Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عقد(نکاح) اور ولیمہ ایک ہی دن؟

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    میرا سوال ہے کہ کیا عقد اور ولیمہ ایک ہی دن کیا جا سکتا ہے؟
    جلد سے جلد جواب دیں، جزاک اللہ خیراً۔سائل: عبدالخالق
    جواب: ولیمہ کے سلسلے میں سنت سے جو ثابت ہے وہ یہ کہ عورت کی رخصتی کے بعد ولیمہ کیا جائے یعنی جب شوہر اپنی بیوی سے ہمبستری کرلے اس کے بعد:
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶)نے کہا:
    حَدَّثَنِي عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَنَسًا، قَالَ:’’أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِالحِجَابِ، كَانَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يَسْأَلُنِي عَنْهُ أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَكَانَ تَزَوَّجَهَا بِالْمَدِينَةِ، فَدَعَا النَّاسَ لِلطَّعَامِ بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللّٰهِﷺَ وَجَلَسَ مَعَهُ رِجَالٌ بَعْدَ مَا قَامَ القَوْمُ، حَتّٰي قَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَشَي وَمَشَيْتُ مَعَهُ، حَتّٰي بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ثُمَّ ظَنَّ أَنَّهُمْ خَرَجُوا فَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ مَكَانَهُمْ، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ الثَّانِيَةَ، حَتّٰي بَلَغَ بَابَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ فَإِذَا هُمْ قَدْ قَامُوا، فَضَرَبَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا، وَأُنْزِلَ الحِجَابُ‘‘
    انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:’’ میں پردہ کے حکم کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کا موقع تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے نکاح مدینہ منورہ میں کیا تھا۔ دن چڑھنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے لوگوں کی کھانے کی دعوت کی تھی۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بعض اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک دوسرے لوگ (کھانے سے فارغ ہو کر)جا چکے تھے۔ آخر آپ بھی کھڑے ہو گئے اور چلتے رہے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے پر پہنچے پھر آپ نے خیال کیا کہ وہ لوگ (بھی جو کھانے کے بعد گھر بیٹھے رہ گئے تھے)جا چکے ہوں گے (اس لیے آپ واپس تشریف لائے)میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا لیکن وہ لوگ اب بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ پھر واپس آ گئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ دوبارہ واپس آیا۔ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ پر پہنچے پھر آپ وہاں سے واپس ہوئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکایا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی‘‘[صحیح البخاری: ۷؍۸۳،رقم :۵۴۶۶]
    یہ روایت بخاری میں دوسرے مقام پر ان الفاظ میں ہے:
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶)نے کہا:
    حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ، حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ، عَنْ بَیَانٍ، قَالَ:سَمِعْتُ أَنَسًا، یَقُولُ:’’بَنَی النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَۃٍ، فَأَرْسَلَنِی فَدَعَوْتُ رِجَالًا إِلَی الطَّعَامِ‘‘
    انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ نبی کریم ﷺ ایک خاتون (زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا)کو نکاح کر کے لائے تو مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو ولیمہ کھانے کے لیے بلایا‘‘[صحیح البخاری:۷؍۲۴،رقم :۵۱۷۰]
    اس حدیث سے اسی بات کا ثبوت ملتاہے کہ ولیمہ رخصتی اورہمبستری کے بعد ہوگا ۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی:۷۲۸)اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’ووقت الولیمۃ فی حدیث زینب وصفتہ تدل علی أنہ عقب الدخول ‘‘
    ’’زینب رضی اللہ عنہا سے متعلق حدیث میں ولیمہ کاوقت اور اس کاطریقہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے دخول کے بعد کیا جائے‘‘[الفتاوی الکبریٰ:۵؍۴۷۷]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’حَدِیثُ أَنَسٍ فِی ہٰذَا الْبَابِ صَرِیحٌ فِی أَنَّہَا بَعْدَ الدُّخُولِ لِقَوْلِہِ فِیہِ أَصْبَحَ عَرُوسًا بِزَیْنَبَ فَدَعَا الْقَوْمَ‘‘
    ’’اس باب میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث صریح دلیل ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد ہونا چاہیے ۔کیونکہ اس حدیث کے الفاظ ہیں کہ آﷺنے زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ رات گزاری اس کے بعد ولیمہ کی دعوت دی‘‘[فتح الباری لابن حجر:۹؍۲۳۱]
    علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’السنۃ فی الولیمۃ:وینبغی أن یلاحظ فیہا أمورا:الأول: أن تکون ثلاثۃ أیام عقب الدخول لأنہ ہو المنقول عن النبی ﷺ فعن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال بنی رسول اللّٰہ ﷺ بامرأۃ فأرسلنی فدعوت رجالا علی الطعام‘‘
    ’’ولیمہ میں سنت یہ ہے کہ اس میں ان امور کا لحاظ کیا جائے ۔یہ زیادہ سے زیادہ تین دنوں تک ہو ، اور دخول کے بعد ہو کیونکہ نبی ﷺ سے یہی منقول ہے ،چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی ایک بیوی کے ساتھ رات گزای پھر مجھے بھیجا اور میں نے لوگوں کو (ولیمہ کے) کھانے پر بلایا‘‘[آداب الزفاف: ص۷۳]
    دلیل کی روشنی میں یہی بات درست ہے کہ ولیمہ رخصتی وہمبستری کے بعد ہی ہو۔
    اب اگرجس دن شادی ہو اسی دن رخصتی اور ہمبستری بھی ہوجائے تو ہمبستری کے بعد اسی دن ولیمہ بھی درست ہے ۔
    لیکن اگر جس دن شادی ہو اسی دن ہمبستری نہ ہو تو ایسی صورت میں محض شادی ہی کے بعد ولیمہ کرنا خلاف سنت ہے۔
    بعض اہل علم نے شادی کے بعد ہمبستری سے قبل ہی ولیمہ کی اجازت دی ہے لیکن ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔
    بعض لوگ درج ذیل روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح کے ساتھ ہی بغیر ہمبستری کے ولیمہ کرنا درست ہے ۔
    امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸)نے کہا:
    أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْحَارِثِ الْأَصْبَہَانِیُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَیَّانَ الْأَصْبَہَانِیُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الطُّوسِیُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا الزُّبَیْرُ بْنُ بَکَّارٍ، قَالَ:حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَنٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو بْنِ زُہَیْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ أُمَّ حَبِیبَۃَ بِنْتَ أَبِی سُفْیَانَ، قَالَتْ:’’مَا شَعَرْتُ وَأَنَا فِی أَرْضِ الْحَبَشَۃِ إِلَّا بِرَسُولِ النَّجَاشِیِّ، جَارِیَۃٌ یُقَالُ لَہَا: أَبْرَہَۃُ، کَانَتْ تَقُومُ عَلٰی ثِیَابِہِ وَدُہْنِہِ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَیَّ، فَأَذِنْتُ لَہَا۔فَقَالَتْ:إِنَّ الْمَلِکَ یَقُولُ لَکِ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺَ کَتَبَ إِلَیَّ أَنْ أُزَوِّجَکِہِ، فَقُلْتُ:بَشَّرَکِ اللّٰہُ بِخَیْرٍ، وَقَالَتْ:یَقُولُ لَکِ الْمَلِکُ:وَکِّلِی مَنْ یُزَوِّجُکِ، فَأَرْسَلْتُ إِلَی خَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ، فَوَکَّلْتُہُ۔وَأَعْطَیْتُ أَبْرَہَۃَ سِوَارَیْنِ مِنْ فِضَّۃٍ، وَخَدَمَتَیْنِ مِنْ فِضَّۃٍ، کَانَتَا عَلَیَّ، وَخَوَاتِمَ مِنْ فِضَّۃٍ، کَانَتْ فِی کُلِّ إِصْبَعِ رِجْلَیَّ سُرُورًا بِمَا بَشَّرَتْنِی بِہِ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْعَشِیِّ، أَمَرَ النَّجَاشِیُّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَمَنْ ہناک من المسلمین یخصرون، وَخَطَبَ النَّجَاشِیُّ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ السَّلَامِ الْمُؤْمِنِ الْمُہَیْمِنِ الْعَزِیزِ الْجَبَّارِ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عبدہ وَرَسُولُہُ، وَأَنَّہُ الَّذِی بَشَّرَ بِہِ عِیسَی بن مَرْیَمَ- عَلَیْہِ السَّلَامُ- أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ کَتَبَ إِلَیَّ أَنْ أُزَوِّجَہُ أُمَّ حَبِیبَۃَ بِنْتَ أَبِی سُفْیَانَ، فَأَجَبْتُ إِلَی مَا دَعَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ وَقَدْ أصدقتہا أربع مائۃ دِینَارٍ، ثُمَّ سَکَبَ الدَّنَانِیرَ بَیْنَ یَدَیِ الْقَوْمِ، فَتَکَلَّمَ خَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ، فَقَالَ:الْحَمْدُ لِلّٰہِ أَحْمَدُہُ وَأَسْتَغْفِرُہُ، وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، أَرْسَلَہُ بِالْہُدَی وَدِینِ الْحَقّ۔ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ، وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ، أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَجَبْتُ إِلَی مَا دَعَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ وَزَوَّجْتُہُ أُمَّ حَبِیبَۃَ بِنْتَ أَبِی سُفْیَانَ، فَبَارَکَ اللّٰہُ لِرَسُولِہِﷺَ، وَدَفَعَ النَّجَاشِیُّ الدَّنَانِیرَ إِلَی خَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ فَقَبَضَہَا، ثُمَّ أَرَادُوا أَنْ یَقُومُوا، فَقَالَ: اجْلِسُوا فَإِنَّ مِنْ سُنَّۃِ الْأَنْبِیَائِ۔إِذَا تَزَوَّجُوا أَنْ یُؤْکَلَ طَعَامٌ عَلَی التَّزْوِیجِ، فَدَعَا بِطَعَامٍ، فَأَکَلُوا، ثُمَّ تَفَرَّقُوا‘‘
    [دلائل النبوۃ للبیہقی:۳؍۴۶۲،ونقلہ ابن کثیر فی البدایہ والنھایہ:۴؍۱۴۴، والعظیم آبادی فی عون المعبود:۶؍۹۷]
    اس روایت کے اخیر میں ہے کہ نبی ﷺ سے ام حبیبہ کے نکاح کے بعد جب لوگ جانے لگے تو ان کو روک کر کہا گیا کہ:
    ’’اجْلِسُوا فَإِنَّ مِنْ سُنَّةِ الْأَنْبِيَائِ۔إِذَا تَزَوَّجُوا أَنْ يُؤْكَلَ طَعَامٌ عَلَي التَّزْوِيجِ، فَدَعَا بِطَعَامٍ، فَأَكَلُوا، ثُمَّ تَفَرَّقُوا‘‘
    ’’ابھی بیٹھو کیونکہ انبیاء علیہم السلام کی سنت یہ ہے کہ جب یہ شادی کرتے ہیں تو شادی پر کھانا کھلایاجاتا ہے ، چنانچہ انہوں نے کھانا منگوایا ،پھر لوگوں نے کھایا اس کے بعد واپس لوٹے‘‘
    لیکن یہ روایت موضوع من گھڑٹ ہے ۔
    اس کی سند میں ’’محمد بن الحسن بن زبالۃ‘‘ ہے جو کہ کذاب اور وضاع یعنی جھوٹا اورحدیثیں گھڑنے والا شخص ہے ۔
    اس کے بارے میں محدثین کی بہت سخت جرحیں ہیں ،چند ملاحظہ ہوں:
    امام ابن معین رحمہ اللہ نے تو اسے کذاب ، خبیث ، اللہ کا دشمن قرار دیا ہے۔ چنانچہ:
    امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۳)نے کہا:
    ’’محمد بن الحسن بن زبالۃ وکان کذابا ولم یکن بشیء ‘‘[تاریخ ابن معین – روایۃ الدوری : ۳؍ ۲۲۷]
    ایک دوسرے مقام پر کہا:
    ’’کَذَّابٌ خبیثٌ، لم یکن بِثِقَۃٍ ولا مأمونٍ، یَسرِق ‘‘[تاربخ بن مرثد: رقم:۲۳]
    امام احمد بن صالح المصری(المتوفی:۲۴۸)سے منقول ہے:
    ’’کَانَ یضع الحدیث فترکت حدیثہ‘‘[تاریخ بغداد وذیولہ ط العلمیۃ :۴؍۴۲۲،واسنادہ لین]
    ابو حاتم محمد بن إدریس الرازی، (المتوفی:۲۷۷)نے کہا:
    ’’واہی الحدیث‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۷؍۲۲۸]
    امام ابوداؤد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۷۵) نے کہا:
    ’’کذابا المدینۃ: مُحَمَّد بن الحَسَن بن زبالۃ، ووہب بن وَہْب أَبُو البَخْتَرِیّ، بلغنی أَنَّہُ کَانَ یضع الحدیث باللیل فی السّراج ‘‘[تاریخ بغداد للخطیب البغدادی:۱۵؍۶۲۵]
    امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۰۷)نے کہا:
    ’’محمد ہذا کذاب ‘‘[ذخیرۃ الحفاظ لابن القیسرانی:۳؍۱۶۲۱]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸)نے کہا:
    ’’محمد بن الحسن بن زبالۃ متہم‘‘[تلخیص کتاب الموضوعات للذہبی :ص:۲۱۱]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
    ’’کذبوہ‘‘[تقریب التہذیب لابن حجر:رقم:۵۸۱۵]
    اسی روایت کو امام ابن سعد نے بھی دوسرے طریق سے روایت کیا ہے ۔چنانچہ:
    امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۰)نے کہا:
    أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ زُهَيْرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، قَال:قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ:’’رَأَيْتُ فِي النَّوْمِ عُبَيْدَ اللّٰهِ بْنَ جَحْشٍ زَوْجِي بَأَسْوَأِ صُورَةٍ وَأَشْوَهِهِ، فَفَزِعْتُ فَقُلْتُ:تَغَيَّرَتْ وَاللّٰهِ حَالُهُ فَإِذَا هُوَ يَقُولُ حَيْثُ أَصْبَحَ:يَا أُمَّ حَبِيبَةَ إِنِّي نَظَرْتُ فِي الدِّينِ فَلَمْ أَرَ دِينًا خَيْرًا مِنَ النَّصْرَانِيَّةِ وَكُنْتُ قَدْ دِنْتُ بِهَا ثُمَّ دَخَلْتُ فِي دِينِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ قَدْ رَجَعْتُ إِلَي النَّصْرَانِيَّةِ ، فَقُلْت:وَاللّٰهِ مَا خَيْرٌ لَكَ وَأَخْبَرْتُهُ بِالرُّؤْيَا الَّتِي رَأَيْتُ لَهُ فَلَمْ يَحْفَلْ بِهَا وَأَكَبَّ عَلَي الْخَمْرِ حَتَّي مَاتَ ، فَأَرَي فِي النَّوْمِ كَأَنَّ آتِيًا يَقُولُ:يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ فَفَزِعْتُ فَأَوَّلْتُهَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ يَتَزَوَّجُنِي ، قَالَتْ :فَمَا هُوَ إِلاَّ أَنِ انْقَضَتْ عِدَّتِي فَمَا شَعَرْتُ إِلاَّ بِرَسُولِ النَّجَاشِيِّ عَلٰي بَابِي يَسْتَأْذِنُ فَإِذَا جَارِيَةٌ لَهُ يُقَالُ لَهَا أَبْرَهَةُ كَانَتْ تَقُومُ عَلٰي ثِيَابِهِ وَدَهْنِهِ ، فَدَخَلَتْ عَلَيَّ فَقَالَتْ:إِنَّ الْمَلِكَ يَقُولُ لَكِ إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَكَهُ ، فَقَالَت:بَشَّرَكِ اللَّهُ بِخَيْرٍ ، قَالَتْ:يَقُولُ لَكِ الْمَلِكُ وَكِّلِي مَنْ يُزَوِّجُكِ ، فَأَرْسَلَتْ إِلَي خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ فَوَكَّلَتْهُ وَأَعْطَتْ أَبْرَهَةَ سِوَارَيْنِ مِنْ فِضَّةٍ وَخَدَمَتَيْنِ كَانَتَا فِي رِجْلَيْهَا وَخَوَاتِيمَ فِضَّةً كَانَتْ فِي أَصَابِعِ رِجْلَيْهَا سُرُورًا بِمَا بَشَّرَتْهَا فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ أَمَرَ النَّجَاشِيُّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَمَنْ هُنَاكَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَحَضَرُوا فَخَطَبَ النَّجَاشِيُّ ، فَقَالَ:الْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ السَّلَامِ الْمُؤْمِنِ الْمُهَيْمِنِ الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّهُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَي ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ كَتَبَ إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَهُ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ فَأَجَبْتُ إِلَي مَا دَعَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللّٰهِ وَقَدْ أَصْدَقْتُهَا أَرْبَعَمِائَةِ دِينَارٍ ثُمَّ سَكَبَ الدَّنَانِيرَ بَيْنَ يَدَيِ الْقَوْمِ فَتَكَلَّمَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ ، فَقَالَ:الْحَمْدُ لِلّٰهِ أَحْمَدُهُ وَأَسْتَعِينُهُ وَأَسْتَنْصِرُهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ لَاإِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْهُدَي وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَي الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ، أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَجَبْتُ إِلَي مَا دَعَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللّٰهِ وَزَوَّجْتُهُ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ فَبَارَكَ اللّٰهُ رَسُولَ اللّٰهِ وَدَفَعَ الدَّنَانِيرَ إِلَي خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ فَقَبَضَهَا ثُمَّ أَرَادُوا أَنْ يَقُومُوا ، فَقَالَ:اجْلِسُوا فَإِنَّ سُنَّةَ الأَنْبِيَائِ إِذَا تَزَوَّجُوا أَنْ يُؤْكَلَ طَعَامٌ عَلَي التَّزْوِيجِ فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلُوا ثُمَّ تَفَرَّقُوا۔۔‘‘
    [الطبقات الكبريٰ لابن سعد:۸؍۹۷،و اخرجه ايضا الطبري فى تاريخه:۱۱؍۶۰۵،و الحاكم فى المستدرك :۴؍۲۲،وابن عساكر فى تاريخ دمشق:۶۹؍۱۴۴،كلهم من طريق الواقدي به]
    لیکن یہ روایت بھی موضوع ومن گھڑت ہے کیونکہ اس کی سند میں محمدبن عمر الواقدی ہے اور یہ کذاب ہے۔
    امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۰۴)نے کہا:
    ’’کتب الواقدی کذب‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۸؍۲۰،وسندہ صحیح]
    امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳)نے کہا:
    ’’والکذابون المعروفون بِوَضْع الحَدِیث علٰی رَسُول اللّٰہ ﷺ أَرْبَعَۃ۱- ابْن أبی یحیی بِالْمَدِینَۃِ ۲- والواقدی بِبَغْدَاد ۳ – وَمُقَاتِل بن سُلَیْمَان بخراسان ۴ – وَمُحَمّد بن السعید بِالشَّام وَیعرف بالمصلوب‘‘[أسئلۃ للنسائی فی الرجال المطبوع فی رسائل فی علوم الحدیث :ص:۷۶]
    امام إسحاق بن راہَوَیْہ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۷)نے کہا:
    ’’عندی ممن یضیع الحدیث‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۸؍۲۰،وسندہ صحیح]
    امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۰۷)نے کہا:
    ’’أجمعوا علٰی ترکہ‘‘[معرفۃ التذکرۃ لابن القیسرانی:ص:۱۶۳]
    ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ عام کتب رجال اور امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۴)سے تو یہ بھی نقل کیا گیا ہے واقدی حدیث ، انساب یا کسی بھی چیز میں قابل اعتماد نہیں ۔ چنانچہ:
    امام عقیلی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۲)نے کہا:
    حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُوسَي السِّيرَافِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُهَلَّبِيُّ قَال:سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، يَقُولُ:الْهَيْثَمُ بْنُ عَدِيٍّ أَوْثَقُ عِنْدِي مِنَ الْوَاقِدِيّ،وَلَا أَرْضَاهُ فِي الْحَدِيثِ ،وَلَا فِي الْأَنْسَابِ،وَلَا فِي شَيْئٍ‘‘
    [الضعفاء الکبیر للعقیلی:۴؍۱۰۸، شیخ العقیلی لم اعرفہ وباقی الرجال ثقات ، ومن طریق العقلیلی اخرجہ الخطیب فی تاریخ:۱۴؍۵۲،و ابن عساکر فی تاریخ دمشق:۵۴؍۴۵۲،و ذکرہ المزی فی تہذیب الکمال:۲۶؍۱۸۷]
    اس کے علاوہ اس سند میں اوربھی علتیں ہیں۔
    معلوم ہوا کہ یہ طریق بھی موضوع اور من گھڑت ہے ۔
    تنبیہ:
    علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’أَخْرَجَهُ صَاحِبُ الصَّفْوَةِ كَمَا قَالَهُ الطَّبَرِيُّ‘‘[عون المعبود وحاشیۃ ابن القیم :۶؍۹۷]
    یعنی اس روایت کو امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی:۵۹۷)نے اپنی کتاب صفۃ الصفوۃ میں نقل کیا ہے جیساکہ محب الدین الطبری (المتوفی:۶۹۴)نے کہا ہے۔
    عرض ہے کہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صفۃ الصفوۃ:۲؍۴۵میں اس روایت کو بے سند نقل کیا ہے ۔
    لہٰذا کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کتاب میں اس کی کوئی اور سند بھی ہوسکتی ہے ۔
    مزید یہ کہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیں تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نکاح کے وقت ہی ولیمہ کرسکتے ہیں بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت دعوت کرسکتے ہیں جیساکہ ہندو لوگ کرتے ہیں اوربعض مسلمان بھی کرتے ہیں ، کیونکہ اس من گھڑت روایت میں ولیمہ کا لفظ نہیں ہے بلکہ نکاح کے وقت کھانے کی بات ہے ۔
    کفایت اللہ سنابلی

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings