-
جاتے جاتے بہت کچھ لے جاتے ہیں، دے جاتے ہیں شیخ صفی احمد سلفی مدنی(اکتوبر ۱۹۵۴ء۔ ۲۵؍جنوری ۲۰۲۱ء )بھی چل بسے ۔ امت کے گلے کے ہار کا ایک اور منکا ٹوٹ گیا ۔
’’اللّٰهم أجرنا فى مصيبتنا و أخلف لنا خيرا منه ‘‘
آپ کی زندگی کی صبح و شام حرکت و عمل سے معمور عوامی زندگی جینے والے ایک معتبرعالم دین کی سوانح حیات سے عبارت تھی ۔
وہ شخصیات بڑی عظیم ہوتی ہیں جن کی کتابِ حیات کے ہر ورق پر سیکھنے والوں کے لیے ایک نیا سبق ملتا ہو ۔
تاریخ دراصل ایسی ہی نابغہء روزگار شخصیات سے بنتی ہے اور ایسے ہی لوگوں کو تاریخ ساز شخصیات کہا جاتا ہے ۔
شیخ صفی احمد صاحب کی زندگی سے ملنے والے چند اسباق آپ قارئین کی نذر ہیں:
۱۔ آپ نے مسجد محبوبیہ چنچل گوڈہ حیدرآباد میں پینتیس (۳۵)سال تک بلامعاوضہ امامت و خطابت کی خدمت انجام دی ہے ساتھ ہی مختلف کتابوں کے مفصل اور مسلسل دروس بھی دیئے ہیں۔ یہ دونوں پہلو بڑے اہم اور مثالی ہیں ایک تو یہ کہ ایک ہی مسجد کو اپنی خدمات کا مرکز بنایا اور دوسرا یہ کہ اپنے دیگر ذرائع آمدنی پر اکتفاء کرتے ہوئے مسجد کی خدمات کے عوض کچھ نہ لیا ۔
۲۔ آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع رہا، جمعیت اہل حدیث کی صوبائی سطح پر مختلف میعادوں میں مختلف و متعدد اور متنوع ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا اور نبھانا، خطباتِ جمعہ،افتاء ، مدارس میں تدریس،ہفتہ واری و یومیہ دروس، ترجمہ کے باب سے تصنیف و تالیف کے میدان میں خدمات،مدرسہ کی تاسیس، مجلہ کا اجراء ، قومی و ملی پلیٹ فارم پر فعال کردار اور ساتھ ہی جماعتی نمائندگی، پولیس محکمہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے منحرف افکار کے حامل بعض نوجوانوں سے مناقشہ،ان کو سمجھانا اور ان پر فکری گمراہی کو آشکاراکرنا، قادیانیت کے فتنہ کے شکار بعض افراد کو سمجھانا اور ان سے توبہ کرانے میں کامیابی حاصل کرلے جانا۔ اور ان سب سے بڑھ کر حیدرآباد جیسے تہذیبی مرکز میں علمی و منہجی مسائل میں ایک مرجع کی حیثیت سے زندگی گزارنا۔
شاید اسی کو بھرپور زندگی جینا کہتے ہیں ۔
۳۔ آپ جوانی کے مراحل ہی میں شوگر جیسے موذی مرض کے شکار ہوگئے تھے ۔ یہ مرض انسان کو رفتہ رفتہ کھوکھلا اور اس کے قویٰ کو مضمحل کردیتا ہے تاہم صفی احمد صاحب اس بیماری کو اپنا عذر سمجھ کر کبھی بیٹھے نہیں رہ گئے۔ آپ نے اسی حالت میں حیاتِ بے ثبات کی چھیاسٹھ بہاریں دیکھیں مگر آخری ایام بلکہ آخری دن تک مصروف عمل رہے ، آخری دنوں میں آپ کی بیماری کے شدت اختیار کرجانے کی خبریں بھی تسلسل سے آرہی تھیں،بالآخر ۲۵؍جنوری ۲۰۲۱ء کی صبح انتقال ہوگیا ،تاہم ۲۴؍جنوری کی شام بھی آپ نے مسجد محبوبیہ میں ایک اجلاس کی صدارت کی،اور اس سے عین ایک دن قبل ۲۳؍جنوری کو بھی حیدرآباد کے علماء کے ایک خصوصی پروگرام میں شریک رہے۔
زندگی کی اس سچائی کو احسن طریقے سے اجاگر کیا کہ:
چلتے ہی رہو چلنا انساں کا مقدر ہے
ٹھہروگے تو پاؤں میں زنجیر جنم لے گی
۴۔ مصلحت کوشوں کی بھیڑ اور مفاد پرستی کے جنگل میں آپ ایک حق شناس و حق گو انسان تھے، سلفیت کے حوالے سے ہو کہ کسی علمی مسئلہ کے حوالے سے ، نڈر اور بے باک رویہ آپ کی خاص پہچان تھا جو ایک طرف آپ کی خود اعتمادی کا ثبوت تھا تو دوسری طرف اپنی کہی بات یا پیغام کے برحق ہونے کے یقین کو ظاہر کرتا تھا۔ اس حوالہ سے آپ ’’ولایخافون لومۃ لائم‘‘کی عملی تفسیر و تصویر تھے ۔
۵۔ شیخ صفی احمد سلفی مدنی صاحب ایک جلیل القدر عالم دین تھے،با صلاحیت لوگوں کی ایک عادت -یا کمزوری کہہ لیں-یہ بھی ہوتی ہے کہ بہت جلد کوئی ان کی نظر میں جچتا نہیں ہے اور وہ حرفِ اعتراف زبان پر نہیں لاتے ۔ اور اکثر اسی وجہ سے دنیا انہیں متکبر انسان بھی سمجھ بیٹھتی ہے تاہم جب حقیقی معنوں میں ان کے سامنے کوئی قدآور آتا ہے تو وہ اس کا اعتراف کرنے میں جھجکتے بھی نہیں ہیں ۔
شیخ صفی کے یہ دونوں رنگ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، اچھے اچھوں کو خاطر میں نہ لاتے بھی دیکھا ہے وہیں ایک قدرشناس جوہری کی طرح صلاحیتوں کی قدردانی کرتے ہوئے بھی ۔
۶۔ ایک خاص وصف اور خوبی یہ دیکھی کہ جمعیت کے عہدوں سے فارغ ہوجانے کے بعد بھی آپ کی سرگرمیاں جاری رہیں، عام طور پر عہدوں سے ہٹنے کے بعد لوگ یا تو خود کو سبکدوش سمجھ لیتے ہیں یا احساس برتری میں اپنی ساری توانائی اپنے بعد والوں کی نا اہلی ثابت کرنے میں لگادیتے ہیں، شیخ صفی نے ان دونوں باتوں سے حتی المقدور دامن بچاکر اپنا رخ صحیح سمت پر رکھا، مثبت طرز فکر کے ساتھ ساری زندگی ملی خدمات اور جماعتی نمائندگی میں صرف کردی ۔
طبیعت میں سادگی، تکلفات سے اجتناب، دل کی بات کو بیساختہ زبان پر لے آنا،تقریر اور خطبہ صدارت میں بہرصورت اپنی بات رکھنا اور موضوع کو نبھانا، ایسی کئی صفات ہیں جو گاہے بگاہے ملتے ہوئے بھی نظر میں آجاتی تھیں ، نزدیکی جانکار اور شاگرد حضرات دیگر پہلوؤں پر بہتر طریقہ سے روشنی ڈال سکتے ہیں، جمعیت اہل حدیث حیدرآباد و سکندرآباد کو اس کا بیڑہ اٹھانا چاہیے ۔
قارئین یاد رکھیں ! جانے والوں کے حق میں دعائے خیر کے ساتھ ان کی زندگی کے مثبت پہلوؤں سے روشنی حاصل کرنا ان کے حق میں صدقہ ٔجاریہ بھی ہے اور بہترین خراج عقیدت بھی ۔
ربِ کریم مغفرت فرمائے، بشری تقاضے سے سرزد ہونے والی کمزوری، کمی اور کوتاہی سے درگزر فرمائے، جنت الفردوس نصیب فرمائے ۔ آمین
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں