-
عصر حاضر کے ائمہ و مدرسین اجیر ہیں، متبرع نہیں کسی بھی مسئلہ میں فقہی حکم لگانے کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کی درست فقہی تکییف و توصیف کی جائے ، اسی کو قدیم علماء کہتے تھے:
’’ الحكم على الشيء فرع عن تصوره ‘‘
’’کسی چیز پر حکم لگانا اس چیز کے تصور کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘
آج جب ائمہ و مدرسین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے توبہت سارے لوگ وہ نصوص پیش کرنے بیٹھ جاتے ہیں جن میں مفت میں دینی کام کرنے کی ترغیب ہے ، یا ان اسلاف کے واقعات پیش کرنے لگ جاتے ہیں جنہوں نے مفت میں دینی خدمات انجام دیئے ہیں ۔
حالانکہ ان نصوص اور واقعات کا تعلق ان اشخاص سے ہے جو از خود مفت میں دینی خدمات انجام دینا چاہیں اور اس کی استطاعت ورغبت رکھتے ہوں ۔ ایسی صورت میں ان کی حیثیت متبرع کی ہوتی ہے ۔
لیکن موجودہ دور میں ازراہ تبرع کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج زندگی گزارنے کی مطلوبہ ضروریات بڑھ گئی ہیں ، مثلاً گھر کا کرایہ ،لائٹ بل ،پانی بل، بچوں کی فیس ،ٹریولنگ اور سب سے بڑا مسئلہ آج علاج و معالجہ کا ہوتا ہے۔ اس لیے آج ائمہ ومدرسین تبرعاً کام نہیں کرتے اور ذمہ دران بھی ان کی تقرری اجرت پر ہی کرتے ہیں ۔
ایسی صورت میں ان کی حیثیت متبرع کی نہیں بلکہ اجیر کی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے حقوق پر بات ہوگی تو وہ نصوص دیکھے جائیں گے جن میں اجیر کے احکام بتلائے گئے ہیں ۔
یہ بہت بڑی بھول ہے کہ ایک شخص کو بطور اجیر مقرر کر لیا جائے اور جب اس کا حق دینا ہو تو اسے زبردستی متبرع بنا کر پیش کیا جائے ۔
ائمہ ومدرسین کے حقوق پر بات کرنے سے پہلے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ مساجد ومدارس میں تقرری کے بعد ان کی فقہی تکییف اجیر کی بنتی ہے، متبرع کی نہیں ۔