-
تین طلاق اور صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ (پانچویں قسط ) امام طاؤس رحمہ اللہ کے تفرد پر اعتراض :
امام طاؤس پر شذوذ کا اعتراض جو اس معنیٰ میں کیا گیا تھا کہ ابن عباس رحمہ اللہ کے دوسرے شاگردوں نے ان کی مخالفت کی ہے اس کا جواب بالتفصیل گزرچکا ہے ، بعض لوگ امام طاؤس پر تفرد کا اعتراض کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ زیر بحث حدیث کی روایت میں منفرد ہے ۔
جوابا ًعرض ہے کہ:
اولاً:
جب ثقہ اور حافظ راوی کسی حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
’’وكم من ثقة تفرد بما لم يشاركه فيه ثقة آخر وإذا كان الثقة حافظا لم يضره الانفراد ‘‘
’’کتنے ہی ثقہ ایسے ہیں جنہوں نے منفرد حدیث روایت کی ہے اور ان کے ساتھ کسی دوسرے ثقہ نے وہ حدیث روایت نہیں کی ، اور جب منفرد حدیث بیان کرنے والا راوی ثقہ اور حافظ ہو تو اس کا تفرد مضر نہیں ہے ‘‘
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۵؍۱۱]
ظ ثانیاً:
امام طاؤس حفاظ تابعین میں سے ہیں اور حفاظ تابعین کی منفرد حدیث صحیح ہوتی ہے ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے چند حفاظ تابعین کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
’’فهؤلاء الحفاظ الثقات إذا انفرد الرجل منهم من التابعين، فحديثه صحيح ‘‘
’’ان حفاظ ثقہ تابعین میں جب کوئی کسی حدیث کی روایت میں مفرد ہو تو اس کی حدیث صحیح ہے ‘‘
[الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث للذھبی: ص:۷۷]
امام ابن القیم رحمہ اللہ (المتوفی۷۵۱)نے کہا:
’’وكم من حديث تفرد به من هو دون طاؤس بكثير ولم يرده أحد من الأئمة ‘‘
’’بلکہ کتنی ایسی حدیث ہے جسے راویت کرنے میں طاؤس سے کم تر درجہ کا راوی منفرد ہے اور ائمہ میں سے کسی نے بھی اسے رد نہیں کیا ہے ‘‘
[إغاثۃ اللہفان: ۱؍۲۹۵]
یہی وجہ ہے کہ قاضی ابو بکر بن العربی المالکی رحمہ اللہ (المتوفی ۵۴۳)زیر بحث حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وعندي:أن الرواية صحيحة؛ لأن طاؤس قوي الحفظ إمام ‘‘
’’میرے نزدیک روایت صحیح ہے کیونکہ طاؤس قوی حافظے والے اور امام ہیں‘‘
[المسالک فی شرح موطأ مالک لابن العربی:۵؍۵۴۶]
ابن عباس رحمہ اللہ سے طاؤس کی روایت کردہ ایک دوسری حدیث پر بعض نے تفرد کا اعتراض کیا تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا:
’’وفيه نظر لأن طاؤسا ثقة حافظ فقيه فلا يضره تفرده ‘‘
’’یہ بات محل نظر ہے کیونکہ طاؤس ثقہ حافظ اور فقیہ ہیں اس لئے ان کا تفرد مضر نہیں ہے‘‘
[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۹؍۴۰۳]
ثالثاً:
امام طاؤس رحمہ اللہ ابن عباس رحمہ اللہ کے خصوصی شاگرد ہیں ۔چنانچہ:
امام سفیان بن عیینہ(المتوفی۱۰۷)فرماتے ہیں:
’’قلت لعبيد اللّٰه بن أبي يزيد:مع من كنت تدخل على ابن عباس؟ قال:مع عطاء والعامة، وكان طاؤس يدخل مع الخاصة ‘‘
’’میں نے عبیداللہ بن ابی یزید سے کہا کہ:آپ ابن عباس رحمہ اللہ کے پاس کن لوگوں کے ساتھ جاتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا:میں عطاء اورعام لوگوں کے ساتھ جاتا تھا ، اور امام طاؤس خاص لوگوں کے ساتھ جاتے تھے ‘‘
[العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد، ت الأزہری:۲؍۳۵۸،وإسنادہ صحیح]
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
’’ولازم ابن عباس مدة، وهو معدود فى كبراء أصحابه ‘‘
’’امام طاؤس نے ایک مدت تک ابن عباس رحمہ اللہ کی صحبت اختیار کی ہے اور یہ ابن عباس رحمہ اللہ کے بڑے شاگردوں میں سے ہیں ‘‘
[سیر أعلام النبلاء للذہبی:۵؍۳۹]
اور جب کسی راوی سے اس کاخاص شاگرد کسی حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس کی منفرد حدیث صحیح ہوتی ہے ۔
امام ذہبیرحمہ اللہ المتوفی۷۴۸)سفیان ثوریرحمہ اللہ سے ان کے ایک شاگرد کی منفرد روایت کے بارے میں کہتے ہیں:
’’لانه لازمه مدة، فلا ينكر له أن ينفرد عن ذاك البحر ‘‘
’’انہوں نے امام ثوری کی ایک مدت تک صحبت اختیار کی ہے اس لئے سفیان ثوری سے ان کی روایت کو منکر نہیں کہاجاسکتا ‘‘
[میزان الاعتدال للذہبی ت البجاوی:۴؍۷۱]
اور امام ذہبی ہی نے طاؤس کے بارے میں بھی کہا ہے کہ انہوں نے ایک مدت تک ابن عباس رحمہ اللہ کی صحبت اختیار کی ہے جیساکہ اوپر نقل کیا گیا ، لہٰذا ابن عباس رحمہ اللہ سے ان کے خصوصی شاگرد امام طاؤس کی روایت بھی منکر نہیں ہوسکتی بلکہ صحیح ہوگی ۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:[التفرد فی روایۃ الحدیث ومنہج المحدثین فی قبولہ أو ردہ: ص :۵۷۹تا ۵۸۱]
رابعاً:
امام طاؤس ابن عباس رحمہ اللہ سے یہ روایت نقل کرنے میں منفرد بھی نہیں ہیں بلکہ کئی اور رواۃ نے ان کی متابعت بھی کی ہے جیساکہ ماقبل میں تفصیل گزرچکی ہے ۔
امام طاؤس کی ایک دوسری روایت کو لے کر اعتراض :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام طاؤس نے خود اس روایت سے برأت ظاہر کردی ہے چنانچہ زاہد کوثری صاحب لکھتے ہیں:
’’قال الحسين بن على الكرابيسي فى أدب القضاء:أخبرنا على بن عبد اللّٰه (وهو ابن المديني)عن عبد الرزاق عن معمر عن ابن طاؤس عن طاؤس أنه قال:من حدثك عن طاؤس أنه كان يروي طلاق الثلاث واحدة كذبه ‘‘
’’حسین بن علی اکرابیسی نے اپنی کتاب أدب القضاء میں کہا ہے کہ :ہم نے علی بن عبداللہ (وھو ابن المدینی)نے عبدالرزاق سے انہوں نے معمر سے انہوں نے ابن طاؤس سے انہوں نے طاؤس سے نقل کیا کہ طاؤس نے کہا:جو تم سے طاؤس کے حوالے یہ بیان کرہے کہ وہ تین طلاق کو ایک ماننے والی بات روایت کرتے تھے تو اس نے جھوٹ بولا ہے‘‘
[اشفاق فی أحکام الطلاق: ص:۳۳، الفقہ وأصول الفقہ من أعمال الإمام محمد زاہد الکوثری:ص : ۲۴۰]
عرض یہ ہے کہ :
اولاً:
ہمارے علم کی حد تک حسین بن علی الکرابیسی (المتوفی۲۴۸)کی کتاب ادب القضاۃ کے حوالے سے یہ روایت سب سے پہلے صرف زاہد کوثری(المتوفی ۱۳۷۱ھ )نے چودھویں صدی میں نقل کی ہے پھر احناف نے زاہد کوثری ہی کی کتاب سے اسے نقل کرنا شروع کیا ہے ۔
لیکن تیسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک یعنی ہزاروں سال تک کوئی بھی اس کتاب سے یہ روایت نقل نہیں کرتا ،جبکہ طلاق پر ہردور کے علماء نے گفتگو کی ہے ، لہٰذا صرف چودہویں صدی کے متعصب حنفی زاہد کوثری کی نقل پر اعتماد قطعا ًنہیں کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ بھی یہ روایت پیش کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ کرابیسی کی یہ کتاب لاکر اس میں یہ روایت دکھلائیں یا کم از کم ماضی کے کسی معتبر عالم سے بھی یہ ثابت کریں کہ انہوں نے بھی کرابیسی کی کتاب سے یہ روایت نقل کی ہے ۔
ثانیاً:
اگر کرابیسی کی کتاب میں یہ روایت مل بھی جائے تو بھی یہ جھوٹی اور من گھڑت قرار پائے گی کیونکہ اس کتاب کے مصنف کرابیسی پر ائمہ نے شدید جرح کررکھی ہے ۔
امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۳)نے کہا:
’’لعنہ اللّٰہ ‘‘،’’ اللہ کی اس پر لعنت ہو ‘‘[تاریخ بغداد، مطبعۃ السعادۃ:۸؍۶۵واسنادہ صحیح]
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
’’ أخزي اللّٰه الكرابيسي لا يجالس، ولا يكلم، ولا تكتب كتبه ‘‘
’’اللہ کرابیسی کو رسوا کرے ، اس کے ساتھ نہ بیٹھا جائے ، نہ اس سے بات کی جائے نہ اس کی کتابیں لکھی جائیں ‘‘
[مسائل أحمد بن حنبل روایۃ ابن ہانء :ص:۴۱۹]
حتیٰ کہ ایک موقع پر امام احمد رحمہ اللہ نے اسے صراحتاً کافر کہتے ہوئے کہا:
’’بل ہو الکافر ‘‘،’’ بلکہ یہ خود کافر ہے‘‘
[الإبانۃ الکبری لابن بطۃ :۵؍۳۴۴واسنادہ صحیح وانظرطبقات الحنابلۃ:۱؍۶۲]
بلکہ زاہد کو ثری نے خود کرابیسی کے بارے میں کہا :
’’متکلم فیہ ‘‘، ’’اس پر کلام کیا گیا ہے‘‘[تأنیب الخطیب:ص:۳۵۶، دوسرا نسخہ ص:۱۸۴]
ثالثاً:
کرابیسی کی کتاب میں یہ روایت امام عبدالرزاق کے طریق سے منقول ہے اور امام عبد الرزاق کی کتاب مصنف میں یہ روایت صحیح مسلم والی روایت کے مطابق ہی ہے۔ چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمہ اللہ (المتوفی۲۱۱)نے کہا:
عن معمر قال:أخبرني ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس قال:’’كان الطلاق على عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ، وأبي بكر، وسنين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر:إن الناس استعجلوا أمرا كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم ۔فأمضاه عليهم ‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عہنما نے کہا:’’ کہ طلاق رسول اللہ کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر رحمہ اللہ کے زمانہ خلافت میں اور سیدنا عمر رحمہ اللہ کے زمانہ خلافت میں بھی دو برس تک ایسا امر تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی، پھر سیدنا عمر رحمہ اللہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی تو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی حکم دے دیا کہ جو ایک بارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو گئیں) ‘‘
[مصنف عبد الرزاق، ت أیمن الأزھری: ۶؍۳۰۵رقم : ۱۱۳۸۰]
رابعاً:
امام عبدالرزاق کے تمام شاگردوں نے بھی ان کی کتاب مصنف عبدالرزاق کے موافق ہی روایت کیا ہے ۔مثلاً:
1 محمد بن رافع (صحیح مسلم:۳؍۱۰۹۹)
2إسحاق بن راہویہ (صحیح مسلم :۳؍۱۰۹۹)
3 احمد بن حنبل (مسند أحمد ط المیمنیۃ:۱؍۳۱۴،وإسنادہ صحیح )
4 أحمد بن یوسف الأزدی (مستخرج أبی عوانۃ:۳؍۱۵۲وإسنادہ صحیح )
5 إسحاق بن إبراہیم الدبری (مستخرج أبی عوانۃ:۳؍۱۵۲وإسنادہ صحیح )
6 إسحاق بن منصور (السنن الکبری للبیہقی:۷؍۵۵۰وإسنادہ صحیح )
7أحمد بن منصور الرمادی (سنن الدارقطنی:۵؍۸۴وإسنادہ صحیح)
ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ساتوں شاگرد کوئی معمولی رواۃ نہیں ہیں بلکہ ان میں سے اکثر اپنے وقت کے کبار ائمہ ہیں اور ان سب کی روایات کا مضمون بھی بالکل یکساں ہیں ، جبکہ کرابیسی کی روایت میں عین اسی مضمون کا انکار بلکہ اس کی تکذیب ہے اس لئے اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے کہ خود کرابیسی کی روایت ہی جھوٹی اور من گھڑت ہے۔