Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • موسم سرما میں شرعی سہولیات کے چند مظاہر

    کائنات کے اندر موسموں کی تبدیلی اور سردی وگرمی کا باہمی تعاقب اللہ رب العالمین کی قدرت کاملہ اور ربوبیت تامہ کی دلیل ہے ،یہ اللہ کی عظیم قدرت ہی کا مظہر ہے کہ اللہ نے سال میں دو موسم بنائے جن کا ذکر قرآن پاک کے سورہ قریش میں کچھ اس طرح وارد ہے:
    {لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ،إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَائِ وَالصَّيْفِ}
    (ہم نے ابرہہ اور اس کی فوج کے ساتھ جو کچھ کیا)’’قریش کو مانوس بنانے کے لئے کیا،انہیں جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس بنانے کے لئے کیا‘‘
    [قریش:۱۔۲](تفسیر تیسیر الرحمن)
    قرآن کریم میں لفظ ’’شتاء‘‘(جاڑا)کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے محققین کہتے ہیں کہ سال میں صرف دو موسم ہوتے ہیں ایک سردی دوسرا گرمی ۔چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’الشتاء نصف السنة ، والصيف نصفها‘‘
    ’’جاڑا سال کا آدھا ہے اور گرمی آدھا ‘‘
    [تفسیر القرطبی:۲۰؍۲۰۷]
    جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زمانے اور موسم کی چار قسمیں ہیں:’’جاڑا ،گرمی، بہار اور خزاں‘‘
    امام ابن العربی اس قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’جو بات امام مالک رحمہ اللہ نے کہی ہے وہی صحیح ترین ہے کیونکہ اللہ رب العالمین نے زمانے کو دو ہی قسموں میں تقسیم کیا ہے کوئی تیسری قسم بیان نہیں کی ہے‘‘[احکام القرآن: ۴؍۴۵۱]
    اللہ کے رسولﷺ نے ان موسموں کے کچھ باطنی اسباب بھی بیان کئے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
    ’’اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَي رَبِّهَا فَقَالَتْ:رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ:نَفَسٍ فِي الشِّتَائِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ‘‘
    ’’جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب !میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھالیا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی ، ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں ۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو ، اس کا یہی سبب ہے ‘‘
    [بخاری:۳۲۶۰، مسلم:۱۴۰۱]
    قارئین کرام ! ابھی ہم جس موسم کا استقبال کر رہے ہیں وہ جاڑے کا موسم ہے اور اللہ کی قدرت سے جب اس کی ٹھنڈی میں شدت آ جاتی ہے تو کمزور یا بڑے بوڑھے اور بیمار قسم کے لوگوں کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،عبادات انجام دینے کے لیے پانی استعمال کرنے یا مسجد جانے یا اس طرح کے دیگر اعمال انجام دینے کی وجہ سے انہیں بیماری اور ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ رہتا ہے ،لیکن چونکہ مذہب اسلام آسانی اور رحمدلی کا پیکر ہے اور اپنے متبعین کو ہر قسم کے اضرار وخطرات سے محفوظ رکھنے کا حل اپنے اندر رکھتا ہے اس لیے جاڑے کے موسم میں لوگوں کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مشقتوں کا علاج بھی بعض آسانیوں اور سہولیات کی صورت میں امت مسلمہ کو عطا کر دیا ہے جن میں سے چند چیزوں کا ذکر اس تحریر کے اندر کیا جائے گا ۔ان شاء اللہ
    اول: سخت ٹھنڈی کی وجہ سے گرم پانی سے وضو کا جواز:
    شریعت اسلامیہ میں گرم پانی بھی عام پانیوں ہی کی طرح ہے جس میں طاہر ومطہر دونوں وصف موجود رہتا ہے، گرم ہونے کے باوجود اس کے وصف طہوریت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی گرچہ وہ اپنی اصل حقیقت وخلقت پر باقی نہیں رہتا۔چنانچہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’گرم پانی من جملہ ان پانیوں میں سے ہے جن سے لوگوں کو طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے…اور (سلف صالحین میں سے)جن سے ہم نے گرم پانی سے وضو کا جواز نقل کیا ہے ان میں عمر بن خطاب، ابن عمر، ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم ہیں‘‘[الأوسط لابن المنذر: ۱؍۲۵۰]
    لہٰذا خواہ ٹھنڈا پانی استعمال کرنے میں پریشانی ہو یا نہ ہو ہر حال میں گرم پانی سے وضو کرنا جائز ہے۔لیکن کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر گرم پانی کے بجائے مشقت برداشت کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی سے وضو کریں گے تو یہ افضل ہوگا اور اس سے زیادہ ثواب ملے گا۔یہ سراسر غلط فہمی کا نتیجہ ہے اگر دونوں قسم کا پانی موجود ہو یا ٹھنڈے پانی کو گرم کیا جا سکتا ہو تو گرم پانی سے وضو کرنا ہی افضل ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کوجب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو ۔ [بخاری:۳۵۶۰،مسلم :۲۳۲۷]
    لہٰذا سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے سہولت اور آسانی کو ترجیح دینا ہی افضل ہے۔ البتہ اگر گرم پانی موجود نہ ہو یا پانی گرم کرنے کے وسائل مہیا نہ ہوں تو ایسی صورت میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا بیش بہا فضائل کا حامل ہے، اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:’’تین چیزیں گناہوں کو مٹانے والی ہیں، تین چیزیں درجات کو بلند کرنے والی ہیں، تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں، جہاں تک گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کا تعلق ہے تو وہ سخت ٹھنڈی کی حالت میں قاعدے سے مکمل طور پر وضو کرناہے‘‘[صحیح الترغیب :۴۵۳،حسن لغیرہ]
    دوم: سخت ٹھنڈی کی وجہ سے وضو یا غسل جنابت کے بدلے تیمم سے طہارت حاصل کرنے اور نماز پڑھنے کا جواز:
    کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

    وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَي أَوْ عَلَي سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّباً}
    ’’اور اگر تم مریض ہو یا مسافر یا تم میں سے کوئی ایک قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو، یا پھر تم نے بیوی سے جماع کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاکیزہ اور طاہر مٹی سے تیمم کر لو‘‘
    [المائدۃ:۶]
    اس آیت میں دلیل ہے کہ جو مریض شخص پانی استعمال نہ کرسکتا ہو یا پھر اسے غسل کرنے سے موت کا خدشہ ہو، یا مرض زیادہ ہونے کا، یا مرض سے شفایابی میں تاخیر ہونے کا ، یا پھر شدید سردی میں پانی استعمال کرنے سے کسی کمزور وناتواں اور بوڑھے شخص کو بیمار ہونے یا بیماری میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہو اور پانی گرم کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو تو وہ تیمم کر لے۔حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
    ’’ غزوۂ ذات السلاسل میں شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہوگیا اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا اس لیے میں نے تیمم کر کے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھا دی، چنانچہ انہوں نے اس واقعہ کا نبی کریم ﷺ کے سامنے ذکر کیا تو رسول کریم ﷺ فرمانے لگے:
    ’’اے عمرو کیا آپ نے جنابت کی حالت میں ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تھی ؟
    چنانچہ میں نے رسول کریم ﷺکو غسل میں مانع چیز کا بتایا اور کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا فرمان سنا ہے:’’اور تم اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے‘‘[النساء :۲۹]
    چنانچہ رسول کریم ﷺ مسکرانے لگے اور کچھ بھی نہ فرمایا ۔[سنن ابی داؤد :۳۳۴،وصححہ الالبانی]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    ’’ اس حدیث میں اس بات کا جواز پایا جاتا ہے کہ سردی وغیرہ کی بنا پر اگر پانی استعمال کرنے سے ہلاکت کا خدشہ ہو تو تمیم کیا جا سکتا ہے، اور اسی طرح تیمم کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت بھی کروا سکتا ہے‘‘[ فتح الباری: ۱؍۴۵۴]
    سوم: سخت ٹھنڈی کی وجہ سے موزوں،جرابوں، جوتوں، پگڑیوں اور عورتوں کے سروں پر بندھی چادروں پر مسح کا جواز:
    موزوں پر مسح کرنا بالاجماع جائز ہے بلکہ یہ اہل سنت کے خصائص میں سے ہے کیونکہ شیعہ رافضی حضرات موزوں پر مسح نہیں کرتے ہیں،اور موزہ خواہ کسی بھی چیز سے بنا ہو اور اس کی نوعیت خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو جس پر بھی (خف) موزہ کا اطلاق ہوتا ہے اس پر مسح کیا جائے گا، موٹا ہونا چاہیے یا چمڑے کا ہونا چاہیے یا اس طرح کی کوئی بھی شرط شریعت مطہرہ میں ثابت نہیں ہے ۔
    موزوں پر مسح کے دلائل احادیث نبویہ میں بالتواتر منقول ومروی ہیں جن میں سے بعض صحیحین اور بعض دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں۔
    جرابوں (چمڑے کے علاوہ کپڑے وغیرہ سے بنا ہوا پیر کا لباس)اور جوتوں پر مسح کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اللہ کے رسول نے وضو کیا تو موزوں اور جوتوں پر مسح کیا‘‘[ابو داؤد:۱۵۹، ترمذی:۹۹] [صححہ الالبانی فی الارواء :ح:۱۰۱]
    اسی طرح اوس بن ابی اوس ثقفی اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوعاً اللہ کے رسول ﷺکا جوتوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ملاحظہ فرمائیں:[سنن ابی داؤد:۱۵۰، صحیح ابن خزیمہ :۱۰۹وصححہما الالبانی رحمہ اللّٰہ]
    اور حضرت علی وابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفا ًایسا کرنا ثابت ہے۔ملاحظہ فرمائیں :[مصنف عبد الرزاق : ۷۸۳و۷۸۴ وصححہ الالبانی فی صحیح ابی داؤد:۱۵۶]
    پگڑیوں پر مسح کی دلیل مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث’’اللہ کے رسول ﷺ نے وضو کیا تو اپنی پیشانی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا‘‘[بخاری:۱۸۲،مسلم:۲۷۴،واللفظ لہ]
    موزوں جرابوں جوتوں اور پگڑیوں پر مسح عام حالات میں بھی جائز ہے اور جواز کی علت بندوں کو بار بار اتارنے اور پہننے کی مشقت سے بچانا ہے لہٰذا ٹھنڈی کے موسم میں جبکہ مشقت مزید بڑھ جاتی ہے ان چیزوں کا مسح بدرجۂ اولیٰ جائز ہوگا۔
    چہارم:سخت ٹھنڈی کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنے کا جواز:
    نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں:کہ انہوں نے سردی ،ہوا اور بارش و الی ایک رات میں اذان دی اور اذان کے آخر میں کہا:’’سنو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو،سنو!گھروں میں نماز پڑھو،پھر کہا: جب سفر میں رات سرد یا بارش والی ہوتی تو رسول اللہ ﷺمؤذن کو یہ کہنے کا حکم دیتے’’أَلَا صَلُّوا فِی رحَالِکُم‘‘ ’’سنو!اپنی قیام گاہوں میں نماز پڑھ لو‘‘[بخاری :۶۳۲،مسلم :۱۶۰۱]
    اسی طرح حضرت نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:ایک ٹھنڈی والے دن فجر کی اذان دی گئی اس حال میں کہ حضرت نعیم اپنی بیوی کے چادر میں تھے تو انہوں نے کہا کاش مؤذن کہتا کہ جو شخص گھر میں رہ جائے اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے تو اللہ کے رسول ﷺکے مؤذن نے اذان کے اخیر میں کہا:’’من قعد فلا حرج‘‘’’کہ جو شخص گھر میں رہ جائے اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے‘‘[مصنف عبد الرزاق:۱۹۲۶،وصححہ الالبانی فی الصحیحۃ : ۲۶۰۵]
    ان دونوں حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر سخت ٹھنڈی کی وجہ سے گھروں سے نکلنا مشکل ہو یا بیماری یا کسی بھی قسم کی مشقت کا اندیشہ ہو تو بجائے مسجد کے گھروں میں نماز پڑھ لینا جائز ہے ۔
    امام نووی جماعت ترک کرنے کو جائز قرار دینے والے اعذار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’سخت ٹھنڈی عذر ہے خواہ رات میں ہو یا دن میں، اور سخت گرمی عذر ہے ظہر کی جماعت کے لیے اور برف باری بھی عذر ہے اگر اس سے کپڑا بھیگ جائے‘‘[المجموع:۴؍۹۹]
    پنجم:سخت ٹھنڈی کی وجہ سے جمع بین الصلاتین کا جواز:
    اگر جاڑے کی شدت کی وجہ سے بار بار مسجد میں جمع ہونا لوگوں کے لیے مشقت پریشانی اور حرج کا باعث ہو تو ایسی صورت میں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے ایک ہی وقت میں پڑھ لینا جائز ہے۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے،انہوں نے کہا:’’رسول اللہﷺنے ظہر،عصر اور مغرب،عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔وکیع کی روایت میں ہے(سعید نے)کہا:میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا:آپ ﷺنے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا:تاکہ اپنی امت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں اور ابو معاویہ کی حدیث میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا:آپ ﷺنے کیا چاہتے ہوئے ایسا کیا؟انہوں نے کہا:آپ نے چاہا کہ اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں‘‘[صحیح مسلم: ۱۶۳۲]
    اس حدیث میں مذکور ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بغیر کسی عذر کے ایسا کیا تھا اس وجہ سے بعض علماء بلا کسی معقول عذر کے بھی محض انسانی حاجات کی وجہ سے جمع بین الصلاتین جائز سمجھتے ہیں ۔جیسے ابن عباس ،ابن سیرین، اشہب، قفال، شاشی، ابو اسحاق مروزی اور امام ابن المنذر وغیرہم ۔لیکن راجح قول کے مطابق اگر کسی قسم کی پریشانی یا حرج میں واقع ہونے کا خدشہ ہو- جیسا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ اپنی امت کو دشواری میں نہ ڈالیں- تبھی جمع بین الصلاتین جائز بلکہ سنت و مستحب ہے۔
    چونکہ سخت ٹھنڈی جس سے انسان کو ضرر لاحق ہونے کا خطرہ ہو عذر ہے لہٰذا اس کی وجہ سے بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے ۔چنانچہ اس کا جواز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے ثابت ہے ۔اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،شیخ ابن عثیمین، شیخ عبید الجابری ،شیخ سلیمان الماجد اور شیخ ولید بن راشد السعیدان نے بھی جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: [مجموع الفتاویٰ :۲۴؍۲۹موقع الشیخ ابن عثیمین ، موقع میراث الانبیاء …]
    ششم: سخت ٹھنڈی کی وجہ سے ہیٹر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا جواز:
    آگ کے پرستار مجوسیوں کی مشابہت کی وجہ سے آگ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا حرام ہے لیکن گرمی حاصل کرنے کے لیے ہیٹر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا جائز ہے۔
    ہفتم: منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا جواز:
    حدیث کے اندر وارد ہے:’’اللہ کے رسول ﷺنے نماز میں سدل کرنے اور منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے‘‘[صحیح ابن حبان :۲۳۵۳، سنن ابی داؤد :۶۴۳، ترمذی :۳۸۷،وصححہ الالبانی]
    جو لوگ اس حدیث کوصحیح سمجھتے ہیں ان کے حساب سے عام حالات میں سدل کرنا اور منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
    سدل کہتے ہیں کسی کپڑے کو بدن پر ڈال کر اس کے دونوں اطراف کو ایک دوسرے کے ساتھ ملایا نہ جائے…
    لیکن شدید ٹھنڈی کی وجہ سے سے اگر کوئی شخص منہ ڈھانپ کر نماز پڑھتا ہے تو’’ المشقۃ تجلب التیسیر ‘‘ کے تحت یہ بھی جائز ہے۔
    ان کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ہیں لیکن طوالت کے خوف سے انہی کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کو صحیح سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings