-
علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات (گیارہویں قسط) اہل السنۃ والجماعۃ کی وسطیت:(تیسرا حصہ)
علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات کی دسویں قسط میں تقدیر کے باب میں قدریہ و جبریہ کے مابین اہل السنہ والجماعہ کی وسطیت کی وضاحت پیش کی گئی تھی، اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے زیرِ نظر تحریر میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ نصوصِ وعد اور وعید کے باب میں مرجئہ و وعیدیہ کے مقابلے اہل السنہ والجماعہ وسطیت پر قائم ہیں۔
کتاب و سنت میں وارد بہت سی آیات و آحادیث اللہ تعالیٰ کے عظیم وعدے اور ثواب جزیل پر دلالت کرتی ہیں، جو اللہ عز وجل نے اپنے ایماندار اور فرمانبردار بندوں سے کیا ہے۔دیکھیں:[وسیطۃ اہل السنہ والجماعہ بین الفرق للدکتور با کریم: ص:۳۹۹۔۴۰۰]
ان میں سے چند نصوصِ وعد درج ذیل ہیں :
۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَيٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}
’’کہہ دیجئے! اے وہ میرے بندے جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کر دے گا،یقینا وہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘[سورۃ الزمر:۵۳]
۲۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}
’’اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں‘‘[سورۃ التوبۃ : ۷۲]
۳۔ اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’ما من عبد قال:لا إلٰه إلا اللّٰه، ثم مات علٰي ذالك إلا دخل الجنة‘‘
’’کوئی بھی بندہ (دل سے اقرار کرتے ہوئے)یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، پھر اسی پر اس کی موت واقع ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘[صحیح مسلم: ح:۹۴]
اسی طرح بہت سی نصوص شرعیہ اہل فسق و معاصی اور اصحاب کبائر کے لئے درد ناک عذاب کی سخت وعیدوں پر دلالت کرتی ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو فسق و ضلال جیسی صفتوں سے یاد فرمایا ہے۔دیکھیں:[وسیطۃ اہل السنۃ و الجماعۃ بین الفرق للدکتور با کریم: ص:۳۹۹۔۴۰۰]
ان میں سے چند نصوص وعید درج ذیل ہیں :
۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا}
’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب و لعنت ہے، اور اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کیا ہے‘‘[سورۃ النساء :۹۳]
۲۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامٰي ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا}
’’جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں (در اصل)وہ اپنے پیٹ میں آگ کے انگارے بھر رہے ہیں، اور عنقریب جہنم میں جھونکے جائیں گے‘‘[سورۃ النساء:۱۰]
۲۔ اور نبی اکرم ﷺ کا یہ قول:’’سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر‘‘
’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اسے قتل کرنا کفر ہے‘‘[صحیح البخاری:ح:۴۸، وصحیح مسلم:ح:۶۴]
نصوص وعد اور وعید کے سلسلے میں تین گروہ ہیں، جن کی آراء مختلف ہیں :
۱۔ مرجئہ: جنہوں نے صرف نصوصِ وعد کو اخذ کیا، اور نصوصِ وعید کو چھوڑ دیا، اور کہا کہ:شرک کے سوا سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے، لہٰذا ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے، جس طرح کفر کے ساتھ کوئی اطاعت نفع نہیں دے سکتی ہے۔دیکھیں:[وسیطۃ اہل السنہ والجماعہ بین الفرق للدکتور با کریم:ص:۴۰۱]
لہٰذا ان لوگوں نے اس باب میں صرف ’’امید ‘‘سے اللہ عز وجل کی عبادت کی، جس کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔
۲۔ وعیدیہ خوارج اور معتزلہ: انہوں نے صرف نصوصِ وعید کو اخذ کیا، اور نصوصِ وعد کو چھوڑ دیا، اور کہا:ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ اور وعید دونوں کو پورا کرے، اور یہ بات صحیح نہیں کہ اللہ عز وجل ان میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی کرے۔دیکھیں:[شرح الأصول الخمسۃ لعبد الجبار المعتزلی: ص:۱۳۵۔۱۳۶]
گویا انہوں نے اس باب میں صرف’’خوف‘‘سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، اور امید کا دامن چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔
۳۔ اہل السنہ والجماعہ :
أولاً: نصوص وعد اور وعید کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کا اعتقاد :
نصوصِ وعید اور وعد کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے و وعید برحق ہیں، لہٰذا یہ نصوص بھی برحق ہیں، چنانچہ ’’اللہ تعالیٰ جب وہ اپنے بندے سے کسی چیز کا وعدہ کرتا، تو اپنے وعدے کے حکم کے اعتبار سے اسے ضرور پورا بھی کرتا ہے، یقیناً وہ اپنی خبر میں سچا ہے، جو کسی بھی صورت میں وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے‘‘دیکھیں: [منہاج السنۃ النبویۃ :۱؍۴۴۸]
بلکہ ’’جائز ہے کہ اللہ گناہگار کو معاف کر دے، اور اہل کبائر کو جہنم سے نکال دے، لہٰذا اللہ اہل توحید میں سے کسی کو ہمیشہ جہنم میں باقی نہیں رکھے گا‘‘دیکھیں:[منہاج السنۃ النبویۃ:۱؍۴۶۶۔۴۶۷]
غرضیکہ اہل السنہ والجماعہ نے نصوصِ وعد اور وعید کے باب میں وعیدیہ اور مرجئہ خالصہ کی طرح افراط و تفریط سے کام نہیں لیا بلکہ منہجِ توسط کو اختیار کیا،اور خوف و امید دونوں کو لازم پکڑا۔
ثانیاً: اہل السنہ و الجماعہ کے نزدیک امید اور خوف :
اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک امید و خوف عبادت کے ارکان میں سے ہیں،لہٰذا اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ یہ دونوں ایک دوسرے کو متلازم ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس نے صرف محبت کے ذریعہ اللہ کی عبادت کی وہ زندیق ہے، اور جس نے صرف امید کے ذریعہ اس کی عبادت کی وہ مرجئہ ہے، اور جس نے صرف خوف کے ذریعہ اس کی عبادت کی وہ حروری ہے، اور جس نے محبت، خوف، اور امید کے ذریعہ اس کی عبادت کی وہ موحد ہے‘‘[العبودیۃ لابن تیمیۃ:ص:۱۶۱۔۱۶۲]
بنابریں ایک مومن پر واجب ہے کہ اللہ کی محبت کے ساتھ امید و خوف کے توازن کو برقرار رکھے، البتہ حسبِ ظروف امید و خوف کی رعایت کرنا بھی مومن کی علامت ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی صحت وتندرستی کے ایام میں امید پر خوف کے پہلو کو ہمیشہ غالب رکھے، اور اس کا خوف اس کی امید سے کہیں زیادہ غالب رہے، اور جب موت کا وقت آن پڑے تو ایسے میں خوف پر امید کا پلڑا بھاری رہے، لہٰذا مومن کی پہچان یہ ہے کہ جب وہ مرے تو اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے مرے‘‘دیکھیں:[مدارج السالکین لابن القیم : ۲؍۵۱]
خلاصہ یہ ہے کہ ہر مومن بندے کے دل میں اللہ عز وجل کی محبت کے ساتھ امید و خوف دونوں کا پایا جانا ضروری ہے، کیونکہ ان میں سے صرف کسی ایک کے پائے جانے سے زندگی کا توازن بگڑنا لازمی امر ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اہل السنہ والجماعہ نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کی امید و خوف کو بھی لازم پکڑا ہے، اور یہ نصوصِ وعد اور وعید کے باب میں ان کے اصول و ضوابط سے ظاہر ہے۔
ثالثًا: نصوصِ وعد کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے برحق ہیں، اور جو نصوص ان وعدوں کو متضمن ہیں وہ بھی برحق ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا فرمائے گا، اور اس پر منجملہ چار اصول دلالت کرتے ہیں:
پہلی اصل: اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اپنے نیک و فرمانبردار بندوں کو خوب بدلہ عطا فرمائے گا، اور یقیناً وہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَعْدَ اللّٰهِ لَا يُخْلِفُ اللّٰهُ وَعْدَه}
’’(یہ)اللہ کا وعدہ (ہے)، اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا‘‘[سورۃ الروم:۶]
اور فرمایا: {وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ}
’’(یہ)سچا وعدہ (ہے)جو ان سے کیا جاتا ہے‘‘[سورۃ الأحقاف:۱۶]
دوسری اصل: اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اپنے مومن بندوں کو ثواب دے گا، اور اللہ عزوجل جھوٹ سے پاک ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيثًا}
’’اور اللہ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہے؟‘‘[سورۃ النساء :۸۷]
اور فرمایا: {سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ}
’’ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا اور ان کی حالت درست کر دے گا، اور ان کو جنت میں جس سے انہیں شناسا کر رکھا ہے داخل کرے گا‘‘[سورۃ محمد:۵۔۶]
تیسری اصل : اللہ تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ واجب فرمایا ہے کہ وہ اپنے نیک و فرمانبردار بندوں کو بہترین بدلہ عنایت کرے گا، چنانچہ وہ ہو کر رہے گا جسے اپنے لیے فرض قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{كَتَبَ رَبُّكُمْ عَليٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ}
’’اللہ نے اپنی ذات (پاک)پر رحمت کو لازم کرلیا ہے‘‘[سورۃ الأنعام:۵۴]
اور نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
’’وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَي اللّٰهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا‘‘
’’اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ ایسے شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرے‘‘[صحیح البخاری:ح:۲۸۵۶، وصحیح مسلم: ح: ۳۰]
چوتھی اصل: اللہ تعالیٰ سب سے بڑا منصف ہے،لہٰذا کسی بھی صورت میں اس سے ظلم واقع نہیں ہو سکتا ہے، اور ظلم یہ بھی ہے کہ نیک و فرمانبردار بندوں کا بدلہ نہ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَمَن يَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا}
’’اور جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہوگا تو اس کو نہ ظلم کا خوف ہوگا اور نہ نقصان کا‘‘[سورۃ طٰہ:۱۱۲]
لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنے نیک و فرمانبردار بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے بدلہ عطا فرمائے گا، اور یہ بدلہ نہ دینا ظلم ہے، کیونکہ اس نے اپنے اوپر جو واجب کیا ہے، اور جو کچھ وعد کیا ہے، اور ثواب و عطا کے بارے میں جو خبر دی ہے، اس کی خلاف ورزی کرنا ہی ظلم ہے، اور ظلم سے اللہ تعالیٰ کی ذات منزہ و پاک ہے:
{وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيد}
’’اور تمہارا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘[سورۃ فصلت :۴۶]
اور حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰي نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا‘‘
’’میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے، اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو‘‘[صحیح مسلم: ح:۲۵۷۷]
۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے مختلف قسم کی نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، جس کا انحصار محض اللہ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت پر ہوگا، لہٰذا کوئی بھی شخص اللہ عز وجل پر اپنے حق کی دعویداری نہیں کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِيرًا}
’’اور مومنوں کو خوش خبری سنا دو کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہوگا‘‘ [سورۃ الأحزاب:۴۷]
اور فرمایا: {اَلَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِن فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ}
’’جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اُتارا، یہاں نہ تو ہم کو رنج پہنچے گا اور نہ ہمیں تکان ہی ہوگی‘‘[سورۃ فاطر:۳۵]
۳۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے لئے چند شروط و موانع ہیں، جن میں سب سے عظیم شرط توحید ہے، جبکہ سب سے بڑا مانع کفر ہے۔
بنا بریں علماء اہل السنہ والجماعہ نے اس سلسلے میں یہ قاعدہ بیان کیا ہے:
نیکی کے بدلے ہر وہ وعدہ جس کا ذکر نصوص شرعیہ میں آیا ہے وہ عدم کفر اکبر کے ساتھ مشروط ہے (یعنی وہ کفر اکبر جس پر موت نہ ہو)۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَمَن يَّرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ}
’’اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو)جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے، اور یہی لوگ جہنم (میں جانے)والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ [سورۃ البقرۃ:۲۱۷]
بنا بریں اگر کسی نے کوئی نیک عمل کیا، پھر مرتد ہو گیا، اس کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوا، تو اس کا سابقہ نیک عمل معتبر ہوگا، مثلاً:کسی نے حج کیا، پھر ارتداد کا شکار ہوا، اس کے بعد دوبارہ اسلام لایا تو اس کا پہلا حج برقرار رہے گا، لیکن اگر ارتداد کی حالت میں موت آگئی ہو تو اس کے سارے اعمال برباد ہو جائیں گے۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کا وعدۂ نعمت گرچہ اس کا فضل محض ہے لیکن نیک اعمال اس کے حصول کے لیے اسباب ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ}
’’اور یہ جنت جس کے تم مالک کر دیئے گئے ہو تمہارے اعمال کا صلہ ہے‘‘[سورۃ الزخرف:۷۲]
یہ آیت کریمہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ طاعات اور نیک اعمال دخول جنت کے لیے سبب ہوں گے۔
اور نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’لَنْ يُدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُهُ الْجَنَّةَ‘‘، قَالُوا:وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ:’’لَا، وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَةٍ‘‘
’’کسی شخص کو اس کا عمل ہرگز جنت میں داخل نہیں کرے گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوال کیا:اور آپ (بھی) نہیں، اے اللہ کے رسول (ﷺ)، تو فرمایا:’’نہیں، میں (بھی) نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ (تعالیٰ)مجھے (اپنے) فضل و رحمت سے ڈھانپ لے‘‘[صحیح البخاری:۵۶۷۳،و صحیح مسلم:۲۸۱۶]
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مومنین و موحدین بندے اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت ہی کی بدولت جنت میں داخل ہوں گے۔
واضح رہے کہ ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ میں وارد’’با‘‘سبب کے لئے مستعمل ہے، جبکہ اس حدیث نبوی میں وارد ’’با‘‘عوض کے لئے ہے۔
لہٰذا ان نصوص میں باء مثبت سے مراد:باء سبب ہے، اور باء منفی سے مراد:باء عوض ہے۔دیکھیں:[شرح العقیدۃ الطحاویۃ:ص:۶۴۳]
۵۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اور نیکیوں کا سب سے کم بدلہ دس گنا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{مَن جَاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا}
’’اور جو کوئی (اللہ کے حضور)نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی‘‘[سورۃ الأنعام:۱۶۰]
۶۔ اہل السنہ والجماعہ وعد اور وعید کی نصوص کو جمع کر کے نتیجہ اخذ کرتے ہیں، کیونکہ صرف نصوصِ وعد کے التزام سے بندہ غرور و کوتاہی میں مبتلا ہو سکتا ہے، جبکہ صرف نصوصِ وعید کے التزام سے خوف میں مبتلا ہو سکتا ہے،لہٰذا ضروری ہے کہ وعد اور وعید کی نصوص کو جمع کیا جائے، جس سے بندے کے دل میں خوف اور امید دونوں قائم رہتے ہیں، اور یہی مومنوں کی پہچان ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ}
’’اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں‘‘[سورۃ الإسراء:۵۷]
رابعًا: نصوصِ وعید کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج :
۱۔ کتاب و سنت میں وارد وعید برحق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں جو کچھ خبر دی ہے وہ بھی حق ہے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نصوصِ وعید بطور تغلیظ وارد ہوئی ہیں۔
۲۔ وعید کا تعلق اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت سے ہے، کیونکہ اللہ عز وجل کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے:
{وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا}
’’اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے‘‘[سورۃ الکہف:۴۹]
چنانچہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا تعلق اس کی رحمت و حکمت سے ہے اسی طرح وعیدوں کا تعلق اس کے عدل و حکمت سے ہے۔
۳۔ اللہ عز وجل کی وعید کے لئے چند شروط و موانع ہیں:
شروط: أ۔علم، ب۔قدرت، ج۔اختیار
موانع: أ۔ توبہ، ب۔استغفار، ج۔نیکیاں، د۔مصائب، ھ۔حدود، و۔دوسروں کی دعائیں، ز۔دوسروں کے لئے مشروع و جائز نیک عمل کرنا، ح۔احوال قبر و قیامت، ط۔شفاعت، ی۔اللہ کا فضل محض وغیرہ۔
۴۔ نافرمانوں کے تئیں ہر قسم کی وعید عدمِ توبہ کے ساتھ مشروط ہے۔
۵۔ نافرمانوں کے تئیں ہر قسم کی وعید{وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاء }[سورۃ النساء :۴۸]کے ساتھ مقید ہے۔
نوٹ: یہ شرط افراد کے اعتبار سے ہے، رہی بات جماعت کی تو ضرور ان میں سے چند لوگوں کو سزا دی جائے گی۔
۶۔ اہل السنہ والجماعہ وعد اور وعید کی نصوص کو جمع کر کے نتیجہ اخذ کرتے ہیں، کیونکہ صرف نصوص وعید کے التزام سے بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس باب میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج دو اصولوں پر قائم ہے:
۱۔ بغیر تاویل و تفویض کے نصوص شرعیہ کو ثابت کرنا۔ ۲۔ وعد اور وعید کی نصوص کو جمع کر کے نتیجہ اخذ کرنا۔
اور اس باب کا جامع کلی یہ ہے کہ:ایمان مطلق دخول جہنم کے لئے مانع ہے، جبکہ مطلق ایمان جہنم میں ہمیشگی کے لئے مانع ہے، اور ممکن ہے کہ صاحبِ مطلق ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے جہنم میں داخل ہی نہ ہو۔
مذکورہ اصول و ضوابط سے واضح ہے کہ نصوصِ وعد و وعید کے باب میں اہل السنہ والجماعہ مرجئہ اور وعیدیہ کے مقابلے میں وسطیت پر گامزن ہیں۔
( نوٹ: یہ اصول و ضوابط استاذ محترم دکتور صالح سندی؍حفظہ اللہ کے دروس سے مستفاد ہیں)
٭٭٭
جاری ہے……