-
عمل کرنے کے باوجود خسارہ اور نقصان محترم قارئین! اللہ نے قرآن میں فرمایا:
{قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالأخْسَرِينَ أَعْمَالا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا}
’’کہہ دیجیے کہ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں‘‘ [الکھف: ۱۰۴۔۱۰۳]
دنیا میں ہم انسانوں کی زندگی کا مقصد نیک عمل کرنا ہے، لیکن آپ ان دونوں آیتوں میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو عمل تو کرتے ہیں اور وہ عمل بھی اچھا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی قیامت کے دن وہ خسارہ پانے والوں میں ہوں گے اور ان کی تمام تر کوششوں کو بے کار قرار دے دیا جائے گا، سوال یہ ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہوں گے؟ ذیل کے سطور میں ہم اسی بات کا تفصیلی تذکرہ کر رہے ہیں۔
در حقیقت عمل کے اعتبار سے خسارہ اٹھانے والے تین طرح کے لوگ ہوں گے:
۱۔ جن کے عمل کی بنیاد ایمان اور عقیدۂ توحید پر نہ ہو بلکہ وہ شرک اور کفر کرنے والے ہوں۔
اس لیے کہ کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کی سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ وہ عمل کرنے والا بندہ صاحب ایمان ہو، اگر کسی کے اندر شرک جیسی خرابی موجود ہے اور وہ اسی حالت میں انتقال کر جاتا ہے تو اسلام کی تعلیمات کے مطابق اس کی ساری نیکیاں برباد ہو جائیں گی، اور اس پر نصوص و دلائل کی کثرت ہے لیکن بطور مثال صحیح مسلم کی حدیث دیکھتے چلیں جس کا مفہوم یہ ہے :اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ زمانہء جاہلیت میں عبد اللہ بن جدعان نامی شخص بہت صلہ رحمی کرتا تھا، مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا اس کی یہ نیکیاں اس کے لیے فائدہ مند ہوں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیتے ہوئے کہا:نہیں، اس لیے کہ اس نے کسی دن بھی اپنے کفر و شرک سے توبہ کا اعلان نہیں کیا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا۔[صحیح مسلم:۲۱۴]
۲۔ دوسرے وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس ایمان تو ہے لیکن ان کے عمل کی بنیاد اخلاص پر نہیں ہے۔
اس لیے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ جس عمل میں اخلاص نہ ہو بلکہ ریاکاری اور دکھاوا شامل ہو جائے تو ایسا عمل برباد کر دیا جاتا ہے، اس پر بھی بہت سی دلیلیں موجود ہیں۔بطورِ مثال صحیح مسلم کی وہ مشہور حدیث اپنے دماغ میں رکھیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے شہید، عالم اور مالدار کو لایا جائے گا، اللہ ان سے باری باری پوچھے گا کہ تم کیا کر کے آئے ہو؟ ان میں سے ہر ایک اپنا کارنامہ، کمال اور دنیا کی بھرپور کوششیں بتائے گا، تو اللہ ان تینوں سے کہے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے یہ سب کیا لیکن صرف اس لیے تاکہ لوگ تمہیں بہادر، عالم اور سخی و فیاض کہیں (یعنی تمہارے عمل میں اخلاص نہیں تھا بلکہ صرف لوگوں کی توجہ اور واہ واہی کے لیے تم نے ایسا اور ایسا کیا)پس دنیا میں تمہیں تمہاری کوششوں کا بدلہ مل گیا، پھر اللہ کے حکم سے ان کو چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔[صحیح مسلم: ۱۹۰۵]
۳۔ جن کے پاس ایمان تو ہے لیکن اتباع رسول نہیں، بلکہ ان کے عمل کی بنیاد بدعتوں پر ہے کہ جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
ایمان کے ساتھ عمل اسی وقت مقبول ہو سکتا ہے جب اس میں اخلاص ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع بھی شامل ہو، لیکن اگر کوئی صاحب ایمان دین میں کسی ایسی چیز کو شامل کر دیتا ہے جو دین کا حصہ ہی نہیں اور نہ ہی سلف کے منہج سے وہ میل کھاتا ہے تو ایسی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان میں اسے’’بدعت‘‘کہتے ہیں اور ایسا عمل خواہ کتنے ہی خلوص کے ساتھ کیوں نہ انجام دیا جائے اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ملنے والا ہے، اس لیے کہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے کر جانے والی ہے، بطور نمونہ صحیح بخاری کی یہ حدیث دیکھیں:قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم حوض کوثر پر موجود اپنے امتیوں کو سیراب کر رہے ہوں گے کہ اسی اثناء میں کچھ ایسے لوگ حوض کوثر کی طرف بڑھیں گے جنہیں نبی کریم ﷺ پہچان رہے ہوں گے کہ اچانک فرشتے ان کے راستے میں حائل ہو جائیں گے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کہیں گے کہ انہیں آنے دو، یہ میری امت ہی کے لوگ ہیں، تو فرشتے جواب دیں گے:آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے آپ کے دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہیں گے:’’سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَيَّرَ بَعْدِي‘‘ ’’کہ ایسے لوگوں کے لیے دوری ہو جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو تبدیل کر کے رکھ دیا‘‘[صحیح البخاری:۶۵۸۴]
محترم قارئین! آپ اندازہ کریں کہ ایک انسان عمل بھی کرے، بھاگ دوڑ کرے، پیسے لگائے، وقت کی قربانی دے، اپنا تن من دھن سب لگا کر اس گمان بلکہ یقین میں رہے کہ میری ان کوششوں کا مجھے بہترین بدلہ قیامت کے دن ضرور ملے گا، لیکن میدان محشر میں اس کی تمام تر کوششوں کو بیکار کہہ دیا جائے تو اس کی حالت کیا ہوگی؟ لہذا ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہیں کہ کہیں ہماری زندگی میں شرک و کفر، ریاکاری اور بدعت والے اعمال تو شامل نہیں ہیں اور اپنے آپ کو ان چیزوں سے دور رکھ کر خالص کتاب و سنت کو اپنا کر گناہوں سے بچتے ہوئے نیکیوں کے کام کرتے رہنا چاہیے تاکہ آخرت میں ہمیں پچھتاوا کے بجائے ہماری کوششوں کا بہترین بدلہ ہمیں مل جائے۔