Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تین طلاق اور حدیث رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ

    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶) نے کہا:
    حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَي، عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ، قَال:حَدَّثَنِي القَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ:’’ أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا، فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ:لَا، حَتَّي يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الأَوَّلُ‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :’’کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس کی بیوی نے کسی اور شخص سے شادی کرلیا۔ دوسرے شوہر نے بھی اسے طلاق دے دی۔ نبی ﷺ سے سوال کیا گیا:کیا پہلے شوہر کے لیے اب یہ عورت حلال ہے؟ آپ نے فرمایا:نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا ‘‘
    [صحیح البخاری :۷؍۴۳،رقم :۵۲۶۱]
    عرض ہے کہ:
    اس حدیث میں صحابی رسول رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ سے متعلق ہی تذکرہ ہے کیونکہ اسی سند یعنی یحییٰ، عن عبید اللّٰہ، عن القاسم بن محمد، عن عائشۃ ہی کے طریق سے ابویعلی نے روایت کیا ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ طلاق دینے والے اس صحابی نے طلاق البتہ یعنی تیسری بار طلاق دی تھی اوراسی کو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے تین طلاق سے تعبیر کیا ہے ۔چنانچہ:
    امام أبو یعلی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۷) نے کہا:
    حدثنا عبد اللّٰه بن عمر بن أبان، حدثنا يحيي بن زكريا بن أبي زائدة، عن عبيد اللّٰه، عن القاسم بن محمد، عن عائشة قالت:’’سئل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن رجل طلق امرأته البتة- يعني ثلاثا-فتزوجت رجلا فطلقها قبل أن يدخل بها، أترجع إلى الأول؟ فقال:لا۔حتي يذوق من عسيلتها ما ذاق صاحبه‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :’’کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال ہوا جس نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ یعنی تین طلاق دے تھی اور اس کی بیوی نے دوسرے شوہر سے شادی کی اوراس نے دخول سے پہلے طلاق دے دی ، تو کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کی طرف واپس جاسکتی ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا‘‘
    [مسند أبی یعلی الموصلی: ۸؍۳۷۳، رقم: ۴۹۶۴،وإسنادہ صحیح]
    اب رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ کے واقعہ والی حدیث دیکھئے جو اماں عائشہ رضی للہ عنہا ہی سے مروی ہے اس میں بھی یہی وارد ہے کہ انہوں نے طلاق البتہ دی کما سیاتی ،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث میں بھی انہی کا واقعہ مذکور ہے ، اور رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ والے واقعہ میں یہ صراحت آگئی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو الگ الگ وقت میں تین طلاق دی تھی ، پہلے دو طلاق دے کررجوع کرچکے تھے اور پھر تیسری بار طلاق دی تھی جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں ہے ۔چنانچہ:
    امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی۲۵۶) نے کہا:
    حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَي، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا:أَنَّ رِفَاعَةَ القُرَظِيَّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَبَتَّ طَلاَقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ، فَجَاء َتِ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ:’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللّٰهِ مَا مَعَهُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ إِلَّا مِثْلُ هَذِهِ الهُدْبَةِ، لِهُدْبَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ جِلْبَابِهَا، قَالَ:وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنُ سَعِيدِ بْنِ العَاصِ جَالِسٌ بِبَابِ الحُجْرَةِ لِيُؤْذَنَ لَهُ، فَطَفِقَ خَالِدٌ يُنَادِي أَبَا بَكْرٍ:يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلاَ تَزْجُرُ هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا يَزِيدُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَي التَّبَسُّمِ، ثُمَّ قَالَ:لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَي رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّي تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ طلاق فیصلہ کن تھی۔ طلاق کے بعد اس عورت سے عبدالرحمن بن زبیررضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا۔ وہ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:اللہ کے رسول!میں حضرت رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق بھی دے دی، پھر مجھ سے عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا لیکن اللہ کی قسم !ان کے پاس تو اس پھندنے کی طرح ہے۔ اس نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر بتایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن عاص کے بیٹے حجرے کے صحن میں بیٹھے تھے تاکہ انہیں اندر آنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آواز دی:ایابو بکر!اس عورت کو روکتے نہیں ہوکہ رسول اللہ ﷺکے سامنے کس طرح بے باک ہوکر باتیں کررہی ہے؟ لیکن رسول اللہﷺیہ باتیں سن کر تبسم کے علاوہ کچھ نہ کرتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا:غالباً تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جاناچاہتی ہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تو اس (دوسرے شوہر) کامزہ نہ چکھ لے اور وہ تیرا مزہ نہ چکھ لے‘‘
    [صحیح البخاری :۸؍۲۲رقم :۶۰۸۴]
    اس حدیث میں یہ صراحت آگئی کہ’’ فطلقها آخر ثلاث تطليقات‘‘ (انہوں نے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق بھی دے دی)۔جس سے واضح ہوگیا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث میں بھی جو تین طلاق کا ذکر ہے وہ الگ الگ وقت میں دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے طریقہ طلاق پر نہیں ٹوکا، اس پوری حقیقت کے سامنے آنے کے بعد اس حدیث سے بیک وقت تین طلاق کے وقوع پر استدلال درست نہیں ہے۔
    کیا حدیث عائشہ میں زوجۂ رفاعہ کے علاوہ کسی دوسرے واقعہ کا ذکر ہوسکتاہے؟
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) فرماتے ہیں:
    ’’ويحتمل أن يكون من أبهم فى حديث عائشة هذا غير هذه القصة فقد روي النسائي من طريق عائشة أيضا أن عمرو بن حزم طلق الرميصاء فنكحها رجل فطلقها قبل أن يمسها ‘‘
    ’’یہ بھی احتمال ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں جس کا نام مبہم ہے وہ رفاعہ القرظی کے علاوہ کوئی دوسرا ہو ، کیونکہ نسائی نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ عمروبن حزم نے رمیصاء کو طلاق دیا تو دوسرے شخص نے ان سے شادی کرلی ، پھر دوسرے شخص نے دخول سے پہلے طلاق دے دیا‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۱؍۳۲۴]
    نسائی کی طرف اس روایت کو منسوب کرنے میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ کو وہم ہوا کیونکہ یہ نسائی نہیں بلکہ طبرانی وغیرہ کی روایت ہے ، اور نسائی کی روایت اماں عائشہ رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ عبیداللہ بن عباس سے ہے۔لیکن دوسرے مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ نسبت درست کرلی ہے ۔چنانچہ فرمایا:
    وكذا وقع فى رواية حماد بن سلمة عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة أن عمرو بن حزم طلق الغميصاء فنكحها رجل فطلقها قبل أن يمسها فسألت النبى ﷺ فقال لا حتي يذوق الآخر عسيلتها وتذوق عسيلته وأخرجه الطبراني ورواته ثقات فإن كان حماد بن سلمة حفظه فهو حديث آخر لعائشة فى قصة أخري غير قصة امرأة رفاعة وله شاهد من حديث عبيد اللّٰه بالتصغير بن عباس عند النسائي فى ذكره الغميصاء لكن سياقه يشبه سياق قصة رفاعة ‘‘
    ’’اسی طرح کا واقعہ حمادبن سلمہ عن ہشام بن عروہ عن ابیہ عن عائشہ کے طریق سے مروی روایت میں ہے کہ عمروبن حزم نے غمیصاء کو طلاق دے دی تو ان سے دوسرے شخص نے شادی کرلی اوراس نے بھی دخول سے پہلے طلاق دے دیا تو اس عورت نے نبی ﷺ سے سوال کیا تو نبی ﷺنے فرمایا:نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو اوریہ عورت اس سے لطف اندوز ہو، اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال ثقہ ہیں ، اگر حمادبن سلمہ کے حافظہ نے غلطی نہیں کی ہے تو یہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ہے جس میں زوجہ ٔرفاعہ کے علاوہ دوسری عورت کا ذکر ہے، اور اس کا ایک شاہد بھی ہے جو عبیداللہ بن عباس سے مروی ہے اسے نسائی نے غمیصاء کا تذکرہ کرتے ہوئے روایت کیا ہے ، لیکن اس کا سیاق رفاعہ والے واقعہ کی طرح ہی ہے‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۴۶۹]
    عرض ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ کی طرف منسوب حمادبن سلمہ والی یہ روایت صحیح نہیں ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی آخر میں اس کے حافظہ پر سوال اٹھاکر اشارہ کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمادبن سلمہ نے ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ کے طریق سے اسے بیان کیا ہے اور اسی طریق سے ہشام بن عروہ کے دوسرے تمام شاگرد جب اس واقعہ کو روایت کرتے ہیں تو بالاتفاق رفاعہ القرظی ہی کا واقعہ ذکر کرتے ہیں ،مثلاً:
    أبومعاویہ عن ہشام بن عروۃ [صحیح البخاری: رقم:۵۲۶۵]
    یحییٰ بن سعیدعن ہشام بن عروۃ [صحیح البخاری: رقم:۵۳۱۷]
    علی بن مسہر عن ہشام بن عروۃ [سنن الدارمی :رقم:۲۳۱۴،وإسنادہ صحیح]
    محاضر بن المورع عن ہشام بن عروۃ [مستخرج أبی عوانۃ :رقم:۴۳۲۵وإسنادہ صحیح]
    عبد العزیز بن محمد عن ہشام بن عروۃ [مستخرج أبی عوانۃ :رقم:۴۳۲۷وإسنادہ صحیح]
    زائدۃ بن قدامۃ عن ہشام بن عروۃ [مستخرج أبی عوانۃ: رقم:۴۳۲۸وإسنادہ صحیح]
    بلکہ امام زہری رحمہ اللہ نے عروہ سے براہ راست اسے روایت کیاہے اور انہوں نے بھی زوجہ رفاعہ ہی کا واقعہ ذکر کیا ہے ، [صحیح البخاری:۸؍۲۲رقم:۶۰۸۴]
    ملاحظہ فرمائیں !
    یہ تمام رواۃ بالاتفاق ایک ہی طریق سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں رفاعہ القرظی کا واقعہ بیان کررہے ہیں ، ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے صرف اور صرف حماد بن سلمہ نے اس طریق سے دوسرے واقعہ کو بیان کردیا ۔
    دراصل یہ دوسرا واقعہ اماں عائشہ رضی للہ عنہا نے نہیں بلکہ عبیداللہ بن عباس نے بیان کررکھا ہے جیساکہ نسائی ومسند احمد وغیرہ کی روایت ہے، اس میں ایک جملے میں طلاق ثلاث کا ذکر نہیں ہے اسے ہشیم نے اپنی سند سے روایت کیا ہے ، چنانچہ:
    امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱) نے کہا:
    حدثنا هشيم ، أخبرنا يحيي بن أبي إسحاق ، عن سليمان بن يسار ، عن عبيد اللّٰه بن العباس ، قال :’’جاء ت الغميصاء- أو الرميصاء- إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ، تشكو زوجها ، وتزعم أنه لا يصل إليها ، فما كان إلا يسيرا۔حتي جاء زوجها ، فزعم أنها كاذبة ، ولكنها تريد أن ترجع إلى زوجها الأول۔فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:ليس لك ذٰلك حتي يذوق عسيلتك رجل غيره ‘‘
    عبیداللہ بن عباس سے مروی ہے :’’کہ غیمصاء یا رمیصاء اللہ کے رسول ﷺ کے پاس اپنے شوہر کی شکایت لیکر آئی اور دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر ان کے ساتھ کچھ نہیں کرپاتے ہیں ، پھر تھوڑی ہی دیر میں ان کے شوہر بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے کہا:یہ جھوٹی ہے ، اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے پہلے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے ، تو اللہ کے رسول ﷺنے کہا:یہ ممکن نہیں ہے جب تک کہ دوسرا شخص تم سے لطف اندوز نہ ہوجائے‘‘
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ: ۱؍۲۱۴، وانظر : سنن النسائی:۶؍۱۴۸]
    ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ہشیم کی بیان کردہ عبیداللہ بن العباس سے مروی حدیث ہے ، لیکن حماد بن سلمہ نے غلطی سے ہشام کی سند سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اسے روایت کردیا ، ان کی اسی طرح کی بعض غلطیوں کو دیکھ کر بعض ائمہ نے ان کے حافظ پر جرح کی ہے ۔چنانچہ:
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸) نے کہا:
    ’’هو ثقة صدوق يغلط ‘‘، ’’یہ ثقہ وصدوق ہیں اور غلطی کرتے ہیں‘‘[الکاشف للذہبی ت عوامۃ:۱؍۳۴۹]
    بلکہ بعض نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ آخری عمر میں سوئے حفظ کے شکار ہوگئے تھے لیکن علی الاطلاق ایسا کہنا درست نہیں ہے البتہ ان سے کبھی کبھی غلطی کرنا ثابت ہے۔
    بہرحال حماد بن سلمہ کی روایت ایک بڑی جماعت کی روایت کے خلاف ہونے کے سبب ضعیف ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی کہا ہے کہ:
    ’’والمحفوظ ما اتفق عليه الجماعة عن هشام ‘‘،’’ محفوظ روایت وہی ہے جسے ہشام سے روایت کرنے میں ایک جماعت نے اتفاق کیا ہے‘‘
    [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۴۶۵]
    خلاصہ یہ کہ اماں عائشہ رضی للہ عنہ سے زوجۂ رفاعہ کے علاوہ کوئی دوسرا واقعہ بیان کرنا ثابت نہیں ہے۔
    احناف اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کو الگ حدیث بتاکر السنن الکبریٰ للبیہقی سے بھی نقل کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:
    امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی۴۵۸) نے کہا:
    أخبرنا أبو عبد اللّٰه الحافظ أخبرني أبو الوليد الفقيه أخبرنا الحسن بن سفيان حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا ابن فضيل عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة رضي اللّٰه عنها أنها سئلت عن الرجل يتزوج المرأة فيطلقها ثلاثا فقالت:’’ قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا تحل للأول حتي يذوق الآخر عسيلتها وتذوق عسيلته ‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی عورت سے شادی کرکے اسے تین طلاق دے دے تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:’’اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:یہ عورت پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک دوسرا بھی اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے اور یہ عورت بھی اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے‘‘
    [السنن الکبریٰ للبیہقی، ط الہند:۷؍۳۷۴]
    عرض ہے کہ اس میں بھی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو حدیث ذکر کی ہے وہ رفاعہ القرظی والے واقعہ سے متعلق ہی ہے۔ چنانچہ اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے أبو بکر بن أبی شیبۃ حدثنا ابن فضیل عن ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ کی سند سے روایت کیا ہے اور عین اسی سند سے اسے أبو نعیم الأصبہانی (المتوفی۴۳۰) نے اس طرح روایت کیا ہے :
    ثنا عبد اللّٰه بن يحيي الطلحي ثنا عبيد بن غنام ثنا أبو بكر بن أبي شيبة ثنا ابن فضيل وثنا أبو محمد بن حيان ثنا أبو يحيي الرازي ثنا هناد بن السري ثنا أبو معاوية قالا عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قالت:’’جاء ت امرأة إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت يا رسول اللّٰه إن زوجي طلقني وتزوجت زوجا غيره فدخل بي ولم يكن معه إلا مثل الهدبة فلم يقربني إلا هبة واحدة فلم يصل مني إلى شيء أفأحل لزوجي الأول فقال لا تحلين لزوجك الأول حتي تذوقي الآخر عسيلتك وتذوقين عسيلته ‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :’’کہ ایک عورت اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئی اور کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے شوہر نے مجھ کو طلاق دے دی ہے اور میں نے ان کے بعد دوسرے شوہر سے شادی کی تو انہوں نے میرے ساتھ دخول کیا لیکن ان کے پاس کپڑے کے پھندنے جیسا تھا تو انہیں نے میرے ساتھ ایک بار کوشش کی مگر کچھ نہیں کرسکے ، تو کیا اب میں پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگئی ؟ تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:تم اپنے پہلے شوہر کے لئے تب تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرا بھی تم سے لطف اندوز نہ ہوجائے اور تم بھی اس کے ساتھ لطف اندوزنہ ہوجاؤ ‘‘
    [المسند المستخرج علٰی صحیح مسلم لأبی نعیم:۴؍۱۴۶]
    ملاحظہ فرمائیں یہ پورا واقعہ رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ والا ہی ہے ۔بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ ہی کی سند سے اسے روایت کیا ہے اوراس میں رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہ کا نام بھی ہے ۔
    دیکھئے :[صحیح بخاری :رقم:۵۳۱۷]
    لہٰذا اس ایک حدیث کو الگ الگ حدیث دکھا کر الگ الگ دلیل کے طور پر پیش کرنا غلط ہے ۔
    أنور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (المتوفی۱۳۵۳) فرماتے ہیں:
    ’’واعلم أن الحديث لم يجمع إلا قطعة قطعة، فتكون قطعة منه عند واحد، وقطعة أخري عند واحد، فليجمع طرفة، وليعمل بالقدر المشترك، ولا يجعل كل قطعة منه حديثا مستقلا‘‘
    ’’جان لیجئے کہ حدیث الگ الگ ٹکڑے کے ساتھ جمع کی گئی ہے ، تو اس کا ایک ٹکڑا کسی ایک محدث کے پاس ہوتا ہے ، اور دوسرا ٹکڑا کسی دوسرے محدث کے پاس ہوتا ہے ، تو ان تمام طرق کو جمع کرنا چاہئے ، اور سب میں جب مشترک بات ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور ہر الگ الگ ٹکڑے کو مستقل حدیث نہیں قرار دیناچاہئے‘‘
    [فیض الباری علٰی صحیح البخاری:۴؍۲۴۳]
    مولانا احمد رضاخان بریلوی لکھتے ہیں:
    صدہا مثالیں اس کی پائیے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور سے روایت کرتے ہیں ، کوئی پوری، کوئی ایک ٹکڑا ، کوئی دوسرا ، کوئی کس طرح ، کوئی کس طرح ، جمع طرق سے پوری بات کا پتہ چلتا ہے۔
    (فتاویٰ رضویہ : ۵؍ ۳۰۱)
    لہٰذا دیوبندی اور بریلوی حضرات کو چاہئے کہ ایک حدیث کے تمام طرق کو جمع کرکے ہی کوئی نتیجہ نکالیں۔
    الغرض اس ضمن میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی تمام روایات میں رفاعہ القرظی ہی کا واقعہ ہے ، کسی میں اجمال ہے تو کسی میں تفصیل ہے، لیکن احناف اپنی کتابوں میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مجمل حدیث کو الگ پیش کرتے ہیں ، اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی جس روایت میں رفاعہ القرظی کا ذکر ہے اس روایت کے صرف وہی الفاظ پیش کرتے ہیں جس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے ،اس طرح یہ لوگ ایک ہی واقعہ کو الگ الگ دلیل بناکر پیش کرتے ہیں ، حالانکہ یہ سب ایک ہی واقعہ ہے اور اس سلسلے کی ایک روایت میں یہ صراحت آگئی ہے کہ اس واقعہ میں ایک ساتھ تین طلاق نہیں دی گئی۔
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اور ضعیف حدیث
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵) نے کہا:
    نا أحمد بن على بن العلاء،نا أبو عبيدة بن أبي السفر،نا أبو أسامة ،عن زائدة بن قدامة ،عن على بن زيد ،عن أم محمد ،عن عائشة ،قالت:قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا لم تحل له حتي تنكح زوجا غيره، ويذوق كل واحد منهما عسيلة صاحبه ‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’جب آدمی اپنی عورت کو تین طلاق دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اس کے علاوہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے اور پھر دونوں میں سے ہر ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوجائے‘‘
    [سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۵۹]
    یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے۔ چنانچہ:
    امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱) نے کہا:
    حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، قال:أخبرنا على بن زيد ، عن أم محمد ، عن عائشة ، أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال:’’ فى رجل طلق امرأته ثلاثا ، ثم تزوجها آخر ، ثم طلقها من قبل أن يمسها ، قال:لا ينكحها الأول حتي تذوق من عسيلته ، ويذوق من عسيلته ‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا :’’اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے پھر اس کی بیوی سے دوسرا شخص شادی کرلے پھر وہ بھی دخول سے پہلے طلاق دے تو پہلا اس سے شادی نہیں کرسکتا کہ جب تک کہ یہ عورت دوسرے سے لطف اندوز نہ ہوجائے اور دوسرا بھی اس سے لطف اندوز ہوجائے ‘‘
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۶؍۹۶]
    اس روایت کے آخری الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی روایت ہے جس پر اوپر بات ہوچکی ہے لیکن یہاں ضعیف رواۃ نے اسے الگ ہی شکل دے دی ہے۔
    یہ روایت سخت ضعیف ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں:
    پہلی علت:
    اسی روایت کو حماد بن سلمہ کے طریق سے ابوداؤد الطیالسی نے اس طرح روایت کیا ہے:
    حدثنا حماد بن سلمة، عن على بن زيد، عن عمته، عن عائشة، أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال:’’لا تحل له حتي تذوق من عسيلته ‘‘
    اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’یہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی یہاں تک اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے ‘‘
    [مسند أبی داؤد الطیالسی :۳؍۱۴۰]
    اس میں ام محمد کی جگہ عمتہ ہے۔یہ عورت نامعلوم ہے اور یہ ام محمد نہیں ہے، کیونکہ یہ علی بن زید کی پھوپھی ہے جبکہ ام محمد ان کے والد کی بیوی ہے کماسیاتی۔
    دوسری علت:
    أم محمد اس کانام أمیۃ یا أمینۃ ہے یہ علی بن زید کے والد کی بیوی ہے امام ذہبی نے اسے مجہول خواتین میں گنا یا ہے۔
    [میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۴؍۶۰۴]
    تیسری علت:
    علی بن زید یہ علی بن زید بن جدعان ہے یہ سخت ضعیف ومتروک ہے۔
    محمد بن طاہر ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی۵۰۷) فرماتے ہیں:
    ’’علي بن زيد هذا متروك الحديث ‘‘، ’’علی بن زید یہ متروک الحدیث ہے‘‘
    [تذکرۃ الحفاظ لابن القیسرانی: ص:۱۴۸]
    اسی طرح امام جوزجانی ، امام احمد اور امام ابن معین رحمہم اللہ نے بھی اس پر سخت جرح کی ان کے علاوہ بھی کئی ائمہ نے اس پر جرح کی تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب:(یزید بن معاویہ :ص:۳۸۶)

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings