-
ایک عامل کی زندگی خلیج میں عبد الکریم رواب علی السنابلیالخبر :سعودی عرب
آرام پسندی ،نعمت کی چاہت، مال و دولت کی خواہش ، آرام و آسائش ،اچھا مکان ، بچوں کی اچھی تعلیم ، والدین کی خوشی اور بچوں کا روشن مستقبل جیسی تمام خواہشیں انسانی فطرت میں پیوست ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
{زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ}
’’لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے، جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے ا ور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ ‘‘
[آل عمران:۱۴]
اور انہی تمام ترخوابوں کو پورا کرنے کے لئے انسان بسا اوقات حلال و حرام کی تفریق کئے بغیر مال و متاع سمیٹنے کی ہوس میں اپنی تمام کوششیں اور عمل پیہم صرف کردیتا ہے اور زندگی کی آخری سانس تک اپنی تمناؤں اور خواہشوں کی سیڑھیاں طے نہیں کر پاتا اور اسی لیل و نہار کی گردش اور زندگی کی تیز رفتار ی میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ جاتا ہے ۔جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ ہے :
’’وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ، إِلَّا التُّرَابُ‘‘
’’اور انسان کا پیٹ مٹی ہی بھرتی ہے ‘‘
[مسند احمد :۱۲۲۲۸،واسنادہ صحیح علٰی شرط البخاری]
بسااوقات ایک عامل انہی خوابوں کو آنکھوں میں سجائے اور دل میں سمیٹے ہوئے خلیج کا رخ کرتا ہے ، حالات سے مجبور ہوکر کنبہ قبیلہ ،گھر بار،تمام رشتے دار، والدین ،بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر ،سینے اور کلیجے پر پتھر باندھ کر دوسال کے ایک لمبے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے ۔ آنکھوں میں اشک لئے ،بچوں کی تصویر یں نگاہوں میں بسائے ، ہاتھوں میں پاسپورٹ لئے امیگریشن کی طرف ناچاہتے ہوئے بھی قدم بڑھادیتا ہے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں میں بچے نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ چار گھنٹے کے سفر کے بعد خلیجی ایئر پورٹ پر اترتا ہے ۔ اترتے ہی سیکورٹی والے بکریوں کی طرح ہانک کر ایک قطار میں کھڑا کر دیتے ہیں ۔ویزا اور پاسپورٹ کی تحقیق کے بعد ایئر پورٹ کے باہر آپہنچتا ہے ۔ ملک نیا ،چہرے نئے ،زبان نئی ،قانون نیا، اب کہاں جائیں؟ چونکہ ٹراویل ایجنسی والوں کی ہدایت ہوتی ہے کہ کمپنی سے ایک نمائندہ ایئر پورٹ آئے گا اس کے ساتھ میں ایک بینر ہوگا جس پر کمپنی کا نام لکھا ہوگا، چنانچہ باہر نکلتے ہی نگاہیں اس بینر کو تلاش کرنے لگتی ہیں خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جن کو اپنا بینر نظر آجاتا ہے اور ایک یا دو گھنٹے میں اپنی منزل کی طرف رواں ہوجاتے ہیں ، بسا اوقات کچھ لوگوں کو پوری رات ایئر پورٹ کی بنچ پر سونا ہوتا ہے ، نہ کوئی کال ،نہ کوئی بینر نہ ہی کوئی پرسانِ حال۔
بہرحال کچھ گھنٹوں میں کمپنی کے کیمپ میں پہنچا دیا جاتا ہے ، جو غالباً صحرائی علاقوں میں ہوتا ہے۔ جہاں ایک کھاٹ کے اوپر دواور کھاٹ چڑھے ہوتے ہیں اس طرح ایک کمرہ میں ۸ سے ۱۰ لوگوں کی رہائش ہوتی ہے ۔ کیمپ کا مشرف رات ہی کو باخبر کردتیا ہے کہ علی الصباح میڈیکل چیک اپ کے لئے ہا سپٹل جانا ہے ، اہل و عیال کی میٹھی یادوں کے بیچ کروٹ بدلتے ہوئے صبح ہوتی ہے اور حسب اتفاق ہاسپٹل جاکر میڈیکل چیک اپ ہوتا ہے ۔ رپورٹ فٹ ہونے کی صورت میں دوسال کا عقد ومعاہدہ ہوتا ہے اور پاسپورٹ کمپنی میں جمع ہوجاتا ہے تاکہ کوئی عامل دو سال سے پہلے کہیں فرار نہ ہو سکے ۔
دوسرے دن فجر سے کافی پہلے بیدار ہوکر نا شتہ اور ساتھ ہی ساتھ دوپہر کا کھانا تیار کرکے اور دیگر ضروریات سے فارغ ہوکر فجر کے بعد بس میں سوار ہوجاتے ہیں اور کچھ منٹو ں کے بعد کام کی سائٹ ( موقع العمل) پر پہنچ جاتے ہیں جہاں بالکل صحرا ہی صحرا ہوتا ہے ۔ نہ سرسبز و شادابی نہ ہریالی ، بڑے بڑے پلانٹ ، اونچے اونچے ٹاورز اور ہزاروں کی تعداد میں لیبرس سیفٹی کپڑوں میں ملبوس کام کے لئے بالکل تیار نظر آتے ہیں ۔ بہرحال سیفٹی کا ایک مختصر بیان سننے کے بعد ڈیوٹی پر لگ جاتے ہیں ۔ گردوغبار ،سورج کی تپش اور نگراں کی سخت اور کڑی نظر وں کے بیچ ظہر کا وقت ہوجاتا ہے اور کھانا کھانے کے لئے ایک گھنٹہ کا وقفہ ہوتا ہے ۔ چونکہ فجر سے کافی پہلے بیدار ہونے کی وجہ سے نیند پوری نہیں ہوتی ہے لہٰذا اس وقفے میں نیند کو کھانے پر ترجیح دے کر مسجد میں جاکر ایک چھوٹی سی نیند لینے کی کوشش ہوتی ہے ۔ اس مختصر سے قیلولے کے بعد واپس کام پر تعینات ہوجاتے ہیں اور اسی شدّو مد سے پورادن گزرتا ہے اور شام ہوجاتی ہے۔
آٹھ یا دس گھنٹے کی لمبی ڈیوٹی کے بعد پورا جسم نڈھال ہوجاتا ہے اور تھکاوٹ سے چور چور ہوجاتا ہے ۔ پھر واپس اسی بس سے اسی صحرائی کیمپ میں چھوڑدیا جاتا ہے جہاںشام میں قضاء حاجت اور غسل کے لئے ایک لمبی قطار ہوتی ہے، اسی طرح تمام ضروریات سے فارغ ہوکر کھانے اور پکانے میں جُٹ جاتے ہیں ۔ اس کے بعد دن بھر کی محنت سے چور چور ہوکر بستر پر لیٹتے ہی آنکھ کب بند ہوگئی احساس تک نہیں ہوتا۔ اس طرح رات گزرتی ہے اور دوسرے دن صبح فجر سے پہلے بیدار ہوکر اسی روزمرہ کے جدول کے مطابق زندگی پھر شروع ہوجاتی ہے اور اس طرح صبح ہوتی ہے ،شام ہوتی ہے اور زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے۔
ڈیوٹی کی اس مشغول زندگی میں ہفتہ گزرجاتا ہے ، جمعرات کی شام آتی ہے جس کا تمام خلیج میں رہنے والوں کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے ، جمعرات اپنے ساتھ بہت ساری خوشیاں لے کر آتی ہے ، گرچہ دیگر ایام میں شام ۹ بجتے ہی بستر کے سوا کچھ اور نہیں دکھائی دیتا تھا لیکن جمعرات کو کیا نَو، کیا دس، کھانا پکاتے کھاتے ،سیر و تفریح اور گپ شپ کرتے بسا اوقات فجر کی اذان ہوجاتی ہے ،لہٰذا فجر کے بعد پورے کیمپ میں سنّاٹا سا چھا جاتا ہے ۔ پھر جمعہ کی نماز ہوتی ہے ، کھانا پینا ہوتا ہے ، عصر کے بعد کمپنی کی طرف سے بس کا انتظام ہوتا ہے ۔ جو شخص شہر جانا چاہے جا سکتا ہے لیکن واپس اسی بس سے کیمپ میں آنا ہوتا ہے۔ ہفتہ بھر کی تکان دور کرنے شہر کا رخ کرتے ہیں اور کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد واپس دیر رات کیمپ پہنچ جاتے ہیں ۔ پھر واپس دوسری صبح وہی روٹین دوہرایا جاتا ہے اور اسی طرح دھیرے دھیرے سال پورا ہوجاتا ہے ۔
پردیسیوں کی بے رونق زندگی کا ایک بہت دردناک اور قابل ِ ذکر پہلو عید الفطر اور عید قرباں ہیں ، جو دراصل خوشیاں بانٹنے ، اپنوں سے ملنے جلنے اور آپسی میل و محبت کا تیوہار مانا جاتا ہے لیکن در حقیقت یہ عیدیں پردیسیوں کی آنکھوں میں آنسو، دلوں میں غم اور خلوت و تنہائی کا بہت گہرا احساس لے کر آتی ہیں۔
عید کی صبح ہوتی ہے ،غسل کرکے عید گاہ جاتے ہیں اور دوگانہ نماز ادا کرکے واپس اسی بے رنگ کیمپ میں آجاتے ہیں۔ چند احباب کے ساتھ مل کر کچھ روکھا سوکھا پکوان بنا کر کھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہاں نہ کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی مبارکبادی دینے کے لئے کوئی کندھا ۔ ایسے موقع پر ایک مشہور شعر یاد آتا ہے :
پھول پردیس میں چاہت کا نہیں کھلتا ہے عید کے دن بھی گلے کوئی نہیں ملتا ہے
بہر حال ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی ایجادات نے بہت حد تک دوریوں کو سمیٹ دیا ہے جس کے ذریعہ بچوں سے باربار محو گفتگو ہوکر عید کی روٹھی ہوئی خوشیوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ کتنے ایسے ہیں جو تنہائی کے اس دردناک مارکی تاب نہ لا کر خلوت میں جاکر آنسو بہاتے ہیں اور اپنے غم کوہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جہاں ایک طرف خلیج کی بے رنگ اور اداس بھری زندگی گزرتی رہتی ہے وہیں دوسری طرف اہل و عیال کا گمان ہوتا ہے کہ خلیج میں درخت سے ریال جھاڑا جاتا ہے ، ابھی مہینہ پورا بھی نہیں ہوتا ہے کہ اہل خاندان کا فون آنا شروع ہوجاتا ہے اور پیسے کا مطالبہ بڑھ جاتا ہے ، الحمد للہ مہینہ ختم ہوتا ہے موبائل پر میسیج موصول ہوتا ہے کہ تنخواہ ٹرانسفر ہوگئی ہے ، پیسے کی اشد ضرورت کے پیش نظر ابھی میسیج آئے چند گھنٹے ہی گزرے ہوتے ہیں کہ سارا پیسہ اہل و عیال کو بھیج دیا جاتا ہے اور دوسرا میسیج موصول ہوتا ہے کہ آپ کا حالیہ بیلینس ۳۰۰ یا ۴۰۰ ریال ہے ۔اس طرح مہینہ د ر مہینہ گزرتا ہے ، تنخواہ ملتی ہے ، اہل و عیال کو ٹرانسفر ہوتا رہتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسال پورا ہونے میں چند مہینے باقی رہ جاتے ہیں ، ابھی چھٹی کی درخواست کمپنی میں جمع ہوئی نہیں کہ بھائی ،بہن ، بہنوئی، چچا ، بھتیجے اور دیگر دوست و احباب کی مطالبات کی فہرست آنا شروع ہوجاتی ہے ، کسی کے لئے موبائل ، کسی کے لئے گھڑی ، کسی کے لئے کپڑے اور کسی کے لئے پرفیوم وغیرہ وغیرہ
