Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات بارہویں قسط

    ’’اہل السنہ والجماعہ کی وسطیت‘‘(۴)
    ’’علم عقیدہ‘‘کی گیارہویں قسط میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ اہل السنہ والجماعہ’’نصوصِ وعد اور وعید‘‘کے باب میں ’’وعیدیہ اور مرجئہ‘‘کے مقابلے میں وسطیت پر قائم ہیں، اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے درج ذیل سطور میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اہل السنہ والجماعہ ’’أسماء و احکام‘‘کے باب میں بھی ’’وعیدیہ اور مرجئہ‘‘کے درمیان منہج توسط پر گامزن ہیں۔
    أولًا: أسماء و احکام سے مراد :
    ’’أسماء ‘‘سے مراد: دین کے نام ہیں، اور- در اصل-یہی وہ الفاظ ہیں جن کے ذریعہ اللہ عز وجل نے- اپنے بندوں کو – وعد اور وعید سنایا ہے، مثلاً:مومن، مسلم، کافر، اور فاسق وغیرہ۔
    ’’احکام‘‘سے مراد: دنیا و آخرت میں ان لوگوں کے احکام ہیں جو ان ناموں کے حقدار ہیں۔دیکھیں:[مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:۱۳؍۳۸]
    ثانیاً: نافرمان مسلمانوں کے نام اور احکام کے سلسلے میں لوگوں کے تین گروہ ہیں :
    أ: وعیدیہ۔ خوارج و معتزلہ
    ب: مرجئہ۔
    ج: اہل السنہ والجماعہ۔
    ثالثًا: مرتکب کبیرہ کے نام کے سلسلے میں وعیدیہ- خوارج و معتزلہ – مرجئہ و جہمیہ، اور اہل السنہ والجماعہ کا موقف:
    أ- وعیدیہ – خوارج و معتزلہ -: انہوں نے دنیا میں نافرماں مسلمان سے اسمِ ایمان کو سلب کر لیا۔
    خوارج نے اسے کافر کہا۔دیکھیں:[مقالات الإسلامین لأبی الحسن الأشعری:۱؍۱۶۸]
    جبکہ معتزلہ نے کہا:وہ ایمان اور کفر کے درمیان ہے، لہٰذا وہ مومن ہے اور نہ کافر ہے۔دیکھیں:[شرح الأصول الخمسۃ للقاضی عبد الجبار:ص:۶۹۷]
    ب: مرجئہ و جہمیہ : انہوں نے سمجھا کہ نافرماں مسلمان کامل الایمان ہے، اس لیے کہ ان کے نزدیک ایمان صرف دل کی تصدیق، یا دلی معرفت کا نام ہے، چنانچہ انہوں نے کہا:جس طرح ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان دہ نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح کفر کے ساتھ کوئی اطاعت نفع بخش نہیں ہے۔دیکھیں:[وسیطۃ أہل السنۃ السنۃ والجماعۃ بین الفرق للدکتور محمد باکریم :ص:۳۳۵۔۳۳۶]
    ج: اہل السنہ والجماعہ: انہوں نے مرتکب کبیرہ کے بارے میں کہا کہ:یہ نافرماں مومن ہے، یا فاسق مومن ہے، یا اپنے ایمان کے اعتبار سے وہ مومن ہے، اور اپنے کبیرہ گناہ کے اعتبار سے فاسق ہے۔دیکھیں:[العقیدۃ الواسطیۃ (ضمن متون طالب العلم؍۳)ص:۱۵۶]
    لہٰذا ایمان کے بعض جزء پر خلل آنے کی وجہ سے نہ تو اسے ایمان کے دائرے سے کلی طور پر خارج مانا جائے گا، اور نہ ہی اسے ایمان مطلق عطا کیا جائے گا۔[وسیطۃ أہل السنۃ والجماعۃ بین الفرق للدکتور محمد باکریم:ص:۳۴۶]
    رابعًاً: آخرت میں احکامِ مرتکبِ کبائر کے سلسلے میں وعیدیہ – خوارج و معتزلہ – اور اہل السنہ والجماعہ کا موقف :
    أ- وعیدیہ- خوارج و معتزلہ -: مرتکب کبیرہ کے بارے میں ان کا اعتقاد ہے کہ آخرت میں یہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
    ان میں سے خوارج نے کہا کہ:اہل کبائر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، یہ وہاں سے کبھی نہیں نکلیں گے۔دیکھیں: [مقالات الإسلامین لأبی الحسن الأشعری:۱؍۱۶۸]
    اور معتزلہ نے کہا کہ:یہ-اہل کبائر -جہنم میں داخل ہوں گے، پھر وہ ہمیشہ ہمیش وہاں باقی رہیں گے۔ دیکھیں: [شرح الأصول الخمسۃ لعبد الجبار المعتزلی:ص:۶۶۶]
    مذکورہ دونوں فرقوں کے اقوال سے یہ ظاہر ہے کہ آخرت میں مرتکب کبیرہ کے حکم کے سلسلے میں دونوں کا تقریباً ایک ہی موقف ہے۔
    ب- اہل السنہ والجماعہ :
    انہوں نے کہا:آخرت میں مرتکب کبیرہ کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی سزا کے بارے میں خوف کھائے، اور اپنے لئے امیدِ رحمت کا دامن بھی نہ چھوڑے، لہٰذا جس کی ملاقات اللہ سے اس حالت میں ہو کہ اس نے ایسے گناہوں سے توبہ نہ کیا ہو جو سزا کو واجب کرنے والے ہوں، بلکہ وہ ان پر مصر بھی رہا ہو، تو ایسے میں اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو وہ اسے عذاب دے، اور چاہے تو اسے بخش دے…دیکھیں:[شرح أصول اعقتاد السنۃ والجماعۃ للالکائی: ۱؍۱۶۲]
    واضح رہے کہ’’أسماء و احکام‘‘کے باب میں قرن اول ہی میں ان فرقوں کے درمیان اختلاف رو نما ہوا تھا، جس کا بنیادی سبب ایمان کی حقیقت میں ان کا اختلاف تھا، لہٰذا اس مختلف فیہ مسئلہ کی وضاحت کے لیے ایمان کی حقیقت، معنی و مفہوم، اور اس سے متعلق ان تمام فرقوں کے اصولوں کو جاننا ضروری ہے۔
    خامسًا: ایمان کا لغوی و شرعی معنیٰ :
    أ۔ ایمان کا لغوی معنی: ایسی تصدیق جس میں امن پایا جائے۔دیکھیں:[المفردات فی غریب القرآن :ص:۲۶]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’و معلوم أن الإیمان ھو الإقرار، لا مجرد التصدیق‘‘ دیکھیں :[مجموع الفتاویٰ :۷؍۶۳۸]
    اور یہ معلوم ہے کہ ایمان ہی اقرار (کا نام)ہے نہ کہ مجرد تصدیق (سے اس کا مقصود حاصل ہو سکتا ہے)
    ب ایمان کا شرعی معنی : دل میں اعتقاد، زبان سے اقرار، اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے کا نام ہے۔
    امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’فمن آمن بلسانه، وصدق ذٰلک بعمله، فذلک العروۃ الوثقی التی لا انفصام لها‘‘دیکھیں:[الإبانۃ۲؍۸۰۷]’’جس نے اپنی زبان سے اقرار کیا، اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق کی تو یہی وہ مضبوط رسی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے‘‘
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    ’ولهذا کان القول أن الإیمان قول وعمل عند أهل السنة من شعائر السنة‘‘
    ’’اور اسی لیے یہ کہنا کہ اہل السنہ کے نزدیک ایمان قول و عمل کا نام ہے (در اصل)سنت کے شعائر میں سے ہے‘‘ [مجموع الفتاویٰ:۷؍۳۰۸]
    سادسًا: ایمان کے باب میں وعیدیہ، مرجئہ، اور اہل السنہ والجماعہ کے اصول :
    ۱ ۔ اہل السنہ والجماعہ کے اصول :
    پہلی اصل:ایمان: اعتقاد، قول، اور عمل کا نام ہے :
    عمل ایمان کا حصہ ہے، اس پر کتاب وسنت کے مختلف نصوص دلالت کرتے ہیں:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ، وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ، وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ}
    ’’ بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے، جو نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے ہیں، اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘[سورۃ المؤمنون:۱۔۵]
    ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کے چند نیک اعمال کا ذکر فرمایا ہے، جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمل ایمان کا حصہ ہے.
    * نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    ’’الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ- أَوْ:بِضْعٌ وَسِتُّونَ- شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ:لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَي عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَائُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ‘‘
    [صحیح البخاری:ح:۹، وصحیح مسلم:ح:۳۵واللفظ لہ]
    ’’ایمان کے ستر سے اوپر (یا ساٹھ سے اوپر)شعبے (اجزاء )ہیں، سب سے افضل جز لا الٰہ الا اللہ کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز)کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے‘‘
    حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
    ’’ثلاث من جمعهن فقد جمع الإیمان:الإنصاف من نفسک، وبذل السلام، و الإنفاق من الإقتار‘‘
    ’’امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اپنی صحیح کے اندر تعلیقاً ذکر فرمایا ہے:(ص:۱۱)تین ایسی خصلتیں ہیں جس نے انہیں (اپنے اندر)جمع کر لیا، اس نے ایمان کو جمع کر لیا:اپنے نفس سے انصاف کرنا (اگر حق اس کے ساتھ ہے تو ٹھیک ورنہ صاحب حق کو اس کا حق دینا مطلوب ہے)، جانے انجانے سب کو سلام کرنا، اور غربت کی حالت میں (اللہ کی راہ میں)خرچ کرنا۔
    دوسری اصل: ایمان اطاعت کے کاموں سے بڑھتا ہے، اور معصیت کے کاموں سے گھٹتا ہے :
    ایمان گھٹتا بڑھتا ہے،اس پر درج ذیل نصوص دلالت کرتے ہیں:
    ۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَليٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ}
    ’’مومن تو وہ ہیں کہ جب (ان کے سامنے)اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں‘‘[سورۃ الأنفال: ۲]
    * اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ}
    ’’وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر سکون نازل فرمایا تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے‘‘[سورۃ الفتح:۴]
    * نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے:
    ’’مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ‘‘، قُلْنَ:وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ:’’أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟‘‘، قُلْنَ:بَلَي۔ قَالَ:’’فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ، وَلَمْ تَصُمْ؟‘‘قُلْنَ:بَلَي۔قَالَ:’’فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا‘‘
    ’’عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کیا کہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے اے اللہ کے رسول؟ آپ ﷺ نے فرمایا:کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے، آپ ﷺنے فرمایا:بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے، پھر آپ نے پوچھا:کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے، آپ نے فرمایا کہ:یہی اس کے دین کا نقصان ہے‘‘[صحیح البخاری:ح:۳۰۴، وصحیح مسلم:ح:۷۹]
    * امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’إذا قبل زیادته تاما، فکما یزید، فکذا ینقص‘‘
    ’’جب (ایمان)زیادتی کو سرے سے قبول کرتا ہے، تو (جس طرح) بڑھتا ہے، اسی طرح وہ گھٹتا بھی ہے‘‘[السنۃ للخلال:۲؍۶۸۸]
    امام ابو زرعہ و ابو حاتم رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
    ’’أدرکنا العلماء فی جمیع الأمصار حجازاً وعراقاً وشاماً ویمناً فکان مذهبهم:الإیمان قول وعمل یزید وینقص‘‘
    ’’ہم نے تمام ممالک حجاز، عراق، شام، اور یمن میں علماء کو پایا، جن کا مذہب یہ تھا کہ:ایمان قول و عمل (کا نام ہے)جو بڑھتا اور گھٹتا ہے‘‘[شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعة:۱؍۱۷۶]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وقد ثبت لفظ الزیادۃ والنقصان فیه عن الصحابة ولم یعرف فیه مخالف من الصحابة‘‘
    ’’اور ایمان کے سلسلے میں لفظ زیادہ و نقصان صحابہ (رضی اللہ عنہم)سے ثابت ہے، اور اس کے بارے میں صحابہ (رضی اللہ عنہم)میں سے کوئی مخالف معروف نہیں ہے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۷؍۲۲۴]
    تیسری اصل: مومنین کے ایمان میں تفاضل پایا جاتا ہے :
    ایمان میں تفاضل پایا جاتا ہے، اس پر مندرجہ ذیل نصوص دلالت کرتے ہیں:
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    {فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ}
    ’’تو ان میں سے کچھ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، اور کچھ میانہ رو ہیں، اور کچھ اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں، یہی بڑا فضل ہے‘‘[سورۃ فاطر:۳۲]
    نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    ’’بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ، وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ، مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ، وَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ دُونَ ذَلِكَ، وَمَرَّ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ‘‘قَالُوا:مَا أَوَّلْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ :’’الدِّينَ‘‘
    ’’میں سو یا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں وہ قمیص پہنے ہوئے ہیں، ان میں بعض کی قمیص تو صرف سینے تک کی ہے، اور بعض کی اس سے بڑی ہے، اور آنحضرت ﷺ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو ان کی قمیص زمین سے گھسٹ رہی تھی‘‘، صحابہ نے پوچھا :اے اللہ کے رسول آپ نے کیا تعبیر لی؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ’’دین‘‘[صحیح البخاری:ح:۷۰۰۸، وصحیح مسلم:ح: ۲۳۹۰]
    امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ لوگ دین و ایمان پر متفاضل ہوتے ہیں، چنانچہ انہوں نے ایک باب قائم کیا ہے’’باب تفاضل أهل الإيمان فى الأعمال‘‘[صحیح البخاری :ص:۹]
    عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    ’’لو وزن إيمان أبي بكر بإيمان أهل الأرض رجح بهم‘‘
    ’’اگر ابو بکر (رضی اللہ عنہ)کے ایمان کوزمین والوں کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو وہ ان پر غالب ہوں گے‘‘ [الجامع لشعب الإیمان:۱؍۸۲]
    *عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’فإن للإيمان حدودا و شرائع وفرائض، ومن استكملها استكمل الإيمان، ومن لم يستكملها لم يستكمل الإيمان‘‘
    ’’یقیناً ایمان کی چند حدود، شرائع اور فرائض ہیں، اور جس نے انہیں مکمل کیا اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا، اور جس نے انہیں مکمل نہیں کیا اس نے ایمان کو مکمل نہیں کیا‘‘[الجامع لشعب الإیمان:۱؍۹۸]
    * شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’والإيمان مراتب بعضها فوق بعض، فليس الناقص كالكامل‘‘
    ’’اور ایمان چند مراتب ( پر مشتمل ہے)جو ایک دوسرے سے اعلیٰ ہے، لہٰذا ناقص (الایمان)کامل (الایمان) کی طرح نہیں ہو سکتا ہے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۷؍۵۰۶]
    ۲۔ وعیدیہ (خوارج و معتزلہ)کے اصول :
    پہلی اصل : ایمان: اعتقاد، قول، اور عمل کا نام ہے۔
    دوسری اصل : ایمان کا ایک ہی جز ہے، جو منقسم نہیں ہو سکتا ہے۔
    نتیجہ : اگر کوئی گناہوں کا مرتکب ہو تو وہ دین سے نکل جائے گا۔
    اہل السنہ والجماعہ اور وعیدیہ کے درمیان فرق :
    دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ایمان:اعتقاد، قول، اور عمل سے مرکب ہے۔
    مگر ان کے درمیان اختلاف یہ ہے:
    أ۔ وعیدیہ کے نزدیک ایمان نہ گھٹتا اور نہ بڑھتا ہے، بلکہ ارتکاب گناہ سے ہی ایک مومن دین سے نکل جاتا ہے۔
    ب۔ اہل السنہ والجماعہ: ایمان کے بہت سارے شعبے ہیں، یہ گھٹتا اور بڑھتا ہے، اور اگر کوئی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو اسے کافر نہیں بلکہ فاسق یا ناقص الایمان کہا جائے گا۔
    اگر اس نے توبہ نہیں کیا، اور اسی حالت میں موت واقع ہوئی، تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تحت ہوگا، اگر اللہ عز وجل چاہے گا تو اسے اپنے فضل و کرم سے معاف کر دے گا، یا اپنے عدل و انصاف کے تحت اسے سزا دے کر جہنم سے نکالے گا، غرض کہ ایسے لوگ (وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ) کے ساتھ مشروط ہوں گے۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’والإیمان مراتب بعضها فوق بعض، فلیس الناقص کالکامل‘‘
    ’’اور ایمان چند مراتب ( پر مشتمل ہے)جو ایک دوسرے سے اعلی ہے، لہٰذا ناقص (الإیمان)کامل (الإیمان) کی طرح نہیں ہو سکتا ہے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۷؍۵۰۶]
    اور اہل السنہ والجماعہ کامنہج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’فإن الإیمان عندهم ینقص ولا یزول بالکلیة، کما أنه قد یزید علی الواجبات بالطاعات، ولهذا قالوا:یزید بالطاعة وینقص بالمعصیة‘‘
    ’’چنانچہ ایمان ان کے نزدیک گھٹتا ہے، اور مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا ہے، (اور)اسی طرح واجبی طاعات (کے عمل) سے بڑھتا ہے، اور اسی لیے وہ کہتے ہیں:(ایمان)طاعت سے بڑھتا ہے، اور معصیت سے گھٹتا ہے‘‘ [جواب الاعتراضات المصریۃ: ص:۱۵۳]
    اور فرماتے ہیں:
    ’’لا یکفّرون أہل القبلة بمطلق المعاصی و الکبائر کما یفعله الخوارج، بل الأخوۃ الإیمانیة ثابثة مع المعاصی‘‘[العقیدۃ الواسطیۃ]
    ’’اور (اہل السنہ والجماعہ )مطلق معاصی اور کبائر (گناہ)کی وجہ سے اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے ہیں، جس طرح خوارج (محض ارتکاب کبائر کی وجہ سے اہل قبلہ کو)کافر گردانتے ہیں، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ)معاصی کے باوجود اخوت ایمانی باقی رہتی ہے‘‘[ضمن متون طالب العلم؍۳، ص:۱۵۴]
    ۳۔ مرجئہ کے اصول :
    پہلی اصل :ایمان: اعتقاد اور قول کا نام ہے۔
    دوسری اصل: عمل ایمان کے مسمی میں داخل نہیں ہے۔
    نتیجہ : معصیت کی وجہ سے ایمان میں کوئی خلل نہیں آتا ہے، جس طرح کفر کی حالت میں کوئی طاعت کا کام قبول نہیں ہوتا ہے۔
    اب چاہے وہ کچھ بھی کرے اس کے ایمان میں کوئی اثر نہیں پڑے گا، بلکہ اصل ایمان میں سارے مومنین برابر ہیں۔
    اہل السنہ والجماعہ اور مرجئہ کے درمیان فرق :
    أ۔ جمہور مرجئہ نے ایمان کو بعض اعمال قلوب پر محصور کیا ہے۔
    ب۔ مرجئہ کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ عمل ایمان کے مسمی سے خارج ہے۔
    ج۔ ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔
    د۔ مرجئہ میں سے اہل فقہ (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب)اہل السنہ والجماعہ کے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ گنہگار قابل مذمت اور وعید کے مستحق ہیں۔
    ھ۔ مرجئہ فقہاء عمل کو مناطِ امر و نہی ضرور مانتے ہیں، مگر اسے ایمان کے مسمی میں شامل نہیں کرتے ہیں، جبکہ اہل السنہ والجماعہ عمل کو ایمان کا جزء قرار دیتے ہیں، اسی لیے ان کے نزدیک ایمان طاعت کے کاموں سے بڑھتا ہے، جبکہ معصیت کے کاموں سے ایمان میں نقص لازم آتا ہے۔
    جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’لقیت أکثر من ألف رجل من العلماء بالأمصار فما رأیت أحداً یختلف فی أن الإیمان قول وعمل، ویزید وینقص‘‘
    ’’میں نے (مختلف)شہروں میں ہزار سے زائد علماء سے ملاقات کی، مگر کسی کو ایسا نہیں دیکھا کہ وہ اس بات پر اختلاف کرتا ہے کہ:ایمان قول و عمل کا نام ہے، اور وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے‘‘[فتح الباری:۱؍۴۷]
    اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وأجمع السلف أن الإیمان قول وعمل، یزید وینقص‘‘
    ’’اور سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے،جو بڑھتا ہے، اور گھٹتا ہے‘‘[مجموع الفتاویٰ : ۷؍۶۷۲]
    وعیدیہ اور مرجئہ کے اصولوں سے واضح ہے کہ ان کا موقف ایک ہی اصل پر قائم ہے۔
    چنانچہ وعیدیہ کے نزدیک اگر کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کر لے تو وہ دین سے خارج ہو جاتا ہے، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ:ایمان:اعتقاد، قول، اور عمل سے مرکب ہے۔
    بنا بریں اگر ان میں سے ایک بھی شیء نہ پائی جائے تو ایمان باقی نہیں رہے گا۔
    جبکہ مرجئہ کے نزدیک کوئی شخص کسی بھی نوعیت کی معصیت کا ارتکاب کر لے اس کے باوجود وہ دین میں قائم رہتا ہے ، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ:ایمان:اعتقاد اور قول سے مرکب ہے، عمل ایمان کے مسمی میں داخل نہیں ہے۔
    اس اعتبار سے کسی بھی گناہ کے ارتکاب کے باوجود ایمان باقی رہتا ہے۔
    صحیح اور حق یہ ہے کہ کسی مرتکب کبیرہ کو نہ کافر کہا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اسے کامل مومن کہا جا سکتا ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’لا یقتضی خروجہ عن جمیع أجزاء الإیمان کما یقوله الخوارج والمعتزلة، ولا یقتضی نفیَ التطوعات…کما یقوله المرجئة و الجہمیة‘‘
    ’’(محض ارتکاب کبائر)نہ تو اس (مرتکب کبیرہ)کے ایمان کے تمام اجزاء سے نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، جیسے خوراج و معتزلہ (وعیدیہ)کہتے ہیں، اور نہ ہی نیک کاموں کی نفی کا تقاضا کرتا ہے (یعنی عمل ایمان کے لئے مؤثر نہیں ہے) جیسے مرجئہ و جہمیہ کہتے ہیں‘‘[جواب الاعتراضات المصریۃ:۱۴۴]
    بلکہ ایسے شخص کو ناقص الإیمان یا فسق کہا جائے گا:
    ’’ویقولون:ہو مؤمن ناقص الإیمان، أو مؤمن بإیمانه، فاسق بکبیرته، فلا یعطی الاسم المطلق، ولا یسلب مطلق الاسم‘‘[العقیدۃ الواسطیۃ]
    ’’اور وہ (مرتکب کبیرہ کے بارے میں)کہتے ہیں:وہ مومن ناقص الإیمان ہے، یا اپنے ایمان کی وجہ سے مومن اور کبیرہ (گناہ)کی وجہ سے فاسق ہے، لہٰذا نہ تو اسے اسم مطلق (کامل مومن کا نام)دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اس سے مطلق اسم (ناقص الایمان کا نام)چھینا جا سکتا ہے‘‘[ضمن متون طالب العلم؍۳،ص:۱۵۶]
    خلاصہ یہ ہے کہ’’أسماء و احکام‘‘کے باب میں اہل السنہ والجماعہ کا منہج چند بنیادی اصولوں پر قائم ہے:
    ۱۔ مرتکب کبیرہ اپنے ایمان کے اعتبار سے مومن ہے، جبکہ اپنے معاصی و کبائر کے اعتبار سے فاسق ہے۔ دیکھیں:[مجموع الفتاوی:۷؍۲۴۱، ۵۲۵، والعقیدۃ الواسطیۃ (ضمن متون طالب العلم؍۳)ص:۱۵۶]
    ۲۔ مرتکب کبیرہ کو مطلق معاصی و کبائر کی وجہ سے کافر نہیں کہا جا سکتا ہے۔دیکھیں:[مجموع الفتاوی:۳؍۱۵۱، والعقیدۃ الواسطیۃ (ضمن متون طالب العلم؍۳)، ص:۱۵۴]
    ۳۔ اہل قبلہ میں سے ایک گروہ ضرور جہنم میں داخل ہوگا، پھر وہاں سے نکال کر انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔دیکھیں: [مجموع الفتاوی :۷؍۵۰۱، ۱۱؍۱۸۴]
    ۴۔ ہر وہ شخص جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اسے جہنم سے نکالا جائے گا ۔دیکھیں:[مجموع الفتاوی :۱۲؍۴۷۹]
    اہل السنہ والجماعہ کے مذکورہ اصول و ضوابط سے واضح ہے کہ وہ دیگر ابواب کی طرح ’’أسماء و احکام‘‘کے باب میں بھی وسطیت پر قائم ہیں۔
    جاری ہے……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings