Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مجبوری میں سب جائز؟

    کسی چیزکے حلال یا حرام ہونے کا دارومدار شرعی نصوص پر ہوتا ہے ، شریعت مطہرہ نے جس چیز کو حلال ٹھہرایا وہی حلال ہے اور جس چیز کو حرام قرار دیا وہ حرام ہے، حلت و حرمت کے سلسلے میں وارد شرعی نصوص سے علمائے کرام نے ایک قاعدہ یہ مستنبط کیا ہے کہ:
    ’’الضَرورَات تُبِيحُ المَحظورات‘‘
    ’’ یعنی اضطراری حالتیں حرام چیزوں کو مباح قراردیتی ہیں‘‘
    بعض اسلامی معاشروں میں اس فقہی قاعدے کی آڑ میں بہت سارے حرام کاموں کو حلال کا درجہ دے دیا جاتا ہے، خاص طور سے رشوت اور سودی لین دین کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے بعض حضرات اس قاعدے کا سہارا لیتے ہیں۔حالانکہ اس فقہی قاعدے کے بھی اصول و ضوابط اور شروط و قیود ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے ، مشہور کویتی مجلہ الفرقان نے اس تعلق سے ایک بار کویت کے علماء سے اس سلسلے میں استفسار کیا تھا اور اس قاعدے کی وضاحت کرنے اور اس کی حدود و قیود پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی تھی۔ ڈاکٹر عجیل نشمی، ڈاکٹر سلیمان معرفی اور شیخ محمد الحمود حفظہم اللہ نے جو کچھ اس سلسلے میں تحریر فرمایا وہ ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۳ء کے الفرقان کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے، انہی جلیل القدر علماء کی تحریروں کی ترجمانی معمولی تصرف،تقدیم وتاخیرکے ساتھ کی جا رہی ہے:
    تعریف:
    شیخ محمد الحمود نے لفظ ضرورۃ کی تعریف کر تے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ اضطرار سے ماخوذ ہے اور اضطرار سخت ضرورت کو کہتے ہیں ، فقہاء کرام نے ضرورت کی تعریف یوں کی ہے کہ انسان اس حد کو پہنچ جائے کہ اگر وہ حرام اور ممنوع چیز کو تناول نہیں کرتا ہے تو جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے یا موت کے قریب پہنچ سکتا ہے، جیسے کسی کی اضطراری حالت اس کو مردار کھانے پر مجبور کر دے، بایں طور کہ اگر اسے نہ کھائے اور بھوکا رہے تو اس کی جان چلی جائے تو ایسے شخص کے لیے حرام شیٔ کھالینا جائز ہے۔
    دکتور سلیمان معرفی نے قاعدہ مذکورہ کی توضیح کر تے ہوئے کہا ہے کہ کبھی کبھی حالات انسان کو حرام چیز کھانے یا استعمال کر نے پر مجبور کردیتے ہیں، مثلاً:شراب پینے یا مردار کھانے کی اس کو ضرورت پیش آجاتی ہے ، اس طور پر کہ اگر وہ ایسا نہیں کر تا ہے تو ہلاک ہو سکتا ہے، اور یہ چیز معلوم ہے کہ ضرورات خمسہ جن کی حفاظت واجب ہے، ان میں حفظ نفس بھی ہے، ایسے موقع پر یہ قاعدہ ’’الضَرورات تُبِیحُ المَحظورات‘‘ کا م آتا ہے۔
    استنباط:
    یہ قاعدہ جن آیات سے مستنبط کیا گیا ہے وہ اس طرح ہیں:
    ۱۔ {إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْْكُمُ الْمَيْْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيْرِ وَمَا اُهِلَّ بِهِ لِغَيْْرِ اللّٰهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْْهِ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ }
    ’’ تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے، پھر جو مجبور ہوجائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کر نے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کر نے والا مہربان ہے‘‘
    [البقرہ:۱۷۳]
    ۲۔ {وَمَا لَكُمْ اَلاَّ تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْْكُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْْهِ}
    ’’ اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتادی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے ، مگر وہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہے‘‘
    [الانعام : ۱۱۹]
    ۳۔ {فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ}
    ’’ پس جو شخص شدت کی بھوک میںبے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کر نے والا اور بہت بڑا مہربان ہے‘‘
    [المائدۃ:۳]
    حدود وضوابط:
    ضرورت ، اضطرار اور مجبوری کسے کہتے ہیں ، کن حالات میں انسان مجبور اور مضطرمانا جائے گا۔ ضرورت دفع کرنے کے لیے کس مقدار میں اسے حرام شے کے تناول یا استعمال کی اجازت ہے ، قاعدہ مذکورہ پر عمل کرتے وقت ان تمام امور کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، اہل علم نے ان شرائط وقیود پر مفصل بحث کی ہے جن کا اعتبار اس سلسلے میں ضروری ہے۔ یہ شرائط وحدود کچھ اس طرح ہیں:
    ۱۔ انسان فی الواقع اضطراری حالت سے دو چار ہو، نہ یہ کہ محض اس کی توقع یا وہم ہو، کسی شخص کو محض یہ اندیشہ ہو کہ اگر وہ بینک سے سودی قرض نہیں لے گا تو مشکل میں پھنس جائے گا یا یہ کہ اس کا کاروبار ٹھپ پڑ جائے گا ، اسی اندیشے کے پیش نظر وہ اپنے آپ کو مجبور اور مضطر مان کر سودی قرض لے لیتا ہے، یہ عمل درست نہیں ہے ، کیونکہ جب تک آدمی حقیقتاً درجہ ٔاضطرار کو نہ پہنچ جائے مضطر نہیں مانا جائے گا، مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ میں شراب پی رہا ہوں کیونکہ اگر میں نے شراب نہ پی تو فلاں شخص کل مجھے قتل کر دے گا، ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
    ۲۔ آدمی کے پاس سوائے حرام کے ارتکاب کے اور کوئی وسیلہ نہ ہو جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کرسکے، دکتور عجیل نشمی کہتے ہیں کہ بسا اوقات آدمی اپنے آپ کو مضطر قرار دینے اور حرام کو حلال ماننے میں عجلت سے کام لیتا ہے، اس کے سامنے حلال کے کتنے دروازے ہوتے ہیں جن کو اس نے کھٹکھٹایا نہیں ، وہ ایسے اشخاص سے قرض حسن لے سکتا ہے جن سے اس نے ابھی تک اس کا مطالبہ نہیں کیا نہ ان کا دروازہ کھٹکھٹایا ، یا یہ کہ اس کے پاس ایسی اشیاء ہیں جن کو استعمال میں لا کر وہ قرض سے بچ سکتا ہے، مثلاً کسی کو گاڑی کی ضرورت ہے ، حالانکہ اس کے پاس دو ، تین یا اس سے بھی زائد گاڑیاں موجود ہیں ، بسا اوقات اس کے پاس ایسی عمدہ گاڑی ہوتی ہے جس کی قیمت تین گاڑیوں کی قیمت کے برابر ہوتی ہے، ایسے شخص کو چاہیے کہ اپنی ضرورت پوری کر نے کے لیے اپنی مملوکہ چیزوں میں سے کچھ کو فروخت کردے، بہت سارے سودی لین دین کرنے والے جو اضطرار کا سہارا لیتے ہیں وہ محض تجارت اور کاروبار کے واسطے سود کا لین دین کر تے ہیں، حالانکہ اضطرار کے مقابلے میں تجارت تو خوشحالی لانے والا ایک عمل ہے، ضرورت سے مراد تو خوردونوش کی وہ ضروری اشیاء ہیں جن پر زندگی کا دارومدار ہوتا ہے ، یہاں تک کہ کسی شخص کے گزر بسر کا ذریعہ اگر صرف اس کی تنخواہ ہو اور وہ ناکافی ہو تو اس کو بھی بنیاد بنا کر وہ سودی قرض نہیں لے سکتا ، اس کا بھی کوئی جواز نہیں ہے کہ آدمی سودی بینک میں ملازمت کرے اور یہ دلیل دے کہ اس کے علاوہ اس کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، حالانکہ اس نے کوئی دوسرا کام تلاش ہی نہیں کیا، بہرحال اضطرار کی حد یہی ہے کہ محض زندگی باقی رکھنے والی چیز کے حصول کی نیت سے وہ اس قسم کی ملازمت کرے اور دوسری ملازمت کی تلاش جاری رکھے، اگر بغیر اس ملازمت کے اس کا کام چل سکتا ہو تو پھر اس میں لگے رہنا اس کے لیے جائز نہ ہو گا ،اگر کوئی شخص غیر اسلامی ملک میں رہتا ہے اور مجبوری اور ضرورت کا حوالہ دے کر ایسا گوشت کھاتا ہے جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ غیر شرعی طریقہ سے ذبح کیے ہوئے جانور کا یہ گوشت ہے ، حالانکہ اس کے سامنے متبادل غذائیں مثلاً مچھلی وغیرہ موجود ہیں، ایسے شخص کا بھی وہی معاملہ ہے جس کا ذکر ہوا، دوسری بات یہ ہے کہ گوشت خوری ترک کر دینے سے جان جانے کا اندیشہ بھی نہیں ہے۔
    ۳۔ اضطراری صورت میں اسی مقدار میں حرام شیٔ کا استعمال یا اس سے استفادہ کیا جائے جس سے ضرورت دفع ہو سکے، کیونکہ مذکورۃ الصدر قاعدے کے ساتھ ہی علماء نے یہ قاعدہ بھی ذکر کیا ہے کہ’’ الضرورة تقدر بقدرها ‘‘ اس قاعدے کا استنباط آیت میں وارد الفاظ ’’غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ‘‘سے کیاگیا ہے۔
    اس قاعدے کی وضاحت کرتے ہوئے اہل علم نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کا زاد راہ ختم ہو گیا ہو اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں غذا کے حصول کا کوئی امکان نہیں اور دھیرے دھیرے اس پر بھوک کا اس قدر غلبہ ہوا کہ اس کی ہلاکت یقینی معلوم ہونے لگی، دریں اثناء ایک مردہ بکری اس کو مل گئی، اب اس کا حال یہ ہے کہ اگر اس مردہ بکری کا گوشت نہیں کھاتا ہے تو پھر جان بچانے کی کوئی دوسری سبیل اس کے سامنے نہیں ہے، ایسا شخص مضطر کے حکم میں ہوا اور’’ الضرورات تُبيح المحظورات‘‘ والے قاعدے کی رو سے اسے اپنی زندگی کی بقا کی خاطر اس مردار کو کھانا جائز ہوا، البتہ اس سے وہ اتنی ہی مقدار میں کھا سکتا ہے جس سے اس کی ہلاکت کا خطرہ ٹل جائے، نہ یہ کہ ذبح کی گئی بکرے کے گوشت کی طرح پیٹ بھر کر کھائے، قرآنی آیت سے مستنبط دوسرے قاعدہ’’ الضرورةُ تُقَدَّرُ بِقَدرها ‘‘ کا یہی تقاضا ہے۔
    دکتور عجیل نشمی نے اس قاعدے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض لوگ اضطرار کے نام پر حرام چیز کو حلال تصور کرتے ہوئے اس سے خوب خوب استفادہ کر تے ہیں اور اضطرار کی حدود وقیود کو بھول جاتے ہیں ، مثلاً کبھی کبھی انسان اپنے اور اپنے بال بچوں کے کھانے پینے کے تعلق سے بڑی مجبوری اور اضطرار کی کیفیت سے دو چار ہوجاتا ہے اور اس کے سامنے سودی قرض کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کیونکہ اس نے محنت مزدوری کر نے یا قرض حسن حاصل کر نے کی بھر پور کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا، اب اس نے سودی قرض لیا اور ضرورت سے زیادہ لیا پھر بار بار لینے لگا، گویا اضطراری کیفیت کی کوئی حد ہی نہیں ہے، حالانکہ خوردونوش کے سلسلے میں سد رمق کی حد متعین ہے، اور جب سبب اضطرار ختم ہوجائے تو ذخیرہ اندوزی اور بار بار اس فعل کا ارتکاب حرام ہے کبھی کبھی کوئی چیز واقعی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن شرعی ضرورت یعنی حد اضطرار میں وہ داخل نہیں ہوپاتی، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کرائے کا مکان لے کر اس کا کرایہ ادا کر نے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ سودی قرض لے کر مکان خریدے، رہنے کیلئے مکان اگرچہ ضروری چیز ہے لیکن یہ اضطرار کے درجے میں نہیں آتا، کیونکہ اضطرار کا تحقق وہاں ہوتا ہے جہاں زندگی خطرے میں پڑتی ہو۔
    دکتور نشمی مزید فرماتے ہیں کہ تجربات بتلاتے ہیں کہ اکثر لوگ جو حرام چیز کو مباح ٹھہرانے کے لیے اضطرار اور مجبوری کا حوالہ دیتے ہیں ان کا معاملہ ضرورت کے مرحلے سے متجاوز نہیں ہوتا، لوگ حاجت (یعنی ضرورت) اور اضطرار میں فرق نہیں کرتے، اضطرار اس کیفیت کا نام ہے جس کا ہم نے تذکرہ کیا کہ اس کا تحقق ان چیزوں میں ہوتا ہے جن کو استعمال میں نہ لانا ہلاکت کا سبب بنے یا ہلاکت سے قریب کردے، اور حاجت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے استعمال نہ کر نے سے آدمی پریشانی اور مشقت میں پڑجائے، نہ یہ کہ ہلاکت کی حد کو پہنچ جائے ، مثلا ً کوئی شخص اتنا ہی بھوکا ہے کہ اگر وہ کچھ نہ بھی کھائے تو اس کی جان جانے کا خطرہ نہیں ہے ، بلکہ محض پریشان ہونے اور مشقت میں واقع ہو نے کا اندیشہ ہے ، ایسے شخص کے لیے حرام شیٔ تناول کر نے کی اجازت نہیں جب تک حد اضطرار کو نہ پہنچ جائے، اور حد اضطرار یہ ہے کہ ہلاکت کا خوف ہو یا اس کا گمان غالب ہو ۔
    اضطرار کے سلسلے میں ان حدود و قیود کا لحاظ نہ کر نے والوں کو آپ دیکھیں گے کہ دوسرے فارغ البال حضرات کی طرح کھانے پینے کے معاملے میں خوب توسع سے کام لیتے ہیں یا اپنے مکان کی توسیع، مرمت یا آرائش وزیبائش میں دوسروں ہی کی طرح بلا حدود وقیود (اضطرار کا حوالہ دیتے ہوئے حرام مال ) خرچ کرتے ہیں۔
    ۴۔ دو حرام چیزوں میں سے جس کی حرمت کم درجے کی ہوگی حالت اضطرار میں اسی سے ضرورت پوری کی جائے گی اور سخت حرمت والی چیز سے اجتناب کیا جائے گا۔
    اگر کسی شخص کو زنا پر مجبور کیا جائے یا کسی مسلمان کے اعضائے جسمانی کو کاٹنے پر مجبور کیا جائے بصورت دیگر ترک نماز یا نبی کو سب وشتم کرنے یا کلمہ کفر کی ادائیگی کے لیے کہا جائے تو ان بعد والی معاصی کے ارتکاب میں پہلے والی سے نسبتاً کم شدت ہے کیونکہ ایسے مواقع پر اس کی رخصت ہے۔
    ۵۔ مضطر شخص ایسے عمل کا ارتکاب نہ کرے جس کے سلسلے میں کسی رخصت کا قطعاً احتمال نہیں ہے، مثلاً اگر کسی شخص کو کسی مسلمان آدمی کے قتل پر مجبور کیا جائے، تو اس کو قتل نہ کرے ، اگر اس کی وجہ سے اسے قتل کر دیا جانے والا ہو تو اس کو برداشت کر ے مگر اپنی جان بچانے کے لیے کسی مسلمان کی جان نہ لے۔
    یہی وہ اصول وضوابط ہیں جن کی رعایت حالت اضطرار میں کسی حرام شیٔ کے تناول یا ارتکاب کے وقت ضروری ہے ، اب ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عامۃ الناس ان حدود وقیود کا کس درجہ پاس ولحاظ کرتے ہوں گے ، انہیں تو ان تفصیلات کا علم ہی ہو تو غنیمت ہے تطبیق وتنفیذ تو بہت دور کی بات ہے۔
    دکتور عجیل نشمی فرماتے ہیں کہ بعض لوگ حرام چیزوں کے استعمال میں توسع کر کے اپنے اوپر بڑا ظلم کرتے ہیں ، ان کے نزدیک حرام کا استعمال بسااوقات مکروہ بلکہ مباح سے بھی آسان ہو تا ہے، اور وہ یہ دلیل پیش کر تے ہیں کہ مجبوری اور اضطرار کی وجہ سے وہ ایسا کر رہے ہیں ، جب آپ ان سے مجبوری کے بارے میں سوال کریں گے تو ان کے جوابات عجیب طرح کے ہوں گے، آج کل سب سے زیادہ سودی معاملات کا ارتکاب لوگ مجبوری کے نام پر کرتے ہیں ، اگر اس تعلق سے ان کی مجبوری کے بارے میں آپ استفسار کریں گے تو وہ کہیں گے کہ انہوں نے غیر سودی قرض حاصل کرنے کی کوشش کی مگر نہیں پاسکے، جبکہ انہیں گھر کی تعمیر مکمل کرانی ضروری تھی، یا اپنے بچوں کے تعلیمی مصارف کے لیے یا قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے کی ضرورت تھی، کوئی یہ کہے گا کہ اسے گاڑی کی یا کسی ضروری الکٹرانک سامان جیسے گرمی میں ایرکنڈیشن کی یا ان جیسے دوسرے سامانوں کی ضرورت تھی، اخلاق اور عفت وعصمت سے متعلق معاملہ ہو تو بدکاری میں مبتلا شخص یہ علت پیش کر تا ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی یا شادی کے اخراجات برداشت کر نے سے قاصر ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کر سکتا اس لیے وہ زنا کرنے پر مجبور ہے، کوئی یوں حرام کا ارتکاب کر تا ہے کہ رشوت دیتا ہے اور وجہ یہ بیان کر تا ہے کہ وہ اس کے لیے مجبور ہے کیونکہ اگر وہ رشوت کا سہارا نہیں لیتا تو مارکیٹ میں نہیں رہ پائے گا نہ اس کو کوئی ٹھیکہ ملے گا، یا یہ کہ سرکاری آفسوں میں اس کا کام بغیر رشوت دیے نہیں ہو پائے گا، یہ سب ایسی مثالیں اور واقعات ہیں جن کے بارے میں ہم سے اکثر سوال کیا جا تا ہے، اور ان میں مبتلا شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ جائز کام کر رہا ہے کیونکہ مجبوری میں ناجائز جائز ہو جاتا ہے،حالانکہ یہ محض وہم ہے اور ایسا تصور رکھنے والا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، بلکہ گناہ کبیرہ میں ملوث ہوتا ہے چاہے وہ عمداً ایسا کرے یا ناواقفیت سے یا جان لینے کے بعد انجان بن کر کرے۔
    موصوف آگے کہتے ہیں کہ میں اپنے مسلمان بھائی بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ حلال لقمہ کھانے کی کوشش کریں۔کوئی فرد بشر اپنا رزق حاصل کیے بغیر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوگا۔ مسلمان مرد وزن کو اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کی قدر کریں اور خوشحالی اور عیش پرستی کی خاطر حرام کی طرف نگاہیں نہ جمائے رہیں، اور جو تنگدستی سے دوچار ہو وہ اللہ سے ڈرتا رہی:
    {وَمَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجاً وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْْثُ لَا يَحْتَسِبُ}
    ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو‘‘
    [الطلاق:۲،۳]
    اور سوائے حلال طریقے کے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کر نے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ حرام چیز کے لیے حرام ذریعہ اختیار کرنا جائز نہیں جس طرح حرام چیز کے لیے حلال ذریعہ اختیار کر نا ناجائز ہے ، مسلمان مردوزن کو اپنی ڈکشنری سے مجبوری اور اضطرار کا لفظ مٹا دینا چاہئے، کیونکہ مجبوری کا دعویٰ کرنے والے اکثر لوگ خود اپنے آپ کو تنگی میں مبتلا کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ مجبور ہیں اور ان کے لیے شریعت کی رخصتوں کا دروازہ کھل گیا ہے، اور یہ کہ دین بہت آسان ہے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے، یہ سب درست ہے مگر اس کا یہ موقع ومحل نہیں ، بعض لوگ اپنے آپ کو معصیت میں ملوث کر لیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ وہ مجبور ہیں اور رخصت کے متلاشی ہیں، حالانکہ فقہائے کرام نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ رخصتیں معصیت پر نہیں حاصل ہوتیں، چنانچہ اگر کوئی اللہ کی کسی معصیت کے کام کی نیت سے سفر پر نکلے تو اس کو سفر کی رخصتیں مثلاً روزہ چھوڑنا، اور نماز جمع کر نا یہ سب اس کے لیے جائز نہیں ۔
    معلوم ہونا چاہئے کہ سود ہی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں قرآن کی سب سے سخت آیت نازل ہوئی ہے اور وہ یہ ہے:
    {يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ }
    ’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو، اور اگر ایسا نہیں کر تے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاو‘‘
    [البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹]
    اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ہم ہلاک ہو چکے ہو تے، کیونکہ آج ہماری قوم سود کی دولت سے آسمان سے باتیں کرتی ہوئی بلند وبالا عمارتیں تعمیر کر کے فخر کرتی ہے اور کھلم کھلا اللہ اور رسو ل سے اعلان جنگ کر رہی ہے، جب کہ یہ ایسی جنگ ہے جس میں طرفین کا کوئی موازنہ نہیں، لیکن بس اللہ کی رحمت ہے، ورنہ وہ جب کسی ظالم بستی کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اس کی گرفت سخت اور غیر معمولی ہوتی ہے، سر پرستوں اور اعلیٰ حکام کو بھی میں دعوت دیتا ہوں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈریں، کیونکہ کل اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرے گا کہ جو امانت ان کے حوالے کی گئی تھی اس کی حفاظت کیا یا اسے برباد کر کے رکھ دیا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ماخوذ از کتاب:دروس وخطبات، مؤلفہ شیخ اسعد اعظمی

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings