-
تاریخی روایات میں تساہل یا تثبت؟ تاریخی روایات میں تساہل یا تثبت سے متعلق علی الاطلاق کوئی بات کہنا درست نہیں ہے ، مثلاً یہ کہنا بھی غلط ہے کہ تاریخی روایات کو جرح وتعدیل کے میزان پر نہیں پرکھا جائے گا اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ہر تاریخی روایت کو جرح وتعدیل کے میزان پر پرکھنا ضروری ہے ، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس میں تفصیل کی جائے گی۔
الزامات وغیرہ پر مبنی تاریخی روایات:
اگرتاریخی روایات کی بناپر کوئی شرعی مقدمہ قائم ہوتا ہو ، یا ان میں ثابت شدہ حقائق کے خلاف کوئی بات ہو ، یا ان روایات میں صحابہ یا تابعین یا معروف شخصیات پر گھناؤنے الزامات لگتے ہوں وغیرہ وغیرہ ، تو ایسی روایات کی تحقیق لازم اور ضروری ہے ، اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَائَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَي مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ }
’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ ‘‘
[الحجرات:۶]
اس آیت کے آخری حصہ پر غور کریں ، نیز اس کا شان نزول دیکھیں تو اس کا تعلق اسی نوع کے اخبار سے معلوم ہوگاکہ اس کے اندر ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایاگیاہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت ہی اہمیت ہے ، ہر فرد اور ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔
اس کے علاوہ قرآن و حدیث میں متعدد ایسے نصوص وارد ہیں جن میں خلاف حقیقت بات کہنے اور بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانے کی سخت ممانعت ہے ،جیسا کہ نبی ﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرمایا:
’’كَفَي بِالْمَرْئِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ‘‘
’’انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کردے‘‘
[صحیح مسلم:بَابُ النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ]
عام حوادث پر مبنی تاریخی روایات:
اور اگر تاریخی روایات میں مذکورہ کوئی بات نہ ہو بلکہ اس میں عام واقعات کا بیان ہو یا ان کا تعلق شخصیات کے فضائل اور ان کے روشن کارناموں سے ہو وغیرہ وغیرہ۔
تو ایسی تاریخی روایات کو بلا تثبت نقل وبیان کیا جاسکتا ہے ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
’’ حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج ‘‘
’’بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، ان میں کوئی حرج نہیں ‘‘
[صحیح البخاری :رقم:۳۴۶۱]
لیکن یاد رہے کہ اس دوسری قسم کی روایات کو بلا تثبت بیان کرتے وقت اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کا یقین نہیں کیا جائے گا،بلکہ دونوں کا احتمال مانا جائے گا ، جیساکہ نبی ﷺ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے:
’’لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ‘‘
’’اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو‘‘
[صحیح البخاری،رقم:۷۳۶۲]
تاریخی روایات سے متعلق ہم اسی تفریق و تفصیل کے قائل ہیں ، اور جہاں بھی ہم تاریخی روایات کو جرح و تعدیل کے اصول پر پرکھتے ہیں، یا یہ کہتے ہیں کہ تاریخی روایات کو بھی پرکھنے کی ضرورت ہے وہاں ہماری گفتگو مذکورہ پہلی قسم کی روایات پرہی ہوتی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ اس تفصیل کے بالکل برعکس آج بہت سارے لوگوں کا طرزعمل یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ لوگ الزامات واتہامات سے متعلق تو ہرروایت پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں بلکہ انہیں تواتر کے درجہ تک پہنچاتے ہیں، لیکن فضائل یا مثبت کارناموں سے متعلق روایات کو قبول کرنے کے لیے ایسا معیار قائم کرتے ہیں کہ بسا اوقات صحیحین کی احادیث بھی اس معیار پر پوری نہ اتریں۔
٭٭٭
٭