Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فرقہ’’سروریہ‘‘:تعارف افکار ونظریات (قسط ثانی)

    محمد سرور کے بارے میں سلفی علماء کے اقوال و تاثرات:
    ذیل میں ہم محمد سرور زین العابدین کے بارے میں چند کبار سلفی علماء کے اقوال ذکر کر رہے ہیں تاکہ علماء کے نزدیک ان کی جو حیثیت تھی اس کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے:
    (۱) مفتی السلفیین عبد العزیز ابنِ باز رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ’’منہج الأنبیاء فی الدعوۃ إلی اللّٰہ‘‘کے مولف (محمد سرور) نے اپنی مذکورہ کتاب کے (صفحہ ۸) پر کہا ہے کہ:’’میں نے عقیدہ کی کتابوں پر غور کیا تو دیکھا کہ وہ کتابیں ہمارے دور کے علاوہ کے لیے لکھی گئی ہیں، وہ اُس دور کے مشکلات و مسائل کا حل تھیں جس میں وہ لکھی گئی تھیں جبکہ ہمارے دور کی اپنی الگ مشکلات ہیں جو نئے حل کی متقاضی ہیں اسی لیے عقیدہ کی کتابوں میں بہت زیادہ خشکی ہے کیونکہ وہ نصوص(قرآنی آیات واحادیث نبویہ) و احکام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں نے ان (عقائد کی کتابوں) سے اعراض کیا اور انہیں اہمیت نہیں دی ہے‘‘
    تو آپ نے جواب دیا:’’یہ خطرناک قسم کی غلطی ہے، سارا کا سارا خشک ہے!اللہ کی پناہ صحیح عقیدہ کی کتابیں خشک نہیں ہیں (ان کے اندر) قال اللہ اور قال الرسول ہیں، پس اگر وہ کتاب وسنت کو خشک کہتا ہے تو یہ دین سے ارتداد ہے ،یہ نہایت گھٹیا اور گھناؤنی بات ہے‘‘[المقالات السلفیۃ سلیم الہلالی :ص:۲۵]
    مزید اس کتاب کی خرید وفروخت کے حکم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا:’’اگر اس کے اندر یہ بات ہے تو اس کی بیع جائز نہیں ہے بلکہ اس کے پرزے پرزے اُڑا دینا واجب ہے‘‘[الأجوبۃ المفیدۃ عن أسئلۃ المناہج الجدیدۃ :ص:۸۷]
    (۲) محدث العصر محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے سامنے محمد سرور کی مذکورہ بالا عبارت کا ذکر کیا گیا اور اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:’’وهل یقول هذا مسلم؟‘‘’’کیاکوئی مسلم اس طرح کی بات کر سکتا ہے؟‘‘[المقالات السلفیۃ سلیم الہلالی: ص:۲۵]
    (۳) مجدد یمن محدث مقبل بن ہادی الوادعی نے محمد سرور کے بارے میں فرمایا:’’وہ پلٹ گیا ،خبط کا شکار ہو گیا اور اس نے حزبیت اختیار کر لی بلکہ اس کے متبعین اہل سنت کے حق میں الاخوان المسلمون سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے‘‘[الإلحاد الخمینی فی أرض الحرمین: ص:۱۰۱]
    آپ رحمہ اللہ محمد سرور کا جاری کردہ مجلہ’’السنہ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں:’’اور مجلہ ’’السنة‘‘جس کا نام’’البدعة‘‘ رکھنا زیادہ مناسب ہے یہ مجلہ لوگوں کو اہل علم سے دور کرتا ہے اور ان پر جمود (حکام کی) ملازمت اور واقع(حالات حاضرہ کے تقاضوں) کو نہ سمجھنے کا الزام لگاتا ہے‘‘[تحفۃ المجیب علی أسئلۃ الحاضر و الغریب :ص:۱۸۱]
    مزید فرمایا کہ:’’وہ علمی اعتبار سے اس قابل نہیں ہے کہ کسی جماعت کی سربراہی کرے اور کہے کہ یہ حلال ہے یہ حرام ہے اور یہ جائز ہے‘‘[غارۃ الأشرطۃ للشیخ مقبل:۲؍۱۶]
    (۴) شیخ العقیدہ علامہ محمد امان بن علی الجامی رحمہ اللہ نے فرمایا:’’اگر بدعتی اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا ہو جیسے محمد سرور اور حسن الترابی سوڈانی تو علی الاعلان لوگوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرنا واجب ہے۔پس آج جب ہم یہ کہتے ہیں کہ محمد سرور ملحد ہے حسن الترابی ملحد ہے تو ہمارا یہ موقف اسی طرح ہوتا ہے جیسا کہ علمائے جرح و تعدیل کا تھا‘‘ (https://youtu.be/_1Jnhv118Fk)
    (۵) محدث مدینہ شیخ حماد بن محمد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میں نے کچھ لوگوں کے ہاتھ میں محمد سرور زین العابدین کا مجلہ ’’السنۃ‘‘دیکھا تو انہیں اسے جلانے کا حکم دیا اور میں نے یہ اس وقت کہا تھا جب میں اس آدمی کو نہیں جانتا تھا‘‘[المجموع فی ترجمۃ العلامۃ حماد الانصاری:۲؍۵۷۴]
    (۶) بقیۃ السلف علامہ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے محمد سرور کی مذکورہ بالا عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’کچھ لوگ ہیں جو عقیدہ پڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، سلف کی کتابوں سے بے اعتنائی برتتے ہیں، ائمۂ اسلام کی کتابوں سے بے رغبتی کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو خود اپنی اور اپنی طرح دیگر جاہلوں اور گمراہی کی طرف بلانے والوں کی کتابوں کی طرف پھیر دیں‘‘
    ایسا کہنے والا بھی گمراہی کا پرچارک ہے، اللہ ہمیں عافیت عطا فرمائے، اس سے خود آگاہ رہنا اور دوسروں کو چوکنا کرنا واجب ہے۔
    یہ آدمی محمد سرور اپنی اس بات کے ذریعے نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے نیز انہیں صحیح عقیدہ اور سلف کی کتابوں سے پھیر کر جدید افکار و نظریات اور نئی کتابوں کی طرف متوجہ کر رہا ہے جو مشکوک افکار و نظریات سے لبریز ہیں۔
    مزید آپ سے سوال کیا گیا کیا کہ محمد سرور زین العابدین اپنی کتاب’’ منہج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللّٰہ‘‘ صفحہ ۱۷۰میں لکھتے ہیں:’’اگر قوم لوط کے لوگ لا الہ الا اللہ کہہ دیتے تو بھی جب تک وہ اپنے گناہ پر اڑے رہتے انہیں اس کا کوئی نفع نہ پہنچتا‘‘شیخ محترم اس بات پر کیا رد فرمائیں گے ؟
    تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:’’لہٰذا یہ بات ایک جاہل کی بات ہے، یہ سب سے اچھا محمل ہے جس پر ہم اسے محمول کر رہے ہیں یعنی اسے جہالت پر محمول کیا جانا سب سے بہتر محمل ہے اور جہالت اللہ کی پناہ بڑا خطرناک مرض ہے اور آج کل زیادہ تر دعاۃ کی یہی بیماری ہے کہ لوگوں کو جہالت کی بنیاد پر اللہ کی طرف بلاتے ہیں، جہالت میں پڑے رہتے ہیں اور لوگوں کی بلا وجہ تکفیر کرتے ہیں اور توحید کے مسائل میں تساہل سے کام لیتے ہیں۔
    اس جاہل ہی کو دیکھو ، یہ جاہل عقیدہ کے مسئلہ کو معمولی سمجھ رہا ہے اور ہم جنسی کے گناہ کو سنگین، بھلا ان دونوں میں کون سا گناہ زیادہ خطرناک ہے؟ شرک زیادہ سنگین ہے یا ہم جنسی؟ ہم اللہ سے عافیت کے طلبگار ہیں‘‘[الأجوبۃ المفیدۃ عن أسئلۃ المناہج الجدیدۃ :ص:۷۷۔۸۵]
    فرقۂ سروریہ کی مشہور شخصیات اور اس کے بارے میں علماء کے اقوال:
    ’’سروریہ‘‘کی مشہور شخصیات کی فہرست میں محمد سرور کے علاوہ ناصر العمر، سفر الحوالی، سلمان العودہ، عایض القرنی، عوض القرنی، محمد العریفی، محمد حسان، نبیل العوضی،عبد العزیز الطریفی، محمد الحسن الددو ، عبد الوہاب الطریری، سعود الفنیسان ، فلاح العطیری، صلاح الصاوی، ابو اسحاق الحوینی، خالد الراشد، سلیمان العلوان، عبد اللہ العلوان اور عبد الرحمن عبد الخالق وغیرہم ہیں۔
    ان کے تعلق سے فقیہِ مدینہ شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:’’بعد کے ادوار میں جب الاخوان المسلمون نے دیکھا کہ ان کے توحید کے ساتھ عدمِ اہتمام نے بہت سارے لوگوں کو ان سے متنفر کرنا شروع کر دیا ہے تو اخوان المسلمین کی ایک نئی ترقی یافتہ شکل سامنے آئی جسے ’’سروریہ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ اخوانی ہی تھے مگر دو چیزوں سے ان کی ملمع سازی کی گئی تھی:علم کے ساتھ اہتمام کا اظہار اور توحید کے ساتھ دلچسپی کا اظہار، لیکن جب آپ ان کے علم اور توحید کے ساتھ اس اہتمام پر غور کریں گے تو دو چیزیں پائیں گے:
    پہلی چیز: یہ اہتمام اور دلچسپی فکر تک پہنچنے کا وسیلہ وذریعہ ہوتا ہے۔ میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں:سفر الحوالی جو کہ سروریہ کے بڑے قائدین میں سے ایک ہیں، عصر کے بعد عقیدہ ٔطحاویہ کی شرح کرتے تھے اور مغرب بعد فکری درس دیا کرتے تھے، سلمان العودہ جو سروریہ کے چنندہ اشخاص میں سے ہیں وہ بلوغ المرام کی شرح کرتے تھے، شروع شروع میں ایک حدیث کی شرح کے لیے مکمل ایک کیسٹ درکار ہوتی تھی۔ پھر تھوڑے ہی عرصے کے بعد ایک طرف آدھے وقت میں چار پانچ حدیثوں کی شرح کر ڈالتے تھے اور دوسری طرف آدھے وقت میں سروری طریقہ کار کے مطابق فکری ومنہجی مسائل پر بحث کرتے تھے۔
    لہٰذا استقراء وتتبع کے بعد ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ سروریین علم، تدریس علم اور توحید کے ساتھ اہتمام کو فکر کے لیے بطور چارہ کے استعمال کرتے ہیں۔اسی وجہ سے سلمان العودہ کہتا ہے کہ علم توحید دس منٹ میں سیکھ لیا جا سکتا ہے۔ وہ توحید جس کی طرف اللہ کے رسول ﷺ بعثت سے لے کر وفات تک دعوت دیتے رہے دس منٹ میںسیکھا جا سکتا ہے! سروری اخوانیوں کے علم اور توحید کے ساتھ دلچسپی میں یہ پہلی چیز ہے جس کو آپ محسوس کریں گے۔
    دوسری چیز: ان کا یہ اہتمام اجمالی ہوتا ہے تفصیلی نہیں۔چنانچہ جب یہ لوگ توحید کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کے تعلق سے تفصیلی گفتگو نہیں کرتے ہیں بلکہ مجمل بات کرتے ہیں اور یہ واضح اور معلوم چیز ہے۔
    (https://youtu.be/hGmqMUeiYAM)
    علامہ البانی رحمہ اللہ سفر الحوالی اور سروری جماعت کے تعلق سے سوال کیے جانے پر فرماتے ہیں :میری ایک رائے تھی جو میں نے آج سے تقریباً تیس سال قبل دی تھی جب میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تھا اور ایک بھری محفل میں مجھ سے تبلیغی جماعت کے تعلق سے اپنی رائے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو میں نے اس دن جواب دیا تھا کہ یہ نئے دور کے صوفی ہیں (صوفیۃ عصریۃ) اور اب میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں اس جماعت کے تعلق سے جو موجودہ زمانے میں ظہور پذیر ہوئی ہے اور اس نے بہت سارے امور میں سلف صالحین کی مخالفت کی ہے، کہوں کہ یہ لوگ عصر حاضر کے خوارج ہیں (خارجیۃ عصریۃ)۔(شریط السروریۃ خارجیۃ)
    (https://youtu.be/T92ukxQyqiI)
    محدثِ مدینہ شیخ حماد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سروری فرقہ ایک اخوانی جماعت ہے جو اس سے الگ ہوگئی ہے اور اب لندن میں رہتی ہے‘‘[المجموع فی ترجمۃ العلامۃ حماد الانصاری: ص:۷۶۵]
    علامہ مقبل الوادعی رحمہ اللہ محمد سرور کے بارے میں فرماتے ہیں:’’اس کے متبعین(یعنی سروریہ) اہل سنت کے حق میں الاخوان المسلمون سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں‘‘[الإلحاد الخمینی فی أرض الحرمین :ص:۱۰۱]
    مزید دیگر معاصر فرقے ’’الاخوان المسلمون‘‘’’النھضۃ‘‘اور’’سروریہ‘‘کے تعلق سے پوچھے جانے پر کہ کیا یہ اہل سنت اور طائفہ ناجیہ منصورہ میں سے ہیں ؟ فرماتے ہیں:’’یہ فرقے اور اس طرح کے دیگر فرقے ہر گز اہل سنت میں سے نہیں ہیں، باقی رہ گئی افراد پر حکم لگانے کی بات تو ہم کسی فرد پر حکم نہیں لگا سکتے ہیں کہ وہ اہل سنت میں سے نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ جاہل اور حقیقت سے نا آشنا ہو۔ہاں وہ سربراہ جو الاخوان المسلمون کی دعوت کو جانتا ہے، سروریہ کی دعوت سے واقف ہے اور اس طرح کی دوسری جماعتوں کی دعوتوں سے جو سنت کے مخالف ہیں آشنا ہے، اس کی طرف دعوت دیتا ہے اور اس کے لیے تعصب اختیار کرتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ فرقہ ناجیہ منصورہ میں سے نہیں ہے‘‘ [من شریط التبیان علی أسئلۃ أہل کردستان]
    سروریہ کے اہم اور اساسی افکار:
    ذیل میں ہم سروریہ کے ان اہم اور بنیادی افکار و نظریات کا ذکر کر رہے ہیں جو ان کی تنظیم کی روح رواں اور اعصاب کی حیثیت رکھتے ہیں:
    (۱) توحید حاکمیت کے اثبات کا حد درجہ اہتمام: چنانچہ یہ لوگ اپنا سارا زور توحید حاکمیت کو ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں اور اس کو توحید کی ایک مستقل چوتھی قسم قرار دیتے ہوئے توحید کا سب سے اہم عنصر گردانتے ہیں۔
    (۲) مسلم معاشروں کو جاہلی اور مرتد معاشرے قرار دینا: چنانچہ ان کی نظروں میں تمام مسلم معاشرے زمانۂ جاہلیت والے معاشرے ہیں، بلکہ بعض تو صراحت کے ساتھ انہیں مرتد بھی قرار دیتے ہیں، یہ وہی فکر ہے جس کے تعلق سے محمد قطب نے ’’جاهلیة القرن العشرین‘‘نامی کتاب تالیف کی تھی اور سید قطب نے اس کی تائید و تحسین کی تھی۔ سروری عمر سلیمان الاشقر نے لکھا ہے کہ بیسویں صدی عیسوی میں سخت ترین ارتداد پایا جاتا ہے اور مسلم حکومتوں کے اندر اسلام کے علاوہ ہر چیز ہے۔[نحو ثقافۃ إسلامیۃ أصلیۃ :ص:۱۰، تفسیر فی ظلال القرآن:۴؍۲۰۳۳]
    (۳) ولاء وبراء کا ممسوخ اور محرف عقیدہ: چنانچہ سروری حضرات اپنی جماعت اور اس سے منسلک افراد کے ساتھ دوستی اور محبت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ہر اس شخص سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں جو ان پر اعتراض کرتے یا ان کے خلاف کچھ بولتے ہیں گرچہ وہ کبار علماء و فضلاء میں سے ہی کیوں نہ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ جب امام ابن باز، امام ابن عثیمین، عبد اللہ بن حمید اور صالح اللحیدان وغیرہم نے ان کے افکار و نظریات کے خلاف فتویٰ دیا اور انہیں گمراہ قرار دیا تو محمد سرور اور ان کے ہمنواؤں نے ان علمائے کرام کو شاہی ملازم ، عبید السلاطین اور وظیفہ خور مولوی جیسے الزاماتِ قبیحہ اور القابِ فاسدہ کے ذریعے ان پر زبان درازی کیا جس کی مثالیں محمد سرور کے مجلہ’’السنہ‘‘ میں بکثرت موجود ہیں۔(یہی وہ چیز ہے جس پر حسن البنا نے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی تھی چنانچہ انہوں نے کہا تھا’’دیگر مختلف دعوتوں کے تئیں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم ان دعوتوں اور تنظیموں کو اپنی دعوت کے میزان پر پرکھتے ہیں پس ان میں سے جو ہماری دعوت کے موافق ہوتی ہے اس کو خوش آمدید کہتے ہیں اور جو مخالف ہوتی ہے ہم اس سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں‘‘
    [مجموع رسائل حسن البنا:۱۷]
    جاری ہے ………

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings