Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • بوقت افطار دعا کی خصوصی فضیلت سے متعلق ایک حدیث کی تحقیق

    امام ابن ماجہ رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۳)نے کہا:
    حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَال:حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالََ:حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُبَيْدِ اللّٰهِ الْمَدَنِيُّ، قَالَ:سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ:سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ:سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ إِذَا أَفْطَرَ:’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْئٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي‘‘
    عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی‘‘۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے:
    ’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْئٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي‘‘
    ’’اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے ‘‘[سنن ابن ماجہ :رقم :۱۷۵۳، المستدرک للحاکم ، ط الہند :۱؍۴۲۲،و ضعفہ الألبانی فی الإرواء :۴؍۴۱،رقم :۹۲۱وحسنہ البعض]
    اس سند میں اسحاق بن عبداللہ المدنی کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے۔اس کی وجہ اسحاق کے والد عبداللہ کے نام کے ضبط کا اختلاف ہے، بعض نے اسے عبیداللہ بالتصغیربتایا ہے، جبکہ بعض نے عبداللہ بالتکبیر بتلایا ہے۔اسحاق کی یہ روایت دو طریق سے مروی ہے ۔
    دونوں طرق کی تفصیل ملاحظہ ہو:
    پہلا طریق: اسد بن موسیٰ:
    اسدبن موسیٰ کی ثابت روایت میں بغیر کسی اختلاف کے اسحاق بن عبداللہ ہے ۔[الترغیب لابن شاہین: ص: ۵۲، رقم:۱۴۰،وإسنادہ حسن إلی اسد]
    دوسرا طریق: ولید بن مسلم:
    ولیدبن مسلم سے ان کے دوشاگردوں نے یہ روایت بیان کی ہے ،ایک الحکم بن موسیٰ اور دوسرے ہشام بن عمار ۔
    حکم بن موسیٰ کی روایت:
    حکم سے تین راویوں (۱۔ محمدبن علی بن زید ، ۲۔ حامدبن محمد، ۳۔ابویعلیٰ )نے اسے بیان کیا ہے اورتینوں نے بالاتفاق اسحاق بن عبداللہ ہی بیان کیا ہے ۔
    محمدبن علی بن زید کی روایت کے لئے دیکھئے:[المستدرک للحاکم، ط الہند :۱؍۲۲وسندہ صحیح إلی الحکم]
    حامدبن محمد کی روایت کے لئے دیکھئے:[ذیل تاریخ بغداد لابن الدبیثی:۱؍۳۳۴،وسندہ حسن إلی حامد]
    ابویعلی کی روایت ابن السنی نے عمل الیوم والیلۃ میں نقل کی ہے اور اس کے بعض نسخوں میں اسحاق بن عبداللہ ہی ہے ،جیساکہ محققین نے صراحت کی ہے بلکہ شیخ عبدالقادر عطاء نے اپنے نسخہ میں ایسے ہی ضبط کیا ہے۔ دیکھئے:[عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، ت البرنی: ص:۲۸۹حاشیہ]
    اوریہی درست ہے جیساکہ دیگر رواۃ کی متابعت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
    مذکورہ رواۃ کے برخلاف حکم بن موسیٰ کے کسی بھی شاگرد کی روایت ثابت نہیں ، مثلاً معجم ابن عساکر(۱؍۳۰۷) میں محمدالحضرمی کی روایت سنداً ضعیف ہے نیز محقق کی شہادت کے مطابق مخطوطہ میں متعلقہ نام پر تضبیب کی علامت ہے جو غلطی کی طرف اشار ہ کرتی ہے۔
    ہشام بن عمار کی روایت:
