-
ربانی علماء اور امت کے تئیں ان کا تبلیغی کردار (قسط ثانی) تحریر:أ۔النمیری بن محمد الصبار
دوسرا نقطہ: ربانی علماء کا امت کے تئیں تبلیغی کردار:
جو کتاب وسنت کے نصوص پر غورو فکر کرے گا اور اس امت کے اسلاف میں ربانی علماء کی سوانح حیات پر نظر دوڑائے گا تو اس کے سامنے یہ بات اظہر من الشمس ہوجائے گی کہ علماء ربانیین کا کردار درحقیقت وہ عظیم ترین پیغام ہے جو انسانی معاشرے تک پہنچنا چاہیے اور وہ درج ذیل ہے:
۱۔ لوگوں کے درمیان حق بات کی نشر واشاعت کرنا اور حق بات ان سے مخفی نہ رکھنا ۔
اس عظیم معنیٰ کے سلسلہ میں اللہ کا ارشاد ہے:
{وَإِذْ أَخَذَ اللّٰهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَائَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ}
’’اور اللہ تعالیٰ نے جب اہلِ کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا۔ ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے‘‘
[آل عمران:۱۸۷]
دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَي مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ}
’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے‘‘
[البقرۃ:۱۵۹]
اللہ فرماتا ہے:
{وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ }
’’اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے‘‘
[یٰسٓ :۱۷]
۲۔ تحریف کی آلائشوں سے او ر باطل کی آمیزش سے علم دین کو پاک و صاف رکھنا: پیارے رسول ﷺکے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے ،اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’کہ یہ علم دین ہرنسل کے عادلین حاصل کرتے رہیں گے، جو اسے غلو کرنے والوں کی تحریفات، باطل پرستوں کے افتراء اور جاہلوں کی تاویلات سے پاک کریں گے‘‘
[ إسنادہ صحیح ۔أخرجہ البیہقی فی سننہ الکبریٰ :۱۰؍۲۰۹، رقم:۲۰۷۰۰]
۳۔ لوگوں کو کتاب وسنت کی ضروری اور بنیادی تعلیمات سے بہر امند کرنا اور اسی صحیح علم کی بنیاد پر ان کا تزکیہ کرنا،جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
’’بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘[آل عمران:۱۶۴]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’اہل سنت اور علم و ایمان کے حامل حق بات کا علم رکھتے ہیں اور مخلوقات پر رحم کرتے ہیں ،رسول کی اتباع کرتے ہیںاور بدعات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ہیں‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۶؍۹۶]
اور اسی بارے میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’وہ عالم دین جسے سنت، ،حلال و حرام اور نیکی و بدی کے راستوں کاعلم ہو ،تو اس کالوگو ں کے ساتھ میل جول رکھنا اور انہیں دینی تعلیم دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ گوشۂ نشینی اختیا ر کرکے ذکر الہٰی میں مشغول رہے‘‘[عدۃ الصابرین وذخیرۃ الشاکرین :۱؍۹۳]
۴۔ اللہ کی طرف لوگوں کو بلا نا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضہ کو زندہ کرنا : جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: ’’اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں‘‘[فصلت:۳۳]
اسی طرح دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:’’آپ کہہ دیجیے میری راہ یہی ہے، میں اورمیرے پیروکار اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ ، اور اللہ پاک ہے ، اور میں مشرکوں میں نہیں‘‘[یوسف:۱۰۸]
اور ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت معاذ نے کہا :’’مجھے رسول اللہ ﷺنے بھیجا اور فرمایا :تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو ، انہیں اس کی گواہی دینے کی دعوت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں‘‘[أخرجہ مسلم فی صحیحہ :۱؍۳۷۰،ح:۱۳۰]
اللہ کا فرمان ہے:’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں‘‘[آل عمران:۱۰۴]
ایک دوسرے مقام پر اللہ کا فرمان ہے:’’پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خبر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی ۔ ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑگئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے‘‘[ہود:۱۱۶]
اللہ کا فرمان ہے:’’انہیں ان کے عابد و عالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے بیشک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں ‘‘[المائدۃ:۶۳]
۵۔ لوگوں کوفتویٰ دینا اور روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق شرعی احکامات سے انہیں روشناس کرانا:
جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:’’پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو۔ دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ‘‘[النحل:۴۳۔۴۴]
۶۔ مسلمانوں کے ہر طبقہ اور ہر سطح کے لوگوں کو نصیحت کرنا: تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے:’’بلاشبہ دین سراپاخیرخواہی کا نام ہے، بلاشبہ دین سراپاخیرخواہی کا نام ہے، بلاشبہ دین سراپاخیرخواہی کا نام ہے، لوگوں نے پوچھا:اللہ کے رسول!کس کے لیے؟ فرمایا:اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے،رسولوں کے لیے مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے‘‘[إسنادہ صحیحٌ۔أخرجہ أبوداؤد فی سننہ:۴؍۴۴۱، ح:۴۹۴۶]
۷۔ حق کی جانب لوگوں کی رہنمائی کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنے کی انہیں تلقین کرنا خصوصا ًبڑے بڑے فتنوں اور بھیانک آزمائش کے وقت :
جیسا کہ اللہ رب العالمین کافرمان ہے:’’جب انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول (ﷺ)کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے‘‘[النساء:۸۳]
اور اس عظیم معنیٰ کی ترجمانی قارون کے واقعہ میں بھی موجود ہے ۔اللہ اسے رسوا کرے۔ چنانچہ بجا طور پر اہل علم نے قارون کے بڑے فتنہ سے لوگوں کی صحیح سمت کی طرف رہمنائی کی ہے۔جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:’’پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا ،تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے، ذی علم انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس!بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ،یہ باتیں انہی کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہوں‘‘ [القصص:۷۹۔۸۰]
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے ، ابو بکررضی اللہ عنہ نے کہا عمر!بیٹھ جاؤ ، لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکا ر کیا ، اتنے میں لوگ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو چھوڑکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے اور آپ نے خطبۂ مسنونہ کے بعد فرمایا ، اما بعد!تم میں جو بھی محمد(ﷺ) کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو نا چا ہیے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھاتو (اس کا معبود )اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ محمد صرف رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں اور’’ الشاکرین ‘‘تک انہوں نے مکمل آیت پڑھی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ، خدا کی قسم! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی ۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا ۔ (زہری نے بیان کیاکہ ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمررضی اللہ عنہ نے کہا ، خدا کی قسم!مجھے اس وقت ہوش آیا ، جب میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا ، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ حضور اکرمﷺکی وفات ہوگئی ہے تومیں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہواکہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گرجاؤں گا ۔
[أخرجہ البخاری فی صحیحہ:۴؍۱۶۱۸،رقم:۴۱۸۷]
۸۔ منحرف اور گمراہ لوگوں سے جہاد کرنا :
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے: ’’اللہ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں جتنے بھی نبی بھیجے ، ان کی امت میں سے ان کے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے جوان کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی اتباع کرتے تھے ، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے بعد نالائق لوگ ان کے جانشیں بن جاتے تھے ۔ وہ (زبان سے )ایسی باتیں کہتے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور ایسے کا م کرتے تھے جن کا ان کو حکم نہ دیا گیا تھا ، چنانچہ جس نے ان (جیسے لوگوں )کے خلاف اپنے دست و بازو سے جہاد کیا ، وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کیا ، وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے (لیکن ) اس سے پیچھے رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ‘‘
[أخرجہ مسلم فی صحیحہ:۱؍۵۰،ح:۱۸۸]
۹۔ مشکل اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے اہل دانش و بینش سے مشورہ کرنا تاکہ حق اور درستی تک رسائی ہو سکے: اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے:’’اور ان کا (ہر)کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے‘‘[الشوریٰ:۳۸]
اسی طرح اس کی ایک اور دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے:’’اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں‘‘[آل عمران:۱۵۹]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام تشریف لے جارہے تھے جب آپ مقام سرغ پر پہنچے تو آپ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے ہوئی ، ان لوگوں نے امیر المومنین کو بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھوٹ پڑی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس مہاجرین اولین کوبلا لاؤ ، آپ انہیں بلا لائے توحضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون کی وبا ء، پھوٹ پڑی ہے ، مہاجرین اولین کی رائیں مختلف ہوگئیں ، بعض لوگوں نے کہا کہ صحابہ رسول اللہﷺکے ساتھیوں کی باقی ماندہ جماعت آپ کے ساتھ ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ انہیں اس وبا میں ڈال دیں ، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا اب آپ لوگ تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ انصار کو بلاؤ ۔ میں انصار کو بلا کر لایا آپ نے ان سے بھی مشورہ کیا اور انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح اختلاف کیا کوئی کہنے لگا چلو ، کوئی کہنے لگا لوٹ جاؤ ۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ اب آپ لوگ بھی تشریف لے جائیں پھر فرمایا کہ یہاں پر جو قریش کے بڑے بوڑھے ہیں جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرکے مدینہ آئے تھے انہیں بلا لاؤ ، میں انہیں بلا کر لایا ۔ ان لوگوں میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہو ا سب نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اوروبائی ملک میں لوگوں کو لے جاکر نہ ڈالیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوکر واپس مدینہ منورہ لوٹ جاؤں گا تم لوگ بھی واپس چلو ۔ صبح کوایسا ہی ہوا حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کیا جائے گا ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کاش!یہ بات کسی اورنے کہی ہوتی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف ۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم انہیں لے کر کسی ایسی وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک سرسبز شاداب اور دوسرا خشک ۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر تم سر سبز کنارے پر چراؤ گے تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا ۔ اور خشک کنارے پر چراؤ گے تووہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہوگا ۔ بیان کیا کہ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگئے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس وقت موجود نہیں تھے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس مسئلہ سے متعلق ایک علم ہے ۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سناہے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی سر زمین میں وبا کے متعلق سنو تو وہاں نہ جاؤ اورجب ایسی جگہ وبا آجائے جہاںتم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر واپس ہو گئے ۔
[أخرجہ البخاری فی صحیحہ:۵؍۲۱۶۳، رقم:۵۳۹۷]
۱۰۔ انبیاء منہج کی روشنی میں لوگوں کی رہبری کرنا ،قوموںکی اصلاح کرناساتھ ہی دین کے مٹے ہوئے نقوش کو دوبارہ اجاگر کرنا:
جیسا کہ اللہ کااپنے انبیاء سے متعلق ارشاد ہے:’’یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلئے‘‘[الأنعام:۹۰]
شعیب علیہ السلام سے متعلق اللہ ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:’’میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے ۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے ۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں‘‘[ہود:۸۸]
اللہ کے رسول ﷺ کافرمان ہے:’’بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے،جب بھی ان کاکوئی نبی فوت ہوجاتا تو وہ دوسرے ان کی جگہ آموجود ہوتے،لیکن یادر رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ہاں میرے نائب ہوں گے اوربہت ہوں گے ۔صحابہ نے عرض کیا کہ ان کے متعلق آپ کاہمیں کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جس سے بیعت کرلو ، بس اسی کی وفاداری پرقائم رہو اوران کاجوحق ہے اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن ان کی رعایا کے بارے میں سوال کرے گا‘‘
[أخرجہ البخاری فی صحیحہ:۳؍۱۲۷۳، رقم:۳۲۶۸، و مسلم فی صحیحہ :۶؍۱۷،ح:۴۸۷۹من حدیث أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ]
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے اندر کسی فتنہ کا ظہور ہوتا تھا یا تورات کے احکام میں کوئی تبدیلی لوگ کرتے تھے،تو اللہ ان کے یہاں نبی بھیجتا تھا جو ان کے معاملات کو درست کرتا تھا اور ان کے احوال کی اصلاح کرتا تھا نیز تورات اور اس کے احکامات میں تبدیلی کا ازالہ کرتے تھے ‘‘
[المفہم لما أشکل من صحیح مسلم:۵؍۴۲۲للقاضی عیاض ، وانظر :فتح الباری:۱۰؍۲۵۵، رقم: ۳۱۹۶، ومجموع الفتاویٰ:۱۹؍۱۱۷]
امام ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’بلاشبہ یہ امت سب سے کامل ترین امت ہے ،اور سب سے بہترین امت ہے جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے اور اس امت کا نبی خاتم النبیین ہے اور اب ان کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہے۔اس وجہ سے جب اس امت میں کسی عالم کی وفات ہوتی ہے تو اس کے بعد اس کا ایک جانشین اللہ کے حکم کے مطابق آتا ہے تاکہ دین کے نشانات چھپنے اور مٹنے نہ پائیں۔
جبکہ بنی اسرائیل میں جب ایک نبی کی وفات ہوتی تھی تو ان کے بعد دوسرا نبی آجاتاتھا ۔گویا کہ انبیاء ان کی قیادت کرتے تھے اور اس امت کے علماء کی حیثیت وہی ہے جو بنی اسرائیل میں انبیاء کی تھی۔
[مفتاح دار السعادۃ:۱؍۴۵۱]