-
دلوں کے بگاڑ کے اسباب انسانی جسم اور زندگی میں دل کی بڑی اہمیت ہے، انسان کے اچھے یا برے ہونے کا انحصار دل کی اچھائی یا خرابی پر ہی ہوتا ہے، اسی لیے پیارے رسول ﷺ نے ایک حدیث کے اندر فرمایا:
«’’ أَلَا وَإِنَّ فِى الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِىَ الْقَلْبُ ‘‘
» ’’کہ سنو! انسانی جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے، جب وہ ٹھیک ہوتا ہے تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے لیکن جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا انسانی جسم بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے، اور سنو!وہ ٹکڑا دل ہے‘‘
[صحیح بخاری:۵۲]
اور دل کی اہمیت مزید حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے واضح ہوتی ہے جب انہوں نے مختلف دعائیں مانگتے ہوئے اللہ سے یہ دعا بھی کی:
’’وَلَا تُخْزِنِى يَوْمَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَال وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى للّٰهَ بِقَلْب سَلِيم‘‘
’’اور تو مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا کہ جس دن مال و اولاد فائدہ نہیں دے گی سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم لے کر آئے‘‘
[الشعراء:۸۷۔۸۹]
اسی لیے انسان کو ہمیشہ اپنے دل کی سلامتی کی فکر کرنا چاہیے اور ان اعمال و اقوال کو اختیار کرنا چاہیے جن سے قلب سالم ہوتا ہے اور ایسے تمام اعمال اور باتوں سے بچنا چاہیے جو قلب کو فساد اور بگاڑ میں مبتلا کر دیں، اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی خیر کے کام سے دل سالم ہوتا ہے، لیکن زیر نظر مضمون میں ہم قلب سلیم بنانے کے طریقے کے بجائے چند ایسی خرابیوں اور برائیوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ جو دلوں کے فساد اور بگاڑ کے بڑے اسباب میں سے ہیں اور یقینا اگر انسان ان سے بچ جائے تو اس کا دل مستقیم اور سالم ہو جائے گا۔
۱۔ توبہ کی امید پر گناہ کرنا: اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان خطاکار ہے گنہگار ہے، گناہ ہو جاتے ہیں اور انسان جان بوجھ کر بھی گناہ کر لیتا ہے، لیکن آج معاشرے میں بہت سے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ توبہ کی امید پر گناہ کرتے ہیں، گناہ پر گناہ کرتے جا رہے ہیں اور ذہن یہ بنا رکھا ہے کہ آج نہیں تو کل توبہ کر لیں گے، اللہ بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس عمل سے رفتہ رفتہ ان کا دل سخت ہوتا چلا جاتا ہے پھر وہ گناہ کے سفر میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ انہیں بڑا گناہ بھی معمولی نظر آتا ہے اور پھر ایک دن یہ امید صرف امید بن کر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جاتی ہے اور انسان اس دنیا کو چھوڑ کر کبھی نہ ختم ہونے والے سفر پر نکل جاتا ہے جہاں کوئی عمل نہیں، جہاں کوئی توبہ نہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔
۲۔ علم حاصل کرنا لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرنا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، لیکن سیکھے ہوئے علم کے مطابق عمل بھی کرنا ضروری ہے، ورنہ قیامت کے دن تو سوال ہوگا ہی کہ ’’ماذا عمل فیما علم ‘‘ ’’کہ جو سیکھا اس پر کتنا عمل کیا، یہاں دنیا میں بھی اس کا نقصان ہوگا کہ علم کے مطابق عمل نہ کرنے پر انسانی دل بگاڑ کا شکار ہو جائے گا، آج دیکھیں علم کی بہتات ہے، علم سیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن عمل کا میدان خالی نظر آتا ہے اور جب یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو لوگوں کے دل بگاڑ اور فساد میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
۳۔ عمل کرنا لیکن اس میں اخلاص شامل نہ کرنا: بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ علم بھی ہے اور علم کے مطابق عمل بھی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دل سالم نہیں ہیں، ان میں مختلف طرح کی خرابیاں ہیں، وجہ؟ عمل کے اندر اخلاص وللہیت کا فقدان ہے، جب عبادت کا کوئی بھی کام ایک شخص اللہ کی بجائے غیر اللہ کے لیے یا کسی کو خوش کرنے کی خاطر کرنے لگے تو اس کے اس عمل کا فائدہ کے بجائے نقصان نظر آئے گا اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کا دل بگاڑ کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
۴۔ اللہ کی نعمتوں میں ہونے کے باوجود شکر ادا نہ کرنا: رب کی نعمتیں بہت ہیں، انسانی زندگی مکمل طور سے رب کی نعمتوں سے گھری ہوئی ہے، انسان کا کام یہ ہے کہ ان تمام نعمتوں پر رب کا شکر ادا کرتا رہے، عمل سے، زبان سے یا کسی اور ممکنہ طریقے سے، مگر جب انسان ملنے والی نعمتوں کا غلط استعمال کرنے لگے، یا ان کی نا قدری کرے یا ان پر شکر ادا نہ کرے تو جہاں نا شکری کی وجہ سے اس پر الگ الگ طرح کی پریشانیاں آتی ہیں وہیں اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل کو سلامتی کے راستے سے کسی اور طرف موڑ دیا جاتا ہے اور وہ بگڑ کر رہ جاتا ہے، ویسے بھی اللہ نے کہا ہے کہ:
{وَلَئنْ كَفَرْتُمْ إنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ}
’’اور اگر تم نے نا شکری کیا تو بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘
[ابراھیم:۷]
۵۔ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی نہ ہونا: انسانی زندگی میں ہونے والے تمام معاملات اللہ کی مرضی اور مشیت کے بغیر نہیں ہوتے، ہر چیز اللہ کے علم میں بھی ہوتی ہے، ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے کیا ہونے والا ہے سب اللہ کو معلوم ہوتا ہے، خوشی اور غم ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے، اسے اللہ کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرنے میں ہی خیر ہے، اسی لیے پیارے رسولﷺنے نصیحت کرتے ہویے فرمایا:
’’وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللّٰهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَي النَّاسِ ‘‘
’’اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے تقسیم کر دیا ہے اس پر راضی رہو، تم سب سے زیادہ بے نیاز ہو جاؤ گے‘‘
[ سنن ترمذی:۲۳۰۵، حسن]
لیکن اس کے برخلاف اگر انسان اپنی تقدیر اور اللہ کے فیصلے پر راضی نہ رہے تو نتیجتاً وہ گمراہی اور بدبختی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کا دل فتنہ و فساد اور بگاڑ کے راستے پر نکل جاتا ہے۔
۶۔ مر جانے والوں کی موت سے کوئی عبرت اور نصیحت حاصل نہ کرنا: موت ایک بہترین استاد ہے، ایک پر اثر پیغام ہے، ایک خاموش نصیحت ہے جو کسی بھی انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے لیکن اس شخص کے لیے جو نصیحت قبول کرنا چاہے، جو موت کو یاد کرے، جو کسی کی موت سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے کہا تھا:
’’أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ ‘‘
’’یعنی لذتوں کو توڑ دینے والی چیز موت کو کثرت سے یاد کرو‘‘
[سنن ترمذی:۲۳۰۷، حسن صحیح]
مگر افسوس کہ آج ہم انسان موت سے بے خبر ہیں، موت کو یاد نہیں کرتے، بلکہ اپنے ہی ہاتھوں سے کسی مر جانے والے کو قبر اور مٹی کے حوالے کرنے کے باوجود ہم کوئی عبرت اور نصیحت حاصل نہیں کرتے، اور اسی بنا پر ہمارے قلوب بگڑ کر رہ چکے ہیں کہ بڑے بڑے حادثات کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
محترم قارئین! یہ وہ چھ بنیادی اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے کوئی بھی انسانی دل بگاڑ میں مبتلا ہو جاتا ہے، مزید اور بھی کچھ اسباب ہو سکتے ہیں لیکن یہ چھ بڑے اسباب ہیں، انہیں جان لینے کے بعد ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قلب سلیم کے مالک بنیں، ان تمام چیزوں سے دور رہیں جو ہمارے دل کو بگاڑ کے راستے پر لے جاتے ہیں، رب کے بتائے ہوئے راستے پر رہیں، وہ کام کرتے رہیں جن کی اجازت ہے اور ان تمام چیزوں سے دور رہیں جو دنیا و آخرت میں ہمارے لیے کسی بھی نقصان کا باعث بن سکیں اور یہ بات یاد رکھیں کہ آخرت میں صرف نجات اس شخص کو ملنے والی ہے جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر جائے گا تو قلب سلیم بنانے کی فکر میں لگ جائیں تاکہ نجات آپ کا مقدر بن جائے۔
اللہ ہم سبھی کو قلب سلیم کا مالک بنائے اور ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی جانب موڑ دے۔آمین