    ہشام سے ان کے شاگرد عبید بن عبدالواحد کی روایت ثابت ہے ، اس میں بغیر کسی اختلاف کے اسحاق بن عبداللہ ہی ہے ۔[شعب الإیمان،ت زغلول ،رقم:۳۹۰۴وسندہ صحیح إلی عبید]
    یادرہے کہ شعب الإیمان کے دوسرے محقق دکتور عبدالعلی نے جو تصغیر کے ساتھ ضبط کیا ہے یہ قطعی طورپر غلط ہے ، کیونکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کے بعد پوری صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا ہے :
    ’’وشيخاي لم يثبتاه، فقال:إسحاق بن عبد اللّٰه‘‘
    یعنی میرے دونوں شیخ (یحییٰ بن ابراہیم اور امام حاکم ) نے اپنی سندمیں ایسا (یعنی عبیداللہ ) نہیں بیان کیا ہے بلکہ اسحاق بن عبداللہ ہی بیان کیا ہے ۔[شعب الیمان ت،عبدالعلی:۵؍۴۰۸]
    ہشام سے ان کے جس دوسرے شاگرد کی روایت ثابت ہے وہ امام ابن ماجہ ہیں ،اورسنن ابن ماجہ کے بعض نسخوں میں بھی اسحاق بن عبداللہ المدنی ہے۔ دیکھئے: [سنن ابن ماجۃ ، النسخۃ التیموریۃ ، ق:۱؍۱۹۷ب ، نیز سنن ابن ماجہ، مطبوعہ دارالتاصیل ، ص:۲۴۲،حاشیہ نمبر:۳،زوائد ابن ماجہ للبوصیری ، ت محمدمختار حسین :ص:۲۵۴،رقم:۵۹۴، تفسیر ابن کثیر ،ت محمد حسین شمس الدین:۱؍۳۷۵،لسان المیزان لابن حجر، ت ابی غدۃ:۲؍۶۳]
    ظاہر ہے کہ ابن ماجہ کی روایت میں بھی صحیح نام اسحاق بن عبداللہ ہی ہے کیونکہ اس پر عبیدبن عبدالواحد کی متابعت بھی موجود ہے۔
    ہشام کے ان دونوں شاگردوں کے برخلاف ایک تیسرے شاگرد محمد بن ابی زرعۃ الدمشقی نے اسحاق بن عبیداللہ تصغیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔[الدعاء للطبرانی، ت محمد سعید،رقم:۹۱۹]
    عرض ہے کہ، ان کی توثیق موجود نہیں ہے تاہم اگریہ ثقہ بھی ہوتے تو بھی ہشام کے دوشاگردوں کی متفقہ روایت کے مقابلے میں ان کے بیان کی کوئی حیثیت نہ ہوتی ۔
    پتہ چلا ھشام بن عمار کی روایت بھی الحکم بن موسیٰ کی روایت کے موافق ہے یعنی ان دونوں کے استاذ ولید بن مسلم نے اسحاق بن عبداللہ ہی بیان کیا ہے ۔
    فائدہ:
    ولیدبن مسلم کے ایک اور شاگرد ہشام بن خالد کی روایت میں بھی اسحاق بن عبداللہ ہی ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھیں:[نوادر الاصول للحکیم الترمذی، ت توفیق:۲؍۱۵۸]
    بہرحال اس تفصیل سے واضح ہے کہ ولید بن مسلم نے اپنے استاذ کانام اسحاق بن عبداللہ ہی بیان کیا ہے ۔اور اس بیان پر اسد بن موسیٰ کی متابعت بھی موجود ہے جیساکہ شروع میں گزرچکا ، یعنی اسدبن موسیٰ اورولید بن مسلم دونوں نے اپنے استاذ کانام اسحاق بن عبداللہ ہی بتایاہے۔
    اسحاق بن عبداللہ کی تعیین:
    اس تفصیل سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس سند میں اسحاق بن عبداللہ ہی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے کون مراد ہے تو اما م حاکم ،امام ذہبی اورعلامہ البانی رحمہم اللہ نے یہ احتمال ذکرکیا ہے کہ اس سے مراد إسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروۃ، الاموی ،المدنی ہوسکتاہے ۔[المستدرک للحاکم، ط الہند:۱؍۴۲۲،ومعہ تعلیق الذہبی، إرواء الغلیل للالبانی:۴؍۴۳]
    عرض ہے کہ یہی با ت متعین ہے ، اس کے متعدد دلائل ہیں ، مثلاً :
    اس کی ایک زبردست دلیل یہ ہے کہ اس کے شاگرد ولید بن مسلم نے ایک روایت میں اس کا پورا نا م’’إسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروۃ‘‘بتادیا ہے۔ملاحظہ ہو:
    أبو عبد اللہ محمد بن سعید ابن الدبیثی (المتوفی۶۳۷) نے کہا:
    قرأت على أبي محمد عبد العزيز بن أبي نصر البزاز من كتابه، قلت له:أخبركم أبو عبد اللّٰه محمد بن رمضان بن عبد اللّٰه الجندي، فأقر به، قال:أخبرنا أبو عبد اللّٰه محمد بن عبد الباقي الدوري، قال:أخبرنا أبو محمد الحسن ابن على الجوهري، قال:حدثنا الحسن بن عمر بن حبيش، قال:حدثنا حامد ابن محمد، قال:حدثنا الحكم بن موسي، قال:حدثنا الوليد بن مسلم، قال:حدثني إسحاق بن عبد اللّٰه بن أبي فروة،قال:سمعت عبد اللّٰه بن أبي مليكة قال:سمعت عبد اللّٰه بن عمرو بن العاص يقول:سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يقول(:(إن للصائم عند إفطاره لدعوةً ما ترد)
    قال ابن أبي مليكة:فسمعت عبد الله بن عمرو يقول إذا أفطر:(اللهم إني أسألك رحمتك التى وسعت كل شيء أن تغفر لي) [ذیل تاریخ بغداد لابن الدبیثی:۱؍۳۳۴،وإسنادہ حسن إلی الولید ، ابن حبیش ھو الحسین بن عمر بن عمران بن حبیش ، ذکرہ الخطیب فی تلامیذ حامد بن محمد، انظر:تاریخ بغداد، مطبعۃ السعادۃ:۸؍۱۶۹]
    ولید بن مسلم کے اساتذہ میں بھی اس کا تذکرہ ہے دیکھئے:[تہذیب الکمال للمزی:۲؍۴۴۶]
    نیز اسحاق کے ایک دوسرے شاگرد اسد بن موسیٰ نے اس کا پورا نام إسحاق بن عبد اللہ الاموی، من اہل المدینۃ بتایا ہے ، ملاحظہ ہو:
    امام ابن شاہین رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    حدثنا أحمد بن بهزاد بن مهران السيرافي، بمصر، ثنا الربيع بن سليمان، ثنا أسد، ثنا إسحاق بن عبد اللّٰه الأموي، من أهل المدينة، حدثني ابن أبي مليكة، عن عبد اللّٰه بن عمرو بن العاص، قال:قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’إن للصائم عند فطره دعوة لا ترد ۔قال: وكان عبد اللّٰه يقول إذا أفطر:برحمتك التى وسعت كل شيء اغفر لي‘‘[الترغیب فی فضائل الأعمال لابن شاہین :ص:۵۲،رقم:۱۴۰وإسنادہ حسن الی اسد]
    اوراس طبقہ میں اموی اور مدنی یہی راوی ہے ۔ دیکھئے:[تہذیب الکمال للمزی:۲؍۴۶]
    جب یہ واضح ہوگیا کہ یہ راوی إسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروۃ، الاموی ،المدنی ہے ،تو معلوم ہونا چاہئے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم، ت المعلمی:۲؍۲۲۸،وإسنادہ صحیح ] اورکئی محدثین نے اسے متروک کہا ہے۔ مثلاً دیکھئے:[تقریب التہذیب لابن حجر :رقم:۳۶۸]لہٰذا یہ روایت سخت ضعیف ہے ۔
    کچھ وضاحتیں:
    امام بخاری ، امام ابوحاتم الرازی ،امام ابوزرعہ رازی اورابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے اس اسحاق کو اسحاق بن عبد اللہ بن ابی ملیکۃ بتلایا ہے۔[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم، ت المعلمی:۲؍۲۸۸]
    امام ابن حبان نے بھی اسحاق بن عبد اللہ المدنی لکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن حبان کا بھی یہی موقف ہے( الثقات لابن حبان ط ، العثمانیۃ(۶؍۴۸) مطبوعہ نسخہ میں تصغیر کے ساتھ ذکرکرنا غلط ہے کیونکہ مخطوطہ میں ایسا نہیں ہے)
    اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اسحاق کے والد کا نام عبداللہ تکبیر کے ساتھ ہی ہے۔ البتہ ان ائمہ نے اس کا تعین ابن ابی فروہ کے بجائے ابن ابی ملیکہ سے کیا ہے۔اگر یہ بات مان لی جائے تو بھی یہ روایت ضعیف ہی رہے گی کیونکہ ابن ابی ملیکہ نامعلوم التوثیق ہے ابن حبان نے اسے ثقات میں صرف ذکرکیا ہے ۔
    ابن عساکررحمہ اللہ نے اس اسحاق کو اسحاق بن عبید اللہ بن ابی المہاجر بتایا ہے ،اورانہیں کی پیروی میں ابن حجر اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے بھی اسے ابن ابی المہاجر مانا ہے ، لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ زیربحث روایت میں اسحاق کوکئی رواۃ نے مدنی بتایا ہے جبکہ ابن ابی المہاجر شامی راوی ہے۔ بہرحال یہ راوی بھی نا معلوم التوثیق ہے، لہٰذا اسے ماننے کی صورت میں بھی روایت ضعیف ہی رہے گی ۔ یادرہے کہ اس کو ابن حبان نے بھی ثقات میں ذکر نہیں کیاہے، کیونکہ یہ شامی اور تصغیر کے ساتھ ہے اورابن حبان نے جسے ثقات میں ذکر کیا ہے وہ مدنی اور تکبیر کے ساتھ ہے۔دکتور بشار نے بجاطور پرلکھا:
    ’’أما قول ابن حجر فى ترجمة ابن أَبي المهاجر:’’ذكره ابنُ حِبَّان فى الثقات فليس بجيدلان ابن حبان لم يذكر غير إسحاق بن عُبَيد اللّٰه المدني وهو لا يقوم دليلا على أنه ابن أَبي المهاجر‘‘
    ابن ابی المہاجر کے ترجمہ میں ابن حجر نے یہ کہا کہ:’’اسے ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے تو یہ درست نہیں ہے ،کیونکہ ابن حبان نے صرف ’’اسحاق بن عبیداللہ المدنی ‘‘کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اس میں اس بات کی ہرگز دلیل نہیں کہ اس سے مراد ابن بی المہاجر ہے‘‘[تہذیب الکمال للمزی:۲؍۴۵۸]
    امام بوصیری رحمہ اللہ سے عجیب وہم ہوا ہے انہوں نے اسحاق کو اسحاق بن عبد اللہ بن الحارث بن کنانۃ القرشی العامری سمجھ لیا ، اورپھر اس سے متعلق توثیقات ذکر کردیں۔[زوائد ابن ماجہ للبوصیری ،ت محمدمختار حسین :ص:۲۵۴،رقم :۵۹۴]
    حالانکہ یہ راوی اس طبقہ کا ہے ہی نہیں ،اوراسے مان لینے کی صورت میں سند ہی منقطع ہوجائے گی ۔
    اوراس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بعض نے اسحاق کو نہ ابن ابی فروہ تسلیم کیا نہ ابن ابی ملیکۃ مانا ، اور نہ ہی ابن ابی المہاجر سمجھا ، بلکہ اسحاق بن عبیداللہ المدنی نام کی ایک فرضی شخصیت تصور کرکے امام بوصیری کی ذکر کردہ وہ توثیقات اس کے کھاتے میں ڈال دیں ، جو کہ ایک دوسرے راوی سے متعلق تھیں، سبحان اللہ !
    بہرحال ہماری نظر میں راجح وہی بات ہے جس کا احتمال اما م حاکم ، امام ذہبی اورعلامہ البانی رحمہم اللہ نے ذکرکیا ہے اور دلائل کی روشنی میں یہ بات یقین تک پہنچ چکی ہے ، یعنی اس سند میں ابن ابی فروہ ہے جو کذاب ومتروک ہے ، لہٰذا بعض کا اسے حسن کہنا درست نہیں ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہنے والے بعض معاصرین کے بارے میں لکھا:
    ’’حسنه الجهلة‘‘
    ’’جاہلوں نے اسے حسن کہا ہے‘‘[ضعیف الترغیب والترہیب:۱؍۲۹۲]
    حدیث مذکور کا ایک اور ضعیف طریق:
    یہی حدیث ایک الگ طریق أبو محمد الملیکی، عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ سے مروی ہے ۔دیکھئے:[مسند أبی داود الطیالسی :۴؍۲۰،رقم:۲۳۷۶، شعب الإیمان :۵؍۴۰۸،رقم:۳۶۲۴]
    لیکن اس میں موجود أبو محمَّد الملیکی کا کوئی سراغ نہیں ملتا لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے ، اور سنن ابن ماجہ وغیرہ والی سند چونکہ سخت ضعیف ہے ، اس لئے یہ دونوں مل کر بھی تقویت نہیں پاسکتیں ۔
    خلاصہ بحث یہ کہ مذکورہ روایت سخت ضعیف ہے۔

    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings