Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اعمال میں اتباع کتاب و سنت کی اہمیت

    شریعت اسلامیہ میں محض اعمال بجا لانے کی ترغیب نہیں، بلکہ کچھ حدود و قیود اور شرائط کے مطابق اعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر ان میں کوئی کمی کوتاہی واقع ہو گئی تو اعمال شرفِ قبولیت سے محروم رہ سکتے ہیں، چنانچہ ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کا ذکر کر رہے ہیں:
    ۱۔ عمل خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، نمود و نمائش یا ریاکاری و دکھاوا اورلوگوں میں شہرت حاصل کرنے کے لیے نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    ’’إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلَي صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَي قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ‘‘
    ’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور شکلوں کو نہیں، بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے‘‘
    [صحیح مسلم: ۲۵۶۴]
    ۲۔ وہ عمل قرآن و سنت کے مطابق ہو ورنہ وہ عمل ضائع و اکارت ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ‘‘
    ’’ یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا کہ جس پر ہمارا امر نہیں تو وہ مردود ہے‘‘[صحیح مسلم:۱۷۱۸]
    اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے ہٹ کر کیے گئے اعمال کو باطل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    {يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا أَطيعُوا اللّٰهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَلا تُبطِلُوا أَعمالَكُم}
    ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو‘‘ [محمد:۳۳]
    اس آیت کی تفسیر میں اہل علم نے لکھا ہے کہ قبولیت اعمال کے لیے شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند رہے ۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل اثر پر خوب غور وفکر کیجیے:
    سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو (اس طرح نماز پڑھتے ہوئے)دیکھا کہ وہ رکوع وسجود مکمل نہیں کر رہا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا:
    ’’مَا صَلَّيْتَ، وَلَوْ مُتَّ مُتَّ عَلَي غَيْرِ الْفِطْرَةِ الَّتِي فَطَرَ اللّٰهُ مُحَمَّدًا صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا‘‘
    ’’تو نے نماز نہیں پڑھی اور اگرتو اسی حالت میں (غیر مسنون نماز پڑھتا)مر گیا تو اس فطرت پر نہیں مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو پیدا فرمایا‘‘
    [صحیح البخاری:۷۹۱]
    اندازہ کیجیے صحابیٔ رسول نے عدم سنت پر کس قدر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح جب تین افراد نے اپنے تئیں اعلیٰ اعمال کرنے کی بات کی جو درحقیقت نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف تھی تو آپ نے ان کا واضح طور پر رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي‘‘
    ’’جس نے میری سنت سے انحراف کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘‘[صحیح البخاری:۵۰۶۳]
    کتاب و سنت کے مطابق اعمال کے لئے ضروری ہے کہ حسب توفیق و استطاعت دین کا مناسب علم حاصل کیا جائے۔
    اس کی فضیلت و اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ’’ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَي الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَي أَدْنَاكُمْ،ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرَضِينَ حَتَّي النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّي الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَي مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ‘‘
    ’’عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے مزید فرمایا :’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعا کرتے ہیں‘‘
    [سنن الترمذی:۲۶۸۵،صحیح]
    عمل سے پہلے جب انسان علم حاصل کرے گا تو اسے دین کا صحیح فہم ملے گا اور ہم بارہا کہتے ہیں اس دور میں دین کا صحیح فہم ملنا اللہ کا بہت بڑا انعام ہے ۔
    ایک شیطانی وسوسہ کہ اتنے کثیر لوگ کتاب و سنت کے حکم کے خلاف اعمال کرتے ہیں، دین کے نام پر بدعات و خرافات میں مبتلا ہیں ۔ ان سب کا انجام کیا ہوگا، کیا ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے ؟ تو واضح رہے کہ حدیث رسول میں اس کا جواب موجود ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    ’’بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ غَرِيبًا، فَطُوبَي لِلْغُرَبَائِ‘‘
    ’’اسلام اجنبی تھا عنقریب جلد اجنبی ہوجائے گا پس ایسے اجنبیت سے لبریز لوگوں کے لئے خوشخبری ہے ‘‘
    [سنن ابن ماجہ:۳۹۸۶،صحیح]
    حق اور باطل کو پرکھنے کا پیمانہ قرآن و حدیث ہے نہ کہ زیادہ لوگ اور تھوڑے لوگ…
    صعوبتیں جھیل کر اعمال کئے جائیں مگر وہ اعمال شریعت اسلامیہ میں ناپید ہوں ،قرآن پڑھیں ،کتب احادیث کھنگالیں، آثارصحابہ و تابعین ،تبع تابعین، آئمہ دین ،سلف صالحین کے فہم کی طرف نظر کریں اگر ہمارے اعمال ان میں موجود احکامات کے برعکس ہوئے تو اللہ نہ کرے ہم اس قرآنی آیات کے مصداق تو نہیں:{عاملۃ ناصبۃ}
    ’’اور مارے مشقتوں کے تھک کر چور ہورہے ہوں گے‘‘[الغاشیۃ:۳]
    مشہور تابعی امام زہری فرماتے ہیں : ’’كَانَ مَنْ مَضَي مِنْ عُلَمَائِنَا يَقُولُونَ: الِاعْتِصَامُ بِالسُّنَّةِ نَجَاةٌ‘‘
    ’’ہم سے پہلے گزرنے والے علماء فرماتے تھے کہ سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے‘‘[سنن دارمی:۹۷]
    اعمال پہاڑ جتنے مگر ثواب ایک ریت کے ذرے جتنابھی نہیں ۔کیوں؟؟؟؟
    کیونکہ وہ اعمال کتاب و سنت کی کسوٹی پر پورے نہیں اتر رہے ہوں گے۔
    ایک سوال کہ ہر انسان کی ذہنی صلاحیتیں مختلف ہوا کرتی ہیں کہ ایک ایسا انسان علمی معذور نہ وہ خود پڑھ سکتا ہے نہ اس کے پاس کوئی ذریعہ ہے کہ جان سکے قرآن کیا کہتا ہے احادیث میں کیا لکھا ہے؟
    ہم کہیں گے وہ شاید عند اللہ معذور ہو۔ اور اس کے برعکس ایک انسان کے پاس بتانے والا رہنمائی کرنے والا موجود ہے مگر پھر بھی صرف انا، ضد، و ذاتی مخالفت میں اپنی مرضی کے اعمال کرنے پر کمربستہ ہے ایسے شخص کے اعمال زیرو سے ملٹی پلائی ہوجائیں گے۔
    اچھا دین کے معاملے میں رہنمائی کس سے لیں؟ آپ بتائیے آپ کے ملک میں معیشت پر کون بات کرتا ہے؟ ایک اکانومسٹ ؟قانون پر کون بات کرتا ہے؟ وکیل؟ان لوگوں نے اس شعبہ میں فن کو ماہرین اساتذہ سے حاصل کیا۔دفاع کا شعبہ جس کے پاس ہے وہی حالت جنگ میں دفاعی طریقے بتائے گایا پھر ہمارے وہ لوگ جنہوں نے مناسب دین کا علم کسی اہل علم کے پاس بیٹھ کر حاصل نہیں کیا۔
    ہماری معزز خواتین میں یہ عادات بہت ہیں کہ دین کے معاملے میں بڑھ چڑھ کر رائے دیتی ہیں جبکہ انہوں نے کسی بھی قسم کا قرآن و حدیث کا علم کسی اہل علم سے نہیں لیا۔تو یہ بہت بڑی جسارت ہے ۔
    بحث برائے بحث اور تنقید برائے تنقید کے ساتھ اپنی کم علمی پر خود اعتمادی کا نقصان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی عاقبت بھی خراب کرنے والی بات ہے ۔
    ہم نے کتاب و سنت کو اتنے ہلکے میں کیوںلے لیا؟اور کتاب و سنت بیان کرنے والے سے ذاتی عناد پر کیوںاتر آتے ہیں ؟ہمارے لوگ جو سراسر ہمارے فائدے کی بات کررہا ہوتا ہے ۔
    اللہ ہمارے منہ سے نکلے الفاظ میں کہیں کوئی غلطی ہوگئی ہو تو ہم معافی کے طلبگار ہیں۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings