-
انسانی اعمال پر ربانی وعدے بلا شبہ انسانوں اور جناتوں کو اللہ نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس دنیا کو ان کے لئے دار العمل قرار دیا ہے۔اب جو بندہ اللہ کی عبادت اور اعمال صالحہ کر کے اللہ کو راضی کرے گا وہی کامیاب قرار دیا جائے گا لیکن کئے گئے اعمال پر آخرت میں بدلہ ملنے سے پہلے کچھ اعمال ایسے ہیں کہ جن کے کرنے پر دنیا ہی میں اللہ نے مختلف وعدے کئے ہیں، آج ہم اس مضمون میں انہی جیسے کچھ اعمال کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے:
۱۔ شکر پر مزید کا وعدہ: اللہ نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر۷میں کہا ہے:
{لَئِنْ شَكَرْتْم لَأَزِيدَنَّكُم}
’’یعنی اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا‘‘
یہ وعدہ ہے اللہ کا کہ اگر انسان اس کی نعمتوں کی قدر کرے، ان کو یونہی برباد نہ کرے اور ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے تو اللہ اس جیسی مزید نعمتیں انسان کو عطا کرے گا، بصورتِ دیگر اللہ نے شدید عذاب کی خبر دی ہے اور نعمتوں سے محروم کر دینے کی دھمکی دی ہے۔اس طرح کی کئی مثالیں آپ کو قرآن میں مل سکتی ہیں، بطور مثال آپ سورہ سبا میں آیت نمبر ۱۵ سے ۱۹ تک قوم سبا کی حالت دیکھ سکتے ہیں یا پھر سورۃ النحل کی آیت نمبر ۱۱۲کا مطالعہ کریں، اسی طرح اس جیسی اور بھی کئی قسم کی مثالیں خود آپ کے آس پاس آپ کو مل جائیں گی کہ اللہ نے شکر ادا کرنے والوں کو مزید دیا اور نا شکری کرنے والوں کو ان نعمتوں سے محروم کر کے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیا۔
۲۔ اللہ کو یاد کرو گے اللہ تمہیں یاد کرے گا: سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر۱۵۲میں اللہ نے فرمایا:
{فَاذكُرُونِي أذكُركُم}
’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘
اور یہ معلوم ہے کہ اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کو یاد کریں، اپنی استطاعت کے مطابق ہمہ وقت اس کی تسبیح، تحمید، تکبیر اور تمجید میں لگے رہیں، اس کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت کے کاموں میں لگائیں۔بدلے میں اللہ ہمیں بھی یاد رکھے گا، مصیبت میں ہماری مدد کرے گا، پریشانیوں کو ہم سے دور کرے گا اور ہمیں نیک عمل کی توفیق بھی دے گا…اور اگر ہم نے اللہ کا ذکر نہ کیا، اسے بھول گئے تو وہ بھی ہمیں بھول جائے گا اور جسے اللہ بھول جائے اسے کون یاد رکھ سکتا ہے۔
۳۔ دعا پر قبولیت کا وعدہ: دعا عبادت کی اصل ہے، دعا مومن کا ہتھیار ہے بلکہ دعا ہی دراصل عبادت ہے۔اور اللہ ہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس سے دعا کیا جائے، اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا جائے، اللہ نے سورہ غافر کی آیت نمبر ۶۰میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ:
{أُدعُونِي أَستَجِب لَكُم}
’’تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکار قبول کروں گا‘‘
دعا کا مطلب یہ ہے کہ ہم خلوص و للہیت اور محبت کے ساتھ، اللہ پر مکمل بھروسہ اور یقین رکھتے ہوئے اس کے سامنے اپنی حاجت و ضرورت کو رکھ دیں، عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہوئے اپنا وجود مکمل طور سے اسی کے حوالے کر دیں، اپنی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے گرا کر اپنی مراد اس کے سامنے رکھیں پھر دیکھیں کہ وہ کس طرح اپنے وعدے کی تکمیل کر کے آپ کی مراد کو پوری کرتا ہے…مانگو تو سہی، پکارو تو سہی، وہ تو ہر آن دعا کو قبول کرنے کی صدا لگا رہا ہے اور قرآن و حدیث اس بات پر گواہ ہیں۔
۴۔ استغفار کرو، عذاب سے محفوظ رہو گے: ہر انسان گنہگار ہے لیکن بہترین گنہگار وہ ہے جو اللہ سے توبہ کر لے، اس سے معافی مانگ لے، اپنے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہو کر انہیں آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کر لے، تو اللہ کہتا ہے:
{وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم يَستَغفِرُون}
’’اللہ ایسے لوگوں کو عذاب نہیں دیتا جو اللہ سے استغفار کرتے ہیں‘‘[الأنفال:۳۳]
مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے انسانوں سے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ استغفار کریں گے تو اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ استغفار کے عوض انہیں پانی، مال، اولاد، جنت اور طاقت و قوت بطور انعام عطا کرے گا جیسا کہ سورہ نوح کی آیت نمبر ۱۰سے ۱۲میں اللہ نے استغفار کے ان سب فوائد کا تذکرہ کیا ہے۔
محترم قارئین! یہ تعلیمات ہم سے اس بات کی اپیل کرتی ہیں کہ اگر ہم اللہ کی باتوں کو قبول کریں گے تو اللہ اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے۔لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ہم ان اعمال کو لازم پکڑیں تاکہ اللہ کی طرف سے ہم ان انعامات کے اور اس کی رحمت کے مستحق ہو جائیں۔
٭٭٭