چونکہ ابھی تک جو تنخواہیں ملی تھیں وہ تو پہلے ہی وطن ِعزیز پہنچ چکی ہیں لہٰذا اگلی تین یا چار تنخواہیں جو تقریباً ۵ یا ۶ ہزار ریال ہونگی انہیں احباب کی فرمائشوں پر خرچ کرنا ہے ۔ اب آخر میں باری خود کی آتی ہے چونکہ دوسال بعد وطن لوٹ رہے ہوتے ہیں لہٰذا کچھ نئے کپڑے، جوتے ، اچھا سا موبائل ،گھڑی ،عطر اور دیگر لوازمات کی تکمیل ضروری ہوتی ہے اور آخرمیں کچھ پیسے بچا کر بطور جیب خرچ رکھنا بھی ہے چونکہ ریال کی دنیا سے جارہے ہیں لہٰذا ہر بازار ،ہر چوراہے اور ہر جگہ آپ ہی کو خرچ کرنا ہوگا گرچہ آپ کے احباب ممبئی ، دلّی یا حیدرآباد کے تاجر ہی کیوں نہ ہوں۔
بہر حال دوسال پورے ہوتے ہیں، ویزا اور ٹکٹ کی کارروائی پوری ہوتی ہے ،پاسپورٹ ہاتھ میں آتا ہے ، ڈرائیور ایئر پورٹ چھوڑتا ہے اور اگلے چار گھنٹے میں اپنے دیس واپس پہنچ جاتے ہیں ۔ چونکہ اہل وعیال اور احباب استقبال کے لئے ایئر پورٹ پر منتظر ہوتے ہیں لہٰذا ایئر پورٹ کے باہر پرجوش استقبال ہوتا ہے اور کچھ ہی گھنٹوں میں گھر پہنچ جاتے ہیں۔ چھوٹے بچے بڑے ہوجاتے ہیں ، گھر، گاؤں،محلہ اور کھیت و کھلیان بدلابدلا نظر آتا ہے۔ بہرحال چندماہ کی چھٹیاں گزرتی ہیں اور پھر واپسی کا پروگرام بننا شروع ہوجاتا ہے ۔ اور تمناؤں و خواہشوں کی مزید سیڑھیاں طے کرنے کے لئے دوبارہ خلیج واپس آپہنچتے ہیں ۔ پھر دوسال پورے ہوتے ہیں ، چھٹی جاتے ہیں ، واپس آتے ہیں ، یہ لا متناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ کبھی گھر کی تعمیر ، کبھی قرض کی ادائیگی ، کبھی فلیٹ کی بکنگ اور کبھی بچوں کا روشن مستقبل غرضیکہ خواہشات کی سیڑھیاں ختم نہیں ہوتی ہیں، لالچ انسان کو جوان سے بوڑھا کردیتی ہے اور آدمی مکمل طور پر سیٹ نہیں ہوپاتا ہے کوئی نہ کوئی تمنا باقی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ جاتا ہے اور لحد میں اتاردیا جاتا ہے اور لحدمیں اتارتے وقت کوئی بڑے بزرگ فرماتے ہیں کہ منہ کے کفن کی گرہ کھول دو، منہ قبلہ کی طرف کردو ،پھر آواز آتی ہے ہاں ٹھیک ہے اب سیٹ ہوگیا یہاں پہنچ کر انسان مکمل طور پر سیٹ ہوجاتا ہے ۔ اسی کی تعبیر آپ ﷺ نے کی ہے :’’وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ، إِلَّا التُّرَابُ‘‘
’’اور انسان کا پیٹ مٹی ہی بھرتی ہے ‘‘[مسند احمد :۱۲۲۲۸،واسنادہ صحیح علی شرط البخاری]
اللہ تعالیٰ ہمیں قناعت پسندی کے ساتھ رزق ِحلال کمانے اور تمام جائز تمناؤں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین