Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق قسط نمبر :۴

    اہل بیت کون ہیں ؟
    غدیر خم کے خطبے میں جو بار بار اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا تاکیدی حکم فرمایا ، اس بارے میں پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اہل بیت سے کون مرادہیں۔
    اہل بیت سے مراد گھر والے ہیں ، چنانچہ علامہ راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اھل الرجل‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یا مکان میں شریک ہوں ، یا ایک شہر میں رہتے ہوں ۔ اصل میں ’’اھل الرجل‘‘ تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ اس کے مسکن میں رہتے ہوں، پھر مجاز اً آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر ’’اھل بیت الرجل ‘‘کا لفظ بولا جانے لگا ہے ۔ اور عرف میں آنحضرت ﷺ کے خاندان پر بولا جانے لگا کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
    {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ}
    ’’اے پیغمبر کے اہل بیت ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کردے‘‘[الاحزاب:۳۳]
    اور کبھی ’’اھل الرجل‘‘ سے مراد بیوی ہوتی ہے ۔’’اھل الاسلام‘‘ کے معنیٰ مسلمان قوم کے ہیں ۔ شریعت نے اکثر احکام میں کافر اور مسلمان کے مابین چونکہ نسبی تعلق کو کالعدم قراردیا ہے ، اس لئے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کے متعلق فرمایا :
    {إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِح}
    ’’یہ تیرے خاندان سے نہیں ہے ، اس کے اعمال غیر صالح ہیں‘‘[ھود:۴۶](مفردات القرآن)
    علامہ محمد یعقوب فیروز آبادی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں ’’اھل‘‘ کا اطلاق دس معنوں میں ہوا ہے ۔ اس کی تفصیل یہاں ضروری نہیں ۔شائقین’’ بصائر ذوی التمییز ‘‘(۲؍۸۴) ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں انہوں نے ایک معنیٰ یہ کیے ہیں کہ ’’اہل‘‘ عترہ، عشیرہ ،اولاد واحفاء اور ازواج کے معنی میں مستعمل ہے ۔جیسے فرمایا:
    {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا}
    ’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ‘‘[طٰہ:۱۳۲]
    اور فرمایا : {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ}
    ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کردے اے گھر والو!‘‘[الاحزاب:۳۳](بصائر ذوی التمیز)
    یہی بات دیگر ائمۂ لغت نے کہی ہے ۔
    جیسے ہم کہتے ہیں :’’اہل مکہ ‘‘ مکہ میں بسنے والے ، ’’اہل مدینہ‘‘ مدینہ طیبہ میں رہنے والے اور ’’اھل القریٰ‘‘ بستی میں رہنے والے ۔ اسی طرح ’’اہل البیت ‘‘ گھر میں رہنے والے ۔ظاہر ہے کہ گھر میں بیوی، بیٹے بیٹیاں ،پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہوتی ہیں اور ان سب پر ’’اہل بیت‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ۔
    قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ذکر ہے کہ جب وہ مدین سے پلٹے تو ان کے ہمراہ ان کے گھر والے تھے ۔ ارشاد باری ہے :
    {فَلَمَّا قَضَي مُوسَي الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ }
    ’’پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کردی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے ‘‘[القصص:۲۹]
    ایک اور مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
    {إِذْ قَالَ مُوسَي لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا}
    ’’جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا: بلاشبہ میںنے ایک آگ دیکھی ہے‘‘[النمل:۷]
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب فرشتے آئے اور انہوں نے بیٹے حضرت اسحاق اور پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی تو اہلیہ حضرت سارہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ کیا جب میرا خاوند بوڑھا ہوگیا ہے اور میں بھی بوڑھی ہوگئی ہوں تو کیا میں بیٹاجنوں گی؟ تو فرشتوں نے کہا:
    {قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ }
    ’’کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو! بے شک وہ بے حد تعریف کیا گیا ،بڑی شان والا ہے‘‘[ھود:۷۳]
    جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ’’اہل بیت‘‘ کا اطلاق بیوی پر ہوتا ہے ۔ اسی مفہوم کے لئے مزید دیکھیے سورۃ القصص،آیت :۱۲،سورہ یوسف:آیت ۲۵
    اب یہ کتنا بڑاالمیہ ہے کہ ان آیات میں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی بیویاں تو اہل بیت ہوں ، مگر آنحضرت ﷺ کی بیویاں اہل بیت میں شامل نہ ہوں! حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر عبد اللہ بن اُبی نے تہمت لگائی ،اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عرشِ عظیم سے ان کی پاک دامنی کا اعلان سورۃ النور میں قرآن بنا کر نازل فرمایا ۔ آنحضرت ﷺ کو قرآن مجید میں اظہار براء ت سے قبل سخت صدمہ پہنچا ، حتیٰ کہ آپ نے بر سر منبر ارشاد فرمایا :
    ’’يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي أذَاهُ فِي أهْلِ بَيْتِيْ‘‘
    ’’اے مسلمانوں کی جماعت! کون میری حمایت کرتا ہے ، یا کون میری مدد کرتا ہے ایسے شخص کے مقابلے میں جس کی ایذارسانی میرے گھر والوں تک پہنچ چکی ہے‘‘[صحیح بخاری:رقم:۴۷۵۰]
    اس حدیث میں بھی’’اھل بیتی‘‘ سے بلااختلاف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں ۔
    اسی طرح صحیح بخاری ہی میں ہے کہ جب حضرت زینت بنت جحش رضی اللہ عنہا سے آنحضرت ﷺ نے نکاح کیا ، دعوت ولیمہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آجا رہے تھے ۔ کھانا کھانے کے بعد صحابہ کرام جا چکے تو بقیہ کھانا اٹھالینے کا آپ ﷺ نے حکم فرمایا ، مگر تین اصحاب گھر میں جا بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لے گئے اور فرمایا:
    ’’السلام عليكم أهل البيت ورحمة اللّٰه ‘‘
    تو اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہا :
    ’’وعليك السلام ورحمة اللّٰه ،كيف وجدت أهلك؟ بارك اللّٰه لك ‘‘
    ’’آپ نے اپنی بیوی کو کیسا پایا ؟ (یعنی پسند آئی یا نہیں ؟ ) اللہ آپ کو برکت دے‘‘۔
    اس کے بعد باقی تمام ازواج کے گھروں میں تشریف لے گئے اور سب کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح سلام کیا اور سب نے وہی جوا ب دیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا ۔ [صحیح بخاری:کتاب التفسیر:باب:لا تدخلوابیوت النبی ﷺ:رقم:۴۷۹۳]
    اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کو آنحضرت ﷺ ’’اہل بیت‘‘ سمجھتے اور کہتے ہیں ۔ اب آنحضرت ﷺ کی امت کو بھی انہیں اہل بیت سمجھنا چاہئے یا نہیں ؟ فاعتبروایا اولی الابصار!
    سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۲۸ میں فرمایا :
    {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ}
    ’’اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے ‘‘
    پھر آیت نمبر ۳۰ میں فرمایا: {یَانِسَاء َ النَّبِیِّ} ’’اے نبی کی بیویو!‘‘
    یہی الفاظ آیت نمبر ۳۲ میں ہیں اور تمام خطابات میں الفاظ صیغہ مونث استعمال ہوئے ہیں ۔ آیت نمبر ۳۳ میں ازواج مطہرات ہی کو مخاطب کرتے ہوئے نماز پڑھنے ،زکوٰۃ دینے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دے کر فرمایا ہے :
    {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}
    ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کردے اے گھر والو! اور تمہیں پاک کردے خوب پاک کرنا‘‘ [الاحزاب: ۳۳]
    اس کے بعد آیت نمبر ۳۴ میں پھر ازواج مطہرات ﷺ ہی کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے :
    {وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَي فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ}
    ’’اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انہیں یاد کرو‘‘[الاحزاب:۳۴]
    یہ سارا سیاق و سباق اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ اہل بیت سے یہاں رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن مراد ہیں اور آنحضرت ﷺ کی دعا سے اس میں حضرت فاطمہ ، حضرت علی ،حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم بھی شامل ہوگئے ۔
    مگر روافض ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو اس آیت تطہیر کا مصداق تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کا شبہ یہ ہے کہ{ لِیُذْہِبَ عَنْکُم} میں ضمیر مذکر استعمال ہوئی ہے ، اس لیے اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بیویاں مراد نہیں ہیں ۔
    قرآن پاک میں تحریف کا اظہار:
    حتیٰ کہ حکیم حافظ سید فرمان علی رافضی نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :
    ’’بعض اہل سنت کا خیال ہے کہ اس میں ازواج بھی شامل ہیں اور مدح و ثنا اور اہل بیت میں شامل ہیں۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اگر ازواج مقصود ہوتے تو جس طرح ماقبل و مابعد کی آیت میں ضمیر جمع مونث حاضر تھی ،اس میں بھی باقی رہتی، بلکہ اگر اس آیت کو درمیان سے نکال لو اور ماقبل و مابعد کو ملا کر پڑھو تو کوئی خرابی نہیں ہوتی، بلکہ اور ربط بڑھ جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اس مقام کی نہیں ، بلکہ خواہ مخواہ کسی خاص غرض سے داخل کی گئی ہے ‘‘۔(حاشیہ سید فرمان علی :ص،۶۷۳، مطبوعہ :محمد علی چاولہ اینڈ کمپنی لمیٹیڈ کراچی)
    انا للہ وانا الیہ راجعون! کیا یہ قرآن مجید میں تحریف اور تبدیلی کا اقرارو اعتراف نہیں ؟ امر واقع یہ ہے کہ سوائے چند ایک روافض کے ، باقی سب قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں ، جیسا کہ شہید ملت علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہ اللہ نے ’’الشیعہ والقرآن‘‘ میں تفصیل سے ذکر کیا ۔ اور جو تحریف کا انکار کرتے ہیں وہ بھی تقیتاً انکار ہے ۔ سید فرمان علی کے الفاظ اقرار تحریف کا بیّن ثبوت ہے۔
    یہ موضوع وسیع الذیل ہے ، مگر ہمارا یہ موضوع نہیں ، اس لیے اس سے ہم صرف ِ نظر کرتے ہیں ۔ آیت کی مناسبت سے ہم نے یہ قول ذکر کیا ہے ۔ تنہا سید فرمان علی نہیں بلکہ شیعہ اہل علم کی ایک جماعت نے یہی موقف اختیار کیا ، چنانچہ ’’محقق آیت اللہ ‘‘ العظمی شیرازی کے زیر نظر جو تفسیر مرتب دی گئی جس کا ترجمہ سید صفدر حسین نجفی نے کیا اور ’’تفسیر نمونہ‘‘کے عنوان سے مصباح القرآن ٹرسٹ (لاہور) سے شائع ہوا اس میں بھی منقول ہے:
    ’’ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ…} کا جملہ ان آیات کے ساتھ نازل ہوا ہے ، بلکہ روایات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ حصہ علیحدہ نازل ہوا ہے ، لیکن پیغمبر اکرم ﷺ کے دور میں آیات قرآن کی جمع آوری کے موقع پر ،یا اس کے بعد ان آیات کے ساتھ قراردیا گیا ‘‘۔(تفسیر نمونہ: ۹؍ ۶۳۶)
    اس سے متعلقہ متعدد باتیں قابل بحث ہیں ، مگر ہمارا یہ موضوع نہیں ۔ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان حضرات نے{لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ} میں ضمیر مذکر کی وجہ سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کو اس آیت سے نکال دیا ۔ بلکہ اس آیت کا یہاں ذکر ہونے پر قرآن مجید میں تحریف و تبدیلی کا اظہار بھی کیا ۔ حالانکہ اگر یہ حضرات قرآن مجید ہی پر غور فرمالیتے تو شاید تحریف کے اظہار کی جسارت نہ کرتے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ کو جب بیٹے حضرت اسحاق اور پوتے حضرت یعقوب علیہما السلام کی بشارت دی گئی اور انہوں نے بڑھاپے میں اولاد ہونے پر تعجب کا اظہارکیا تو فرشتوں نے ان سے کہا :
    {أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ}
    ’’کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو!‘‘[ھود:۷۳]
    یہ آیت نصف النہار کی طرح روشن دلیل ہے کہ بیوی اہل بیت ہوتی ہے ، جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں اور عورت کو یا اہل بیت کو ’’کم‘‘ کی مذکر ضمیر کے ساتھ مخاطب کیا جا سکتا ہے ، جیسے آیت تطہیر میں ’’عنکم ‘‘ مذکر کی ضمیر ہے ،بعینہٖ سورہ ہود میں ’’علیکم‘‘ بھی ضمیر ہے اس لیے اہل بیت یعنی خواتین کے لیے مذکر کی ضمیر استعمال ہوتی ہے ، لہٰذا محض اس ضمیر کی وجہ سے تحریف تک کا دعویٰ بالکل باطل اور مذہبی خواہش پرستی کا نتیجہ ہے ۔
    آیت تطہیر کی شان نزول:
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے حسن سند کے ساتھ مروی ہے کہ :
    ’’نزلت فى نساء النبى ﷺ خاصة‘‘
    ’’یہ آیت خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے‘‘۔[ابن کثیر :۳؍۶۳۸، الاستیعاب فی بیان الاسباب:۳؍۱۰۴]
    عکرمہ بھی یہی فرماتے تھے، بلکہ بازار میں اس کا اعلان و اظہار کرتے تھے۔(ابن کثیر)
    اس کے برعکس حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے جو یہ مروی ہے کہ یہ آیت پانچ حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ، میرے بارے میں ،یعنی آنحضرت ﷺ کے بارے میں اور علی ،حسن ،حسین اور فاطمہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں [ابن جریر بحوالہ ابن کثیر:۳؍۶۴۱] تویہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ عطیہ بن سعید عوفی :
    ’’صدوق يخطئ كثيراً ، كان شيعيا مدلسا‘‘[تقریب:ص:۲۴۰]
    ’’صدوق اور بكثرت خطا كرتا تها ،شيعه اور مدلس تها‘‘۔
    اور طبقات المدلسین (ص:۵۰) میں ہے :
    ’’ضعیف الحفظ ،مشھور بالتدلیس ‘‘[القبیح]
    ’’اس کا حافظہ کمزور ہے ۔ بڑی بری تدلیس میں مشہور ہے ‘‘۔
    وہ روایت بیان کرتا ہوا ’’عن ابی سعید‘‘ کہتا اور خاموش ہوجاتا۔ یوں وہ وہم دلاتا کہ وہ ابوسعید الخدری ہیں ، حالانکہ وہ ابوسعید الکلی ہوتا۔ [تہذیب :۷؍۲۲۶]
    اور یہ روایت بھی معنعن ہے ، اس لیے یہ روایت بالکل ضعیف ہے ۔ اس کے تشیع کا یہ عالم تھا کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل کہتا تھا۔ (ایضاً)
    علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے تو اس کے ایک اور راوی بکر بن یحییٰ کو ضعیف کہاہے ۔[مجمع :۹؍۱۶۷]
    اس لیے صحیح یہی ہے کہ اس آیت کا مصداق ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں اور متعدد احادیث کی بنا پر حضرت فاطمہ ، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم بھی اس کا مصداق ہیں ، چنانچہ عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ جن کی پرورش آنحضرت ﷺ نے کی تھی ، فرماتے ہیں کہ یہ آیت نبی کریم ﷺ پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ( یعنی ان کی والدہ ) کے گھر میں نازل ہوئی تو آنحضرت نے حضرت فاطمہ ، حضرت حسن ، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور انہیں ایک چادر کے اندر کرلیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی پیٹھ کے پیچھے تھے تو انہیںچادر کے اندر کر لیا ، پھر فرمایا :
    ’’اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا۔قَالَتْ أُمُّ سَلَمَة:وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللّٰهِ، قَال:أَنْتِ عَلَي مَكَانِكِ وَأَنْتِ عَلَي خَيْرٍ‘‘
    ’’اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے گندگی دور کردے اور انہیں پاک کردے خوب پاک کرنا‘‘حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’‘‘تو اپنی جگہ پرہے اور تو خیر کی طرف ہے ‘‘[ترمذی:رقم:۳۷۸۷،۳۲۰۵،صحیح]
    اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ آیت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر نازل ہوئی اور حضرت علی وغیرہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں دعا سے پہلے نازل ہوئی ۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے دعا کرکے حضرت علی وغیرہ رضی اللہ عنہم کو اہل بیت میں شامل کیا۔ اگر آپ ﷺ کا یہ مقصد تھا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں تو کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اس کا علم نہیں تھا کہ یہ میرے نبی ﷺ کے اہل بیت ہیں ؟ (معاذ اللہ )
    نیز آنحضرت ﷺ کا دعا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیت تطہیر بطور خبر نہیں تھی ۔ اگر خبر ہوتی تو اس پر آنحضرت ﷺ کو حمد و ثنا کرنی چاہیے تھی کہ اہل بیت کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے ۔ مجرد دعا پر اکتفا نہ فرماتے۔مزید ملاحظہ فرمائیں : [منہاج السنہ :۲؍۱۱۷]
    دراصل آنحضرت ﷺ نے دعا کرکے انہیں بھی اہل بیت میں شامل کرنے ، ان سے گندگی دور کرنے اور انہیں پاک صاف کرنے کی دعا فرمائی ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اس دعا میں شریک کرنے کی التماس کی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا :تم تو پہلے ہی اس مقام و مرتبے اور خبر پر ہو۔ بھلا جس کے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی ، وہ اس کے مصداق سے خارج کیسے ہو سکتی ہے !
    اسی مفہوم کی روایت صحیح مسلم (رقم:۲۴۲۴)میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ترمذی(رقم:۳۸۷۱) ،مسند احمد (۶؍۲۹۲،۲۹۶،۲۹۸) ،مسند اسحاق (رقم:۱۸۷۴)وغیرہ کتب میں سند حسن و صحیح سے مروی ہے ۔ ان کے علاوہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے ۔ ہمارامقصد سب روایات کا استیعاب نہیں، بلکہ بتلانا یہ مقصود ہے کہ اس آیت کا مصداق ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں اور آنحضرت ﷺ کی دعا سے حضرت فاطمہ ،حضرت علی وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں ۔
    البتہ وہ روایات جن میں ذکر ہے کہ چھ ماہ تک ایک روایت میں سات ماہ تک اور ایک روایت میں ہے کہ چالیس روز تک آنحضرت ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے دروازے پر تشریف لے جاتے اور فرماتے : ’’السلام علیکم اھل البیت ‘‘ ! پھر یہ آیت تطہیر تلاوت فرماتے ۔ تو یہ سب روایات ضعیف ہیں ۔[مجمع الزوائد:۹؍ ۱۶۸۱ ،۱۶۹]
    اسی مفہوم کی ایک روایت ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، مگر وہ بھی ضعیف ہے۔
    جاری ہے ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings