Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عقائد و احکام میں خبر واحد کی حجیت (پہلی قسط)
    عبدالمالک محی الدین رحمانی

    متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

    قارئین کرام! پچھلے ایک مضمون میں آپ نے حجیت حدیث پر بعض اعتراضات بالخصوص خبر واحد کی حجیت کے حوالے سے ملاحظہ کیا اور اس پر جو شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں ان کی معرفت لی جیسے خبر واحد ظن کافائدہ دیتی ہے یا بعض دلائل کا سہارا لے کر زبردستی نبی ﷺاور صحابہ کرام کے عمل سے اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور پھر ان شبہات کا ازالہ علمائے سلف و خلف کی روشنی میں پڑھا اور وہیں اشارہ کیا گیا تھا کہ ان شبہات کا در اصل حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یہ محض ایک خیال ہے اور زبردستی شبہ بنانا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت قرآنی آیات، احادیث رسول ﷺاور عمل صحابہ سے ثابت ہے لہٰذا اب ہم ان دلائل کا ذکر کریں گے جن سے خبر واحد کی حجیت ثابت ہوتی ہے خواہ وہ قرآنی آیات ہوں یا احادیث رسول ﷺیا عمل صحابہ اور پھر بعد کے ادوار کے محدثین کا عمل ان شاء اللہ اس مضمون میں ’’خبر واحد کی حجیت عقائد و احکام میں قرآنی آیات کی روشنی میں ‘‘کے عنوان پر تحریر کی جائے گی۔اس لیے اولاً ان دلائل کا ذکر پھر ان سے علمائے سلف کے استدلال کا ذکر کیا جائے گا۔
    یوں تو اس مسئلے میں قرآنی آیات کئی ایک ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول:
    {وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ }
    ’’اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جبکہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں‘‘
    [التوبۃ:۱۲۲]
    یہ آیت کریمہ مومنین کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ دین کا فہم حاصل کریں ، دین سیکھیں اور علم دین سیکھنے کے بعد امت کی رہنمائی کریں اور آیت میں وارد لفظ ’’طائفہ ‘‘کا ایک اور ایک سے زائد سب پر اطلاق ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام المحدثین محمد
    بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر کتاب أخبار الآحاد میں ایک کافی لمبا باب باندھا جو کہ کچھ اس طرح ہے :
    بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الْأَذَانِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ، وَقَوْلُ اللّٰهِ تَعَالٰي :{فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ }وَيُسَمَّي الرَّجُلُ طَائِفَةً، لِقَوْلِهِ تَعَالٰي :{وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا}، فَلَوِ اقْتَتَلَ رَجُلَانِ دَخَلَ فِي مَعْنَي الْآيَةِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَي :{إِنْ جَاء َكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا } وَكَيْفَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَرَاء َهُ وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ، فَإِنْ سَهَا أَحَدٌ مِنْهُمْ رُدَّ إِلَي السُّنَّةِ۔
    [صحیح البخاری کتاب أخبار الآحاد]جس میں کئی مسائل اس اخبار آحاد کے تعلق سے بیان کیے گئے ہیں :
    طائفہ ایک شخص کو بھی کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سورہ حجرات کی آیت میں ہے :
    {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا}
    ’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو‘‘
    [الحجرات:۹]
    لہٰذا اگر دو شخص بھی آپس میں جھگڑا کرتے ہیں تو دونوں آیت میں داخل ہیں (یعنی ان کے درمیان بھی صلح صفائی کرائی جائے گی نہ کہ پوری جماعت کے لڑنے کا انتظار کیا جائے گا)۔
    اور اللہ تعالیٰ کا قول’’اگر کوئی فاسق تمہیں کوئی خبر دے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘
    اور کیسے آپ علیہ السلام نے امراء کو یکے بعد دیگرے روانہ کیا۔
    اور جب ان سے کوئی خطا سرزد ہوتی تو سنت یعنی حدیث کی طرف لوٹا دیا جاتا۔
    لہٰذا معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کی یہ صورت ہو کہ وہ دینی مسائل کے تعلق سے جو بھی خبر دے تو اس کی بات مانی جائے گی تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی خبر حجت ہے اور دین کی فہم اور سمجھ میں عقائد اور احکام دونوں شامل ہیں بلکہ عقیدہ کی معرفت اور فہم احکام کے فہم سے زیادہ اہم ہے ۔(العقیدۃ فی اللہ)
    ۲۔ قال تعالىٰ : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَائَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا }
    [الحجرات:۶]
    ’’اے مسلمانو!اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ‘‘
    یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ خبر واحد جو ثقہ ہو اس کی بات اور خبر قطعیت کے ساتھ اور بالجزم قابل قبول ہے نیز اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ وہ فاسق کے زمرے میں نہیں ہے اور اگر اس کی خبر علم کا فائدہ نہیں دیتی تو مطلقاً تحقیق کا حکم دیا جاتا تاکہ علم کا حصول ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔[وجوب الآخذ بحدیث الآحاد فی العقیدۃ للشیخ الألبانی]
    ۳۔ الله تعالىٰ كا يه ارشاد: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْئٍ فَرُدُّوهُ إِلَي اللّٰهِ وَالرَّسُولِ}
    ’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ)کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے‘‘
    [النساء:۵۹]
    ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہﷺ کی طرف رجوع کرنا آپ علیہ السلام کی حیات طیبہ میں اور آپ کی سنت کی طرف رجوع آپ کی وفات کے بعد نیز اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس رجوع کی فرضیت آپ علیہ السلام کی وفات سے ختم نہیں ہو جاتی ہے، آپ علیہ السلام کی یہ خبریں اور حدیثیں خواہ وہ متواتر ہوں یا آحاد کے قبیل سے ہوں اور اگر وہ علم کا فائدہ نہیں دیتیں تو ان کی طرف رجوع کی کوئی وجہ نہیں ہوتی ‘‘ [مختصر الصواعق المرسلۃ علی الجہمیۃ والمعطلۃ]
    الغرض یہ اور اس طرح کی دیگر آیات قرآنیہ جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر بتلانے والا معتمد ہو، اس کی باتوں میں سچائی اور صداقت ہے اور دوسرے لوگوں سے ہٹ کر عجیب و غریب باتیں فروغ دینے والا نہیں ہے بلکہ موثوق اور معتمد ہے تو اس کی بات قابل قبول ہے خواہ وہ تنہا ہی کیوں نہ ہو اور اس کی وہ بات عقائد سے متعلق ہو یا احکام سے۔اور ویسے بھی دین میں احکام سے زیادہ عقائد اہم ہیں جب ایک شخص کی بات احکام میں جو کہ اہمیت میں عقائد سے کم ہیں اس میں حجت ہے تو پھر عقلاً بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ایک چیز اہم ہے لیکن کوئی چیز اس سے بھی زیادہ اہم ہے تو جو کم درجے والی میں دلیل ہے تو پھر اس سے زیادہ اہم پر کیوں نہیں ؟اس لیے عقائد میں بدرجۂ اولیٰـ ایک شخص کی بات (خبر واحد)حجت ہے اور یہ ان تمام آیات سے واضح ہے کہ آیت میں لفظ ’’طائفہ‘‘میں قوم کا ایک فرد اور سب کو شامل ہے لہٰذا ایک بھی یہ ذمہ داری قبول کر لے اور انجام دے دیا تو باقی لوگوں کی طرف سے کافی ہوگا اور اس فریضہ کی ادائیگی ہو جائے گی جس کی جانب امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے اور ان لوگوں کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ خبر واحد قابل حجت ہے نہ قابل عمل اور ان دلائل کا ذکر کیا جن سے خبر واحد کی حجیت کی صراحت ملتی ہے اور عمل سے ثابت ہوتی ہے۔ ان شاء اللہ ۔ آئندہ سطور میں احادیث رسولﷺاور آپ علیہ السلام کے عمل سے خبر واحد کی حجیت پر روشنی ڈالی جائے گی ۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں منہج سلف صالحین کی اقتدا، صحیح فہم اور حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ جاری ہے……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings