انصاف کرنے والے وہ لوگ ہیں جو حکم کرتے وقت انصاف کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں اور عزیزوں میں انصاف کرتے ہیں اور جو کام ان کو دیا جائے اس میں انصاف کرتے ہیں‘‘
    [ صحیح مسلم:۴۷۲۱]
    اللہ ہمیں بچوں کے درمیان عدل کرنے والا اور اپنی اولاد سے سچی اور خالص محبت کرنے والا بنائے ۔آمین
    {رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
    ’’اے ہمارے پروردگار!تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا‘‘
    [ الفرقان:۷۴]
    {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings