Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فکری جنگ
    عبید اللہ الکافی أکرم

    متعلم: جامعہ القصیم، مملکت سعودی عرب

      اس وقت دنیا ئے اسلام جس دور سے گزر رہی ہے وہ اسلامی تاریخ کا انتہائی مشکل دور ہے، امت مسلمہ کو آج جس جنگ کا سامنا ہے وہ عسکری جنگ سے کہیں زیادہ خطرناک اور خوفناک ہے، جو آج سے نہیں پچھلے کوئی ڈیڑھ سو سال سے درپیش ہے، وہ فکری جنگ ہے، جو ہر آنے والا دن اور ہر نکلنے والا سورج خطرے و ہولناکی کی ایک نئی جہت لے کر آتا ہے، آج اسلامی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جو اس خطرہ سے دوچار نہ ہو، افرد کے ذاتی کردار ہوں یا تربیت اولاد کا معاملہ، عائلی مسائل ہوں یا ازدواجی زندگی کا معاملہ، گھر کے خواتین کے رویے ہوں یا تعلیم وتعلم کا مسئلہ ، معاشرتی زندگی کے گوشے ہوں یا مدارس و مساجد سے متعلق سرگرمیوں کا پہلو ، غرضیکہ ہر چیز آج براہ راست فکری جنگ کے حملے کی زد میں ہے۔

     فکری جنگ کے حملوں کے چند نمونے :

    ۱۔  فکری جنگ کا پہلا اور سب سے خطرناک حملہ میڈیا (ذرائع ابلاغ)ہے، ویسے تو ذرائع ابلاغ کی ترقی نے دوریوں کو سمیٹ دیا ہے، علم وخبر کی ترسیل میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، افکار و آراء کی ترویج اور ابلاغ کے لئے دائرہ وسیع ہو گیا ہے، صاحبان علم وہنر کے تعارف اور اثر پذیری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، لیکن اسی ذرائع ابلاغ کو دشمنان اسلام نے اسلام اور مسلم معاشرے کے خلاف اس کمال کے ساتھ استعمال کیا ہے کہ اس کا جواب نہیں ، آج فلم ،ڈرامے، سیریل ، افسانے، موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہمارے گھروں میں اس طرح کاری ضرب لگی ہے کہ اس کی بھرپائی میں صدیاں بیت جائے، عشق ومحبت کی باتیں جو کبھی کتابوں کے اوراق میں ہوا کرتی تھیں اب ذرائع ابلاغ کی وجہ سے لوری کی جگہ لے لی ہے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ رشتے جن کی اساس حیا پر رکھی گئی تھی ، آہستہ آہستہ اس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، رشتوں کا تقدس اب ماضی کا داستان بن کر رہ گیا ہے، اخبارات و رسائل کا مطالعہ کریں یا ٹی وی یا انٹرنیٹ کھولیں تو معلوم ہوتا ہے دنیا کے اہم ترین لوگ کھلاڑی اور اداکار ہیں، اصحاب علم وفن،ارباب شعر وادب اور رجال تحقیق کا کسی معاشرہ میں جو مقام حاصل تھا اب روبہ زوال ہے، جس کی وجہ سے ہمارے نونہالوں کے لئے وہ لوگ اسوہ ، قدوہ و آئیڈیل بن گئے ہیں جن کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔

    آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے عوام تو چھوڑیں طالبان علوم نبوت سے بھی اگر عشرۂ مبشرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام پوچھیں تو شاید ہی جواب دے سکیں، لیکن کسی ملک کے ماضی و حال کے کرکٹرز یا فلم ادا کاروں کے بارے میںپوچھ لیں تو جواب ضرور ملے گا، اس لئے اگر ہمیں اپنے نونہالوں کی فکر ہے تو جلد از جلد اس جنگ کا حل نکالنا پڑے گا، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس حل کی تلاش اپنے گھروں سے کریں، تربیت اولاد، تعلیم و تعلم میں غفلت وسستی نہ برتیں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔اللہ ہم سب کی حفاظت کرے۔

    ۲۔  فکری جنگ کا دوسرا سب سے سنگین حملہ استشراق ہے، استشراق کا عام مفہوم یہ ہے کہ:جب بھی کوئی استشراق کا نام لیتا ہے تو اس سے مراد یورپین علماء ومفکرین ہوتے ہیں، جن کا مقصد تحریک استشراق کو فروغ دینا ہے، تحریک استشراق کے دائرے اور مقاصد میں بڑی وسعت ہے، جو مشرق میں موجود تمام ممالک ،مذاہب، زبان ،تہذیب وتمدن،باشندوں ، ان کی رسم ورواج اور عادت واطوار کے متعلق تحقیق کر کے ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنے دسترس میں رکھنے جیسے بہت سارے شعبہ جات پر محیط ہے، لیکن اسلام اور اہل اسلام نیز ان کے ممالک واملاک پر قبضہ کرنا، اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنا ، قرآن و احادیث پر تشویش پیدا کرنا ان کا خاص ایجنڈا ہے، انہیں اب تک اس میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں، جس کا واضح ثبوت’’دائرہ معارف اسلامی‘‘ہے۔

    یہ انگریزی، فرانسیسی، جرمنی زبان میں شائع ہو چکا ہے، جس میں چار سو سے زائد مستشرقین کی کاوش و محنت شامل ہے، جو تین ہزار سے زائد مواد،دس ہزار سے زائد صفحات، اور تین سو سے زائد اسلام اور قرآن و حدیث پر اعتراضات ومختلف شبہات پر محیط ہے۔

      اس عظیم خطرے سے ڈٹ کر مقابلے کے لئے ہمیں ہر اعتبار سے مستعد رہنا پڑے گا، اپنے اندر وہ قوت و صلاحیت پیدا کرنا ضروری ہے، جس کے ذریعہ سے ہم استشراق و مستشرقین کو دنداں شکن جواب دے سکیں۔

    ۳۔  فکری جنگ کا تیسرا حملہ ’’امداد‘‘ہے، آج دشمن اسلام خصوصاً یہود ونصاریٰ نے امداد کے ذریعہ اسلام اور اہل اسلام پر ایک ایسا جال بچھایا ہے جس میں جاہل ونادر مسلمان بلا احساس پھنستے جا رہے ہیں،اپنے علاقوں پر مشاہدہ کر نے سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر انہوں نے اسکول، اسپتال، رفاہی اداروں کا جال بچھا کر رکھا ہے اور کس  قدر تیز ی سے جاہل ، نادر اور کمزور طبقہ کے لوگ اس سے متأثر ہوتے جا رہے ہیں، یقینا ہمارے لئے ایک سبق آموز اور قابل فکر بات ہے، اس کا حل بھی ہمیں ہی نکالنا پڑے گا، ورنہ وہ دن بھی آسکتا ہے جب ہماری ایک بڑی تعداد ہم سے دور ہو جائے، پھر کف افسوس ملنے کے کچھ باقی نہ رہے گا۔

    ۴۔  فکری جنگ کا چوتھا حملہ (لادینیت communism) کو فروغ دینا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو یہی لا دینیت دیمک کی طرح آہستہ آہستہ کھوکھلا کر رہی ہے، اس کے دائرے وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں اور آج حالت تو یہ ہے کہ لوگ اللہ ورسول کی بات ماننا تو دور کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے، یقینا یہ بھی ہمارے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے، اگر اس سے بہت جلد نہ نپٹا جائے تو معاشرہ کا معاشرہ اسی لادینیت کی لپیٹ میں آجائے گا۔

    ۵۔  فکری جنگ کا پانچواں حملہ گلوبلائزیشن و مغربیت کی مقبولیت ہے، لباس سے لے کر بول چال، طرز زندگی سے منہج فکر میں اس کا اثر نمایاں ہے، ہمار ے معاشرے میں اس کی بے جا مقبولیت بھی ایک بہت بڑا درد سر بنا ہوا ہے، بر وقت اس کا علاج بھی بے حد ضروری ہے، جس کے لئے اسلامی افکار کے فروغ اور اسلامی تعلیم و تربیت سے لیس ہونا ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔

     فکری جنگ سے لڑنے کے چند بنیادی نقاط:  موضوع کی طوالت کومد نظر رکھتے ہوئے اختصار سے کام لیا گیا ہے، فکری جنگ سے نمٹنے کے لئے چند بنیادی نقاط مندرجہ ذیل ہیں:

    ۱۔  اسلام اور اس کی تعلیمات کی طرف لوٹ آنا۔

    ۲۔  اسلامی تہذیب و تمدن اور عربی زبان کو فروغ دینا۔

    ۳۔  ذرائع ابلاغ اور تعلیمی منہج کو درست کرنا۔

    ۴۔  فن صحافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔

    ۵۔  اسلام اور اس کی خصوصیات کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا۔

    ش۶۔  مختلف علوم وفنون میں دسترس حاصل کر نا۔

    ۷۔  دنیا کی سیادت وقیادت میں اپنا قدم جمانا۔

    ۸۔  آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا۔

    ۹۔  دعوت و اصلاح کے مراکز نیز داعیوں کی ہمت افزائی کرنا۔

    ۱۰۔  نئی نسل کی ذہن سازی کرنا نیز دشمنان اسلام کے خطرے سے آگاہ کرنا۔

    ۱۱۔  ہر گاؤں وقریہ میں دعوتی و اصلاحی پروگرام منعقد کرنا۔

    ایسے بہت سارے اور بھی حلول ہیں جنہیں اپنا کر اس خطرے سے نپٹا جا سکتا ہے۔

      اللہ رب العالمین ہمیں اس مہلک اور جان لیوا حملے سے بچائے رکھے۔ آمین یا رب العالمین

     عبید اللہ الکافی أکرم

    متعلم:جامعۃ القصیم، سعودی عرب

مصنفین

Website Design By: Decode Wings